تم کو بھی وہی کام کرنے ہوں گے جو حسین ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیے
اگر تم بھی چاہتے ہو کہ تمہارا نام بھی روشنی کا ایسا مینار بن جائے جو……دوسروں کو ساحلِ مراد کا نشان دکھائے تو
اداریہ الفضل از حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ
حضرت مصلح موعودؓ تحریر فرماتے ہیں:
’’وہ نام جن کے زبان پر آنے کے ساتھ رفیع و بلند کیفیتیں اور تعظیم و تکریم کے عظیم الشان جذبات دل میں پیدا ہو جاتے ہیں۔
ان ناموں میں سے ایک وہ نام بھی ہے جس کو آج ہم نے زیب عنوان بنایا ہے۔ کونسا مسلمان ہے جس کے دل و دماغ پر حسینؓ کے نام کو سنتے ہی ایک غیر معمولی کیفیت طاری نہیں ہو جاتی۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا اس نام کے حروف اور ان کی ترکیب میں کوئی ایسی بات ہے جو یہ اثر ہمارے دلوں پر کرتی ہے ان میں کوئی شک نہیں کہ بعض وقت محض حروف کا حسن ہی کسی لفظ کی کشش کا باعث ہوتا ہے اور حسین کے لفظ میں بھی وہ حُسن ضرور موجود ہے لیکن وہ خاص کیفیت جو اس نام کے لینے اور سننے سے ہمارے دل و دماغ پر چھا جاتی ہے وہ یقینا ًصرف اس حسن آواز اور لوچ کی پیداوار نہیں ہے جو ان حروف یا ان کی ترکیب میں ہے جن سے حسین کا لفظ بنا ہے۔
تھوڑے سے غور سے ہم کو معلوم ہوگا کہ اس لفظ یا نام کے ساتھ کچھ ایسے عظیم الشان واقعات وابستہ ہوگئے ہیں کہ گو ان واقعات کا پورا پورا نقشہ ہمارے سامنے نہ بھی آئے لیکن جب ہم اس نام کو زبان سے دُہراتے ہیں تو جو کیفیت ہمارے دل و دماغ پر چھا جاتی ہے اس کی ساخت میں ان واقعات کا سایہ ضرور گزر رہا ہوتا ہے جو اس انسان کو پیش آئے تھے جس نے میدانِ کربلا میں صداقت کا جھنڈا بلند کرنے کے لئے نہ صرف اپنی جان کو قربان کر دیا تھا بلکہ اپنے خاندان کے قریباً تمام نرینہ افراد کو اس غرض کے لئے اپنی آنکھوں سے خاک و خون میں تڑپتے ہوئے دیکھا تھا۔ یہ ہے وہ مدھم سا پس منظر جو اس لفظ یا نام کی پُر اثر طاقت کا حقیقی منبع ہے اور اس کو دُہراتے ہی ہماری آنکھوں کے سامنے اُبھرآتا ہے۔ عربوں میں ویسے تو یہ نام کوئی خاص نام نہ تھا بلکہ عام تھا کئی اشخاص کے نام حسین تھے۔ اس میں کوئی خاص کیفیت یا کشش نہ تھی اب یہ نام صرف ایک عظیم الشان ہستی کا نام ہونے کی وجہ سے کچھ ایسی کیفیتوں کا حامل ہو گیا ہے کہ جب کوئی مسلمان یہ نام سنتا ہے یا اپنی زبان سے دُہراتا ہے تو اس کے رگ و پے میں ایک ہیجان سا پیدا ہو جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف نام میں کچھ نہیں ہوتا۔ یہی نام اب اس قدر عام ہو گیا ہے کہ شاید ہی کوئی گاؤںہوگا جہاں تین چار نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ اشخاص ایسے نہ ہوں جن کا نام حسین ہو لیکن جب ان میں سے ہم کسی کو اس نام سے پکارتے ہیں تو وہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی جو اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب اِس نام سے ہماری مراد وہ خاص ہستی ہوتی ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں میں اس کو یہ قبولیت حاصل ہوئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نام اپنی ذات میں خواہ کتنا بھی اچھا ہو جب تک اس نام کے ساتھ اس شخص کا کام بھی ہمارے دل کی آنکھ میں متشکل نہ ہو محض نام کوئی خاص کیفیت پیدا نہیں کر سکتا۔
