احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
ولادت باسعادت
بانی سلسلہ احمدیہ سیدنا حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰة والسلام 14؍شوال 1250ھ بمطابق 13فروری 1835ء بروز جمعۃ المبارک طلوع فجر کے بعدقادیان ضلع گورداسپور (بھارت ) میں پیدا ہوئے۔ آپؑ کے والد ماجد کا نام نامی حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحبؒ اور والدہ ماجدہ کا نام حضرت چراغ بی بی صاحبہؒ تھا۔
آپؑ کا نام نامی مرزا غلام احمد علیہ السلام قادیانی اور کنیت ابومحموداحمد تھی۔
(مأخوذ از لجۃ النور، روحانی خزائن جلد16صفحہ337)
البتہ بعض دیگرشواہد کی روشنی میں آپؑ کی تاریخ پیدائش 17؍فروری 1832ء بھی ہوسکتی ہے ۔اور اس حساب سے 75برس کی عمرمیں آپ کی وفات ہوئی اوریہ عمرحضورؑ کی اپنی اس تحریرکے زیادہ قریب ہے جس میں آپؑ لکھتے ہیں ’’جو ظاہر الفاظ وحی کے وعدہ کے متعلق ہیں ۔وہ توچہتر 74اورچھیاسی 86 کے اندر اندر عمر کی تعین کرتے ہیں۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد21ص259)
پیدائش میں ندرت
حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی طرح آپ کی پیدائش میں بھی ندرت اور معجزانہ رنگ تھا۔ عالم اسلام کے مشہور صوفی حضرت محی الدین ابن عربیؒ کی ایک پیشگوئی کے مطابق آپؑ توام (Twins)پیدا ہوئے تھے۔(حضرت ابن عربیؒ نے لکھاہے کہ امام مہدی توام یعنی Twin پیداہوگا۔ شرح فصوص الحکم صفحہ44)
آپؑ سے پہلے ایک لڑکی جس کا نام ’جنت‘ تھا پیدا ہوئی جو چند روز زندہ رہنے کے بعد فوت ہوگئی اور یوں خداتعالیٰ نے اس بطل جلیل سے انثیت اورکمزوری کا مادہ پیداہوتے ہی الگ فرمادیا۔
آپؑ کی دایہ اور رضاعت
آپؑ کی دایہ کانام لاڈو تھا۔[ سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 262]اسی طرح دوبچوں کے لئے ماں کا دودھ کافی نہ ہونے کی بنا پر حضرت اقدس علیہ السلام کو آپؑ کی حقیقی چچی صاحب جان صاحبہ نے چند دن دودھ پلایا۔
آپؑ کے بہن بھائی
حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کے ہاں سب سے پہلے ایک لڑکا پیداہوا تھا جو چھوٹی عمر میں ہی فوت ہوگیا۔اس کے بعد ایک لڑکی پیداہوئی جو آپؑ کی سب سے بڑی ہمشیرہ تھیں۔ان کانام مراد بیگم صاحبہؒ تھا، جو مرزا غلام غوث ہوشیارپوری صاحب کے عقد زوجیت میں آئیں۔ تیسرے نمبر پر پیداہونے والے صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب مرحوم تھے۔جو کہ 1828ء میں پیداہوئے۔[اور1883ء میں 55 سال کی عمر میں وفات پائی ]
پھر ایک یا دوبھائی اَور پیداہوئے اور چھٹے یا ساتویں نمبر پر وہ بیٹا پیداہوا جس کے ساتھ اب ساری دنیا کی تقدیریں وابستہ کردی گئی تھیں۔بعض روایات سے معلوم ہوتاہے کہ آپؑ کی پیدائش سے پہلے پیدا ہونے والے ایک یا دو بچے پیداہونے کے کچھ عرصہ بعد ہی فوت ہوتے رہے۔جس کی بناپر آپؑ کی والدہ ماجدہ حضرت چراغ بی بی صاحبہ کو بہت دکھ تھا اوربڑی شدید خواہش تھی کہ ان کا کوئی بیٹا ہوجو زندگی پانے والا ثابت ہو۔
حضرت مولوی عبدالرحیم دردصاحب مصنف ’’لائف آف احمد‘‘ اپنی کتاب کے صفحہ27پر لکھتے ہیں
“It is said that Charagh Bibi, the wife of Mirza Ghulam Murtaza, had been long praying for a son who would live long when Hazrat Mirza Ghualm Ahmad was born…”
(Life of Ahmad by A.R.Dard page 27)
