متفرق مضامین

’’یاد رکھو کہ عقل اور جوش میں خطرناک دشمنی ہے‘‘

(جاوید اقبال ناصر۔مربی سلسلہ جرمنی)

وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النّاس

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمائے ہوئےمذکورہ بالا الفاظ ہمیں یہ سبق سکھاتے ہیں کہ جب کوئی انسان جوش اور غصّہ میں ہوتا ہے تو اُس کی عقل کام چھوڑ دیتی ہے۔ اور اُس سے ایسے افعال سرزد ہونے کا خطرہ بڑھ جاتاہے جو کہ غیر اخلاقی اور غیر انسانی ہوں۔ اُس وقت رحم و شفقت جاتا رہتا ہےاورانتقام اورجوش کی آگ بھڑک اُٹھتی ہے۔ لیکن ہمارا پیارا خدا ہم سے یہ توقع رکھتا ہے کہ ہم نےغصّہ کو دباناہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ ایمان لانے والوں کے بارے میں فرماتا ہے:

وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ (آل عمران:135)

کہ وہ غصّہ دبا جانے والے ہیں اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں۔

اسی طرح ہمارے پیارے رسول خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نرمی کرنے والا ہے۔ نرمی کو پسند کرتا ہے۔ نرمی کا جتنا اجر دیتا ہے اُتنا سخت گیری کا نہیں دیتا بلکہ کسی اور نیکی کا بھی اتنا اجر نہیں دیتا۔

(صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ والآداب باب فضل الرفق حدیث نمبر6601)

ایک اور مقام پر آپؐ نے نصیحت کرتے ہوئے بیان فرمایا:

کسی چیز میں جتنا بھی رِفق اور نرمی ہو اُتنا ہی یہ اُس کے لیے زینت کا موجب بن جاتا ہے۔ اُس میں خوبصورتی پیدا ہوتی ہے اور جس سے رفق اور نرمی چھین لی جائے وہ اتنی ہی بدنما ہو جاتی ہے۔ سختی جو ہے وہ(عمل کو بھی) بدنما کر دیتی ہے۔

(صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ والآداب باب فضل الرفق حدیث نمبر6602)

اس مضمون کو قرآن کریم واحادیث میں کئی پہلوؤں سے بیا ن کیا گیا ہے۔ اسی طرح اِس زمانے کے امام حضر ت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کےخلفائے کرام نے بھی اس عنوان پرمختلف مواقع پرسیر حاصل روشنی ڈالی جو کہ رہتی دُنیا تک نافعُ الناس اور افادیت و منفعت کا بہتا ہوا سمندر ہے۔ معدودے چندان سطور میں پیش ہیں:

’’یاد رکھو کہ عقل اور جوش میں خطرناک دشمنی ہے‘‘

حضر ت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’یاد رکھو کہ عقل اور جوش میں خطرناک دشمنی ہے۔ جب جوش اور غصہ آتا ہے تو عقل قائم نہیں رہ سکتی۔ لیکن جو صبر کرتا ہے اور بردباری کا نمونہ دکھاتا ہے اس کو ایک نور دیا جاتا ہے جس سے اس کی عقل و فکر کی قوتوں میں ایک نئی روشنی پیدا ہو جاتی ہے اور پھر نور سے نور پیدا ہوتا ہے۔ غصہ اور جوش کی حالت میں چونکہ دل و دماغ تاریک ہوتے ہیں اس لئے پھر تاریکی سے تاریکی پیدا ہوتی ہے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 180، ایڈیشن 1984ء )

حضرت امام حسن ؓکو اپنے ایک غلام پر غصّہ آنے کے باوجود اُس کو معاف کردینے کا واقعہ

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہُ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ

کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’یہ بات کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ ہر قسم کے غصہ اور بدلے کے جذبات کو دل سے نکال دیا جائے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ جب غصہ بھی نہ آئے اور بدلہ لینے کے جذبات بھی دل سے نکل جائیں اور نہ صرف یہ کہ غصہ کے جذبات کو نکال دیا جائے بلکہ غلطی کرنے والے پر کچھ احسان بھی کر دیا جائے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ مومن میں یہ باتیں پیدا ہوں۔ روایات میں حضرت حسنؓ کا ایک واقعہ آتا ہے کہ آپ کے ایک غلام نے کوئی غلطی کی۔ اس پر آپ کو اس پر بڑا غصہ آیا اور سزا دینا ہی چاہتے تھے کہ اس پر اس غلام نے آیت کا یہ حصہ پڑھا کہ

وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ۔

اور وہ جو غصہ دباتے ہیں۔ اس پر حضرت حسن نے سزا دینے کے لئے جو ہاتھ اٹھایا تھا اسے نیچے گرا لیا یا ہاتھ ہی نہیں اٹھایا۔ اس پر غلام کو اور جرأت پیدا ہوئی تو اس نے کہا۔ وَالْعَافِیْن۔ یعنی ایسے لوگ لوگوں کو معاف کرنے والے بھی ہوتے ہیں۔ اس پر حضرت حسن نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کہا کہ جاؤ مَیں نے تمہیں معاف کیا۔ اس بات پر غلام کو مزید جرأت پیدا ہوئی تو اس نے کہا کہ

وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ۔

کہ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ اس پر انہوں نے اس غلام کو کہا کہ جاؤ مَیں نے تمہیں آزاد کیا۔ جہاں جانا چاہتے ہو چلے جاؤ۔ ‘‘

(ماخوذ از ملفوظات جلد اول صفحہ 179-180۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان )‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 23؍ستمبر 2016ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل14؍اکتوبر2016ءصفحہ6)

’’غضب نصف جنون ہے جب یہ زیادہ بھڑکتا ہے تو پورا جنون ہو سکتا ہے‘‘

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس آیت کے حوالے سے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ

’’یاد رکھو جو شخص سختی کرتا ہے اور غضب میں آجاتا ہے اس کی زبان سے معارف اور حکمت کی باتیں ہرگز نہیں نکل سکتیں۔ وہ دل حکمت کی باتوں سے محروم کیا جاتا ہے جو اپنے مقابل کے سامنے جلدی طیش میں آ کر آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ گندہ دہن اور بے لگام کے ہونٹ لطائف کے چشمے سے بے نصیب اور محروم کئے جاتے ہیں۔ غضب اور حکمت دونو جمع نہیں ہو سکتے۔ جو مغلوب الغضب ہوتا ہے۔ اس کی عقل موٹی اور فہم کند ہوتا ہے۔ اس کو کبھی کسی میدان میں غلبہ اور نصرت نہیں دئیے جاتے۔ غضب نصف جنون ہے جب یہ زیادہ بھڑکتا ہے تو پورا جنون ہو سکتا ہے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 126-127، ایڈیشن 1984ء)

