الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
………………………………………………
گھانا کی دلچسپ باتیں
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 15؍جون2012ءمیںمکرم فرید احمد نویدصاحب کا گھانا کے بارے میں ایک معلوماتی مضمون شامل اشاعت ہے۔
گھانا کے دارالحکومت اکرا (Accra)سےمنکسم (Mankessim) شہر کو آنے والی سڑک کیپ کوسٹ چلی جاتی ہے جہاں وہ تاریخی قلعہ واقع ہے جو ابتدائی طور پرسویڈش تاجروں نے 1653ء میںلکڑی اور سونے کی تجارت کی غرض سے بنایا تھا لیکن بعدازاں اسے غلاموں کی تجارت کے لیے بھی استعمال کیا جاتا رہا۔یہ وہ دَورتھا جب غلاموں کی تجارت عروج پر تھی۔ قریبی علاقوں سے ہزارہا لوگوں کوغلام بناکر اس قلعہ میں لایاجاتا جہاں سے انہیں دنیا کے مختلف ملکوں میں بھجوا دیا جاتاتھا۔قلعہ کے گائیڈ (Guide)پوری مہارت سے اس دَور کی داستانیں سناتے ہیں تو سامعین ان واقعات کے تصور سے ہی آبدیدہ ہو جاتے ہیں۔یوں تو قلعے کے ایک دروازے پر (جو سمندر کی طرف کھلتا ہے)لکھے ہوئے الفاظ ہی اس کرب اور دکھ کے ادراک کے لیے کافی ہیں جہاں جلی حروف میں
’’The Gate of No Return‘‘
لکھا ہوا ہے۔ نہ جانے کتنے لوگوں نے اس دروازے کو آخری مرتبہ پار کر کے ایک ایسی دنیا میں قدم رکھا ہوگا جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ ان کے گھر تک نہیں آتا ہوگا۔ آزادی واقعی بہت بڑی نعمت ہے۔
[اسی حوالے سے ایک تفصیلی مضمون قبل ازیں ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘14؍دسمبر 2018ء کے کالم ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میںشامل اشاعت کیا جاچکا ہے۔]
٭… بلا وجہ کی تیزی یہاں کے مزاج کا حصہ نہیں ہے اور یہی چیز ڈرائیونگ میں بھی نظر آتی ہے۔ تاہم غلطی سے حادثات پھر بھی ہو ہی جاتے ہیں۔ لیکن ان کو عبرت کا ذریعہ بنانے کے لیے ہر حادثہ کے مقام پر ایک بورڈ آویزاں کر دیا جاتا ہے جس میں احتیاط کی تلقین کے ساتھ یہ بھی لکھا جاتا ہے کہ اس مقام پر حادثے میں اتنے افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
٭…انٹرسٹی کوچز اور بسیں بہت اعلیٰ معیار کی ہیں اور ان میں سے بعض افریقہ کے دُور دُور کے ممالک تک بھی جاتی ہیں۔مغربی افریقہ کے مقامی باشندوں کو ایک دوسرے کے ملک میں جانے کے لیے ویزا نہیں لینا پڑتا بلکہ وہ محض اپنا شناختی کارڈ دکھا کر ہی دوسرے ملک میں آجاسکتے ہیں۔
گھانا کے پڑوسی ممالک میں مشرق کی طرف Togoہے۔مغرب میں آئیوری کوسٹ، شمال میں برکینا فاسو اور جنوب میں سمندر Gulf of Guinea واقع ہے۔
