ورلڈ چیرٹی ڈے
International Day of Charity
یہ دن کب منایا جاتا ہے
پاکستان سمیت دنیا بھر میں ورلڈ چیرٹی ڈےہر سال 5ستمبر کو منایا جاتا ہے۔
اس دن کا آغاز
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2012ء میں انسانی خدمات گار مدر ٹریسا جنہوں نے دنیا کے غریب ترین لوگوں کی غربت، پریشانی اور تکالیف پر قابو پانے کے لئے اَن تھک محنت کی کے یوم وفات پر یہ دن منانے کی قرارداد منظور کی تھی، 2013ء سے یہ دن منایا جا رہا ہے۔
یہ دن منانے کا مقصد
اس دن کو منانے کا مقصد بین الاقوامی سطح پر کار خیر اوررفاہ عامہ اور اس سے وابستہ سرکاری و غیرسرکاری تنظیموں، شخصیات کی حوصلہ افزائی کرنا اور کار خیر کے فروغ کے لئے اقدامات اور اس کے ثمرات سے آگاہی فراہم کرنا ہیں۔ ورلڈ چیرٹی ڈے کے موقع پر پاکستان سمیت دنیا بھر میں مختلف سرکاری و غیرسرکاری تنظیموں کے زیراہتمام ورک شاپس اور دیگر تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔
ہر سال اس خصوصی دن کو منانے کے لئے مختلف خیراتی اداروں کے کام کی تشہیر کی جاتی ہے، اور لوگوں کو پیسہ اور وقت کا عطیہ کرنے، خیراتی کاموں کو انجام دینے، لوگوں کو تعلیم دینے اور بہت سارے رفاہی کاموں کے بارے میں شعور اجاگر کیا جاتا ہے۔
یہ دن خدمت انسانیت میں مسابقت فی الخیرات کے لیےلوگوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے تا کہ بڑھ چڑھ کر غریب اور نادار لوگوں کی مدد کی جاءے اور انہیں مفلو ک الحالی سے نکال کر ترقی یافتہ معاشرہ کا حصہ بنایا جاسکے۔
اس دن اقوام متحدہ کے تمام ممبر ممالک، مختلف تنظیموں اور کاروباری اداروں اور ہم سبھی شہریوں کو دعوت دیتا ہے کہ ہم کسی بھی طرح سے رفاہ عامہ کے کاموں میں حصہ ڈال کر اس دن کو منائیں۔
مدر ٹریسا
مدر ٹریسا خود کو خدمت خلق کے لئے وقف کر دینے والی مسیحی راہبہ تھیں وہ کلکتہ میں ساٹھ برس تک غریبوں و نادار بیماروں کی دیکھ بھال کرتی رہیں۔ مدر ٹریسا کا حقیقی نام ایگنس گونژیا بوجاژیو تھا۔ وہ 1910ء میں مقدونیہ کے قصبے سکوبچی میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والدین البانیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ سکوبچی اس وقت عثمانی سلطنت کاایک حصہ تھا۔ آج کل اسے مقدونیہ کے دارالحکومت کی حیثیت حاصل ہے۔ مدرٹریسا مذہباً رومن کیتھولک عیسائی تھیں۔ اٹھارہ سال کی عمر میں انہوں نے مذہبی جذبے کے زیر اثر آئر لینڈ کے مذہبی ادارے آرڈر آف دی سسٹرز آف اور لیڈی آف لوریٹو میں داخلہ لے لیا۔ انہوں نے مذہبی تربیت آئرلینڈ کے شہر ڈبلن اور انڈیا کے شہر دار جلنگ میں حاصل کی۔ کلکتہ میں رومن کیتھولک ہائی سکول کے تحت کام کرتے ہوئے مدر ٹریسا کو وہاں رہنے والوں کا قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ کلکتہ کے غریب عوام کی حالت زار نے ان کے دل پر گہرا اثر مرتب کیا اور انہوں نے محض مذہبی خدمات انجام دینے کے بجائے انسانی خدمت کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیا۔