’’اس جماعت کو تیار کرنے سے غرض یہی ہے کہ… بے جا غصہ اور غضب وغیرہ بالکل نہ ہو‘‘

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

’’اس جماعت کو تیار کرنے سے غرض یہی ہے کہ زبان، کان، آنکھ اور ہر ایک عضو میں تقویٰ سرایت کر جاوے۔ تقویٰ کا نور اس کے اندر اور باہر ہو۔ اخلاق حسنہ کا اعلیٰ نمونہ ہو۔ اور بیجا غصہ اور غضب وغیرہ بالکل نہ ہو۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ جماعت کے اکثر لوگوں میں غصّہ کا نقص اب تک موجود ہے تھوڑی تھوڑی سی بات پر کینہ اور بغض پیدا ہو جاتا ہے۔ اور آپس میں لڑ جھگڑ پڑتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا جماعت سے کچھ حصہ نہیں ہوتا۔ اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس میں کیا دقت پیش آتی ہے کہ اگر کوئی گالی دے تو دوسرا چُپ کر رہے اور اس کا جواب نہ دے۔ ہر ایک جماعت کی اصلاح اوّل اخلاق سے شروع ہوا کرتی ہے۔ چاہئے کہ ابتدا میں صبر سے تربیت میں ترقی کرے اور سب سے عمدہ ترکیب یہ ہے کہ اگر کوئی بدگوئی کرے تو اس کے لئے دردِ دل سے دعا کرے۔ کہ اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کر دیوے۔ اور دل میں کینہ کو ہرگز نہ بڑھاوے…خدا تعالیٰ ہرگز پسندنہیں کرتا کہ حلم اور صبر اور عفو جو کہ عمدہ صفات ہیں ان کی جگہ درندگی ہو۔ اگر تم ان صفات حسنہ میں ترقی کرو گے تو بہت جلد خدا تک پہنچ جاؤ گے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد 7 صفحہ 127-128، ایڈیشن 1984ء)

ایک خادم کو ڈیوٹی کے دوران غصّہ آنا اورحضورانور کا اُس کو پیارسے سمجھانے کا منفرد انداز

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ کے کارکنان کو مخاطب ہوکرفرمایا:

’’جیسا کہ مَیں پہلے بھی بتا آیا ہوں کہ یہاں مختلف ملکوں اور معاشر وں اور مزاجوں کے کارکنان ہیں لیکن آپ سب نے آپس میں ایک ہو کر کام کرنا ہے۔ آپس میں پیار محبت اور قربانی کے اعلیٰ نمونے دکھانے ہیں۔ بعض دفعہ بعض نوجوان جو زیادہ جوشیلی طبیعت کے مالک ہوتے ہیں ذرا سی بات پر جوش میں آ جاتے ہیں اور جھگڑ کر نہ صرف فضا کو مکدر کر رہے ہوتے ہیں بلکہ ساتھ ہی دوسروں پر، غیروں پر، دیکھنے والوں پر بھی جماعت کا اچھا اثر قائم نہیں کر رہے ہوتے۔ اس لئے ہمیشہ یاد رکھیں کہ جہاں بھی آپ خدمت کر رہے ہیں وہاں بعض عملہ یاکام کرنے والے غیر از جماعت یا غیر مسلم بھی ہوتے ہیں مثلاً لنگر خانوں وغیرہ میں آپ مزدوروں کوکسی قسم کی غلط حرکت کرکے غلط تاثر دے رہے ہوں گے۔ پس اس سے بھی بچیں۔ کچھ عرصے کی بات ہے مجھے ایک نوجوان نے لکھا کہ 1991ء میں آپ کی یہاں ڈیوٹی تھی، یعنی میری یہاں ڈیوٹی تھی۔ اُس وقت مَیں نے لنگر خانہ نمبر1میں بطور نائب ناظم کے لنگر میں ڈیوٹی دی تھی۔ اس لڑکے کی بھی یہاں ڈیوٹی تھی یہیں قادیان انڈیا کے رہنے والے تھے۔ اس لڑکے نے کہا کہ اسے غصہ آگیا اور وہ کہتا ہے کہ مَیں نے ایسے الفاظ کہے جس سے پاکستانی معاونین اور کام کرنے والے، ڈیوٹی دینے والے جو آئے ہوئے تھے، ان کے خلاف غصے کا اظہار ہوتا تھا۔ تو مجھے اس نوجوان نے لکھا کہ اس وقت مَیں بالکل نوجوانی کی عمر میں تھا۔ اس لئے غصہ بھی زیادہ آتا تھا تو آپ نے مجھے دیکھا اور اس بات پر کچھ نہیں کہا او رمسکرا دئیے۔ اور میرے دوبارہ یا تیسری مرتبہ کہنے پر میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور پیار سے سمجھایا کہ ہم کس طرح ڈیوٹی دیں گے؟ ہم کون ہیں ؟ اس نوجوان پر اثر ہوا ہو گا تو اس نے یہ بات آج تک یاد رکھی ہے ورنہ اس وقت مَیں نائب ناظم کی حیثیت سے اس کی سرزنش کرتا یا شکایت کرتا یا پاکستانی جو دوسرے معاونین تھے ان کے غصے کو بھڑکنے دیتا تو صرف نفرتیں بڑھتیں اور کچھ بھی نہ ہوتا۔ تو یہ بات اس نے بارہ تیرہ سال یاد رکھی ہے اور اب مجھے لکھی ہے۔ ‘‘

