خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 28؍اگست2020ء
جماعتِ احمدیہ کسی فرقے یا مسلک کے فرق یا اختلافِ نظریات اور تشریح و تفسیر پر قائم ہونے والی جماعت نہیں ہے بلکہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق اور اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق آخری زمانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کے ذریعے قائم ہونے والی جماعت ہے
’’سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کروعلیٰ دِیْنٍ وَّاحِدٍ‘‘
مجھے حضرت علیؓ اور حضرت حسینؓ کے ساتھ ایک لطیف مناسبت ہے اور اس مناسبت کی حقیقت کو مشرق و مغرب کے رب کے سوا کوئی نہیں جانتا اور میں حضرت علی اور آپ کے دونوں بیٹوں سے محبت کرتا ہوں اور جو ان سے عداوت رکھے اس سے میں عداوت رکھتا ہوں
مسیح موعود اور حَکم و عدل کی جماعت اختلافات ختم کرنے کے لیے قائم ہوئی ہے
جب حالات بتا رہے ہیں کہ یہ وہ زمانہ ہے جس میں وہ نشانیاں جو قرآن و حدیث سے پتہ چلتی ہیں پوری ہو رہی ہیں یا ہو گئی ہیں تو کیوں نہ ہم اس حَکم اور عدل کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ِصادق کی تلاش کریں جو شیعہ سنی اور مختلف فرقوں اور مسلکوں کے اختلافات کو ختم کر کے ہمیں ایک بنانے والا ہے
اسلام کی اگر کوئی خدمت اس زمانے میں ہو سکتی ہے، اسلام کی حفاظت کی اگر خواہش ہے تو پھر اس جری اللہ کے ساتھ جڑ کر ہی ہو سکتی ہے جسے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لیے بھیجا ہے
ہماری کامیابی اب اسی میں ہے کہ زمانے کے امام اور مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت میں آ جائیں
اللہ تعالیٰ نے یہی مقدر کیا ہے کہ اس دفعہ ظاہری فتح بھی ان شاء اللہ تعالیٰ حسینی صفات رکھنے والوں کی ہو گی اور دشمن ناکام و نامراد ہوں گے
مسیح موعود اور حَکم و عدل کی جماعت اختلافات ختم کرنے کے لیے قائم ہوئی ہے اور باوجود مخالفتوں، مقدموں ،سختیوں اور گالیوں کے ہماری طرف سے ہر ایک کو امن اور سلامتی اور دعا کا ہی پیغام ہوتا ہے
حَکَم وعَدل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی تحریرات و ارشادات کی روشنی میں اہلِ بیت النبیﷺ اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی فضیلت کا بیان
محرّم کے ایام میں درود شریف کے ورد اور دیگر دعاؤں کی تحریک
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 28؍اگست2020ء بمطابق 28؍ظہور1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے موافق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں زمانے کے امام مسیح موعود اور مہدی معہود کو حَکم اور عدل بنا کر بھیجا ہے۔ وہ حَکم اور عدل جس نے اسلام کی حقیقی تعلیم کی روشنی میں تمام مسلمانوں کو امّتِ واحدہ بنانا تھا۔ جس نے مختلف مسالک اور فرقوں کی غلط تشریحات اور فروعی اختلافات کو دور کر کے امّتِ واحدہ بنانا تھا۔ جس نے مسلمانوں کو ایک وحدت عطا کرنی تھی۔ پس آج ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے ہر فرقے میں سے وہ لوگ جنہوں نے سنجیدگی سے غور کیا، اسلام کے مختلف فرقوں کے اختلافات کے درد کو محسوس کیا انہوں نے علم ،عقل اور دعاؤں سے کام لیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی جماعت میں شمولیت اختیار کی اور لاکھوں کی تعداد میں ہر سال یہ شامل ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ پس جماعتِ احمدیہ کسی فرقے یا مسلک کے فرق یا اختلافِ نظریات اور تشریح و تفسیر پر قائم ہونے والی جماعت نہیں ہے بلکہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق اور اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق آخری زمانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کے ذریعے قائم ہونے والی جماعت ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آ کر انہی اختلافات کو جو شیعہ، سنی کے درمیان ہیں یا کسی فرقے اور مسلک کے درمیان ہیں ختم کر کے امتِ واحدہ بننا ہے۔ مسلمانوں کو اسلام کی حقیقی تعلیم سے آگاہ کر کے ہم نے امتِ واحدہ بنانا ہے۔ اس کام کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام مبعوث ہوئے تھے۔ اسی کام کے لیے آپؑ نے جماعت کا قیام اللہ تعالیٰ کے حکم سے کیا اور اس کام کے کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاماً فرمایا کہ ’’سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کرو عَلٰی دِیْنٍ وَّاحِدٍ۔‘‘
(تذکرہ صفحہ490 ایڈیشن چہارم)
پس یہ کام جو اللہ تعالیٰ نے آپؑ کے سپرد فرمایا ہے یہی کام آپؑ کے بعد خلافت سے جڑ کر، اس کی بیعت میں آکر آپؑ کی قائم کردہ جماعت کا ہے اور یہی ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے گذشتہ ایک سو تیس سال سے کر رہے ہیں یا جب سے خلافت کا نظام شروع ہوا تو ایک سو بارہ سال سے کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے یہ کام کیا۔ اور نہ صرف مسلمانوں کو قرآن کریم،سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحیح احادیث زمانے کے امام اور حَکم اور عدل کی عارفانہ تشریح کی روشنی میں بتا رہے ہیں بلکہ غیر مسلموں کو بھی اسلام کی خوبصورت تعلیم بتا کر انہیں دائرۂ اسلام میں شامل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پس مسیح موعود اور حَکم و عدل کی جماعت اختلافات ختم کرنے کے لیے قائم ہوئی ہے اور باوجود مخالفتوں، مقدموں، سختیوں اور گالیوں کے ہماری طرف سے ہر ایک کو امن اور سلامتی اور دعا کا ہی پیغام ہوتا ہے۔ یقیناًً ہم نے حق کو پھیلانے اور حق بات کہنے سے نہیں رکنا اور اس کے لیے قربانیاں بھی دے رہے ہیں۔ لڑائی اور گالم گلوچ نہ ہماری طرف سے پہلے کبھی ہوئی نہ ہو گی۔ الٰہی جماعتوں کی مخالفتیں بھی ہوتی ہیں اور ان کو ظلم بھی سہنے پڑتے ہیں لیکن آخر کار اللہ تعالیٰ انہیں کامیابی عطا فرماتا ہے۔ ہم دعا بھی کرتے ہیں اور جیسا کہ مَیں نے کہا کہ کوشش بھی کرتے رہیں گے کہ زمانے کے امام کے پیغام کو ہر مذہب اور ہر ملک کے لوگوں میں پھیلاتے رہیں لیکن عامة المسلمین اور سنجیدہ طبع اور حق کے متلاشی اور فتنہ و فساد ختم کرنے کی خواہش رکھنے والے صاحب ِعلم اور عقل لوگوں سے بھی مَیں کہتا ہوں کہ اس بات پر غور کریں۔ ابتدا کی چند دہائیوں کے علاوہ شروع سے ہی مسلمان اختلافات میں مبتلا ہو کر سینکڑوں سال سے اپنی وحدت اور اکائی کو کمزور کرتے چلے آ رہے ہیں۔ آج کل ہم محرّم کے مہینے سے گزر رہے ہیں جو اسلامی سال کے کیلنڈر کا پہلا مہینہ ہے. انگریزی سال کے شروع ہونے پر ہم ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اسلامی سال کے شروع ہونے پر کئی مسلمان ملکوں میں اس فرقہ واریت کی وجہ سے قتل و غارت گری ہوتی ہے۔ وہ دین جو امن اور سلامتی کی اعلیٰ ترین تعلیم دینے والا دین ہے کیوں اس کے ماننے والے اپنے سال کا آغاز فتنہ و فساد اور قتل و غارت گری سے کرتے ہیں ؟ہمیں سوچنا چاہیے۔ ہمیں اپنے رویوں کو بدلنا چاہیے۔ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ کس طرح ہم مسلمانوں کو امتِ واحدہ بنا کر ان فسادوں اور دہشت گردیوں کو ختم کر سکتے ہیں؟ ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہمارے آقا و مطاع حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر اسلام کی ابتدا کی ترقی کے بعد ایک فیج اعوج کے زمانے کی خبر دی تھی تو پھر یہ خوشی کی خبر بھی دی تھی کہ خلافت علی منہاج نبوت قائم ہو گی۔ وہی معاملہ جس کی وجہ سے مسلمانوں میں اختلاف ہوا تھا وہی معاملہ آخری زمانے میں خلافت علی منہاج نبوت کے قیام کے بعد مسلمانوں کو امتِ واحدہ بنانے کا ذریعہ بھی بن جائے گا۔ مسلمانوں کی ترقی اور اکائی کا ایک روشن نشان بن جائے گا۔ پس جب حالات بتا رہے ہیں کہ یہ وہ زمانہ ہے جس میں وہ نشانیاں جو قرآن و حدیث سے پتہ چلتی ہیں پوری ہو رہی ہیں یا ہو گئی ہیں تو کیوں نہ ہم اس حَکم اور عدل کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ِصادق کی تلاش کریں جو شیعہ سنی اور مختلف فرقوں اور مسلکوں کے اختلافات کو ختم کر کے ہمیں ایک بنانے والا ہے۔ ان اندھے نام نہاد علماء کی تقلید نہ کریں جو خود بھی ڈوب رہے ہیں اور اپنے ساتھ ایک بڑی تعداد میں مسلمانوں کو بھی ڈبونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دیکھیں جب وہ نشانیاں پوری ہو گئیں جن میں قرآن اور حدیث سے پتہ چلتا ہے تو ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کون ہے، اسے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ کون ہے جو اسلام کی نشأة ثانیہ کا ذریعہ بنا کر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کھڑا کیا گیاہے۔ کسی کو کھڑا ہونا چاہیے۔ ہم احمدی کہتے ہیں کہ وہ بانیٔ جماعتِ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ہیں جن کے سپرد اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نشأة ثانیہ کا کام کیا ہے یا جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اسلام کی نشأة ثانیہ کروا رہا ہے یا کروائے گا جنہوں نے جھگڑوں اور فسادوں کو امن و سلامتی میں بدلنا ہے۔ پس ہم میں اگر عقل ہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم محرم کو صرف افسوس کرنے یا پھر اپنے بغضوں اور کینوں اور غصوں کو نکالنے کا مہینہ نہ بنائیں، صرف اپنے جذبات کے اظہار کا ذریعہ نہ بنائیں بلکہ ایک دوسرے سے محبت اور پیار کا مہینہ بنائیں۔ اس حقیقی تعلیم پر چلیں جو اسلام کی تعلیم ہے۔ اس رہ نما کے پیچھے چلیں جسے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حَکماور عدل کا مقام دیا ہے تبھی ہم حقیقی مسلمان کہلاسکتے ہیں۔ تبھی ہم دنیا کو اپنے پیچھے چلا سکتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ایک جگہ ایک عالم کو سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ
’’میری حیثیت ایک معمولی مولوی کی حیثیت نہیں ہے بلکہ میری حیثیت سنن انبیاء کی سی حیثیت ہے۔ مجھے ایک سماوی آدمی مانو پھر یہ سارے جھگڑے اور تمام نزاعیں جو مسلمانوں میں پڑی ہوئی ہیں ایک دم میں طے ہو سکتی ہیں۔ جو خدا کی طرف سے مامور ہو کر حَکم بن کر آیا ہے جو معنی قرآن شریف کے وہ کرے گا وہی صحیح ہوں گے اور جس حدیث کو وہ صحیح قرار دے گا وہی صحیح حدیث ہو گی۔ ورنہ شیعہ سنی کے جھگڑے آج تک دیکھو کب طے ہونے میں آتے ہیں۔‘‘ ابھی تک تو نہیں ہوئے۔ ’’شیعہ اگر تبرّا کرتے ہیں۔‘‘ یعنی تین خلفاء کو برا بھلا کہتے ہیں۔ ان کے بارے میں غلط الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ ’’تو بعض ایسے بھی ہیں۔‘‘ دوسروں میں سے ’’جو حضرت علی کرّم اللّٰہ وجھہ کی نسبت کہتے ہیں
بَر خلافت دِلَشْ بَسِے ماَئل
لِیکْ بُوبکر شُدْ دَرْمِیَاں حائل‘‘
کہ خلافت پر اس کا دل بہت مائل تھا لیکن ابوبکر اس میں حائل ہو گیا یعنی کہ ان کی خواہش تھی۔ فرماتے ہیں کہ ’’مگر مَیں کہتا ہوں کہ جب تک یہ اپنا طریق چھوڑ کر مجھ میں ہو کر نہیں دیکھتے یہ حق پر ہرگز نہیں پہنچ سکتے۔ اگر ان لوگوں کو اور یقیں نہیں تو اتنا تو ہونا چاہیے کہ آخر مرنا ہے اور مرنے کے بعد گند سے تو کبھی نجات نہیں ہو سکتی۔‘‘ آخر مرنا ہے اور مرنے کے بعد گند سے تو کبھی نجات نہیں ہو سکتی۔ ’’سبّ و شتم جب ایک شریف آدمی کے نزدیک پسندیدہ چیز نہیں ہے تو پھر خدائے قدوس کے حضور عبادت کب ہو سکتی ہے؟‘‘ انسان اسی طرح غلط کام کر رہا ہے، ظلم کر رہا ہے تو اس کی عبادت تو پھر اللہ کے حضور عبادت نہیں کہلا سکتی۔ اسی لیے فرمایا ’’اسی لیے تو میں کہتا ہوں کہ میرے پاس آؤ، میری سنو تا کہ تمہیں حق نظر آوے۔ میں تو سارا ہی چولہ اتارنا چاہتا ہوں۔ سچی توبہ کر کے مومن بن جاؤ۔‘‘ یہ جو بناوٹوں کا اور غلط عقائد کا چولہ پہنا ہوا ہے اس کو اتارو۔ سچی توبہ کرو تبھی مومن بن سکتے ہو۔ ’’پھر جس امام کے تم منتظر ہو مَیں کہتا ہوں وہ مَیں ہوں اس کا ثبوت مجھ سے لو۔‘‘
