میرا گھر میری جنت
طلاق ایک ناپسندیدہ عمل
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مرد اور عورت میں علیحدگی کو نا پسندیدہ لیکن مجبوری میں جائز قرار دیا ہے۔ہمارے پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ’’اللہ تعالیٰ کو طلاق سخت نا پسند ہے اور مکروہ ہے۔‘‘
(سنن ابی داود،کتاب الطلاق باب فی کراھیتہ الطلاق حدیث 2178)
آج کل کے دور میں خلع اور طلاق کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے جو کہ ایک خوفناک اور مشکل صورت حال کا منظر پیش کر رہی ہے۔جس کی بڑی وجہ ہمارے اندر قوت برداشت کی کمی،ہماری خواہشات اور مطالبات کا بڑھتے چلےجانا اورذاتی انائیں ہیں۔
ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:
’’خلع اور طلاقوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔یہ خوفناک صورت حال ہے ۔یہ ایک جگہ قائم نہیں بلکہ میں نے جائزہ لیا ہے ہر سال خلع اور طلاقوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔دونوں فریق کچھ سچ کچھ جھوٹ بول کر اپنا کیس مضبوط کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اور پھر آپس میں بعض غلط بیانیاں کر کے اپنا اعتماد ایک دوسرے کے لئے کھو دیتے ہیں۔جیسا کہ میں نے کہا یہ بات میرے لیے قابل فکر اس لئے ہے کہ خلع کی تعداد جماعت میں بہت بڑھ رہی ہے ۔اور خلع لڑکیوں کی طرف سے عورتوں کی طرف سے لیا جاتا ہے…‘‘
(جلسہ سالانہ جرمنی خطاب از مستورات 25جون2011ء)
ذاتی انا ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہمارے گھروں کی جنت کو دیمک کی طرح آہستہ آہستہ ختم کر دیتاہے اور دیکھتے ہی دیکھتے پتہ ہی نہیں چلتا کہ ہم اپنی جنت سے بہت دور ہوتے چلے جاتے ہیں اور پھر نوبت طلاق اور خلع تک پہنچ جاتی ہے۔
فریقین میں مسائل کے آغاز کی ایک بڑی وجہ ان کی ذاتی انا بھی ہوتی ہے۔ اس کمزوری پر روشنی ڈالتے ہوئے حضور انور ایّدہ اللہ فرماتے ہیں :
’’آجکل بذریعہ خطوط یا بعض ملنے والوں سے سن کر طبیعت بے چین ہو جاتی ہے کہ ہمارے مقاصد کتنے عظیم ہیں اور ہم ذاتی اناؤں کو مسائل کا پہاڑ سمجھ کرکن چھوٹے چھوٹے لغو مسائل میں الجھ کر اپنے گھر کی چھوٹی سی جنت کو جہنم بنا کر جماعتی ترقی میں مثبت کر دار ادا کرنے کی بجائے منفی کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان مسائل کو کھڑا کرنے میں جو بھی فریق اپنی اَناؤں کے جال میں اپنے آپ کو بھی اور دوسرے فریق کو بھی اور نظام جماعت کو بھی اور پھر آخرکار بعض اوقات مجھے بھی الجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے عقل دے اور وہ اس مقصد کو سمجھے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرمایا تھا۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقع ہو گئی ہے اس کو دور کرکے محبت اور اخلاص کو دوبارہ قائم کروں۔ پس یہ بڑا مقصد ہے جس کے پورا کرنے کی ایک احمدی کو کوشش کرنی چاہئے اور اس کو جستجو رہنی چاہئےاور کوئی احمدی بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس مقصد کے حصول کے لئے آپ کی مدد نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ اپنی اَناؤں سے چھٹکارا حاصل نہیں کرتا ان پاک ہدایتوں پر عمل نہیں کرتا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں دی ہیں۔ پس ہر احمدی کو اپنا جائزہ لینا چاہئے، اپنے گھر کا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا ہم قرآنی تعلیم سے ہٹے ہوئے تو نہیں ہیں ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم سے لاشعوری طور پر دور تو نہیں چلے گئے؟ اپنی اَناؤں کے جال میں تو نہیں پھنسے ہوئے؟ اس بات کا جائزہ لڑکے کو بھی لینا ہو گا اور لڑکی کو بھی لینا ہو گا، مرد کوبھی لینا ہو گا، عورت کو بھی لینا ہو گا، دونوں کے سسرال والوں کو بھی لینا ہو گا کیونکہ شکایت کبھی لڑکے کی طرف سے آتی ہے۔ کبھی لڑکی کی طرف سے آتی ہے، کبھی لڑکے والے زیادتی کر رہے ہوتے ہیں، کبھی لڑکی والے زیادتی کر رہے ہوتے ہیں لیکن اکثر زیادتی لڑکے والوں کی طرف سے ہوتی ہے۔ یہاں میں نے گزشتہ دنوں امیر صاحب کو کہا کہ جو اتنے زیادہ معاملات آپس کی ناچاقیوں کے آنے لگ گئے ہیں اس بارے میں جائزہ لیں کہ لڑکے کس حد تک قصور وار ہیں، لڑکیاں کس حد تک قصور وار ہیں اور دونوں طرف کے والدین کس حد تک مسائل کو الجھانے کے ذمہ دار ہیں۔ تو جائزے کے مطابق اگر ایک معاملے میں لڑکی کا قصور ہے تو تقریباً تین معاملات میں لڑکا قصور وار ہے، یعنی زیادہ مسائل لڑکوں کی زیادتی کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں اور تقریباً 40-30 فیصد معاملات کو دونوں طرف کے سسرال بگاڑ رہے ہوتے ہیں۔ اس میں بھی لڑکی کے ماں باپ کم ذمہ دار ہوتے ہیں۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 10 نومبر 2006ء)
پس اگر ہم نے اپنے گھروں کو برباد ہونے سے بچانا ہے،اپنے گھروں کو پُر سکون اور جنت نظیربنا نا ہے تو ہمیں اپنے جائزے لینے پڑیں گے۔تقویٰ کی راہوں پر چلتے ہوئے اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرنی ہوں گی۔ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ طلاق یا خلع صرف ایک مرد اور عورت کے رشتے کو ہی ختم نہیں کرتی بلکہ آئندہ آنے والی نسلیں اس سے متاثر ہورہی ہوتی ہیں۔ ایسے گھروں میں پروان چڑھنے والے بچے ماں باپ کے تلخ رویوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور جہاں ان کی اچھی تربیت سے محروم ہوتے ہیں وہاں قومی و ملکی ترقی میں بھی اپنا حصہ نہیں ڈال سکتے۔پھر جب ایسے بچوں کو گھروں میں صحیح تربیت اور سکون نہیں ملتا تو وہ یہ سکون باہر تلاش کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ معاشرے کی برائیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اپنی زندگیاں تباہ کر لیتے ہیں۔پس ہم اپنے بچوں کو صرف اسی صورت میں بچا سکتے ہیں جب اُن کو گھروں میں صحیح معنوں میں امن میسر ہو۔جس سے ہماری نسل در نسل اس معاشرے کی برائیوں سے محفوظ رہ سکتی ہے۔
گھروں کو جنت نظیر بنانے کے لیے ہمارے پیارے نبی ﷺ کا اسوہ اور اسلام کی تعلیم ہی ہمارے لیے سب سے بڑی رہ نمائی ہے ۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’…گھر آج مغرب میں بھی ٹوٹ رہے ہیں اور گھرآج مشرق میں بھی ٹوٹ رہے ہیں اور گھروں کو بنانے والا صرف ایک ہے اور وہ ہمارے آقا ومولا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تعلیم ہے جو مشرق کو بھی سدھار سکتی ہے اور مغرب کو بھی سدھار سکتی ہے۔اور آج کی دنیا میں امن کی ضمانت ناممکن ہے جب تک گھروں کے سکون اور گھروں کے اطمینان اور گھروں کے اندرونی امن کی ضمانت نہ دی جائے۔پس گھروں کی اس تعمیرِ نو کی فکر کریں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے آپ میں سے اکثر احمدی خواتین چونکہ مشرقی معاشرے سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے آپ اپنی کمزوریوں کو دور کرکے اپنے گھروں کو ایک ماڈل بنانے کی کوشش کریں…‘‘