( خطبہ جمعہ فرمودہ 23؍ دسمبر 2005ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل13؍جنوری2006ءصفحہ6تا7)

نبی کریم ﷺ کااپنی بیٹی پر حملہ کرنے والے کو معاف کرنے کی روداد

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایک خطبہ جمعہ میں آنحضرتﷺکی شفقت و محبت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’روایات میں ایک واقعہ آتا ہے کہ ایک شخص ھبار بن اسودنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینبؓ پر مکہ سے مدینہ ہجرت کرتے وقت نیزے سے قاتلانہ حملہ کیا۔ آپ اس وقت حاملہ تھیں۔ حملہ کی وجہ سے آپ کا حمل بھی ضائع ہو گیا۔ زخمی بھی ہوئیں، چوٹ لگی اور اس چوٹ کی وجہ سے آپ کی وفات بھی ہو گئی۔ اس جرم کی وجہ سے ھبار کے لئے قتل کی سزا کا فیصلہ ہوا۔ فتح مکہ کے موقع پر یہ شخص بھاگ کر کہیں چلا گیا مگر بعد میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس تشریف لائے تو ھبار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ رحم کی بھیک مانگتا ہوں۔ پہلے میں آپ سے ڈر کر فرار ہو گیا تھا لیکن مجھے آپ کا عفو اور رحم واپس لے آیا ہے۔ اے خدا کے نبی! ہم جاہل تھے، مشرک تھے، خدا نے ہمیں آپ کے ذریعہ ہدایت دی اور ہلاکت سے بچایا۔ مَیں اپنی زیادتیوں کا اعتراف کرتا ہوں۔ پس میری جہالت سے صَرف نظر فرماتے ہوئے مجھے معاف فرمائیں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی کے اس قاتل کو معاف فرما دیا اور فرمایا کہ جا اے ھبار! میں نے تجھے معاف کیا اور پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ اس نے تمہیں اسلام قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ پس جب آپ نے دیکھا کہ اصلاح ہو گئی ہے تو اپنی بیٹی کے قاتل کو بھی معاف فرما دیا۔ ‘‘

(تاریخ الخمیس جلد دوم باب ذکر الرجال الاحد عشر الذین اھدر دمھم یوم فتح مکۃ صفحہ 93 مطبوعہ موسسۃ شعبان بیروت)‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 23؍ستمبر 2016ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل14؍اکتوبر2016ءصفحہ7)

’’ کسی سائل کو یا کسی شخص کو جو دفتر میں بار بار بھی آتا ہے، رابطہ کرتا ہے، اُس سے تنگ نہیں آنا چاہئے‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہُ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’اس ضمن میں عہدیداروں کو خاص طور پر توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ یہ نیک جذبات اور رحم کا جذبہ ہر عہدیدار میں، خاص طور پر جماعتی عہدیدار میں ہونا چاہئے۔ ویسے تو یہ ہر احمدی کا خاصّہ ہونا چاہئے لیکن عہدیدار جو جماعتی خدمات سرانجام دے رہے ہیں اُن کو خاص طور پر کسی سائل کو یا کسی شخص کو جو دفتر میں بار بار بھی آتا ہے، رابطہ کرتا ہے، اُس سے تنگ نہیں آنا چاہئے اور کھلے دل سے ہمیشہ استقبال کرنا چاہئے۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ جماعت کے کسی بھی کارکن کو کسی بھی صورت میں جو اعلیٰ اخلاق ہیں اُن سے دُور نہیں ہٹنا چاہئے یا کہیں ایسی صورت پیدا نہیں ہونی چاہئے جہاں ہلکا سا بھی شائبہ ہو کہ اعلیٰ اخلاق کا اظہار نہیں ہوا۔ بلکہ کوشش ہو کہ جتنی زیادہ سہولت میسر ہو سکتی ہے، زیادہ سے زیادہ نرمی سے جتنی بات ہو سکتی ہے، وہ کرنے کی کوشش کریں ‘‘۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم مارچ 2013ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل22؍مارچ 2013ءصفحہ7تا8)