(ملفوظات جلد 2 صفحہ 140-141)
پس یہ ہے وہ حقیقت جس سے دین کا صحیح ادراک ہو سکتا ہے کہ آپس کے لڑائی جھگڑوں، اناؤں کو ختم کر کے پھر اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں۔ اس سے دعا کریں ۔حقیقی توبہ کریں اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب اپنے دل کو ہر ملونی سے صاف کر کے اللہ تعالیٰ کے آگے جھکا جائے پھر اللہ تعالیٰ صحیح رہنمائی فرماتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خلفائے راشدین کے مرتبہ و مقام اور بزرگی کو اس طرح بیان فرمایا ہے۔ ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں
’’مَیں تو یہ جانتا ہوں کہ کوئی شخص مومن اور مسلمان نہیں بن سکتا جب تک ابوبکر، عمر، عثمان، علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کا سا رنگ پیدا نہ ہو۔ وہ دنیا سے محبت نہ کرتے تھے بلکہ انہوں نے اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کی ہوئی تھیں۔‘‘
(ملفوظات جلد 8 صفحہ 260-261)
پس یہ مقام ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظر میں کہ حقیقی مومن اور مسلمان بننے کے لیے ان چاروں خلفاء کو اپنے لیے اسوہ بنانا ہوگا۔ جب یہ ہو تو پھر کہاں فرقہ اور کہاں مسلک؟ اس کی کیا بحث رہ جاتی ہے؟ پس جماعتِ احمدیہ کا تو یہ عقیدہ ہے کہ یہ سب ہمارے لیے نمونہ ہیں اور جب یہ عقیدہ ہو تو کیا جماعتِ احمدیہ ہی ایک ایسی جماعت نہیں رہ جاتی جو مسلمانوں کے درمیان تفریق ختم کر کے ان میں وحدت پیدا کرنے والی جماعت ہے۔ چاروں خلفائے راشدین کا ایک مقام اور مرتبہ ہے۔ ہر ایک کے مقام و مرتبہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مختلف جگہوں پر بڑی تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔ ہر ایک کے اس مقام کو پہچاننے کے لیے مَیں بعض اقتباسات پیش کرتا ہوں تا کہ نئے آنے والوں اور نوجوانوں کو بھی سمجھ آ جائے کہ ہمارا مسلک کیا ہے۔ کیا ہم یقین کرتے ہیں۔ کیا ہمارا عقیدہ ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
اُس زمانے میں بھی مسیلمہ نے یعنی ابتدا میں حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں مسیلمہ نے اباحت کے رنگ میں لوگوں کو جمع کر رکھا تھا۔ غلط قسم کے تشریحیں کر کے، غلط باتوں کو جائز قرار دے کر صرف لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لیے اپنے ساتھ ملایا ہوا تھا۔ فرمایا کہ ایسے وقت میں حضرت ابوبکرؓ خلیفہ ہوئے تو انسان خیال کرسکتا ہے کہ کس قدر مشکلات پیداہوئی ہوں گی۔ اگر وہ قوی دِل نہ ہوتا یعنی حضرت ابوبکرؓ اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایمان کا رنگ اس کے ایمان میں نہ ہوتا تو بہت ہی مشکل پڑتی اور گھبرا جاتا لیکن صدیق نبی کا ہم سایہ تھا۔ ہم،سایہ یعنی اس کا سایہ پڑ رہا تھا۔ آپؐ کے اخلاق کا اثر اس پر پڑا ہوا تھا اور دل نورِ یقین سے بھرا ہوا تھا۔ اس لیے وہ شجاعت اور استقلال دکھایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس کی نظیر ملنی مشکل ہے۔ ان کی زندگی اسلام کی زندگی تھی۔ یہ ایسا مسئلہ ہے کہ اس پر کسی لمبی بحث کی حاجت ہی نہیں۔ اس زمانہ کے حالات پڑھ لو اور پھر جو اسلام کی خدمت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کی ہے اس کا اندازہ کر لو۔ مَیں سچ کہتا ہوں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام کے لیے آدمِ ثانی ہیں۔ مَیں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابوبکرؓ کا وجود نہ ہوتا تو اسلام بھی نہ ہوتا۔ یعنی دشمن کے حملوں سے بچانے کے لیے، شریعت کو محفوظ کرنے کے لیے اس وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق کو ہی کھڑا کیا تھا اور آپؓ نے اسلام کے وجود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص تربیت اور خاص تعلق کی وجہ سے زندگی بخشی اور دشمن کے حملے کو ناکام و نامراد کیا۔ فرمایا کہ ابوبکر صدیق ؓکا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے اسلام کو دوبارہ قائم کیا۔ اپنی قوتِ ایمانی سے کُل باغیوں کو سزا دی اور امن کو قائم کردیا۔ اسی طرح پر جیسے خدا تعالیٰ نے فرمایا اور وعدہ کیا تھا کہ مَیں سچے خلیفہ پر امن کو قائم کروں گا۔ یہ پیشگوئی حضرت صدیق ؓکی خلافت پر پوری ہوئی اور آسمان نے اور زمین نے عملی طور پر شہادت دے دی۔ پس یہ صدیق کی تعریف ہے کہ اس میں صدق اس مرتبہ اور کمال کا ہونا چاہیے۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 1 صفحہ 380-381)
پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ کے اوصاف اور مقام کا ذکر کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا درجہ جانتے ہو کہ صحابہ میں کس قدر بڑا ہے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات ان کی رائے کے موافق قرآن شریف نازل ہو جایا کرتا تھا اور ان کے حق میں یہ حدیث ہے کہ شیطان عمرؓ کے سایہ سے بھاگتا ہے۔ دوسری یہ حدیث ہے کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمرؓ ہوتا۔ تیسری یہ حدیث ہے کہ پہلی امتوں میں محدث ہوتے رہے ہیں اگر اس امت میں کوئی محدث ہے تو وہ عمرؓ ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 219)
