خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 04؍ ستمبر 2020ء

عشرہ مبشرہ میں شامل آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت بدری صحابی حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

حضرت علیؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ طلحہ اور زبیر جنّت میں میرے ہم سائے ہوں گے

مکرم الحاج ابراہیم ممبائے صاحب نائب امیر سوم گیمبیا، مکرم نعیم احمد خان صاحب ابن عبدالجلیل خان صاحب نائب امیر کراچی اور مکرمہ بشریٰ بیگم صاحبہ اہلیہ ٹھیکیدار ولی محمد صاحب مرحوم آف جرمنی کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 04؍ ستمبر 2020ء بمطابق 04؍ تبوک 1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ  بنصرہ العزیزنےمورخہ 04؍ستمبر 2020ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم سفیر احمد صاحب کے حصے میں آئی۔

تشہد،تعوذ،تسمیہ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سورت اٰلِ عمران کی آیت نمبر173 اور اُس کا ترجمہ پیش کیا اور فرمایا:

صحابہ کا ذکر چل رہا تھااور حضرت زبیرؓ کا کچھ ذکر باقی تھا۔سورت اٰلِ عمران آیت 173کے متعلق حضرت عائشہؓ نے اپنے بھانجے عروہ سے کہا کہ تمہارے آبا یعنی زبیرؓ اور ابوبکرؓ اس آیت میں مذکور صحابہ میں سے ہیں۔ان اصحاب نے جنگِ احد میں رسول اللہﷺ کے زخمی ہونے اور کفّار کے پلٹ جانے کے بعد ؛باوجود زخمی ہونے کے حضورؐکے فرمان پر کفّار کا پیچھا کیا۔ حضرت علیؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ طلحہ اور زبیر جنّت میں میرے ہم سائے ہوں گے۔ عشرہ مبشرہ میں شامل حضرت زبیرؓ اُن کبار صحابہ میں سے تھے جو جنگ میں آپؐ کے آگے آگے اور نماز میں پیچھے کھڑے ہوتے۔حضرت مصلح موعودؓ کے بیان فرمودہ پندرہ کاتبینِ وحی صحابہ میں حضرت زبیرؓ بھی شامل ہیں۔ایک غزوے کے موقعے پر آنحضرتﷺ نے حضرت زبیرؓ کوخارش کی وجہ سے ریشم کی قمیص پہننے کی اجازت دی تھی۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ جب مدینے میں مکانوں کی حد بندی کی گئی تو رسول اللہﷺ نے حضرت زبیر کو سرکاری زمینوں میں سے اتنا بڑا ٹکڑا عطا فرمایا کہ جس میں زبیرؓ کا گھوڑا آخری سانس تک دوڑ سکے۔ حضورؓ کے اندازے کے مطابق یہ تقریباً بیس ہزار ایکڑ زمین بنتی ہے۔

جب اپنے عہدِ خلافت میں حضرت عثمانؓ نکسیر کی بیماری کی وجہ سے سخت بیمار ہوئے تو لوگوں نے آپؓ سے اپنے بعد خلیفہ مقرر کرنے کی درخواست کی۔ اس موقعے پر زبیرؓ کا نام سامنے آنے پر اُن کی نسبت حضرت عثمانؓ نے قسم کھا کرفرمایا کہ جہاں تک مجھے عِلْم ہےزبیر ان لوگوں میں یقیناً بہتر ہیں اوروہ رسول اللہﷺکو بھی سب سے زیادہ پیارے تھے۔

ایک مرتبہ کھیتوں کو سیراب کرنے والےپانی سے متعلق حضرت زبیرؓ کا ایک انصاری بدری صحابی سے اختلاف پیدا ہوگیا۔ رسول اللہ ﷺ نے بات ختم کرنے کے لیے فرمایا کہ زبیر تم اپنے کھیتوں کو سیراب کرکے اپنے پڑوسی کے لیے پانی چھوڑ دو۔ انصاری کو یہ بات ناگوار گزری اور اس نےکہا کہ زبیر آپؐ کے پھوپھی زاد ہیں اس لیے آپؐ یہ فیصلہ فرما رہے ہیں۔ اس پر نبی کریمﷺ کے چہرۂ مبارک کا رنگ بدل گیا اور آپؐ نے حضرت زبیر کوان کا پورا حق دلواتے ہوئے فرمایا کہ جب تک پانی منڈیر تک نہ پہنچ جائے اس وقت تک پانی کو روکے رکھو۔حضرت زبیرؓ فرماتے ہیں کہ آیتِ کریمہ فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ…الخ اسی تنازع کے پس منظر میں نازل ہوئی ہے۔یعنی تیرے ربّ کی قسم وہ کبھی ایمان نہیں لاسکتے جب تک وہ تجھے اُن اُمور میں منصف نہ بنالیں جن میں اُن کے درمیان جھگڑا ہوا ہے۔