انہوں نے اپنے ادارے کی بنیاد 1950میں محض بارہ راہباؤں کے ہمراہ رکھی تھی جن کی تعداد بعد میں بڑھ کر ساڑھے چار سو تک اور دائرہ کار ایک سو تینتیس ممالک تک جاپہنچا۔ ان کے فلاحی کاموں میں مریضوں کا علاج، یتیم اور بیواوٗوں کی مدد شامل ہے۔
1952ء میں مدرٹریسا نے نرمل ہردے (شفاف دل) نامی ادارہ قائم کیا جس کے بنیادی مقاصد میں غریب مریضوں کا علاج کرنا شامل تھا۔ زندگی سے مایوس مریضوں کو وہ اپنے ادارے میں لاتیں،ان کی خدمت کرتیں اور ایسے کئی افراد کو نئی زندگی سے ہمکنار کرتیں جنہیں ان کے ڈاکٹر مرضِ موت میں مبتلا قرار دے چکے تھے۔
مدرٹریسا کا کام صرف کلکتہ یا بھارت تک محدود نہ رہا بلکہ دنیا کے کئی حصوں تک پھیل گیا۔ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں 1979ء میں امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ پاپائے روم نے مدر ٹریسا کو ’بابرکت‘ شخصیت بھی قرار دیا۔ یہ خطاب ’سینٹ‘ قرار دیے جانے یا مسیحیت کے تحت ’ولایت‘ (ولی بن جانے) کا مرتبہ حاصل کرنے کے مراحل میں سے آخری مرحلہ ہے۔ 5؍ ستمبر 1997ء کو بھارتی معیاری وقت کے مطابق رات 9 بج کر 30 منٹ پر مدر ٹریسا کلکتہ میں انتقال کرگئیں۔
مولانا روم کہتے ہیں
زندگی آمد برائے بندگی
زندگی بے بندگی شرمندگی
یعنی ہمیں زندگی محض اس لیے عطا ہوئی کہ ہم ہمہ وقت مالک کن فیکون کی عبادت میں مصروف رہیں اور یوں اس کی بھرپور خوشنودی حاصل کرکے اس دارالمکافات سے رخصت ہوں جبکہ دوسری طرف پیر رومی کے مرید دانائے راز مولانا روم کے اس سچ سے پردہ اُٹھاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کیلئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
بات تو اقبال نے بھی دل کو بھانے والی کہی اور اللہ کی خوشنودی کے حصول یا اس کی بندگی کو خدمت خلق سے مشروط کر دیا، بندگان خدا کی خبرگیری اور ان کے دکھ سکھ میں کام آنے کی شرط لگا دی، لوگ کہتے ہیں کہ پتھر ہوتا ہے و ہ انسان جو کسی کے کام نہیں آتا، ہم یہاں آئے ہیں ایک دوسرے کے درد بانٹنے، جب ہی تو مغرب کے دانشوروں نے ہمیں سماجی جانور کہہ کر پکارا، ہم اگر مل جل کر ایک دوسرے کا دکھ درد نہ بانٹیں تو بیکار ہے ہماری یہ زندگی،
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
لیکن یہاں میں آپ کو بتاتا چلوں کہ آج سے پندرہ سو سال پہلے ہمارے دین اسلام کی تعلیمات میں غریبوں اور مسکینوں کی دستگیری کا بڑے واضح الفاظ میں حکم دیا ہے، صدقہ، خیرات، فطرانہ، زکوٰۃ کتنے عنوان سے پکارا ہے۔ ہم جانتے ہیں ایسا کرنے سے غربت جیسی قبیحہ معاشرتی ناہمواری کو ختم نہیں کیا جاسکتا، دینی تعلیم کی روشنی میں ہم نے غربت مارے معاشرے کو کلہاڑیاں بنا کر دینی ہیں، ان کو برسر روزگار بنانا ہے، ہم کو سال کے 365 دن میں صرف ایک روز کیلئے چیریٹی ڈے منانے کا حکم نہیں بلکہ ہمیں تو ساری زندگی ہر وقت خدمت انسانیت کے لیے کوشاں رہنا چاہیے
اللہ تعالی ٰ قرآن کریم میں فرماتاہے
