سیرت خلفائے کراممتفرق مضامین

خلافت اور ریاست کے بارے میں ‘غامدی’ صاحب کے نظریہ کا تحقیقی جائزہ

(حافظ مظفر احمد)

علامہ جاوید غامدی صاحب نے سوشل میڈیا پر خلافتِ احمدیہ کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں خلافت کے متعلق یہ عجیب وغریب تبصرہ کیاکہ خلافت کیا چیز ہوتی ہے یہ تو سرے سےکوئی دینی تصور ہی نہیں ہے ۔مسلمانوں میں اگر کوئی ریاست ہوگی تو اس کے اندر حکمران مقرر کیا جائے گا۔اسلام میں تو اس کے سوا کسی خلیفہ کا کوئی تصور نہیں۔کسی جماعت میں بھی کوئی خلیفہ ہوتا ہے؟( جس کے پاس اقتدار نہیں ہے)اس کا تصور کہاں سے آیا ہے؟گویاغامدی صاحب کے نزدیک حکومت کے بغیر خلافتِ احمدیہ کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔

دَورحاضر میں ایک صدی سےخلافتِ احمدیہ کی غیرمعمولی دینی ودنیوی ترقیات سے واقف مگرنعمت خلافت سے محروم کسی بھی مسلمان کی طرف سےحسرت و یاس کاایسا ردّعمل طبعی اور قابل فہم ہے۔مگر غامدی صاحب جیسے روشن خیال عالم کی ایسی رائے اس لیے خلاف توقع ٹھہری کہ وہ اس سے پہلے علامہ ابن عربی کے حوالے سے امتِ محمدیہ میں غیر تشریعی وحی جاری رہنے کے متعلق حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کے دلائل سے متاثر ہوکربرملا یہ اظہارکر چکے ہیں کہ

‘‘مرزا غلام احمد صاحب قادیانی … نے اس بات کے بہت دلائل دیے ہیں کہ … الہام جاری رہنا چاہیے…یہ خدا کی نعمت ہے… بنی اسرائیل میں سب لوگوں کو ہوتا تھا، محمد رسول اللہ ؐکی امت کیوں محروم کردی گئی؟ اس طرح کے عقلی دلائل انہوں نے دیے۔ پھر الہام، وحی یعنی خدا سے رابطہ… بیان کیا تمام صوفیانہ تعبیرات میں…ختم نبوت کے بارے میں بھی انہوں نے کہا کہ میں اس کا قائل ہوں…اور زیادہ سے زیادہ بات جو وہ کہتے تھے وہ اسی طرح کی بات تھی، جیسے ابن عربی نے کہہ دی۔’’

(Lecture of Ghamidi on Ahmadiyya Prophethood Claim Part 1)

مگر نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہےکہ خلافت کے بارہ میں غامدی صاحب کانقطۂ نظر کہ یہ کوئی دینی تصور نہیں بلکہ اس سے حکومت مراد ہوتی ہے،نہ صرف عربی زبان بلکہ قرآن و حدیث کے مطابق بھی درست نہیں۔کیونکہ خلیفہ عربی زبان کا لفظ ہے اورتمام مشہورعربی لغات لسان العرب،تاج العروس، اقرب المواردکے مطابق اس کے بنیادی حقیقی معنیٰ جانشین کےہیں۔اور نبی کے جانشین کےلیے خلیفہ کالفظ ایک خالصتاً دینی اصطلاح ہے۔بےشک دنیوی بادشاہوں کے جانشین بھی ظاہری عظمت و شوکت کی خاطریہ اصطلاح استعمال کرتے آئے ہیں۔مگر خلافت کے بنیادی حقیقی معنی امارت و ریاست کےنہیں۔

جیسا کہ مشہورعربی لغت اقرب المواردمیں ہے کہ

‘‘(الخلیفة) من یخلف غیرہ و یقوم مقامہ و السلطان الاعظم و فی الشرع الامام الذی لیس فوقہ امام’’

(اقرب المواردزیر لفظ خلف صفحہ296)

کہ خلیفہ وہ ہوتا ہے جو کسی کی جانشینی کرے یا اس کا قائم مقام ہواور سلطان اعظم۔اور شرع میں خلیفہ اس امام کو کہتے ہیں جس کے اوپر کوئی امام نہ ہو۔

اس سے ظاہر ہے خلیفہ کے مادہ ‘خ-ل-ف ’ اور اس کے افعال خَلَفَ۔یَخْلُفُ وغیرہ میں حکومت کے نہیں بلکہ جانشینی کے معنے ہوتےہیں اگرچہ خلیفہ کالفظ سلطان اعظم یا بادشاہ کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہےمگر یہ اس کے حقیقی معنیٰ میں شامل نہیں۔

علامہ امام راغب اصفہانی نے خلافت کے یہ معنے کیے ہیں:

‘‘الخلافة کے معنٰی دوسرے کا نائب بننے کے ہیں۔ خواہ وہ نیابت اس کی غیر حاضری کی وجہ سے ہو۔ یاموت کے سبب سے ہو(یاعزت و شرف کےلیے)۔ان آخری معنیٰ کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء کو زمین میں خلافت بخشی ہے۔’’

(مفردات القرآن اردوجلد اول صفحہ337مترجم از ابو عبدہ فیروزپوری)

خلافت کےمذہبی اصطلاح ہونےکی بڑی دلیل یہ ہے کہ خود اللہ تعالیٰ کا اپنے پہلے نبی حضرت آدمؑ کو خلیفہ قراردیتے ہوئے یہ فرمایا کہ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً (البقرة 31)کہ میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں حالانکہ حضرت آدمؑ کے پاس کوئی حکومت نہ تھی!

چنانچہ علامہ صدیق حسن خان صاحب(متوفیٰ:1307ھ)حضرت آدمؑ کے‘‘خلیفہ’’ہونےکی وجہ تسمیہ یہ بیان کرتے ہیں: ‘‘انما سمی خلیفۃ لانہ خلیفۃ اللہ فی ارضہ لاقامۃ حدودہ ’’

(فتح البيان في مقاصدالقرآن جزء1صفحہ126)

یعنی (آدمؑ) کا نام خلیفہ اس لیے رکھا گیا کہ وہ اللہ کی زمین میں اس کے حدود و احکام قائم کرنے کےلیے خلیفہ تھے۔

بغیر بادشاہت کے خلافت کی دوسری مثال حضرت ہارونؑ کی ہے۔جنہیں حضرت موسیٰؑ نے کوہِ طور پر جاتے ہوئےتربیتی و دینی اغراض کےلیےبنی اسرائیل میں اپنا خلیفہ مقرر کیاتھا۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:وَقَالَ مُوسٰى لِأَخِيهِ هَارُونَ اخْلُفْنِي فِي قَوْمِي وَأَصْلِحْ وَلَاتَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ (الاَعراف 143)

اور کہا موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہ میرا خلیفہ رہ میری قوم میں اور اصلاح کرتے رہنا اور مت چلنا مفسدوں کی راہ۔(ترجمہ شیخ الہندمحمود الحسن صفحہ222)

پس غامدی صاحب جیسے سکالر کا خلیفہ کی دینی اصطلاح سے انکار تعجب خیز ہی نہیں حیرت ناک بھی ہے کیونکہ یہ قرآن کریم کے علاوہ حدیث رسولؐ کے بھی خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا (الحشر: 8)اور رسول جو تمہىں عطا کرے تو اسے لے لو اور جس سے تمہىں روکے اُس سے رُک جاؤ۔

اوررسول کریمﷺ نے خلافت کے بارے میں فرمایاکہ

‘‘مَا كَانَتْ نُبُوَّةٌ قَطُّ إِلَّا تَبِعَتْهَا خِلَافَةٌ وَلَا كَانَتْ خِلَافَةٌ قَطُّ إِلَّا تَبِعَهَا مُلْكٌ’’

(مشیخة ابن طھمان(168ھ) جزء1 صفحہ94، کنزالعمال جزء11صفحہ476،تاریخ دمشق ابن عساکر )

یعنی کبھی کوئی نبوت نہیں ہوئی مگر اس کے بعد خلافت قائم ہوئی اورکوئی خلافت نہیں ہوئی مگر اس کے بعد بادشاہت آئی۔

پس اگرغامدی صاحب نےخلافت کامطلب ریاست لیناہی ہے تو پہلےانہیں ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں کی حکومت ثابت کرنی ہوگی ورنہ تاریخ انبیاء سے توہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفیٰﷺکےعلاوہ تین اور انبیاء حضرت موسیٰؑ،حضرت داؤدؑاورحضرت سلیمانؑ کوروحانی خلافت ونبوت کے ساتھ حکومت ملناثابت ہے۔

حضرت سلیمانؑ کے بعد ان کے بیٹوں یربعام اور رحبعام میں حکومت بھی تقسیم ہوگئی۔اور حکومت و نبوت کے سلسلے بھی الگ ہوگئے۔

اسی دور کے متعلق حدیث میں بھی مذکور ہے کہ بنی اسرائیل میں انبیاء کرام کی خلافت کا سلسلہ جاری رہا۔

کَانَتْ بَنُوْاِسْرَآئِیلَ تَسُوْسُھُمُ الْاَنْبِیَآءُکُلَّمَا ھَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہ نَبِیٌّ۔

(بخاری کتاب الانبیاء باب ماذکر عن بنی اسرائیل)

یعنی بنی اسرائیل کی اصلاح احوال کےلیےانبیاء آتےرہے،جب ایک نبی فوت ہوا تو اس کا خلیفہ بھی نبی ہوا۔