ترجمہ کہا جاتا ہے کہ (حضرت )چراغ بی بی صاحبہ ایک لمبے عرصہ سے ایک ایسے بیٹے کے لئے دعا مانگ رہی تھیں جو لمبی عمر پائے چنانچہ اس کے بعد حضرت مرزا غلام احمد صاحب پیدا ہوئے۔
اس کی تائید سیرت المہدی کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے۔حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحبؓ موٴلف سیرت المہدی بیان فرماتے ہیں
’’… والدہ صاحبہ (رضی اللہ عنہا)نے بیان کیا کہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے سنا ہوا ہے کہ تمہارے تایا [مرزا غلام قادرصاحب۔ناقل]کے بعد تمہارے داد ا کے ہاں دو لڑکے پیدا ہو کر فوت ہوگئے تھے۔ اسی لئے میں نے سنا ہے کہ حضرت صاحب کی ولادت پر آپ کے زندہ رہنے کے متعلق بڑی منتیں مانی گئی تھیں اور گویا ترس ترس کر حضرت صاحب کی پرورش ہوئی تھی۔ اگر تمہارے تایااورحضرت صاحب کے درمیان کوئی غیر معمولی وقفہ نہ ہوتا یعنی بچے پیدا ہوکر فوت نہ ہو تے تو اس طرح منتیں ماننے اور ترسنے کی کوئی وجہ نہ تھی پس ضرور چند سال کا وقفہ ہوا ہوگا اور مرزا سلطان احمد صاحب بیان کر تے ہیں کہ شاید پانچ یا سات سال کا وقفہ تھا۔اور والد ہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ مجھے جہاں تک یاد ہے وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے تمہارے داد ا کے ہاں ایک لڑکا ہوا جو فوت ہوگیا پھر تمہاری پھوپھی مراد بی بی ہوئیں پھر تمہارے تایا پیدا ہوئے پھر ایک دو بچے ہو ئے جو فوت ہو گئے پھر حضر ت صاحب اور جنت توام پیدا ہوئے اور جنت فوت ہوگئی اور والدہ صاحبہ کہتی ہیں کہ تمہاری تائی کہتی تھیں کہ تمہارے تایا اور حضرت صاحب اوپر تلے کے تھے مگر جب میں نے منتیں ماننے اور ترسنے کا واقعہ سنا یا تو انہوں نے اسے تسلیم کیا مگر اصل امر کے متعلق خاموش رہیں۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر212)
آپؑ کے بہن بھائیوں کا مختصر تذکرہ
قبل اس کے کہ حضرت اقدس علیہ السلام کی ولادت باسعادت اوربچپن کا کچھ ذکر کیا جائے۔ مناسب معلوم ہوتاہے کہ حضرت اقدسؑ کے بہن بھائیوں کا کچھ تعارف پیش کیاجائے۔
جیسا کہ بیان ہواہے کہ آپؑ کے علاوہ آپؑ کی صرف ایک بہن اور ایک بھائی نسبتاً لمبی عمر پانے والے ثابت ہوئے۔ان دونوں کا کچھ تعارف درج ذیل ہے۔
حضرت مرادبیگم صاحبہؒ
آپؑ کی سب سے بڑی ہمشیرہ کانام مراد بیگم صاحبہؒ تھا، جو مرزا غلام غوث ہوشیارپوری کے عقد زوجیت میں آئیں۔[یہ محمدی بیگم صاحبہ کے والد احمدبیگ کے بھائی تھے ] لیکن جوانی میں ہی بیوہ ہوگئیں۔ یہ بڑی عابدہ اور صاحب روٴیا و کشف خاتون تھیں۔سیرت المہدی میں ایک اور روایت یوں آئی ہے۔
’’بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولو ی رحیم بخش صاحب ایم۔اے، کہ والد صاحب کی ایک بہن ہوتی تھیں ان کو بہت خواب اور کشف ہوتے تھے۔ مگر دادا صاحب کی ان کے متعلق یہ رائے تھی کہ ان کے دماغ میں کو ئی نقص ہے۔ لیکن آخر انہوں نے بعض ایسی خوابیں دیکھیں کہ دادا صاحب کو یہ خیال بدلنا پڑا۔ چنانچہ انہوں نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ کوئی سفید ریش بڈھا شخص ان کو ایک کاغذ جس پر کچھ لکھا ہوا ہے بطور تعویذ کے دے گیا ہے۔جب آنکھ کھلی تو ایک بھوج پتر کا ٹکڑا ہاتھ میں تھا جس پر قرآن شریف کی بعض آیات لکھی ہو ئی تھیں۔پھر انہوں نے ایک اور خواب دیکھا کہ وہ کسی دریا میں چل رہی ہیں جس پر انہوں نے ڈر کر پانی پانی کی آواز نکالی اور پھر آنکھ کھل گئی۔دیکھا تو ان کی پنڈلیاں تر تھیں اور تازہ ریت کے نشان لگے ہو ئے تھے۔ داداصاحب کہتے تھے کہ ان باتوں سے خلل دماغ کو کوئی تعلق نہیں۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر199)