وَ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّ بِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡجَارِ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡجَارِ الۡجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالۡجَنۡۢبِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ وَ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا ﴿النساء 37﴾
ترجمہ؛اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ احسان کرو اور قریبی رشتہ داروں سے بھی اور یتیموں سے بھی اور مسکین لوگوں سے بھی اور رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور غیررشتہ دار ہمسایوں سے بھی۔ اور اپنے ہم جلیسوں سے بھی اور مسافروں سے بھی اور ان سے بھی جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے۔ یقیناً اللہ اس کو پسند نہیں کرتا جو متکبر (اور) شیخی بگھارنے والا ہو۔
ہمارے پیارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺجنکی پوری زندگی تمام انسانوں کے لیے اسوہ حسنہ ہے آپﷺہمیشہ مخلوق خدا کی بھلائی کےلئے کوشاں رہےبلکہ یہاں تک فرمایا
’’مُجھے کمزوروں میں تلاش کرو (یعنی میں ان کے ساتھ ہوں اور ان کی ہمدردی اور مدد کرنے سے تم میری رضا حاصل کر سکتے ہو)یہ حقیقت ہے کہ کمزوروں اور غریبوں کی وجہ سے تم اللہ تعالیٰ سے رزق پاتے ہو اور اس کی تائید حاصل کرتے ہو۔(ترمذی کتاب الجھاد باب ما جاء فی الاستفتاح)
آپﷺکے جانثارصحابہ رضی اللہ عنھم آپﷺکے جذبہ خدمت خلق کے متعلق کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ
’’ حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺمیں تکبر نام کو نہ تھا نہ آپ ناک چڑھاتے اور اس بات پر برا مناتے اور بچتے کہ آپ بیواوں اور مسکینوں کے ساتھ چلیں اور ان کے کام آئیں اور ان کی مدد کریں یعنی بے سہار ا عورتوں اور مسکینوں اور غریبوں کی مدد کے لیے ہر وقت کمر بستہ رہتے اور اس میں خوشی محسوس کرتے‘‘(مسند دارمی باب فی تواضع رسول ﷺ)
پھر نہ صرف آنحضرت ﷺخود خدمت خلق کے لئے کوشاں رہتے بلکہ اپنے ماننےوالوں کو بھی اسکی ہمیشہ تلقین فرماتے
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس وقت تک انسان کی ضرورتوں کو پورا کرتا رہتا ہے جب تک وہ اپنے مسلمان بھائی کی حاجت روائی کے لیے کوشاں رہے۔
(قشیریة باب الفتوة ص 113)
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کہ جس شخص نے کسی مسلمان کی دنیاوی بے چینی اور تکلیف کو دور کیا۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسکی بے چینیوں اور تکلیفوں کو اس سے دور کر دے گا۔ اور جس شخص نے کسی تنگدست کو آرام پہنچایا اور اس کے لیے آسانی مہیا کی اللہ تعالی ٰ آخرت میں اس کے لیے آسانیاں مہیا کرے گا۔ (مسلم کتاب الذکر)
اسی طرح حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا؛۔دین سراسرخیرخواہی اور خلوص کا نام ہے ہم نے عرض کیا کس کی خیر خواہی؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی اور اسکی کتاب اور اسکے رسول کی اور مسلمانوں کی خیر خواہی اور ان سے خلوص کا تعلق رکھنا۔ (مسلم کتاب الایمان )
اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تمام مخلوق اللہ کی عیال ہے پس اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوق میں سے وہ شخص بہت پسند ہے جو اس کے عیال (مخلوق) کےساتھ اچھا سلوک کرتا ہے اور ان کی ضروریات کاخیال رکھتاہے۔
(مشکوة کتاب الآداب)
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود ٕعلیہ السلام فرماتے ہیں:
مرا مطلوب و مقصود وتمنا خدمت خلق است
ہمیں بارم،ہمیں کارم،ہمیں رسمم، ہمیں راہم
یعنی میرا مقصود اورمطلوب اور خواہش خدمت خلق ہے اور یہی میرا کام ہے یہی میراکام ہے یہی میرافکر ہے اور یہی میری رسم و راہ ہے۔
خدمت خلق کی یہ تڑپ اور خواہش اور تمنا آپ کے دل میں اپنے ہادی و مولا حضرت محمدﷺکے اسوہ حسنہ کے تتبع میں تھی جو سر تا پا خدمت خلق کا مجسمہ تھا۔
سیدنا حضرت مسیح موعود ٕعلیہ السلام فرماتے ہیں:
نوع انسان پر شفقت اور اس سے ہمدردی کرنا بہت بڑی عبادت ہے۔ اور اللہ تعالی ٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے یہ ایک زبردست ذریعہ ہے۔مگر میں دیکھتاہوں کہ اس پہلو میں بڑی کمزوری ظاہر کی جاتی ہے۔۔۔۔اللہ تعالیٰ نے جن پر فضل کیا ہے اس کی شکر گزاری یہی ہے کہ اس کی مخلوق کے ساتھ احسان اور سلوک کریں۔اور اس خدا داد فضل پر تکبر نہ کریں اور وحشیوں کی طرح غرباء کو کچل نہ ڈالیں۔
(ملفوظات جلد 4 صفحہ 438)
ایک اور جگہ سیدنا حضرت مسیح موعود ٕعلیہ السلام فرماتے ہیں:
میری تو یہ حالت ہے کہ اگر کسی کو درد ہوتاہو اور میں نماز میں مصروف ہوں۔میرے کان میں اس کی آ واز پہنچ جاوے تو میں یہ چاہتا ہوں کہ نماز توڑ کربھی اس کو فایدہ پہنچا سکتاہوں تو فایدہ پہناوں اور جہاں تک ممکن ہے اس سے ہمدردی کروں۔یہ اخلاق کے خلاف ہے کہ کسی بھاءی کی مصیبت اور تکلیف میں اس کا ساتھ نہ دیا جاوے۔ اگر تم کچھ بھی نہیں کرسکتے تو کم ا ز کم دعا ہی کرو۔ اپنے تو درکنار، میں تو کہتا ہوں کہ غیروں اور ہندووں کے ساتھ بھی ایسے اخلاق کانمونہ دکھاو اور ان سے ہمدردی کرو۔لاابالی مزاج ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔
(ملفوظات جلد 4 صفحہ 82،83)
جماعت احمدیہ کے دوسرے امام حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں
نہ حسن خلق ہے تجھ میں نہ حسن سیرت ہے
تو ہی بتا یہ نقش و نگار کیسے ہیں
مصیبتوں میں تعاون نہیں تو کچھ بھی نہیں
جو غم شریک نہیں غمگسار کیسے ہیں
(کلام محمود)
اسی طرح ایک اور مقام پر سیدنا حضرت مسیح موعود ٕعلیہ السلام فرماتے ہیں:
مخلوق کی ہمدردی اور خبر گیری حقوق اللہ کی حفاظت کا باعث ہو جاتی ہے۔ پس مخلوق کی ہمدردی ایک ایسی شے ہے کہ اگر انسان اسے چھوڑ دے اور اس سے دور ہوتاجاوے تو رفتہ رفتہ پھر درندہ ہو جاتاہے۔انسان کی انسانیت کایہی تقاضا ہے اور وہ اسی وقت تک انسان ہے جب تک اپنے دوسرے بھائی کے ساتھ مروت،سلوک اور احسان سے کام لیتاہے۔اس میں کسی قسم کی تفریق نہیں ہے جیسا کہ سعدی رحمہ اللہ نے کہا ہے بنی آدم اعضاءے یک دیگر اند۔یادرکھو ہمدردی کا داءرہ میرے نزدیک بہت وسیع ہے۔کسی قوم اور فرد کوالگ نہ کرے۔۔۔۔۔میں یہ کہتا ہوں کہ تم خدا تعالیٰ کی ساری مخلوق سے ہمدردی کرو۔خواہ وہ کوئی ہو،ہندو ہو یا مسلمان یا کوئی اور۔