چنانچہ سلسلۂ انبیاء میں حضرت ہارونؑ کے علاوہ حضرت یسعیاہ،حزقیل،دانیال،یرمیاہ،حجی ،زکریا ،ملاکی علیھم السلام کی مثالیں موجود ہیں جو بغیر کسی ریاست و حکومت اپنے سے پہلےنبی کے خلیفہ ہوئے۔
ہمارے آقا و مولیٰ محمد مصطفیٰﷺ کو اللہ تعالیٰ نے نفاذشریعت کے لیے حکومت بھی دی۔اس لیے آپ کے خلفاء ضرورتاً حاکم وقت بھی ہوئے۔مگر رسول اللہﷺ نے انہیں‘‘الخلفاء الراشدین المہدیین’’کاخطاب دےکر منصب خلافت کو ایک دینی و روحانی تقدس عطا کیا اور اپنی امت کو ہدایت فرمائی:

فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي، وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ ۔

(سنن ابن ماجہ بَابُ اتِّبَاعِ سُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ)

تم پرصرف میری اورمیرےہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت واجب ہے۔

جبکہ آپؐ نے امت کوظالم حکام سے بچنے کی یہ دعا سکھائی:

‘‘اللَّهُمَّ وَلَاتُسَلِّطْ عَلَيْنَامَنْ لَايَرْحَمُنَا’’

(ترمذی ابواب الدعوات باب83 حدیث3502)

کہ اے اللہ! ایسے لوگ ہم پر مسلّط نہ کرنا جو ہم پر رحم نہ کریں۔

اور رسول اللہﷺ نے یہ پیشگوئی بھی فرمائی تھی کہ

الخِلاَفَةُ فِي أُمَّتِي ثَلاَثُونَ سَنَةً، ثُمَّ مُلْكٌ بَعْدَ ذٰلِكَ

(ترمذی ابواب الفتن بَابُ مَا جَاءَ فِي الخِلاَفَةِ)

کہ میرے بعد خلافت(راشدہ) تیس سال رہے گی۔

اس حدیث نے اپنی صداقت خود ثابت کردکھائی ہےچنانچہ رسول اللہﷺکی وفات کےقریباً 30 سال بعد امیر معاویہ کے ذریعہ ملوکیت کا دورشروع ہوگیا۔مگریہ اموی حکمران بھی بشمول یزید بن معاویہ شان و شوکت کے لیے خلیفہ کا لقب استعمال کرتے رہےمگر آنحضورﷺ نے انہیں خلافت علی منہاج نبوت کے مقام پر فائز قرار نہیں دیا بلکہ ملکا عاضّا و جبریة(سخت گیر ظالم وجابر حکومت) قرار دیا ہے۔اورتاریخ اسلام میں شہادت امام حسینؑ کاالم ناک سانحہ ہی خلافت راشدہ اور ملوکیت کے راستے الگ کرنے کےلیے کافی تھا۔

اس کے بعدعباسی دور حکومت میں بھی سفاح اورمعتصم باللہ جیسے بادشاہ ظلم و جبر کےباوجودخلیفہ کہلاتے رہے۔حالانکہ رسول اللہﷺ کایہ واضح ارشادموجودتھا کہ خلافت کے بعدملوکیت کا دورآئےگا اورمقصد یہ تھا کہ وہ ظالم اور جابرحکمران خلیفہ راشد کہلانے کے حقدار نہ رہیں گے۔

بزرگان سلف اور علمائے امت نے بھی خلافت اسلامیہ حقہ کا یہ منصب و مقام خوب سمجھا اورامت کو بھی سمجھایا۔بطور نمونہ یہاں دو حوالے ہی کافی ہیں:

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں:

‘‘خلیفہ وہ ہے جو نبی کی شریعت لوگوں میں جاری کرے اور اس کے ہاتھ پر خدا کے وہ وعدے جو اس کے نبی کے ساتھ تھے پورے ہوں…۔خلافتِ خاصہ ولایت کے اقسام میں سب سے زیادہ کمالاتِ انبیاء سے مشابہت رکھتی ہے۔’’ (ازالة الخفاء عن خلافة الخلفاءاردو،مترجم مولوی محمد عبد الشکور،جلد اول فصل سوم تفسیر آیات خلافت صفحہ198،200)

اسی طرح حضرت سید احمد بریلویؒ کے دست راست حضرت شاہ محمد اسماعیل شہیدؒ(متوفی:1246ھ)نے اپنی کتاب منصب امامت میں لکھا:‘‘خلیفہ راشد سایۂ رب العالمین،ہمسایہ انبیاء و مرسلین،سرمایۂ ترقیٔ دین اور ہم پایۂ ملائکہ مقربین ہے…۔ خلیفۂ راشد نبی حکمی ہے۔گو وہ فی الحقیقت پایۂ رسالت کو نہیں پہنچا لیکن منصبِ خلافت احکام انبیاء اللہ کے ساتھ منسوب ہوا۔’’

(منصب امامت اردومترجم:محمد حسین علوی صفحہ 121-122)