٭…منکسم کا قصبہ جہاں جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل تعمیر کیا گیا ہے، ‘اکرا’سے ‘کیپ کوسٹ’جانے والی مرکزی ‘کوسٹل ہائی وے’پر واقع ہے جہاں بنیادی ضرورت کی تمام اشیاء دستیاب ہیں۔ٹیلی فون، بنک، مارکیٹ وغیرہ موجود ہیں۔ انٹرنیٹ کی نہایت عمدہ سروس بھی موجود ہے۔جامعہ کی عمارت مرکزی شاہراہ سے ہٹ کر ایک اونچے مقام پر بنائی گئی ہے جو شہر سے لگ بھگ دوکلومیٹر دُور ہے تاہم بلند مقام پر ہونے کی وجہ سے شہریہاں سے صاف نظرآتا ہے۔جامعہ کا یہ تمام علاقہ اونچے نیچے حصوں پر مشتمل ہے۔ جامعہ کی مرکزی عمارت سے آگے ایک ذرا سی ڈھلان کے بعد دوسری اونچائی پر مسجد بنائی گئی ہے جس میں پانچ سو افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔(گھانا میں 230سے زائد احمدیہ مساجد ہیں۔)مسجد کے سامنے سے ہوتے ہوئے یہ راستہ اونچی نیچی زمین سے گزرتا ہوا،ایک جھیل پر جاکر ختم ہوتا ہے۔ یہ جھیل بھی جامعہ کی زمین کا ہی حصہ ہے۔
٭…گھانا میںلوگ سگریٹ نہیں پیتے، یا شاید بہت ہی کم۔میں مستقل تلاش میں رہا کہ شاید کہیں کوئی شخص سگریٹ سلگائے ہوئے سڑک پر گزرتا نظر آجائے لیکن اب تک ایسا اتفاق نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ سگریٹ کی فروخت کے لیے دکانیں بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بعض بڑی مارکیٹس میں سگریٹ پڑے ہوئے نظر آجاتے ہیں۔
٭…پھل کثرت کے ساتھ دستیاب ہیں۔ یہاں کا انناس دنیا کا اعلیٰ ترین کہلا سکتا ہے۔ سڑک کے کناروں سے لے کر بازاروں تک ناریل کے ڈھیر موجود نظر آتے ہیں۔ کیلا بھی یہاں بہت عمدہ میٹھا اور لذیذ ہوتا ہے۔جبکہ کیلے کی ہی ایک قسم Plantin سبزی کے طور پر پکا ئی جاتی ہے۔آم، پپیتہ، خربوزہ اور تربوز بھی کثرت سے ملتا ہے۔ ایشین سبزیاں چونکہ مقامی باشندوں کی خوراک کا حصہ نہیں ہیں اس لیے عام نہیں ملتیں لیکن ایشین دکانوں سے مل جاتی ہیں۔ مقامی افراد عموماً یام اور کساوا استعمال کرتے ہیں جوآلو سے ملتی جلتی سبزیاں ہیں۔ کساوا اور کچے کیلے یعنی پلانٹن کو ابال کرخوب اچھی طرح پیس کر فوفو تیار کیا جاتا ہے جسے مچھلی،چکن یا گوشت کے سوپ کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔فوفو کوکھانا اس قدر آسان نہیں جتناسننے میں لگتا ہے کیونکہ بہت زیادہ چپکنے والا ہونے کی بِنا پر اسے چبائے بغیر کھانا پڑتا ہے۔ مکئی کو ابال کر اورپھر پیس کر بانکو تیار کیا جاتا ہے۔ دیگر سبزیوں میں گوبھی، کھیرا، ٹماٹر، شملہ مرچ اور بینگن آسانی سے مل جاتے ہیں۔ بینگن کی ایک قسم سفید رنگ کی بھی ہوتی ہے۔