حفص بن خالد سے مروی روایت کے مطابق حضرت زبیرؓ کا سارا جسم تلوار کے زخموں سے چھلنی تھا۔ دریافت کرنے پر آپؓ نے فرمایا کہ یہ سارے زخم مجھے اللہ کی راہ میں آنحضورﷺکے ہم راہ جنگ کرتے ہوئے آئے ہیں۔

حضرت عثمانؓ،حضرت مقدادؓ،حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے حضرت زبیر کو وصیت کر رکھی تھی چنانچہ وہ ان احباب کے مال کی حفاظت کرتے اور اپنے مال سے ان کے بچوں پر خرچ کرتے تھے۔زبیرؓ کے متعلق ذکر ملتا ہے کہ آپؓ کےایک ہزار غلام تھےجو انہیں خراج ادا کرتے اور آپؓ اس میں سے کچھ بھی گھر نہ لاتے اور سب کا سب صدقہ کردیتے۔حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ زبیر دین کے ستونوں میں سے ایک ستون ہیں۔

جنگِ جمل کے روز حضرت زبیرؓ نے اپنے بیٹے عبداللہ بن زبیر سے فرمایا کہ آج مَیں بحالتِ مظلومی قتل کیا جاؤں گا اور انہیں اپنے قرض کی ادائیگی کے متعلق ہدایات دیں۔زبیرؓ پر قرض اس طرح چڑھا تھا کہ جب کوئی شخص آپؓ کے پاس امانت رکھوانے آتا تو آپؓ رقم ضائع ہونے کے خطرے کے پیشِ نظروہ رقم بصورت قرض لے لیا کرتے۔ آپؓ کی وفات کے بعد حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے جب حساب لگایا تو بائیس لاکھ کا قرض تھا۔ حضرت زبیرؓ نے عبداللہ بن زبیر کو ہدایت کی تھی کہ اگر قرض کی ادائیگی میں تم عاجز آجاؤ تو میرے مولیٰ یعنی خدا تعالیٰ سے مدد مانگ لینا چنانچہ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ بیان کرتے ہیں کہ قرض کی ادائیگی میں جہاں مَیں مصیبت میں پڑا مَیں نے یہی کہا کہ اے زبیر کے مولیٰ! ان کا قرض ادا کردے اور اللہ تعالیٰ پھر کوئی نہ کوئی انتظام کردیتا۔ قر ض کی ادائیگی کے بعد بھی حضرت عبداللہ بن زبیر چار سال تک متواترزمانۂ حج میں منادی کرواتے رہے کہ جس کا زبیرؓ پر قرض ہو وہ ہمارے پاس آئے ہم اسے ادا کریں گے۔ اس کے بعد عبداللہ بن زبیر نے آپؓ کی میراث تقسیم کی۔ مختلف روایتوں کے مطابق ان کا پورا مال تین کروڑ باون لاکھ سے پانچ کروڑ بیس لاکھ تک بیان کیا جاتا ہے۔

انتخابِ خلافت حضرت علیؓ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ شہادتِ عثمان کے بعد مفسدین بھاگ کر حضرت علیؓ کے پاس گئے اور اسلامی حکومت کے ٹوٹ جانے کے سخت اندیشے کا اظہار کرکے آپؓ کو بیعت لینے پر مجبور کیا۔ بعدمیں ان ہی مفسدین میں سے ایک گروہ نے حضرت طلحہؓ اور زبیرؓکی زبردستی بیعت لی جو آپ دونوں اصحاب نے اس شرط پر کی کہ حضرت عثمانؓ کے خون کا فوری بدلہ لیا جائے گا اور بعد میں جب اس کام میں دیر ہوئی تو دونوں بیعت سے الگ ہوگئے اور مدینے سے چلے گئے۔قتلِ عثمان میں شریک شرپسندوں نے ہی حضرت عائشہؓ کو خروج پر ابھارا تھا۔ حضرت طلحہؓ اور زبیرؓ دونوں ابتداءً عائشہؓ کے ساتھ شامل ہوئے لیکن حضرت زبیرؓ،حضرت علیؓ کی زبان سے رسول اللہﷺ کی یہ پیش گوئی سن کر جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی علیحدہ ہوگئے کہ تم علی سے لڑو گے اور زیادتی تمہاری طرف سے ہوگی۔ حضرت طلحہؓ نے بھی اپنی وفات سے پہلے حضرت علیؓ کی بیعت کا اقرار کرلیا تھا۔