قرآن و سنت کی روشنی میں خلافت کی یہی اصل حقیقت اس زمانے کے حکم عدل حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ نے یوں بیان فرمائی:

‘‘خلیفہ جانشین کو کہتے ہیں اور رسول کا جانشین حقیقی معنوں کے لحاظ سے وہی ہوسکتا ہے جو ظلی طور پر رسول کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہو اس واسطے رسول کریم نے نہ چاہا کہ ظالم بادشاہوں پر خلیفہ کا لفظ اطلاق ہوکیونکہ خلیفہ درحقیقت رسول کاظلّ ہوتا ہے اور چونکہ کسیؔ انسان کے لیے دائمی طور پر بقا نہیں لہٰذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولیٰ ہیں ظلی طور پر ہمیشہ کےلیے تاقیامت قائم رکھے سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تادنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے’’(شہادت القرآن،روحانی خزائن جلد353-354)

حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کا دعویٰ مسیح و مہدی اور امتی نبی ہونے کا تھا اور آپ سےخلافت علی منہاج النبوت کے آخری دور کی بناپڑی۔آپ کو ظاہری حکومت حاصل نہیں تھی۔اس لیے آپ کے بعد آنے والے خلفاء بھی حاکم وقت نہیں۔کیونکہ حکومت،خلافتِ حقہ کا لازمہ نہیں۔

خود رسول اللہﷺنے امت میں آنے والے موعودمسیح کے بارہ میں فرمایاتھا:

أَلَا إِنَّهُ خَلِيفَتِي فِي أُمَّتِي بَعْدِي

(المعجم الاوسط للطبرانی جزء5 صفحہ141)

کہ یقیناً وہ آنے والا موعود میرے بعدامت میں میرا خلیفہ ہوگا۔

آپﷺنے اپنی امت کو تاکیدی ہدایت فرمائی کہ

فَاِذَارَأَیْتُمُوْہُ فَبَایِعُوْہُ وَلَوْحَبْوًا عَلَی الثَّلْجِ فَاِنَّہ خَلِیْفَۃُ اﷲِ الْمَھْدِیُّ۔

(سنن ابن ماجه کتاب الفتن بَابُ خُرُوجِ الْمَهْدِيِّ)

یعنی جب تم اس مہدی کو دیکھو تو اس کی بیعت کرنا خواہ گھٹنوں کے بل برف پر چل کر جانا پڑے کیونکہ وہ خدا کا خلیفہ مہدی ہے۔

اسی طرح رسول اللہﷺنے سورۂ نور کی آیت استخلاف کی روشنی میں اپنے دور خلافت راشدہ کے بعد دور ملوکیت اور آخری زمانے میں خلافت کی خبر دیتے ہوئے علیٰ منہاج الحکومة نہیں کہا بلکہ فرمایا:

ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃٌ عَلٰی مِنْھَاجِ النُّبُوَّۃِ

(مسند احمد جلد 4صفحہ273 و مشکوٰۃ باب الانذار و التحذیر)

یعنی پھر خلافت علی منہاج النبوت کا آخری دور ہوگا۔اسی حدیث پر بنا کرتے ہوئے ڈاکٹر اسرارصاحب نے ‘‘تحریک خلافت پاکستان’’ شروع کی تھی۔مگر وہ عمر بھر یہ مقصد حاصل نہ کرسکے کیونکہ یہ خلافت مسیح موعود کے لیے ہی مقدر تھی جیسا کہ شارح مشکوٰة علامہ عبد الحق محدث دہلوی نےاس حدیث کی تشریح میں لکھا ہے :‘‘الظَّاھِرُ اَنَّ الْمُرَادَ بِہٖ زَمَنُ عِیْسٰی وَالْمَھْدِیْ’’یعنی ظاہر ہے کہ منہاج نبوت پر دوبارہ خلافت قائم ہونے کا زمانہ مسیح موعود اور مہدی کا زمانہ ہے۔

(لمعات التنقیح شرح مشکوٰۃ کتاب الرقاق جلد 8صفحہ578)

یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ آنے والے مسیح کے بارے میں مسلمانوں نے بعض احادیث کے غلطی سےظاہری معنی مراد لے لیےمثلاً حکماًعدلاً سے عادل منصف کی بجائے عادل حکمران اور کسر صلیب سے تلوار کے ساتھ صلیبی مذہب کو فتح کرنے والا سمجھ بیٹھے۔حالانکہ اس سے مراد ان کے دلائل کو توڑنا اورنصاریٰ کے عقائدکا بطلان ہےجیساکہ علامہ بدرالدین عینی نے اس حدیث کی تشریح میں لکھا ہے کہ اس جگہ مجھ پر فیض الٰہی سے یہ معنی کھولے گئے ہیں کہ کسر صلیب سے مراد نصاریٰ کے جھوٹ کا اظہار ہے جو وہ کہتے ہیں کہ یہود نے حضرت عیسیٰ ؑ کو صلیب پر مار دیا تھا۔’’