پھر ایک جگہ حضرت ابوبکرؓ ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان ؓ کا ذکر کرتے ہوئے مجموعی طور پرآپؑ نے فرمایا کہ
’’میرے رب نے مجھ پر یہ ظاہر کیا ہے کہ صدیق اور فاروق اور عثمان (رضی اللہ عنہم) نیکو کار اور مومن تھے اور ان لوگوں میں سے تھے جنہیں اللہ نے چن لیا اور جو خدائے رحمان کی عنایات سے خاص کیے گئے اور اکثر صاحبانِ معرفت نے ان کے محاسن کی شہادت دی۔ انہوں نے بزرگ و برتر خدا کی خوشنودی کی خاطر وطن چھوڑے۔ ہر جنگ کی بھٹی میں داخل ہوئے اور موسم گرما کی دوپہر کی تپش اور سردیوں کی رات کی ٹھنڈک کی پروا نہ کی بلکہ نوخیز جوانوں کی طرح دین کی راہوں پر محوِ خرام ہوئے اور اپنوں اور غیروں کی طرف مائل نہ ہوئے اور اللہ ربّ العالمین کی خاطر سب کو خیر باد کہہ دیا۔ ان کے اعمال میں خوشبو اور ان کے افعال میں مہک ہے اور یہ سب کچھ ان کے مراتب کے باغات اور ان کی نیکیوں کی گلستانوں کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور ان کی بادِ نسیم اپنے معطر جھونکوں سے ان کے اسرار کا پتہ دیتی ہے اور ان کے انوار اپنی پوری تابانیوں سے ہم پر ظاہر ہوتے ہیں۔‘‘
(سر الخلافہ اردو ترجمہ صفحہ 25-26۔ روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 326)
یہ جو بہت سارےحوالے ہیں ان میں سے جو مَیں پڑھ رہا ہوں ‘سرالخلافہ ’کے ہیں۔ یہ عربی کی کتاب ہے۔ عربی ترجمہ کرنے والے فی الحال تو شاید فوری طور پر اس معیار کا ترجمہ نہیں کر سکیں گے جب دوبارہ repeat ہو تو اصل کتاب سے یہ حوالے لے کترجمہ کر دیں۔
حضرت علیؓ کے محاسن اور آپؓ کے مقام کا ذکر کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں۔
’’آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تقویٰ شعار، پاک باطن اور ان لوگوں میں سے تھے جو خدائے رحمان کے ہاں سب سے زیادہ پیارے ہوتے ہیں اور آپؓ قوم کے برگزیدہ اور زمانے کے سرداروں میں سے تھے۔ آپؓ خدائے غالب کے شیر، خدائے مہربان کے جوانمرد، سخی، پاک دل تھے۔ آپؓ ایسے منفرد بہادر تھے جو میدانِ جنگ میں اپنی جگہ نہیں چھوڑتے خواہ ان کے مقابلے میں دشمنوں کی ایک فوج ہو۔ آپؓ نے ساری عمر تنگ دستی میں بسر کی اور نوعِ انسانی کے مقام زُہد کی انتہا تک پہنچے۔ آپؓ مال و دولت عطا کرنے، لوگوں کے ہمّ و غم دور کرنے اور یتیموں، مسکینوں اور ہمسایوں کی خبر گیری کرنے میں اول درجہ کے مرد تھے۔ آپؓ نے جنگوں میں طرح طرح کے بہادری کے جوہر دکھائے تھے۔ تیر اور تلوار کی جنگ میں آپ سے حیرت انگیز واقعات ظاہر ہوتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نہایت شیریں بیان اور فصیح اللسان بھی تھے۔ آپ کا بیان دلوں کی گہرائی میں اتر جاتا اور اس سے ذہنوں کے زنگ صاف ہو جاتے اور برہان کے نور سے اس کا چہرہ دمک جاتا۔ آپ قِسما قسم کے انداز بیان پر قادر تھے اور جو آپ سے ان میں مقابلہ کرتا تو اسے ایک مغلوب شخص کی طرح آپ سے معذرت کرنا پڑتی ۔آپ ہر خوبی میں اور بلاغت و فصاحت کے طریقوں میں کامل تھے اور جس نے آپؓ کے کمال کا انکار کیا تو اس نے بے حیائی کا طریق اختیار کیا۔‘‘
(سر الخلافہ اردو ترجمہ صفحہ 108 تا 110۔ روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 358)
پھر حضرت علی کے مقام اور خلافت کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں
’’اس میں ذرہ بھر شک نہیں کہ حضرت علیؓ متلاشیانِ (حق) کی امید گاہ اور سخیوں کا بے مثال نمونہ اور بندگانِ (خدا) کے لیے حجّۃ اللہ تھے۔ نیز اپنے زمانے کے لوگوں میں بہترین انسان اور ملکوں کو روشن کرنے کے لیے اللہ کے نور تھے لیکن آپ کی خلافت کا دور امن و امان کا زمانہ نہ تھا بلکہ فتنوں اور ظلم و تعدی کی تند ہواؤں کا زمانہ تھا۔ عوام الناس آپ کی اور ابن ابی سفیان کی خلافت کے بارے میں اختلاف کرتے تھے اور ان دونوں کی طرف حیرت زدہ شخص کی طرح ٹکٹکی لگائے بیٹھے تھے اور بعض لوگ ان دونوں کو آسمان کے فرقد نامی دو ستاروں کی مانند تصور کرتے تھے اور دونوں کو درجہ میں ہم پلّہ سمجھتے تھے لیکن سچ یہ ہے کہ حق (علی) مرتضیٰؓ کے ساتھ تھا اور جس نے آپؓ کے دور میں آپؓ سے جنگ کی تو اس نے بغاوت اور سرکشی کی۔‘‘
(سر الخلافہ اردو ترجمہ صفحہ 95-96)
پھر چاروں خلفائے راشدین کی اسلام اور قرآن کی حفاظت اور اس امانت کا حق ادا کرنے کے مقام کا ذکر فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’یہ عقیدہ ضروری ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت فاروق عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ذوالنورین‘‘ یعنی حضرت عثمان ’’رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سب کے سب واقعی طور پر دین میں امین تھے۔ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو اسلام کے آدم ثانی ہیں اور ایسا ہی حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما اگر دین میں سچے امین نہ ہوتے تو آج ہمارے لیے مشکل تھا جو قرآن شریف کی کسی ایک آیت کو بھی منجانب اللہ بتا سکتے۔‘‘
(مکتوباتِ احمد جلد 2 صفحہ 151 مکتوب نمبر 2 بنام حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ)