حضرت زبیرؓ کو ابنِ جرموز نے جنگِ جمل سے واپسی پرشہید کیا تھا۔ جب ابنِ جرموز حضرت علیؓ کے پاس حضرت زبیرؓ کا سر اور تلوار لایا تو آپؓ نے فرمایا کہ یہ وہ تلوار ہے جس سے رسول اللہﷺ کے چہرے کی بےچینی دُور ہوئی تھی لیکن اب یہ موت اور فساد کی قتل گاہوں میں ہے۔ پھر آپؓ نے ابنِ جرموز کو دوزخ کی وعید سنائی اور فرمایا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا تھا کہ ہر نبی کے حواری ہیں اور میرا حواری زبیر ہے۔ حضرت زبیرؓوادی سوا میں دفن ہوئے اور بوقتِ شہادت آپؓ کی عمر چونسٹھ، چھیاسٹھ یا ستاسٹھ برس تھی۔ آپؓ نے مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کیں اور کثرت کے ساتھ اولاد پیدا ہوئی۔حضورِانور نے حضرت زبیرؓ کی سات ازواج اور اٹھارہ بچوں کے نام بیان فرمائے۔

خطبے کےدوسرے حصّے میں حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تین مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔

پہلا ذکر الحاج ابراہیم ممبائے صاحب نائب امیر سوم گیمبیا کا تھا۔ مرحوم 10؍اگست کو 76برس کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

آپ نے1961ء یا1962ءمیں احمدیت قبول کی تھی۔ مرحوم کو بطور نائب امیر گیمبیا لمباعرصاخدمت کی توفیق ملی اس کے علاوہ افسر جلسہ سالانہ،نیشنل سیکرٹری امورِ خارجہ اور صدرمجلس انصاراللہ گیمبیا بھی رہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے سبب ملک و قوم کی بھی بہترین خدمات بجالاتے رہے۔ بڑے عبادت گزار، تلاوتِ قرآن کا شغف رکھنے والے، مالی قربانی میں پیش پیش اور خلافت کے وفادار عاشق تھے۔سوگواران میں دو بیگمات، سات بیٹے اور دوبیٹیاں شامل ہیں۔ مرحوم کی ایک اہلیہ صدر لجنہ اماء اللہ گیمبیا ہیں جبکہ ایک بیٹے صدر خدام الاحمدیہ رہ چکے ہیں۔ آپ کے ایک بیٹے واقفِ زندگی اور جامعة المبشرین سے فارغ التحصیل ہیں۔

دوسرا ذکرِ خیر مکرم نعیم احمد خان صاحب ابن عبدالجلیل خان صاحب نائب امیر کراچی کا تھا۔ اپریل کے آخر میں ان کی وفات ہوئی تھی۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

مرحوم خدام الاحمدیہ میں متعدد خدمات کے علاوہ قائد مجلس خدام الاحمدیہ کراچی اور پھر ناظم انصار اللہ ضلع کراچی بھی رہے۔ فضلِ عمر فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر بھی رہے۔ جلسہ سالانہ کے انتظامات میں روٹی پکانے کی مشینیں لگانے کا منصوبہ بنایا گیا تو اس میں بطور انجینئر خدمت کی توفیق ملی۔مرحوم تہجدگزار،عبادت کا شغف رکھنے والے،خلافت سے اخلاص و وفا کا تعلق نبھانے والےتھے۔

تیسرا ذکرِ خیر مکرمہ بشریٰ بیگم صاحبہ اہلیہ ٹھیکیدار ولی محمد صاحب مرحوم آف جرمنی کا تھا جو 19؍جولائی کو 74برس کی عمر میں وفات پاگئیں۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

ان کے دادا حضرت میاں نظام الدین صاحب آف نابھا حضرت مسیح موعودؑ کے صحابی تھے۔ بڑی تہجد گزار، مہمان نواز، ضرورت مندوں کا خیال رکھنے والی قرآن کریم سے بےپناہ محبت رکھنے والی خاتون تھیں۔ پسماندگان میں چار بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔ ان کے ایک بیٹے شفیق الرحمٰن صاحب مبلغ سلسلہ مشنری انچارج نیوزی لینڈ ہیں جو والدہ کے جنازے میں شامل نہیں ہوسکے۔دوسرے واقفِ زندگی بیٹے عتیق الرحمٰن صاحب پی۔ایس آفس میں خدمت کی توفیق پارہے ہیں۔

حضورِانورنے تمام مرحومین کی مغفرت اور بلندیٔ درجات کے لیے دعا کی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button