’’آنحضرت ؐکے عفو کی بے شمار مثالیں ہیں۔ ایسے معراج پر پہنچا ہوا عفو ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے‘‘

’’کعب بن زہیر ایک مشہور شاعر تھا بعض باتوں کی وجہ سے اس کے لئے بھی سزا کا حکم ہو چکا تھا۔ فتح مکہ کے بعد ان کے بھائی نے اسے لکھا کہ اب آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معافی مانگ لو۔ چنانچہ وہ مدینہ آ کر اپنے ایک جاننے والے کے پاس ٹھہر گئے اور فجر کی نماز مسجدنبوی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ادا کی۔ نماز کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کعب بن زہیر تائب ہو کر آیا ہے اور معافی کا خواستگار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے شکل سے پہچانتے نہیں تھے۔ اس لئے اس نے کہا کہ اگر اجازت ہو تو اسے پیش کیا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں آ جائے سامنے۔ اس پر اس نے کہا کہ یا رسول اللہ! میں ہی کعب بن زہیر ہوں۔ اس پر ایک انصاری اسے قتل کرنے کے لئے اٹھے کیونکہ اس کے متعلق حدّ لگنے کی وجہ سے قتل کا فیصلہ ہو چکا تھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ معافی کا خواستگار ہو کر آیا ہے اسے چھوڑ دو۔ اس کے بعد اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک قصیدہ پیش کیا جس پر آپ نے خوشنودی کا اظہار فرماتے ہوئے اپنی چادر بھی اسے اوڑھا دی‘‘۔

(تاریخ الخمیس جلد دوم باب اسلام کعب بن زہیر صفحہ 121 مطبوعہ موسسۃ شعبان بیروت)

پس یہ تھا آپ کی معافی کا معیار کہ نہ صرف معاف فرماتے تھے بلکہ انعام دے کر، دعائیں دے کر رخصت فرماتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عفو کی بے شمار مثالیں ہیں۔ ایسے معراج پر پہنچا ہوا عفو ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ23؍ستمبر 2016ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل14؍اکتوبر2016ءصفحہ7)

’’خداتعالیٰ ہرگز پسند نہیں کرتا کہ حلم اور صبر اور عفو جو کہ عمدہ صفات ہیں ان کی جگہ درندگی ہو‘‘

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

’’خداتعالیٰ ہرگز پسند نہیں کرتا کہ حلم اور صبر اور عفو جو کہ عمدہ صفات ہیں ان کی جگہ درندگی ہو۔ اگر تم ان صفات حسنہ میں ترقی کرو گے تو بہت جلد خدا تک پہنچ جاؤ گے۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ جماعت کا ایک حصہ ابھی تک ان اخلاق میں کمزور ہے۔ ان باتوں سے صرف شماتت اعداء ہی نہیں ہے بلکہ ایسے لوگ خود ہی قریب کے مقام سے گرائے جاتے ہیں۔

یہ سچ ہے کہ سب انسان ایک مزاج کے نہیں ہوتے۔ اسی لیے قرآن شریف میں آیا ہے

کُلٌّ یَّعْمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہٖ (بنی اسرائیل:۸۵)

بعض آدمی کسی قسم کے اخلاق میں اگر عمدہ ہیں تو دوسری قسم میں کمزور۔ اگر ایک خلق کا رنگ اچھا ہے تو دوسرے کا برا۔ لیکن تا ہم اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اصلاح ناممکن ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد4صفحہ 99تا100، ایڈیشن 1988ء)