پھر ان چاروں خلفاء کا ذکر فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’خدا کی قسم وہ ایسے لوگ ہیں جو خیر الکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی خاطر موت کے میدانوں میں ڈٹ گئے اور اللہ کی خاطر انہوں نے اپنے باپوں اور بیٹوں کو چھوڑ دیا اور انہیں تیز دھار تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور اپنے پیاروں سے جنگ کی اور ان کے سر قلم کیے اور اللہ کی راہ میں اپنے نفیس اموال اور جانیں نثار کیں لیکن اس کے باوجود وہ اپنے اعمال کی قلّت پر روتے اور سخت نادم تھے۔‘‘ کوئی فخر نہیں تھا کہ ہم نے کوئی نیک عمل کیا ہے۔ ’’اور ان کی آنکھ نے بھرپور نیند کا مزہ نہیں لیا۔‘‘ کبھی نیند بھر کے نہیں سوئے ’’مگر بہت قلیل جو آرام کے لحاظ سے نفس کا لازمی حق ہے اور وہ نعمتوں کے دلدادہ نہیں تھے۔ پس تم کیسے خیال کرتے ہو کہ وہ ظلم کرتے تھے۔ مال غصب کرتے تھے۔ عدل نہیں کرتے تھے اور جَور و ستم کرتے تھے اور یہ ثابت ہو چکا ہے کہ وہ نفسانی خواہشات سے باہر آ چکے تھے اور وہ ہمیشہ آستانہ الٰہی پر گرے رہتے تھے اور وہ فنا فی اللہ لوگ تھے۔‘‘
(سر الخلافہ اردو ترجمہ صفحہ 32۔ روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 328)
پس یہ ادراک ہے جو ان چاروں خلفاء کے مقام و مرتبہ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ہمیں دیا اور یہی وہ مقام ہے جب ہر مسلمان ان بزرگوں کو دے گا تو حقیقی مسلمان کہلائے گا اور آپس کے اختلافات کو ختم کر کے امتِ واحدہ کا حصہ بنے گا ورنہ ہمارے اختلافات اسلام کو تو کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گے، ہاں دشمن ان سے ضرور فائدہ اٹھائے گا اور وہ فائدہ اٹھا رہا ہے۔ آج کل ہم یہی دیکھ رہے ہیں۔ پس اسلام کی اگر کوئی خدمت اس زمانے میں ہو سکتی ہے، اسلام کی حفاظت کی اگر خواہش ہے تو پھر اس جری اللہ کے ساتھ جڑ کر ہی ہو سکتی ہے جسے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لیے بھیجا ہے۔
جیسا کہ میں نے کہا آج کل ہم محرم کے مہینے سے گزر رہے ہیں۔ کل یا پرسوں دس محرم بھی ہے جس میں حضرت حسین ؓکی شہادت کے حوالے سے شیعہ اپنے جذبات کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ یقیناًً یہ ایک ظالمانہ فعل تھا جس طرح حضرت حسین کو شہید کیا گیا۔ جب ان جذبات کا اظہار شیعہ حضرات کرتے ہیں یا عام حالات میں بھی شیعہ حضرات کے حضرت حسینؓ کے بارے میں، حضرت علیؓ کے بارے میں جو جذبات ہیں تو عموماً ہمارےبارے میں یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے یا آپؑ کی جماعت نے خاندان نبوت کے مقام کو نہیں پہچانا۔ اس غلط فہمی کو جماعتِ احمدیہ ہمیشہ دور کرنے کی کوشش بھی کرتی رہی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت علیؓ کے بارے میں جو فرمایا ہے اور ابھی میں نے کچھ حوالے پیش بھی کیے ہیں۔ اس سے اس کی وضاحت بھی ہو جاتی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقام و مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی نظر میں کیا تھا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہ ہم اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ باقی تین خلفاء بھی برحق تھے۔ بہرحال اس وقت میں اس حوالے سے ،حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی تحریرات اور فرمودات کے حوالے سے بھی کچھ بیان کروں گاکہ آپؑ کی نظر میں خاندانِ نبوت کا کیا مقام تھا اور اس بارے میں آپ نے جماعت کو کیا نصیحت فرمائی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ’سر الخلافہ‘ میں حضرت علیؓ اور خاندان نبوت کے بارے میں یہ تحریر فرمایا ہے۔ حضرت علیؓ کے بارے میں فرمایا کہ آپؓ لاچاروں کی غم خواریوں کی جانب ترغیب دلاتے اور قناعت کرنے والوں اور خستہ حالوں کو کھانا کھلانے کا حکم دیتے۔ آپؓ اللہ کے مقرب بندوں میں سے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ آپؓ فرقانِ حمید کے جام معرفت نوش کرنے میں سابقین میں سے تھے۔ قرآن کریم کی معرفت بھی آپؓ کو حاصل تھی اور اس میں بہت بڑھے ہوئے تھے اور آپؓ کو قرآنی دقائق کے ادراک میں ایک عجیب فہم عطا کیا گیا تھا۔ فرمایا کہ میں نے عالم بیداری میں انہیں دیکھا یعنی حضرت علیؓ سے عالم بیداری میں، کشفی حالت میں نہ کہ نیند میں ملاقات ہوئی۔ پھر اسی حالت میں آپؓ نے یعنی حضرت علیؓ نے خدائے عَلَّام الغیوبکی کتاب کی تفسیر مجھے عطا کی اور فرمایا یہ میری تفسیر ہے اور یہ اب آپ کو دی جاتی ہے۔ پس آپ کو اس عطا پر مبارک ہو۔‘‘ جس پر میں نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور وہ تفسیر لے لی اور میں نے صاحبِ قدرت عطا کرنے والے اللہ کا شکر ادا کیا اور میں نے آپ کو یعنی حضرت علی کو خَلق میں متناسب اور خُلق میں پختہ اور متواضع، منکسر المزاج، تاباں اور منور پایا اور میں یہ حلفاً کہتا ہوں کہ آپؓ مجھ سے بڑی محبت و الفت سے ملے اور میرے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ آپؓ مجھے اور میرے عقیدے کو جانتے ہیں اور میں اپنے مسلک اور مشرب میں شیعوں سے جو اختلاف رکھتا ہوں وہ اسے بھی جانتے ہیں لیکن آپؓ نے کسی بھی قسم کی ناپسندیدگی یا ناگواری کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی مجھ سے پہلو تہی کی بلکہ وہ مجھے ملے اور مخلص مُحِبِّینکی طرح مجھ سے محبت کی اور انہوں نے سچے صاف دل رکھنے والے لوگوں کی طرح محبت کا اظہار فرمایا اور آپؓ کے ساتھ حسینؓ بلکہ حسنؓ اور حسینؓ دونوں اور سید الرسل خاتم النبیینؐ بھی تھے اور ان کے ساتھ ایک نہایت خوبرو، صالحہ، جلیلة القدر، بابرکت، پاکباز، لائق تعظیم، باوقار، ظاہر و باہر نورِ مجسّم جوان خاتون بھی تھیں جنہیں میں نے غم سے بھرا ہوا پایا لیکن وہ اسے چھپائے ہوئے تھیں اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ آپؓ حضرت فاطمة الزہراؓ ہیں۔ آپؓ میرے پاس تشریف لائیں اور میں لیٹا ہوا تھا۔ پس آپ بیٹھ گئیں اور آپ نے میرا سر اپنی ران پر رکھ لیا اور شفقت کا اظہار فرمایا اور میں نے دیکھا کہ وہ میرے کسی غم کی وجہ سے غم زدہ اور رنجیدہ ہیں ۔اور فرمایا کہ بچوں کی تکلیف کے وقت ماؤں کی طرح شفقت و محبت اور بےچینی کا اظہار فرما رہی ہیں۔
