حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ انسان کے متقی ہونے کے لئے صرف اتنا ہی کافی نہیں کہ وہ عبادت کرنے والا ہو یا صرف حقوق اللہ کی ادائیگی کر رہا ہو بلکہ آپ نے یہ بیان فرمایا کہ متقی وہ ہے جس کا اخلاقی معیار بھی اعلیٰ ہو اور وہ اپنے اخلاق سے دوسروں پر اپنی نیکی اور تقویٰ کا اثر قائم کرے۔
چنانچہ آپ نے ایک موقع پر فرمایا کہ’’اخلاق انسان کے صالح ہونے کی نشانی ہے‘‘۔
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 128۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ ایک مومن کی زندگی کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ اسلام کی تعلیم کی خوبصورتی ہمیشہ ظاہر کی جائے اور یہ اس صورت میں ممکن ہے جب تقویٰ پر چلتے ہوئے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا جائے۔ آپ فرماتے ہیں کہ
’’تقویٰ کے بہت سے اجزاء ہیں۔ عُجب، خود پسندی، مالِ حرام سے پرہیز اور بداخلاقی سے بچنا بھی تقویٰ ہے۔ جو شخص اچھے اخلاق ظاہر کرتا ہے اس کے دشمن بھی دوست ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ۔‘‘(المومنون:97)
(فرمایا ایک تو یہ کہ برائیوں سے بچنا یہ تقویٰ ہے۔ اچھے اخلاق کا اظہار کرنا یہ تقویٰ ہے جس سے دشمن بھی دوست ہو جاتا ہے۔) آپ فرماتے ہیں ‘‘اب خیال کرو کہ یہ ہدایت کیا تعلیم دیتی ہے؟ اس ہدایت میں اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ اگر مخالف گالی بھی دے تو اس کا جواب گالی سے نہ دیا جائے بلکہ اس پر صبر کیا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ مخالف تمہاری فضیلت کا قائل ہو کر خود ہی نادم اور شرمندہ ہو گا اور یہ سزا اس سزا سے بہت بڑھ کر ہو گی جو انتقامی طور پر تم اس کو دے سکتے ہو‘‘۔ فرماتے ہیں ’’یوں تو ایک ذرا سا آدمی اقدام قتل تک نوبت پہنچا سکتا ہے لیکن انسانیت کا تقاضا اور تقویٰ کا منشاء یہ نہیں ہے۔ خوش اخلاقی ایک ایسا جوہر ہے کہ موذی سے موذی انسان پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے‘‘۔ فرماتے ہیں ’’کسی نے کیا اچھا کہا ہے کہ (فارسی میں ) ؎لُطف کن لُطف کہ بیگانہ شود حلقہ بگوش‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ 81۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
(کہ مہربانی سے پیش آؤ تو بیگانے بھی تمہارے حلقہ احباب میں شامل ہو جائیں گے۔)
پس یہ وہ اصولی بات ہے جو ہمیشہ ہمیں پیش نظر رکھنی چاہئے کہ اپنے ہر عمل کو تقویٰ کے تابع کرتے ہوئے اچھے اخلاق کا مظاہرہ ہو۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 09؍جون2017ء)