’’وہ گالی دے رہا تھا تم خاموش تھے تو خدا کا ایک فرشتہ تمہاری طرف سے جواب دے رہا تھا‘‘

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

’’ایک اور روایت حضرت ابو بکرؓ کے بارے میں ہے۔ حضرت ابوبکرؓ سے زیادہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی دوست، ساتھی اور رفیق نہیں تھا۔ ہجرت کے دوران بھی حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپؐ کا ساتھ دیا اور آپؐ کے ساتھ رہے اور قربانیاں کیں۔ آنحضرتﷺ آپؓ کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے، ایمان بھی لائے تو بغیر کسی دلیل کے، تو ان سب باتوں کے باوجود کہ آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت تعلق اور پیار تھا، اور آپؐ خلق عظیم پر قائم تھے اس لئے اپنے قریبیوںسے بھی اعلیٰ اخلاق کی توقع کرتے تھے۔ ایک حدیث میں آتا ہے حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں ایک آدمی نے حضرت ابو بکرؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں برا بھلا کہنا شروع کیاحضورؐ اس کی باتیں سن کر تعجب کے ساتھ مسکرا رہے تھے، جب اس شخص نے بہت کچھ کہہ لیا تو حضرت ابو بکرؓ نے اس کی ایک آدھ بات کا جواب دیا۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آیا اور آپ مجلس سے تشریف لے گئے۔ حضرت ابو بکرؓ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے، عرض کیا اے اللہ کے رسول! وہ آپ کی موجودگی میں مجھے برا بھلا کہہ رہا تھا اور آپ بیٹھے مسکرا رہے تھے لیکن جب میں نے جواب دیا تو آپ غصے ہو گئے اس پرآپؐ نے فرمایا وہ گالی دے رہا تھا تم خاموش تھے تو خدا کا ایک فرشتہ تمہاری طرف سے جواب دے رہا تھا لیکن جب تم نے اس کو الٹ کر جواب دیا تو فرشتہ چلا گیا اور شیطان آ گیا۔

(مسند احمد بن حنبل جلد 3صفحہ 177)

اور جب شیطان آگیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہاں بیٹھنے کا کوئی مطلب نہیں تھا۔ یہ ہیں وہ معیار جو آپؐ نے اپنے صحابہؓ میں پیدا کئے اور پیدا کرنے کی کوشش کی اور یہی ہیں وہ معیار جن کو حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں آخرین میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 20؍ فروری 2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل5؍مارچ2004ءصفحہ4)

’’یہ محتاج ہے کچھ تھوڑے سے اسے دے دو… بلاوجہ اس کو کچھ کہو نہ اور خداتعالیٰ کی ستاری کا شیوہ اختیار کرو‘‘

’’حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ فرماتے ہیں۔ کہ ایک عورت نے حضرت مسیح موعودؑ کے گھر سے کچھ چاول چرائے، چور کا دل نہیں ہوتا اس لئے اس کے اعضاء میں غیر معمولی قسم کی بیتابی اور اس کا ادھر ادھر دیکھنا بھی خاص وضع کا ہوتا ہے۔ یعنی وہ چوری کر لے تو اس کے ایکشنز(Actions)اور طرح کے ہو جاتے ہیں۔ کسی دوسرے تیز نظر نے تاڑ لیا اور پکڑ لیا۔ وہ وہاں موجود تھا۔ اس کی تیز نظر تھی اس کو شک ہوا کہ ضرور کوئی گڑ بڑ ہے اور شور پڑ گیا۔ اس کی بغل میں سے کوئی پندرہ سیر کے قریب چاولوں کی گٹھڑی نکلی اور اس کو ملامت اور پھٹکا ر شروع ہو گئی۔ حضرت مسیح موعود بھی کسی وجہ سے ادھر تشریف لائے اور پوچھا کہ کیا واقعہ ہے تو لوگوں نے یہ بتایا تو فرمایا کہ یہ محتاج ہے کچھ تھوڑے سے اسے دے دو اور نصیحت نہ کرو یعنی بلاوجہ اس کو کچھ کہو نہ۔ اور خداتعالیٰ کی ستاری کا شیوہ اختیار کرو‘‘۔