اس پر گندا ذہن مولوی جو ہیں یہ اعتراض کرتے رہتے ہیں کہ آپؑ نے لکھا ہے کہ حضرت فاطمہؓ نے میرا سر اپنی ران پہ رکھ لیا۔ بچے سے ایک ماں کی محبت کا اظہار جو ہوتا ہے یہ تواس کا بیان ہو رہا ہے لیکن ان گندے ذہنوں کو کیا کہے کوئی۔ اور عامة المسلمین ان کی باتیں سن کے سمجھتے ہیں کہ حضرت فاطمة الزہرا کی نعوذ باللہ ہتک کر دی حالانکہ آگے جا کے اس کی مزید وضاحت بھی ہو جائے گی کہ آپؑ فرما رہے ہیں کہ کس طرح آپؓ ایک ماں کا سلوک مجھ سے کر رہی ہیں۔
بہرحال پھر آپؑ فرماتے ہیں پھر مجھے بتایا گیا کہ دین کے تعلق میں ان کے نزدیک یعنی حضرت فاطمہؓ کے نزدیک میری حیثیت بمنزلہ بیٹے کے ہے اور میرے دل میں خیال آیا کہ ان کا غمگین ہونا اس امر پر کنایہ ہے جو میں قوم، اہلِ وطن اور دشمنوں سے ظلم دیکھوں گا۔ اس بات پر حضرت فاطمہ غمگین تھیں کہ میرے بیٹے کو یہ ظلم دیکھنا پڑے گا۔ پھر حسنؓ اور حسینؓ دونوں میرے پاس آئے اور بھائیوں کی طرح مجھ سے محبت کا اظہار کرنے لگے اور ہمدردوں کی طرح مجھے ملے۔ اور یہ کشف بیداری کے کشفوں میں سے تھا۔ اس پر کئی سال گزر چکے ہیں اور مجھے حضرت علیؓ اور حضرت حسینؓ کے ساتھ ایک لطیف مناسبت ہے اور اس مناسبت کی حقیقت کو مشرق و مغرب کے رب کے سوا کوئی نہیں جانتا اور میں حضرت علی اور آپ کے دونوں بیٹوں سے محبت کرتا ہوں اور جو اُن سے عداوت رکھے اُس سے میَں عداوت رکھتا ہوں اور بایں ہمہ میں جور و جفا کرنے والوں میں سے نہیں اور یہ میرے لیے ممکن نہیں کہ مَیں اس سے اِعراض کروں جو اللہ نے مجھ پر منکشف فرمایا اور نہ ہی میں حد سے تجاوز کرنے والوں سے ہوں۔
(سر الخلافہ اردو ترجمہ صفحہ 110 تا 112)
پھر ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’میں نے اس قصیدہ میں جو‘‘ مَیں نے ’’امام حسین رضی اللہ عنہ کی نسبت لکھا ہے یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت بیان کیا ہے یہ انسانی کارروائی نہیں۔‘‘ یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے بتایا گیا ہے۔ ’’خبیث ہے وہ انسان جو اپنے نفس سے کاملوں اور راستبازوں پر زبان دراز کرتا ہے۔ مَیں یقین رکھتا ہوں کہ کوئی انسان حسین جیسے یا حضرت عیسیٰ جیسے راستباز پر بدزبانی کر کے ایک رات بھی زندہ نہیں رہ سکتا اور وعید مَنْ عَادَ وَلِیًّا لِیْدست بدست اس کو پکڑ لیتا ہے۔ پس مبارک وہ جو آسمان کے مصالح کو سمجھتا ہے اور خدا کی حکمت عملیوں پر غور کرتا ہے۔‘‘
(اعجاز احمدی ضمیمہ نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 149)
یہ حدیث کا جو حوالہ آپ نے دیا اس سے مراد ہے جس نے میرے ولی سے دشمنی کی
مَنْ عَادَ لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ اٰذَنْتُہٗ بِالْحَرْبِ۔
(صحیح البخاری کتاب الرقاق باب التواضع حدیث 6502)
کہ جس نے میرے ولی سے دشمنی اختیار کی تو میں نے اس کے ساتھ اعلانِ جنگ کر دیا۔ کسی سے جب محبت کا اظہار ہوتا ہے اور محبت کا یہ اظہار جب ذاتی مجلس میں ہو جہاں اور کوئی نہ ہو تو وہ محبت کا اظہار دل کی آواز ہوتی ہے۔ ویسے تو پاک آدمی کا، جس کو اللہ تعالیٰ نے بہت زیادہ مقام دیا ہے ہر لفظ ہی دل کی آواز ہے لیکن معترض کے لیے یہ جاننا چاہیے کہ گھر میں بیٹھے ہوئے آپؑ کا کیا اظہار تھا۔ آپؑ نے صرف تحریرات میں یا فرمودات میں یا مجالس میں حضرت امام حسین کا ذکر بیان نہیں فرمایا یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے محبت کا اظہار ظاہری طور پر نہیں کیا بلکہ گھریلو مجلس میں بچوں کے ساتھ بیٹھ کر بھی ان جذبات کا اظہار کیا۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
’’رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسی عشق کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپؐ کی آل و اولاد اور آپؐ کے صحابہ کے ساتھ بھی بے پناہ محبت تھی۔ چنانچہ ایک دفعہ جب محرم کا مہینہ تھا اور حضرت مسیح موعودؑ اپنے باغ میں ایک چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے آپؑ نے ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم سلمہا اور ہمارے بھائی مبارک احمد مرحوم کو جو سب بہن بھائیوں میں چھوٹے تھے اپنے پاس بلایا اور فرمایا۔ ’’آؤ میں تمہیں محرم کی کہانی سناؤں۔‘‘ پھر آپؑ نے بڑے دردناک انداز میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے واقعات سنائے۔ آپؑ یہ واقعات سناتے جاتے تھے اور آپؑ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور آپؑ اپنی انگلیوں کے پوروں سے اپنے آنسو پونچھتے جاتے تھے۔ اس دردناک کہانی کو ختم کرنے کے بعد آپؑ نے بڑے کرب کے ساتھ فرمایا ’’یزید پلید نے یہ ظلم ہمارے نبی کریمؐ کے نواسے پر کروایا ۔مگر خدا نے بھی ان ظالموں کو بہت جلد اپنے عذاب میں پکڑ لیا۔‘‘ اس وقت آپؑ پر عجیب کیفیت طاری تھی اور اپنے آقاؐ کے جگر گوشہ کی المناک شہادت کے تصور سے آپؑ کا دل بہت بے چین ہو رہا تھا اور یہ سب کچھ رسولِ پاکؐ کے عشق کی وجہ سے تھا۔‘‘
(سیرت طیبہ ازحضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ36-37)