سیرت المہدی میں حضرت ام المومنینؓ کی ایک روایت درج ہے کہ
’’…حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہماری بڑی ہمشیرہ کو ایک دفعہ کسی بزرگ نے خواب میں ایک تعویذ دیا تھا۔بیدار ہوئیں تو ہاتھ میں بھوج پتر پر لکھی ہوئی سورة مریم تھی۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر46)
(حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحبؓ یہ روایت درج کرنے کے بعد رقم فرماتے ہیں کہ
’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے یہ بھوج پتر دیکھا ہے جو اَب تک ہماری بڑی بھاوج صاحبہ یعنی والدہ مرزا رشید احمد صاحب کے پاس محفوظ ہے‘‘)
خاکسارمصنف کتاب ہٰذا عرض کرتاہے کہ یہ بھوج پتر آج کل صاحبزادہ مرزا انوراحمد صاحب ابن سیدنا حضرت مرزا بشیرالدین محموداحمدصاحب خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے گھر میں ہے۔ اورخاکسار کو استاذی المحترم حضرت سیدمیرمحموداحمدناصر صاحب ابن حضرت سیدمیرمحمداسحاق صاحبؓ نے خودبتایا تھا کہ انہوں نے یہ بھوج پتر دیکھاہے۔بلکہ محترم میرصاحب کی شفقت اورپیار کی بدولت خاکسارنے21اپریل 2015ء کواپنے رفیق کارمحترم بلال احمدطاہرصاحب اور محترم اثماراحمدپراچہ صاحب کے ساتھ خودبھی دیکھا۔ جس پراب پلاسٹک کورچڑھا ہواتھا۔ بہت سی عبارت تو مدھم ہوچکی تھی اورا س کوپڑھنا بہت دقت طلب تھا۔اور کچھ الفاظ اتنے واضح تھے کہ بہت جلداندازہ ہوسکتاتھا کہ کون سی آیت ہے۔ سورۃ مریم کی ایک آیت وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا بہت حدتک اب بھی واضح ہے ۔
حضرت مراد بیگم صاحبہؒ کے زہدو ورع کی نسبت حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں
’’ایک ہمشیرہ آپ کی مسماة مراد بیگم نام تھی۔جو نہایت عبادت گزار اور زاہدہ تھیں۔ ان کے بہت سے عجائب حالات خاندان میں مشہور ہیں۔اور ان واقعات کے دیکھنے والے ابھی تک موجود ہیں۔ کہتے ہیں ایک مرتبہ وہ سو کر اٹھیں تو ان کے پائنچوں میں ریت موجود تھی۔اور وہ تازہ بتازہ بھیگے ہوئے تھے۔جیسے دریا کا سفر کرنے کے بعد حالت ہو۔ انہوں نے اٹھ کر یہی واقعہ بیان کیا۔اور ایسا ہی ایک مرتبہ سورۃ مریم لکھی ہوئی ان کو دی گئی۔مرحومہ عین عنفوان شباب میں بیوہ ہو گئی تھیں۔اور جب تک زندہ رہیں۔عبادت و یاد اللہ میں اپنی زندگی گزار دی۔‘‘
حضرت مراد بیگم صاحبہ بیوہ ہونے کے بعد اپنے گھر واپس آگئیں اور قادیان میں موجودہ آبائی گھر میں رہائش پذیر رہیں۔ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کو اپنی اس بیٹی سے بہت پیار تھا۔ سیرت المہدی میں اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحبؓ بیان فرماتے ہیں
’’بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ جب سے تمہاری دادی فوت ہوئیں تمہارے دادا نے اندر زنانہ میں آنا چھوڑ دیا تھا۔ دن میں صرف ایک دفعہ تمہاری پھوپھی کو ملنے آتے تھے اور پھوپھی کے فوت ہو نے کے بعد تو بالکل نہیں آتے تھے۔ باہر مردا نے میں رہتے تھے۔” ان کی تاریخ وفات کامعلوم نہیں ہوسکا۔البتہ ان کی قبرآبائی قبرستان میں موجودہے ۔
(باقی آئندہ)