٭…صرف بینگن ہی نہیں بلکہ یہاں کے کوّے نے بھی سفیدی میں سے حصہ لیا ہے۔اس کا سینہ سفید رنگ کا ہوتا ہے، سفید دھاری گردن پر بھی ہوتی ہے۔یوں یہ کوّا قدرت کی صناعی کا ایک خوبصورت نمونہ نظر آتا ہے، اور شور بھی کم مچاتا ہے۔ماحول میں موجود دیگر جانوروں میں بکریاں کثرت سے نظر آتی ہیں لیکن یہ قد میں بہت ہی زیادہ چھوٹی ہوتی ہیں۔ عیدالاضحیہ کے ایام میںقربانی کے لیے برکینا فاسو سے بکرے لائے جاتے ہیں جو قدمیں بہتر ہوتے ہیں۔گلیوں میں کتے بھی نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ بلی ہوتی تو ہے لیکن وہ بھی چھوٹی سی۔مرغیاں البتہ ایشیا ئی مرغیوں کی ہی طرح کی ہیں۔
٭…گھانا خط استوا ( Equator ) کے بہت نزدیک واقع ہے اس لیے دوران سال سورج کم و بیش بالکل سروں کے اوپر سے گزرتا ہے۔ غالباََ اسی وجہ سے گو درجہ حرارت زیادہ نہ بھی ہو تب بھی یہاں دھوپ کی شدت کافی زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ یہاں کا وقت بھی گرینچ مین ٹائم کے مطابق ہے کیونکہ Prime Meridian لائن بھی گھانا کے وسط سے ہو کر گزرتی ہے۔ خط استوا اور یہ لائن گھانا کے قریب سمندر میں ایک مقام پر باہم ایک دوسرے کو کراس بھی کرتی ہیں اس لیے بعض لوگوں کے نزدیک گھانا زمین کے مرکز سے سب سے زیادہ قریب واقع ہے کیونکہ ان دونوں فرضی لائنوں کے ملاپ کے نتیجے میں زمین کا جو مرکز بحر اوقیانوس میں بنتا ہے وہ گھانا سے صرف 382 میل دور ہے۔
٭…گھانا کا کُل رقبہ قریباً ایک لاکھ مربع میل جبکہ آبادی اڑھائی کروڑ ہے۔دنیا کی سب سے بڑی مصنوعی جھیل Lake Voltaیہاں واقع ہے۔ملک کے جھنڈے میں سرخ، گولڈن اور سبز رنگ کی پٹیاں ہیں جن کے درمیان میں سیاہ رنگ کا ستارہ ہے۔سرخ رنگ انقلاب کی خاطر بہنے والے خون کو ظاہر کرتا ہے۔گولڈن رنگ سونے کے ذخائر اور دیگر معدنی دولت کی علامت ہے ، سبز رنگ زرخیز زمین اور زرعی خوشحالی کو بیان کرتا ہے جبکہ سیاہ ستارہ افریقہ کی آزادی کی یادگار کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ ملک کے دس ریجن ہیں جنہیں 170؍اضلاع میں بانٹا گیا ہے۔ ملک میں تیل کے وسیع ذخائر بھی ہیں۔فٹ بال پسندیدہ ترین کھیل ہے جس کی قومی ٹیم کا نام بلیک سٹار ہے۔
٭… مذہبی آزادی کے اعتبار سے یہ ملک دنیا کے بہت سے ملکوں کے لیے ایک مثال ہے۔ایک ہی گھر میں اگر ایک بھائی اسلام سے متأثر ہے تو دوسرا کسی اَور مذہب کا ماننے والا ہے لیکن اس کے باوجود یہ چیزیں ان کے باہمی تعلقات میں کشیدگی کا باعث نہیں بنتیں۔گویا’’مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا‘‘کی عملی تصویر یہاں نظر آتی ہے۔
٭…گھانا میں وفات کے موقع پر بھی تقریبات منائی جاتی ہیں۔ موت انسان کے یادگار لمحات کے طور پر خیال کی جاتی ہے۔ گھر میں وفات ہوجائے تو بجائے رونے دھونے کے اس موقع کو دھوم دھام سے مختلف رسموں کے ساتھ گزارا جاتا ہے۔ مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ جس قدر رسوم بعض معاشروں میں شادی بیاہ کے موقع پر کی جاتی ہیں کچھ اس سے ملتی جلتی رسوم ہی یہاں وفات کے موقع پر کی جاتی ہیں۔