اس بارے میں خود حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ؓبھی ایک جگہ اسی واقعہ کو بیان فرماتی ہیں کیونکہ ان کے ساتھ یہ ہوا تھا ۔کہتی ہیں:آپؑ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام باغ میں چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ مَیں اور مبارک نے ایک کچھوا پکڑا ۔آپؑ کو دکھلانے کے لیے لائے۔ آپ نے اس کو تو نظر انداز کیا اور پھر فرمایا کہ آؤ مَیں تمہیں محرّم کی کہانی سناؤں۔ پھر کہتی ہیں ہم دونوں پاس بیٹھ گئے۔ یہ ماہ محرم کا پہلا عشرہ تھا۔ آپؑ نے شہادت حضرت امام حسین علیہ السلام کے واقعات سنانا شروع کیے۔ فرمایا وہ ہمارے نبی کریمؐ کے نواسے تھے۔ ان کو منافقوں نے، ظالموں نے بھوکا پیاسا کربلا کے میدان میں شہید کر دیا۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیان فرما رہی ہیں کہ پھر فرمایا اس دن آسمان سرخ ہو گیا تھا۔ چالیس روز کے اندر قاتلوں، ظالموں کو خدا تعالیٰ کے غضب نے پکڑ لیا۔ کوئی کوڑھی ہو کر مرا۔ کسی پر کوئی عذاب آیا اور کسی پر کوئی۔ یزید کے ذکر پر، یزید پلید فرماتے تھے۔ کافی لمبے واقعات آپؑ نے سنائے۔ حالت یہ تھی کہ آپؑ پر رقّت طاری تھی۔ آنسو بہنے لگتے تھے جن کو اپنی انگشت شہادت سے پونچھتے جاتے تھے۔
(ماخوذ از تحریراتِ مبارکہ از حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ ،صفحہ222)
اس ظلم کی داستان کو جب انسان سنتا ہے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جب دشمن نے غلبہ پا لیا تو لکھا ہے کہ حضرت امام حسینؓ نے اپنے گھوڑے کا رخ دریائے فرات کی طرف کیا یا کرنے کی کوشش کی تو آپؓ کا راستہ روک لیا گیا۔ ایک شخص نے آپ کو تیر مارا جو آپ کی ٹھوڑی کے اوپر آ کے لگا بڑا گہرا زخم ہو گیا۔ پھر حملہ آوروں نے مزید حملے کیے اور آپ کو شہید کر دیا۔ راوی بیان کرتا ہے کہ میں نے شہادت سے قبل آپؓ کو یہ کہتے سنا کہ اللہ کی قسم ! میرے بعد بندگانِ خدا میں سے کسی بھی ایسے بندے کو قتل نہیں کرو گے جس کے قتل پر میرے قتل سے زیادہ خدا تعالیٰ تم پر ناراض ہو۔ پھر حضرت امام حسینؓ نے فرمایا کہ واللہ! مجھے تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ذلیل کر کے مجھ پر کرم کرے گا اور پھر میرا انتقام تم سے اس طرح لے گا کہ تم حیران رہ جاؤ گے۔ ان ظالموں نے آپؓ سے اور آپؓ کے خاندان سے کیا سلوک کیا۔ شہید کیا اور شہید کرنے کے بعد پھر خیموں کو لُوٹا۔ عورتوں کے سروں سے چادریں اتاریں۔ شہید کرنے کے بعد ان کے کمانڈر نے بلایا کہ حضرت امام حسین کی نعش لٹائی ہوئی ہے اس نعش پر سے کون گھوڑوں سمیت گزرے گا اور دس گھوڑے تیار ہوئے اور ان کو گزار کر نعش کو پامال کیا گیا۔ آپ کی کمر کی ہڈیوں کو اور پسلیوں کو چکنا چور کر دیا گیا۔ ایک روایت کے مطابق آپ کے جسم پر تینتیس زخم نیزے اور تینتالیس زخم تلوار کے تھے اور تیروں کے زخم اس کے علاوہ تھے۔ پھر آپ کا سر کاٹ کر گورنر کے پاس بھیجا گیا اور اس نے یہ سر کوفے میں نصب کروایا۔
(تاریخ طبری جلد 4 مترجم صفحہ 253 تا 257، 260 مطبوعہ دار الاشاعت کراچی 2003ء)
(تاریخ اسلام حصہ دوم از اکبر شاہ نجیب آبادی صفحہ 76 نفیس اکیڈیمی اردو بازار کراچی 1998ء)
ظلم کی انتہا ہے! کوئی خبیث ترین دشمن بھی اس طرح نہ کرے۔ یہ تو مختصر میں نے بیان کیا ہے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بیان فرما رہے تھے تو اس وقت اس واقعہ پہ غم سے آپؑ کے آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی تھی۔ پس کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہم نعوذ باللہ خاندانِ نبوت سے محبت نہیں کرتے یا اس کا ادراک نہیں رکھتے بلکہ ایک موقعے پر جب آپ کو ایک موقع پہ پتہ لگا کہ کسی نے حضرت امام حسینؓ کے بارے میں غلط الفاظ استعمال کیے ہیں آپ نے سختی سے جماعت کو بھی نصیحت فرمائی۔ چنانچہ آپؑ نے فرمایا کہ
’’واضح ہو کہ کسی شخص کے ایک کارڈ کے ذریعہ سے‘‘ جو پوسٹل کارڈ ہوتا ہے اس کے ذریعے سے ’’مجھے اطلاع ملی ہے کہ بعض نادان آدمی جو اپنے تئیں میری جماعت کے طرف منسوب کرتے ہیں، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی نسبت یہ کلمات منہ پر لاتے ہیں کہ نعوذ باللہ حسینؓ بوجہ اس کے کہ اس نے خلیفۂ وقت یعنی یزید سے بیعت نہیں کی باغی تھا اور یزید حق پر تھا۔‘‘ آپ نے فرمایا
’’لَعْنَتُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔
مجھے امید نہیں کہ میری جماعت کے کسی راستباز کے منہ سے ایسے خبیث الفاظ نکلے ہوں مگر ساتھ اس کے مجھے یہ بھی دل میں خیال گزرتا ہے کہ چونکہ اکثر شیعہ نے اپنے وِرد تبرّے اور لعن و طعن میں مجھے بھی شریک کر لیا ہے اس لیے کچھ تعجب نہیں کہ کسی نادان بے تمیز نے سفیہانہ بات کے جواب میں سفیہانہ بات کہہ دی ہو جیسا کہ بعض جاہل مسلمان کسی عیسائی کی بدزبانی کے مقابل پر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کرتا ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت کچھ سخت الفاظ کہہ دیتے ہیں۔ بہرحال میں اس اشتہار کے ذریعہ سے اپنی جماعت کو اطلاع دیتا ہوں کہ ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ یزید ایک ناپاک طبع دنیا کا کیڑا اور ظالم تھا اور جن معنوں کی رو سے کسی کو مومن کہا جاتا ہے وہ معنے اس میں موجود نہ تھے۔ مومن بننا کوئی امر سہل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے شخصوں کی نسبت فرماتا ہے
قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْا اَسْلَمْنَا (الحجرات:15)