(سیرت حضرت مسیح موعود ؑاز حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ جلد اول صفحہ ۱۰۵، ۱۰۶) ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 20؍فروری 2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل5؍مارچ2004ءصفحہ6)

قیمتی مسودات کے جل جانے پر معاف فرمانا

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’خان اکبر صاحب ہی بیان کرتے ہیں کہ جب ہم وطن چھوڑ کر قادیان آ گئے تو ہم کو حضرت اقدسؑ نے اپنے مکان میں ٹھہرایا۔ حضور ؑکا قاعدہ یہ تھا کہ رات کو عموماً موم بتی جلا لیا کرتے تھے۔ اور بہت سی موم بتیاں اکٹھی روشن کر دیا کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ جن دنوں میں مَیں آیا میری لڑکی بہت چھوٹی تھی ایک د فعہ حضرت اقدس ؑکے کمرے میں بتی جلا کر رکھ آئی، اتفاق ایسا ہوا کہ وہ بتی گر پڑی۔ اور حضور ؑکی کتابوں کے بہت سارے مسودات اور چند اور چیزیں جل گئیں اور نقصان ہو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد معلوم ہوا کہ یہ تو سارا نقصان ہو گیا ہے۔ سب کو بہت سخت پریشانی اور گھبراہٹ شروع ہو گئی یہ کہتے ہیں کہ میری بیوی اور لڑکی بھی بہت پریشان تھی کہ حضور ؑ اپنی کتابوں کے مسودات بڑی احتیاط سے رکھا کرتے تھے وہ سارے جل گئے ہیں لیکن جب حضورؑ کو اس بات کا علم ہوا تو کچھ نہیں فرمایا سوائے اس کے کہ خداتعالیٰ کا بہت شکر ادا کرنا چاہئے کہ کوئی اس سے زیادہ نقصان نہیں ہوا‘‘۔

(سیرت حضرت مسیح موعود ؑ از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ جلد اول صفحہ ۱۰۳)‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 20؍ فروری 2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل5؍مارچ 2004ءصفحہ6)

’’مومن وہی ہیں جو غصہ کو کھا جاتے ہیں … اور بےہودگی کا بے ہودگی سے جواب نہیں دیتے‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’پھر دیکھیں آپ کے مخالف اور معاند مولوی محمد حسین بٹالوی ہماری جماعت میں ان کو جانتے ہیں وہ جوانی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دوست اور ہم مکتب تھے یعنی اکٹھے پڑھا کرتے تھے اور حضور ؑ کی پہلی تصنیف ’’براہین احمدیہ‘‘ پر انہوں نے بڑا شاندار ریویو بھی لکھا تھا اور یہاں تک لکھا تھا کہ گزشتہ تیرہ سو سال میں اسلام کی تائید میں کوئی کتاب اس شان کی نہیں لکھی گئی۔ مگرمسیح موعود کے دعویٰ پر یہی مولوی صاحب مخالف ہو گئے اور مخالف بھی ایسے کہ انتہا کو پہنچ گئے اور حضرت مسیح موعود ؑپر کفر کا فتویٰ لگایا اور دجال وغیرہ کہا(نعوذ باللہ) اس طرح سارے ملک میں مخالفت کی آگ بھڑکائی۔ ڈاکٹر مارٹن کلارک کے اقدام قتل والے مقدمے میں بھی مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب عیسائیوں کی طرف سے گواہ کے طور پر پیش ہوئے۔ اس وقت حضرت مسیح موعودؑ کے وکیل مولوی فضل دین صاحب جو ایک غیر احمدی بزرگ تھے، مولوی محمد حسین کی شہادت کو کمزور کرنے کے لئے ان کے حسب و نسب کے بارے میں بعض طعن آمیز سوالات کرنے لگے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں روک دیا کہ میں آپ کو ایسے سوالات کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور یہ کہتے ہوئے آپؑ نے جلدی سے اپنا ہاتھ مولوی فضل دین صاحب کے منہ پر رکھا کہ کہیں ان کی زبان سے کوئی ایسا فقرہ نکل نہ جائے۔ تو اس طرح آپ اپنے آپ کو خطرے میں ڈال کر اپنے جانی دشمن کی عزت و آبرو کی حفاظت فرمایا کرتے تھے اور یہاں بھی فرمائی۔ اس کے بعد مولوی فضل دین صاحب موصوف ہمیشہ یہ واقعہ حیرت سے ذکر کیا کرتے تھے کہ مرزا صاحب عجیب اخلاق کے انسان ہیں کہ ایک شخص ان کی عزت بلکہ جان پر حملہ کرتا ہے۔ اور اس کے جواب میں اس کی شہادت کو کمزور کرنے کے لئے اس پر بعض سوالات کئے جاتے ہیں تو آپ فوراً روک دیتے ہیں کہ میں ایسے سوالات کی اجازت نہیں دیتا۔