(عمدۃ القاری شرح بخاری از علامہ بدر الدین عینی جلد 5 صفحہ 584دارالطباعہ عامرہ مصر)

اور خزائن تقسیم کرنے سے مراد روحانی مائدے کی بجائے دنیوی اموال لے بیٹھے۔حالانکہ یہ تصوّر قرآن و سنت کے خلاف ہے کیونکہ سورۂ نور آیت56كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ کے مطابق تو مسلمانوں کو پہلوں جیسی خلافت عطا ہونی تھی اور حضرت موسیٰؑ کے بعد تیرہویں صدی میں حضرت مسیحؑ کو کوئی بادشاہت حاصل نہ تھی۔اسی طرح رسول اللہﷺکی مسیح محمدیؐ کے بارے میں یہ پیشگوئی بھی مسلمانوں نے فراموش کرڈالی کہ یَضَعُ الْحَرْب(بخاری کتاب المظالم والغصب بَابُ كَسْرِ الصَّلِيبِ وَقَتْلِ الخِنْزِيرِ) یعنی وہ جنگ کا خاتمہ کرے گا یعنی اس کے زمانے میں جنگ کی شرائط و اسباب موجود نہ ہوں گے۔

لہذا وہ تلوار سے جنگ کرکے اپنی حکومت قائم نہیں کرے گا بلکہ اس کی روحانی حکومت دلوں پر ہوگی اور وہ حکم عدل یعنی منصف ثالث کے طور پر دینی فیصلے کرے گا۔

اسی کی تائید میں صحیح مسلم کی حدیث میں ہے۔فرمایا کہ دجال کے وقت ایسی مادی طاقتیں موجود ہوں گی لَا يَدَانِ لِأَحَدٍ بِقِتَالِهِمْ، فَحَرِّزْ عِبَادِي إِلَى الطُّورِ (مسلم کتاب الفتن و اشراط الساعة بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ وَصِفَتِهِ وَمَا مَعَهُ) کہ جن سے مقابلےکی کسی کو طاقت نہ ہوگی۔پس مسیح موعود اللہ کے حکم سے اپنی جماعت کو طُور یعنی دعاؤں کی پناہ میں لے جائے گا۔

پس مسیح موعود کا کام دعاؤں اور دلائل کے جہادسے دینی فتح حاصل کرنی تھی۔اورجہاد بالسیف کی بجائے قرآنی دلائل،اپنے نفوس ،مال اور جانوں کی قربانی سے جہاد کرنا اور اسی ذریعہ سے اسلام کی خدمت کرنی تھی۔کیونکہ؂

فرما چکا ہے سید کونین مصطفےٰؐ
عیسیٰ مسیح جنگوں کا کردے گا التواء
یہ حکم سن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا
وہ کافروں سے سخت ہزیمت اٹھائے گا
اک معجزہ کے طور سے یہ پیشگوئی ہے
کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے

(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد 17ص77-78)

یہ ہے معجزنما کلام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کا۔جنہوں نے23مارچ 1889ء کو بیعت لینے کےساتھ جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھی۔اور1908ء میں آپؑ کی وفات کے بعد خلافتِ احمدیہ کے قیام سے رسول اللہﷺ کی آخری دور میں خلافت علی منہاج النبوت کے قیام کی پیشگوئی بھی پوری ہوگئی۔فالحمدللہ

غامدی صاحب کی دوسری قابل ردّ بات ان کی یہ دلیل ہے کہ نبیوں میں سےحضرت عیسیٰ علیہ السلام کوبھی حکومت حاصل نہیں ہوئی اورانہوں نے اپنے پیچھے خلفاء نہیں بلکہ حواری یعنی شاگردچھوڑے۔
یہ بات بھی عقلی و نقلی اور تاریخی طور پر درست نہیں۔کیونکہ اول توحواری کے لغوی معنےنہ تو شاگرد کےہیں،نہ ہی یہ جانشین کے متبادل ہے۔

صاحب‘‘ انوار البیان ’’نے حواری کایہ جامع مفہوم اہل لغت و تفسیر کے حوالے سے یوں بیان کیا ہے:
‘‘حواری حور سے مشتق ہے جس کے معنی خالص سپیدی کے ہیں۔یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اصحاب کا خطاب ہے۔بقول شاہ عبدالقادرصاحب کے حواری اصل میں دھوبی کو کہتے ہیں۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اصحاب میں سے پہلے دو شخص جواُن کے تابع ہوئے حضرت عیسیؑ نے ان کو کہا تھا کہ کپڑے کیا دھوتے ہو۔ میں تم کو دل دھونے سکھا دوں۔وہ ان کے ساتھ ہوئے اس طرح سب کو یہ خطاب ٹھہرگیا۔’’

(انوار البیان فی حل لغات القرآن جلد1 صفحہ 275 ،علی محمد، سورۃ آل عمران،52،مکتبہ سید احمد شہید لاہور)