مومن وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے اعمال ان کے ایمان پر گواہی دیتے ہیں۔ جن کے دل پر ایمان لکھا جاتا ہے اور جو اپنے خدا اور اس کی رضا کو ہر ایک چیز پر مقدم کر لیتے ہیں اور تقویٰ کی باریک اور تنگ راہوں کو خدا تعالیٰ کے لیے اختیار کرتے اور اس کی محبت میں محو ہو جاتے ہیں اور ہر ایک چیز جو بُت کی طرح خدا سے روکتی ہے خواہ وہ اخلاقی حالت ہو یا اعمال فاسقانہ ہوں یا غفلت اور کسْل ہو سب سے اپنے تئیں دور تر لے جاتے ہیں لیکن بدنصیب یزید کو یہ باتیں کہاں حاصل تھیں۔ دنیا کی محبت نے اس کو اندھا کر دیا تھا مگر حسین رضی اللہ عنہ طاہر مطہر تھا اور بلا شبہ وہ ان برگزیدوں میں سے ہے جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنی محبت سے معمور کر دیتا ہے اور بلاشبہ وہ سردارانِ بہشت میں سے ہے اور ایک ذرّہ کینہ رکھنا اس سے موجب سلب ایمان ہے اور اس امام کی تقویٰ اور محبتِ الٰہی اور صبر اور استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لیے اسوۂ حسنہ ہے اور ہم اس معصوم کی ہدایت کے اقتداکرنے والے ہیں جو اس کو ملی تھی۔ تباہ ہو گیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے اورکامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے اور اس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقویٰ اور استقامت اور محبت الٰہی کے تمام نقوش انعکاسی طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندر لیتا ہے جیسا کہ ایک صاف آئینہ میں ایک خوبصورت انسان کا نقش۔ یہ لوگ دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں۔ کون جانتا ہے ان کا قدر مگر وہی جو اُن میں سے ہیں۔ دنیا کی آنکھ وہ شناخت نہیں کر سکتی کیونکہ وہ دنیا سے بہت دور ہیں۔ یہی وجہ حسینؓ کی شہادت کی تھی کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا۔ دنیا نے کس پاک اور برگزیدہ سے اُس کے زمانہ میں محبت کی تا حسینؓ سے بھی محبت کی جاتی۔ غرض یہ امر نہایت درجہ کی شقاوت اور بے ایمانی میں داخل ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کی تحقیر کی جائے اور جو شخص حسینؓ یا کسی اور بزرگ کی جو ائمہ مطہرین میں سے ہے تحقیر کرتا ہے یا کوئی کلمہ استخفاف کا ان کی نسبت اپنی زبان پر لاتا ہے وہ اپنے ایمان کو ضائع کرتا ہے کیونکہ اللّٰہ جلّ شانُہٗ اس شخص کا دشمن ہو جاتا ہے جو اس کے برگزیدوں اور پیاروں کا دشمن ہے۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ653-654 اشتہار نمبر 270 ’تبلیغ الحق‘ مطبوعہ ربوہ)
پس یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ یہ سب کچھ سننے کے بعد ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو کہیں کہ آل محمدؐ سے محبت نہیں تھی۔ جس محبت کا ادراک آپؑ کو تھا وہ کسی اَور کو نہیں ہو سکتا اور یہی آپؑ نے فرمایا بھی ہے ۔لیکن جہاں شیعہ غُلّو کی حد تک گئے ہیں وہاں ان کو حقیقت بھی آپ نے بتائی ہے اور جہاں سُنّی غلط ہوئے وہاں انہیں بھی بتایا کہ اصلاح کرو ۔اور یہی حَکم اور عدل کا کام ہے اور اسلام کی حقیقی تعلیم کے پھیلانے اور رائج کرنے کے اسی کام کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھیجا تھا لیکن اس کے باوجود یہ جو دونوں بڑے فرقے ہیں یہ احمدیوں کو ہی بُرا کہتے ہیں، ہمیں ہی ظلموں کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود ہم نے صبر و استقامت سے اس کام کو جاری رکھنا ہے جو ہمارے سپرد ہے جس کے لیے ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی ہے کہ حقیقی اسلام کو دنیا میں پھیلائیں۔ اس نمونے کو سامنے رکھیں جو حضرت امام حسینؓ نے ہمیں دکھایا۔
حضرت مصلح موعود ؓنے اپنے ایک شعر میں فرمایا تھا کہ
وہ تم کو حسین بناتے ہیں اور آپ یزیدی بنتے ہیں
یہ کیا ہی سستا سودا ہے دشمن کو تیر چلانے دو
(کلام محمودؓ صفحہ 154)
پس ہماری قربانیاں تو ان شاء اللہ اس مرتبہ رائیگاں نہیں جائیں گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ مجھے جو حسین سے نسبت تو ہے لیکن نتیجہ وہ نہیں نکلے گا۔ اب جو اس دفعہ نتیجے ہیں وہ اس کے الٹ ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہی مقدر کیا ہے کہ کامیابی ملے۔ اس لیے اس دفعہ جو فتح ہے، ظاہری فتح بھی ان شاء اللہ تعالیٰ، وہ حسینی صفات رکھنے والوں کی ہو گی اور دشمن ناکام و نامراد ہوں گے۔
(ماخوذ از الفضل انٹرنیشنل 31؍ دسمبر 2010ء صفحہ 8، خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 10؍ دسمبر 2010ء)
(ماخوذ از خطباتِ مسرور جلد 8 صفحہ 635-636، خطبہ بیان فرمودہ 10 دسمبر 2010ء)
پس اس کے لیے آج کل، خاص طور پر اس مہینے میں اور ہمیشہ بھی جبکہ دشمنی بھی آج کل خاص طور پر پاکستان میں بھی اور دوسری جگہوں پہ بھی اپنے عروج پر اور زوروں پر ہے ہمیں چاہیے کہ دعاؤں پر بہت زور دیں۔ درود شریف پڑھنے پر بہت زور دیں اور جتنا اللہ تعالیٰ کے حضور ہم جھکیں گے اتنا ہی جلدی اللہ تعالیٰ ہمیں فتح نصیب کرے گا، کامیابی و کامرانی نصیب فرمائے گا۔ ان دنوں میں خاص طور پہ دوسرے مسلمانوں کے لیے بھی دعا کریں۔ وہ مسلمان فرقے ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے پر لگے ہوئے ہیں اور ان دنوں میں خاص طور پر جب دس محرّم آتی ہے تو تاریخ ابھی تک تو یہی بتا رہی ہے کہ کہیں نہ کہیں امام بارگاہوں پہ اور تعزیوں پہ یا مختلف جگہوں پہ حملے بھی ہوتے ہیں اور پھر کئی لوگوں کو شہید کیا جاتا ہے، دین کے نام پر شہید کیا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ عقل دے اور کم از کم اس سال ایسی اطلاع کہیں سے کسی بھی ملک سے نہ ملے کہ جہاں مسلمانوں نے مسلمانوں کو مارا ہو اور یہ مسلمان اس حقیقت کو بھی جلد پہچاننے والے ہوں کہ اسلام کی جو فتح اللہ تعالیٰ نے مقدر کی ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ذریعے سے ہی کی ہے اور ان کو یہ سمجھ آ جائے کہ ہماری کامیابی اب اسی میں ہے کہ زمانے کے امام اور مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت میں آ جائیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو توفیق بھی عطا فرمائے۔
(الفضل انٹرنیشنل 18 ستمبر 2020ءصفحہ 5تا9)