(سیرت طیبہ از حضرت مرزابشیر احمد صاحب ایم اے۔ رضی اللہ عنہ صفحہ۵۳تا۵۵)

حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ۔ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ

یعنی مومن وہی ہیں جو غصہ کو کھا جاتے ہیں اور یا وہ گو ظالم طبع لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں اور بے ہودگی کا بے ہودگی سے جواب نہیں دیتے‘‘۔

(مجموعہ اشتہارات جلددوم صفحہ ۱۲۶)‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 20؍فروری 2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل5؍مارچ 2004ءصفحہ6)

’’اللہ کرے کہ ہم آپس کے تعلقات میں محبت ومودّت کےجذبات اور ایک دوسرے کےلئے رحم کو بڑھانے والے ہوں‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہُ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’اللہ کرے کہ ہم آپس کے تعلقات میں محبت ومودّت کےجذبات اور ایک دوسرے کےلئے رحم کو بڑھانے والے ہوں۔ وہ جماعت بن جائیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں جس طرح اُن کی خواہش تھی آپ ہمیں بنانا چاہتے تھے۔ دنیا کے امن کی بھی جماعت احمدیہ ضمانت بن جائے۔ مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کو مان کر آپس کے پیار و محبت اور مودّت کی اہمیت کو سمجھنے والے بن جائیں۔ مسلمان لیڈر جو آجکل اپنے ہم وطنوں پر ظلم روا رکھے ہوئے ہیں، اس کو بند کر کے انصاف اور رحم کے ساتھ اپنی رعایا سے سلوک کرنے والے ہوں۔ عوام بھی مفاد پرستوں کے ہاتھوں میں کھیلنے کی بجائے، اُن کا آلۂ کار بننے کی بجائے عقل سے کام لیں اور خدا تعالیٰ کے صحیح حکموں کو تلاش کریں اور اُن پر چلنے کی کوشش کریں۔ مسلمان ممالک پر جو خوفناک اور شدت پسند گروہوں نے قبضہ کیا ہوا ہے، اپنے مفادات کو ہر صورت میں ترجیح دینے والوں نے جو قبضہ کیا ہوا ہے، اللہ تعالیٰ جلد اس سے بھی مسلمان ملکوں کو خصوصاً اور دنیا کو عموماً نجات دلائے تا کہ ہم اسلام کی خوبصورت تعلیم کو زیادہ بہتر رنگ میں اور زیادہ تیزی سے دنیا میں پھیلا سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمود ہ یکم مارچ 2013ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل22؍مارچ 2013ءصفحہ8)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button