دوسرے، قرآن شریف کے مطابق حضرت عیسیٰ کے وہ ساتھی اورصحابی حواری کہلائےجنہوں نے آپ کے سوال ‘‘من ا نصاری الی اللّٰہ’’ کے جواب میں نَحْنُ أَنْصَارُ اللّٰهِ کا نعرہ بلندکرتے ہوئے آپ کی زندگی میں مدد کی توفیق پائی۔(آل عمران :53) رسول اللہﷺ نے بھی انہی معنی میں اپنے صحابی حضرت زبیر بن العوامؓ کو اپنا حواری قرار دیاتھا۔

(صحيح البخاري کتاب المناقب بَابُ مَنَاقِبِ الزُّبَيْرِ بْنِ العَوَّامِ)

پس غامدی صاحب کاحضرت مسیح ؑکے بعد کسی خلافت سےانکار تاریخ کلیسا اورحدیث رسولﷺکے بھی خلاف ہے جس کے مطابق ہرنبی کے بعد خلافت ہوئی۔اوراسی اصول کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعدبھی خلافت قائم ہوئی۔ ان کےپہلے جانشین ان کے بھائی یعقوب تھے۔اور جس طرح رسول کریمﷺ نے اپنی زندگی میں ہی اپنے جانشین کے لیے اشارے فرمائے مثلاًایک عورت کے اس سوال پر کہ‘‘یارسول اﷲ! اگر میں دوبارہ آؤں اورآپ کو نہ پاؤں توکیاکروں؟آپؐ نے فرمایاتھا:‘‘پھرتم ابو بکر کے پاس جانا۔’’

(بخاری کتاب الاحکام بَابُ الِاسْتِخْلاَفِ)

بعینہٖ اسی طرح حضرت عیسیٰؑ نے کیا اورجب حواریوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ آپ ہمیں چھوڑ کر دور چلے جائیں گے۔ آپ کے بعد ہمارا سردار کون ہو گا؟حضرت مسیح ؑنے ان کو کہا کہ جہاں کہیں سے بھی تم آئے ہو تم یعقوب کی طرف جاؤ گے جو کہ ‘‘ الصادق/انصاف پسند ’’ ہے جس کی خاطر زمین و آسمان بنائے گئے۔’’ (تھوما کی انجیل قول12)

اصل الفاظ ملاحظہ ہوں:

The disciples said to Jesus, ‘‘We know that you will depart from us. Who is to be our leader
Jesus said to them, Wherever you are, you are to go to James the Just, for whose sake heaven and earth came into being

Gospel of Thomas saying 12, Selection from Robert J. Miller, ed., The Complete Gospels: Annotated Scholars Version. Polebridge Press, 1992, 1994.

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے بھائی یعقوب “The Just”یعنی‘‘الصادق ’’کے نام سے یہود و نصاریٰ میں معروف تھے۔ واقعۂ صلیب کے بعد کلیسائے یروشلم کے امیر اور عیسائیوں کے صدر تھے۔ کمال درجہ زہد و اتقاء کے باعث یہودی بھی آپ کی بہت عزت کرتے تھے۔اعمال الرسل سے ثابت ہے کہ سب حواری آپ کی طرف رجوع کرتے تھے۔

چنانچہ تیسری صدی کےچرچ فادر کلیمنٹ آف اسکندریہ لکھتے ہیں:

‘‘حضرت مسیح کے بعد (ان کے حواری)پطرس،(زبیدی کے بیٹے)یعقوب اور یوحنا میں سے کسی نے بھی چرچ کی اتھارٹی کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ سب نے بالاتفاق یعقوب الصادق کو یروشلم کا بشپ منتخب کرلیا۔
یہ اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ یہ مقام پطرس کو نہیں۔مسیح کے بھائی یعقوب کو ملا جو اپنے بڑے بھائی کا بلاواسطہ خلیفہ ہوا اور یہی وجہ ہے کہ اسے یقینی طور پر پہلا پوپ شمار کیاجاتا ہے۔

Hypotyposes Outlines see pg. 53

پس حضرت عیسیٰؑ کی جانشینی ان کے بھائی حضرت یعقوب سے شروع ہوگئی تھی جودوہزار سال سے پاپائیت کی صورت میں جاری ہے۔عیسائیت کےابتدائی تین سو سالہ دور اصحاب کہف میں عیسائی خلافت کے پاس کوئی ظاہری طاقت نہ تھی۔تاآنکہ312ء میں کونسٹنٹائین (Constantine)پہلا بادشاہ عیسائی ہوا۔

(Constantine And The Conversion Of Europe by A.H.M Jones page 79)