(ملفوظات جلد 4 صفحہ215)
جماعت احمدیہ عالمگیر کے چوتھے امام حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ پانچ بنیادی اخلاق کاذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ؛۔
چوتھی بات غریب کی ہمدری اور دکھ دور کرنے کی عادت ہے۔یہ بھی بچپن ہی سے پیدا کرنی چاہیے۔جن بچوں کو نرم مزاج مائیں غریب کی ہمدردی کا رجحان ان کی طبیعتوں میں پیدا کرتی ہیں وہ خداتعالی ٰ کے فضل کےساتھ مستقبل میں ایک عظیم الشان قوم پیدا کر رہی ہوتی ہیں۔ جو خیر امت بننے کی اہل ہو جاتی ہیں۔اس لیے انسانی ہمدردری کا پیدا کرنا نہ صرف نہایت ضروری ہے بلکہ اس کے بغیر آپ اپنے اس اعلی ٰ مقصد کا پا نہیں سکتے۔
(خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 764)
حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرماتے ہیں:
یہ جماعت احمدیہ کا ہی خاصہ ہے کہ جس حد تک توفیق ہے خدمت خلق کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے اور جو وسائل میسر ہیں ان کے اند ررہ کرجتنی خدمت خلق اور خدمت انسانیت ہو سکتی ہے کرتے ہیں، انفرادی طور پر بھی اور جماعتی طور پر بھی۔تو احباب جماعت کو جس حد تک توفیق ہے بھوک مٹانے کے لیے،غریبوں کے علاج کے لیے، تعلیمی امداد کےلیے، غریبوں کی شادیوں کے لیے، جماعتی نظام کے تحت مدد میں شامل ہو کر بھی عہد بیعت کو نبھاتے بھی ہیں اور نبھانا چاہیے بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ تعالی ٰ جماعت احمدیہ کو پہلے سے بڑھ کر خدمت انسانیت کی تو فیق عطا فرمایے۔
محض اللہ تعالی ٰ کے فضل اور خلیفة المسیح کی زیر ہدایات و نگرانی جماعت احمدیہ خدمت انسانیت کے لئے ہمہ تن کوشاں ہے۔
جماعت احمدیہ اپنے ادارہ ہیومنٹی فرسٹ کے تحت پاکستان کے دور دراز علاقہ جات تھر پارکر اور نگر پارکراور بیرون پاکستان افریقہ
اور امریکہ کےبعض دور افتادہ علاقہ جات میں ہسپتالوں کے قیام اوربجلی اور صاف پانی کی سہولیات فراہم کرنے کے لئے ہمہ تن کوشاں ہے۔پھرجماعت احمدیہ کی مجلس نصرت جہاں سکیم کے تحت افریقہ کے مختلف ممالک میں تعلیمی اور طبی سہولیات فراہم کرنےکے لئے کوششیں قابل ذکر ہیں۔پھر مختلف ذیلی تنظیموں کے تحت شعبہ خدمت خلق دکھی انسانیت کی مدد کے لئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے چاہے فلڈ ریلیز ہوں یا زلزلہ جات اور طوفان یہ شعبہ ہر طرح سےخدمت انسانیت میں سرگرم عمل رہتاہے۔پھر خدمت خلق کی ایک مثال مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کے تحت کام کرنے والے دو ادارے طاہر ہومیواینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور نورالعین قابل ذکر ہیں۔یہ تو صرف ایک جھلک ہے ورنہ جماعت احمدیہ کا ہر فر د واحد ہمیشہ خدمت خلق کےکاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتاہے۔
اللہ تعالی ٰ ہمیں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر خدمت خلق کے کاموں میں حصہ لینے کی تو فیق عطا فرماتا چلا جائے اور ہماری ان ادنی کاوشوں کو قبول فرماتا چلا جائے۔(آمین)
٭…٭…٭