ایک پُر اثر اور دلکش شعر میں جو الفاظ ہوتے ہیں وہی معمولی الفاظ ہوتے ہیں جو ہم اپنے روزمرہ میں استعمال کرتے ہیں لیکن آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ شاعر کو بعض وقت اس طرح بھی داد دی جاتی ہے کہ ’’صاحب! آپ نے فلاں لفظ میں جان ڈال دی ہے‘‘ یہاں جان ڈالنے کے معنی صرف یہ ہوتے ہیں کہ شاعر نے اس خاص لفظ کو لفظوں کے ایسے ماحول میں رکھ دیا ہے کہ گویا اس میں جان پڑ گئی ہے۔ لفظ کی ذاتی خوبی کی وجہ سے نہیں بلکہ ماحول کی وجہ سے کسی لفظ میں جان پڑتی ہے۔ اسی طرح کسی نام میں اس شخص کے کام کی وجہ سے جان پڑتی ہے جس کا وہ نام ہوتا ہے۔
اب اگر ہم ہزار بار نہیں لاکھ بار حسین حسین اپنی زبان سے رَٹیں اور وہ واقعات ہمارے ذہن میں نہ ہوں جو میدانِ کربلا میں حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پیش آئے تھے، وہ استقامت، وہ جانبازی، وہ قربانی کی روح جو اُنہوں نے اُس وقت دکھائی اگر ہم کو یاد نہ آئے تو محض حسین حسین پکارنے سے نہ تو اس عظیم الشان نام کی وہ عزت و تکریم ہمارے دل میں پیدا ہو سکتی ہے جس کا وہ مستحق ہے اور نہ ہماری اپنی ذات کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے بلکہ ان واقعات کو دُہرانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ اگر ہم ان واقعات سے سبق حاصل نہ کریں محض ان واقعات کو دُہرا دینا کوئی معنی نہیں رکھتا جب تک ان کو اس طرح پیش نہ کیا جائے کہ سن کر ہم میں بھی ویسے ہی کام کرنے کے جذبات پیدا نہ ہوں، ویسا ہی جوش نہ اُٹھے۔
وہ مثالی قربانی جو خاتونِ جنت حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اس عظیم الشان بیٹے نے میدانِ کربلا میں پیش کی ہم اس کی تفصیلات میں نہیں جانا چاہتے۔ ایک معمولی لکھا پڑھا انسان بلکہ اَن پڑھ مسلمان بھی کچھ نہ کچھ ان کا علم ضرور رکھتا ہے۔ اِس وقت ہم جو کہنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ آؤ اس نام کو ہم بے فائدہ رَٹ رَٹ کر بدنام نہ کریں بلکہ ان کاموں کی تقلید کی کوشش کریں جو اس ہستی نے میدانِ کربلا میں دکھا کر ایک عالم سے خراجِ تحسین حاصل کیا جن کی وجہ سے یہ معمولی سا نام زندہ ہو گیا۔ اور ہمیشہ کے لئے زندہ ہو گیا اور ان باتوں پر غور کریں جن باتوں سے متاثر ہو کر محمد علی جوہر مرحوم نے یہ شعر کہا تھا۔ ؎
قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
اِس وقت ہر مسلمان میدانِ کربلا میں ہے اگر ہم کو اس میدان میں مرنا ہی ہے تو آؤ ہم بھی حسینؓ کی موت مریں تا کہ اس کی طرح ہمارا نام بھی زندۂ جاوید ہو۔ ورنہ جو پیدا ہوتا ہے ایک دن مرتا ہی ہے۔ کتنے تھے جن کے نام حسین تھے جو مر گئے مگر ان کو کوئی یاد بھی نہیں کرتا مگر ایک حسین ؓہے صرف ایک حسینؓ جس کو دنیا بھلانا بھی چاہے تو نہیں بھلا سکتی جس کو دل سے مٹانا بھی چاہے تو نہیں مٹا سکتی کیونکہ اس حسین نے اپنے نام کو اپنے کام سے صفحۂ ہستی پر پتھر کی لکیر بنا دیا ہے کیونکہ اس نام کی پشت و پناہ وہ عظیم الشان قربانی ہے جو مُردہ ناموں کے جسموں میں جان ڈال دیا کرتی ہے کیونکہ اس نے اپنے نام کو ایسے ماحول میں رکھ دیا ہے جس سے وہ روشنی کا مینار بن گیا ہے اگر تم بھی چاہتے ہو کہ تمہارا نام بھی روشنی کا ایسا مینار بن جائے جو
’’شب تاریک و بیم موج و دریائے چنیں حایل‘‘
کے عالَم میں دوسروں کو ساحلِ مراد کا نشان دکھائے تو تم کو بھی وہی کام کرنے ہوں گے جو حسین ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کئے۔‘‘
(الفضل لاہور 23؍ نومبر 1947ء)
( الفضل کے اداریہ جات،انوار العلوم جلد 19 صفحہ 300 تا 303)
٭…٭…٭