(جلسہ سالانہ مستورات برطانیہ 28جولائی 1990ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ اس بارہ میں فرماتے ہیں :
’’اسلام نے ہمیں اپنے گھریلو تعلقات کو قائم رکھنے اور محبت و پیار کی فضا پیدا کرنے کے لئے کتنی خوبصورت تعلیم دی ہے۔ ایسے لوگوں پر حیرت اور افسوس ہوتا ہے جو پھر بھی اپنی اَناؤں کے جال میں پھنس کر دو گھروں، دو خاندانوں اور اکثر اوقات پھر نسلوں کی بربادی کے سامان کر رہے ہوتے ہیں۔ اللہ رحم کرے۔ اسلامی نکاح کی یا اس بندھن کے اعلان کی یہ حکمت ہے کہ مرد و عورت جواللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق میاں اور بیوی کے رشتے میں پروئے جا رہے ہوتے ہیں، نکاح کے وقت یہ عہد کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم ان ارشادات الٰہی پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے جو ہمارے سامنے پڑھے گئے ہیں۔ ان آیات قرآنی پرعمل کرنے کی کوشش کریں گے جو ہمارے نکاح کے وقت اس لئے تلاوت کی گئیں تاکہ ہم ان کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں اور ان میں سے سب سے پہلی نصیحت یہ ہے کہ تقویٰ پر قدم مارو، تقویٰ اختیار کرو۔ تونکاح کے وقت اس نصیحت کے تحت ایجاب و قبول کر رہے ہوتے ہیں، نکاح کی منظوری دے رہے ہوتے ہیں کہ ہم ان پر عمل کریں گے۔ کیونکہ اگر حقیقت میں تمہارے اندر تمہارے اس رب کا، اس پیارے رب کا پیار اور خوف رہے گاجس نے پیدائش کے وقت سے لے کر بلکہ اس سے بھی پہلے تمہاری تمام ضرورتوں کا خیال رکھا ہے، تمام ضرورتوں کو پورا کیا ہے تو تم ہمیشہ وہ کام کرو گے جو اس کی رضاکے کام ہیں اور اس کے نتیجہ میں پھر ان انعامات کے وارث ٹھہرو گے۔
میاں بیوی جب ایک عہد کے ذریعہ سے ایک دوسرے کے ساتھ بندھ گئے اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا عہد کیا تو پھر یہ دونوں کا فرض بنتا ہے کہ ان رشتوں میں مزید بہتری پیدا کرنے کے لئے پھر ایک دوسرے کے رشتہ داروں کا بھی خیال رکھیں۔ یاد رکھیں کہ جب خود ایک دوسرے کا خیال رکھ رہے ہوں گے اور ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھ رہے ہوں گے، عزیزوں اور رشتہ داروں کا خیال رکھ رہے ہوں گے، ان کی عزت کر رہے ہوں گے، ان کو عزت دے رہے ہوں گے تو رشتوں میں دراڑیں ڈالنے کے لئے پھونکیں مارنے والوں کے حملے ہمیشہ ناکام رہیں گے کیونکہ باہر سے ماحول کا بھی اثر ہو رہا ہوتا ہے۔ آپ کی بنیاد کیونکہ تقویٰ پر ہو گی اور تقویٰ پر چلنے والے کو خداتعالیٰ شیطانی وساوس کے حملوں سے بچاتا رہتا ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 10 نومبر 2006ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم دسمبر 2006ء)
اللہ تعالیٰ ہمیں تقویٰ کی راہوںپر چلتے ہوئے اپنے گھروں کو جنت نظیر بنانے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
٭…٭…٭