آج بھی حضرت عیسیٰؑ کا جانشین پوپ کہلاتا ہےاورپوپ اور اس کے دیگر القابات کےمعنی بھی جانشین اور خلیفہ کے ہی ہیں۔اس کے لقبVicar of Jesus Christکامطلب حضرت مسیح کا نائب اورSuccessor of the Prince of the Apostlesکا مطلب حواریوں کے شہزادہ نبی کے خلیفہ کا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے سورة نور کی آیت استخلاف میں مسیح اول اور مسیح ثانی کی اس مشابہت کی طرف بھی اشارہ فرمایاتھا:

وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ (النور :56)

یعنی تم مىں سے جو لوگ اىمان لائے اور نىک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کىا ہے کہ انہىں ضرور زمىن مىں خلىفہ بنائے گا جىسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلىفہ بناىا ۔

اس آیت سے پہلی بات ہی یہ پتہ چلتی ہے کہ مسلمانوں میں بھی اپنے پہلوں یعنی حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ جیسی خلافت قائم ہوگی۔چنانچہ جس طرح حضرت موسیٰؑ کے بعد یوشع بن نون سےخلافت شروع ہوئی۔رسول اللہﷺ کے بعد حضرت ابوبکرؓسے خلافت راشدہ کا آغاز ہوا اور جس طرح حضرت موسیٰؑ کے تیرہ سو سال بعد حضرت مسیحؑ ان کے آخری خلیفہ ہوئے۔اسی طرح مقدر تھا کہ رسول اللہﷺ کے تیرہ سو سال بعد آپ کا خلیفہ مسیح موعودؑ بن کر آئے۔

پھر جس طرح حضرت عیسیٰؑ کے بعد ان کے بھائی یعقوب الصادق کے ذریعےسے خلافت عیسوی قائم ہوئی۔ آیت استخلاف کے مطابق مسیح موعودؑ کے بعد بھی خلافت قائم ہونے سے یہ قرآنی پیشگوئی ایک بارپھرپوری ہونی تھی۔جس کی رسول اللہﷺ نے بھی خلافت علی منہاج النبوت کے الفاظ میں خبردی تھی۔

سورۂ نور کی آیت56 میں دوسری اہم بات محض صالح مومنوں سے اس خلافت کا وعدہ ہے جس سے ظاہر ہے کہ یہ خلافت دینی انعام ہے۔کیونکہ ایمان اور صالحیت بادشاہت کی شرط لازم نہیں ہے۔

تیسرے اس آیت میں موعود اسلامی خلافت کوجن پہلوں کی خلافت سے تشبیہ دی گئی وہ قرآن کریم کے مطابق إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِيَاءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكًا (المائدة :21) قوم موسیٰؑ میں نبوت اور بادشاہت کے دو الگ الگ انعامات کی صورت میں تھی۔اور تاریخ سے ثابت ہے کہ بنی اسرائیل کےانبیاء و رسل کے کئی جانشین حکومت کے بغیرمحض روحانی پیشوا تھےبلکہ ایک وقت میں متعدد انبیاء بھی موجود رہے۔جیساکہ سورة المائدہ آیت45 میں بھی مذکور ہے کہ یہود میں آنیوالے تابع انبیاء تورات کے ذریعہ فیصلے کرتے تھے اور ربّانی اور احبار بھی کہ ان کو اللہ کی کتاب کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی اور وہ اس کتاب پر نگران تھے۔

آیت استخلاف میں دینی خلفاء کی ایک نشانی یہ بیان فرمائی کہ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ ان کاکام ہی اللہ کے دین کومضبوط کرناہو گا جوعام بادشاہوں کے لیے شرط نہیں ۔جیسے بظاہر خلیفہ کہلانے والےیزیدبن معاویہ کی حرکات سےاس کا ظالم بادشاہ ہونا ہی ثابت ہوتا ہے۔

دراصل منصب خلافت کا روحانی تقدس ہی اسے بادشاہت و ریاست سےممتازکرتا ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح تقررخلافت کی نسبت اپنی ذات کی طرف کی اور فرمایا: انی جاعل فی الارض خلیفة۔یعنی میں زمین میں خلیفہ بناؤں گا۔مگربادشاہوں کے تقرر کے لیے ایسا نہیں فرمایا۔اسی طرح رسول کریمؐ نے اپنے خلفاء کے لیے الراشدین المہدیین کے الفاظ استعمال فرمائےاوراس خلافت کے پہلے تیس سالہ دور کے بعدملوکیت کا زمانہ شروع ہوجانے کی پیشگوئی فرمائی۔

دوسری علامت آیت استخلاف میں ان دینی خلیفوں کی یہ ہے کہ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْم بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ان خلفاءپر خوف توآئیں گے مگراللہ تعالیٰ لازماً ان کے لیے امن کے سامان پیدافرما دے گا۔یہ نشانی بھی عام بادشاہوں کے لیے لازمی نہیں۔جو اکثر اپنی وسعت سلطنت کےشوق میں حالت جنگ اور خوف وخطر میں ہی رہتے ہیں۔مگردینی خلفاء کی ریاست و حکومت کے بغیریہ علامت بتائی کہ بطور آزمائش ان پرآنیوالےخوف بھی ٹل جائیں گے اور ان کی جماعت کو کوئی حقیقی نقصان نہ پہنچا سکیں گے۔

تیسری علامت اس آیت میں یہ بیان ہے کہ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا(النور :56)وہ خلفائے روحانی اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں گے۔اوراس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے۔جبکہ دنیوی بادشاہوں کو اپنی حکومت اور عیاشیوں(عیش و عشرت) سےعبادت کی فرصت ہی کب ہوتی ہے!