باقاعدہ گھر سجائے جاتے ہیں ، تیاریاں کی جاتی ہیں،گھروں میں رنگ و روغن کروایا جاتا ہے اور حسب استطاعت مہمانوں کو بھی بلایا جاتا ہے۔ گانے گائے جاتے ہیں اور جب تک یہ تمام تیاریاںمکمل نہ ہوجائیں میت کو مورچری میںتدفین کے لیے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ مرنے والوں کے لیے ان کے پیشہ کی مناسبت سے تابوت تیار کیے جاتے ہیں مثلاً ڈرائیور کے لیے گاڑی کی شکل کا تابوت یامچھیرے کے لیے مچھلی کی شکل کا تابوت بنایا جاتا ہے جو خاصے اخراجات کا متقاضی ہوتا ہے۔
ایک خاتون نے مجھے مسلمان ہونے کی وجہ یہ بتائی کہ عیسائی رہتے ہوئے وفات کے موقع پرمختلف رسوم ادا کرنا غریب لوگوں کے لیے ایک مشکل سے کم نہیں۔ اس کے بالمقابل اسلام سادگی کا درس دیتا ہے جو بہت بہتر ہے۔
٭…بہرحال ہر شخص کے لیے اُس کے اپنے ملک کی اچھی چیزوںکا تصور ہی دل میں محبت کی لہر پیدا کردیتا ہے۔چنانچہ رسول اللہ ﷺکو اپنے وطن مکّہ سے جو گہری محبت تھی اس کا اندازہ اس واقعہ سے بھی خوب ہوتا ہے کہ جب غفار قبیلہ کا ایک شخص مکّہ سے مدینہ آیاتو حضرت عائشہ ؓنے اس سے مکّہ کا حال پوچھا تو اس نے کمال فصاحت و بلاغت سے یہ جواب دیا کہ ’’سرزمین مکہ کے دامن سرسبز و شاداب تھے اس کے چٹیل میدان میں سفیداذخر گھاس خوب جوبن پر تھی اور کیکر کے درخت اپنی بہار دکھا رہے تھے‘‘۔ نبی کریم ﷺنے یہ سنا تو آپؐ کو مکّہ کی یاد ستائی اور وطن کی محبت نے جوش مارا۔فرمایا: ’’بس کرو اور مکّہ کے مزید احوال بتا کر ہمیں غمگین نہ کرو۔‘‘
………٭………٭………٭………
جنگ اور امن
ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ اگست 2012ء میں روسی ادیب لیوٹالسٹائی کے ناول War & Peace کے بارے میں معلومات پیش کی گئی ہیں۔ دنیا کی بیشتر زبانوں میں اس ناول کے سینکڑوں ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ اردو زبان میں اس ناول کا ترجمہ ’’جنگ اور امن‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔
روسی زبان میں لکھے گئے اس ناول کا انگریزی میں ترجمہ ہوا تو یہ انگریزی کے بھی کلاسیک ناولوں میں شمار ہونے لگا۔ اس ناول کا پہلا ایڈیشن 1869ء میں شائع ہوا تھا اور اس کا ابتدائی مسودہ صرف چودہ سو الفاظ پر مشتمل تھا۔ لیکن جتنی بار بھی ٹالسٹائی نے اس پر نظرثانی کی، اس ناول کے کردار اور صفحات میں اضافہ ہوتا گیا اور کہانی وسیع تر ہوتی چلی گئی۔ اس ناول میں اُس دَور کی کہانی بیان کی گئی ہے جب نپولین نے روس پر حملہ کیا تھا۔ کہانی کا مرکزی موضوع تو جنگ ہے لیکن اس میں محبت، نفرت، رقابت اور معاشرتی اقدار بھی ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔
٭…٭…٭