آیت استخلاف میں چوتھی علامت یہ بیان فرمائی کہ ان دینی خلفاء کی اطاعت سے انکارکرنے والانافرمان ہوگا۔ دنیاوی بادشاہوں کی بیعت سےانکار پرفاسق ہونےکا فتویٰ نہیں لگتا۔چنانچہ حضرت امام حسینؑ کا یزید جیسے فاسق حکمران کی بیعت سے انکار کی یہی وجہ تھی کہ سنت رسولﷺ کے مطابق بیعت کا حکم مامورین اورخلفائے راشدین کے لیے ہے۔جو ایک مقام عصمت رکھتے ہیں،جبکہ عام حکّام اور اولی الامر کی اطاعت معروف کے حکم کے ساتھ خلاف شرع حکم کی صورت میں اللہ اور رسول کی طرف معاملہ لوٹانے کی بھی ہدایت ہے۔

پس خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے جس نے اس زمانے میں ہمیں رسول اللہﷺ کی پیشگوئی خلافت علی منہاج النبوت کا وارث بنادیا اورمسلسل اس کی برکات سے متمتع فرمارہا ہے۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں خلافت کایہ دینی و روحانی نظام گذشتہ 111سال سے جاری و ساری ہے۔جس کے نتیجے میں آج خدا تعالیٰ کے فضل سے خلافتِ احمدیہ کے زیرسایہ 212 ممالک میں جماعت احمدیہ کی شاخیں قائم ہیں جن میں احمدی خلافت کے زیرسایہ اشاعت اسلام اور اس کے غلبے کے لیے کوشاں ہیں۔خلافتِ احمدیہ کے زیر اہتمام دنیا کی 75زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم شائع کروائےجاچکے ہیں۔دنیاکے 96ممالک میں جماعت کے مشن قائم ہیں جہاں کروڑوں افراد تک لٹریچر کے ذریعہ اسلام کا پیغام امن و محبت پہنچ رہا ہے۔دنیا بھر میں 714سکولز،37ہسپتال،متعدّدہومیو کلینکس سےخدمتِانسانیت میں جماعت احمدیہ مصروف عمل ہے۔
جماعت احمدیہ کی ویب سائیٹ الاسلام پر وزٹ کرنے والوں کی تعداد کروڑوں تک پہنچ چکی ہے۔جہاں 48زبانوں میں آن لائن تراجم قرآن استفادہ کے لیے موجود ہیں۔ان کے علاوہ حضرت بانیٔ جماعت کی جملہ کتب اوربیسیوں دیگر کتب بھی موجود ہیں۔ایم ٹی اے کے علاوہ برطانیہ میں وائس آف اسلام کے نام سے ریڈیو اسٹیشن قائم ہوچکا ہے۔جس کے علاوہ 20ریڈیو اسٹیشنز کے ذریعہ 77ممالک میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچ رہا ہے۔دنیا بھر میں49ممالک میں ہیومینٹی فرسٹ صاف پانی ،معیاری گھر مہیا کررہی ہے۔

ربع صدی سے جماعت احمدیہ کا عالمی ٹی وی اسٹیشن MTA اردو،عربی،انگریزی اور افریقی چینل کے ذریعہ دنیا کی متعدد زبانوں میں ، ساری دنیا میں دین حق کی تبلیغ کے ساتھ اسلام کے دفاع کے محاذ پر ڈٹا ہوا ہے۔ایم ٹی اے پر دنیا کی 8 زبانوں میں ہمارے موجودہ امام جماعت احمدیہ و خلیفة المسیح کا خطبہ ہر جمعے کو ان کے مستقر لندن سےپاکستانی وقت کے مطابق 5بجے شام براہِ راست نشر ہوتا ہے۔

دنیا کے 212ممالک کے احمدی اپنے اپنے ملک میں ہمہ تن گوش اپنے امام و خلیفہ کا یہ خطبہ سنتے اور اس پر عمل کی توفیق پاتے ہیں۔اور یوں وہ ولیمکنن لھم دینھم الذی ارتضی لھم کی علامت خلافت جماعت احمدیہ میں بڑی شان سے پوری ہوکر اپنی سچائی کی خود گواہی دے رہی ہے کہ

خلافت سے ہی وابستہ ترقی ہے جماعت کی
یہی تو کاروانِ دین کی اصلی قیادت ہے
خدا کا یہ احسان ہے ہم پہ بھاری
کہ اس نے ہے اپنی خلافت اتاری

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button