25؍ستمبر1907ء: وقفِ زندگی کی پہلی منظم تحریک نیز واقفین سے حضرت مسیح موعودؑ کی توقعات
حضرت مسیح موعوعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیاتِ مبارکہ کے آخری حصہ میں …چونکہ سلسلہ کاکام بہت بڑھ چکا تھا اور ایک تنظیم کے ساتھ اندرون ملک اور بیرونی دنیا کو حق پہنچانے کی ضرورت شدت سے محسوس ہو رہی تھی اس لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ستمبر 1907ء میں جماعت کے سامنے ’’وقفِ زندگی‘‘ کی پر زور تحریک فرمائی۔
ابتدائی واقفین زندگی
اس تحریک پر قادیان میں مقیم نوجوانوں کے علاوہ بعض اور دوستوں نے بھی زندگی وقف کرنے کی درخواستیں حضورؑ کی خدمت میں پیش کیں۔ حضرت اقدسؑ کی ڈاک کی خدمت ان دنوں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے سپرد تھی اس لئے حضرت اقدسؑ نے مفتی صاحب ہی کو ہدایت فرمائی کہ ایسے واقفین کی فہرست بنائیں چنانچہ انہوں نے اس غرض کے لئے ایک رجسٹر کھول لیا۔
(بدر3؍اکتوبر1907ء)
ابتداءً جن اصحاب نے زندگی وقف کی ان کے نام یہ ہیں :
1۔ شیخ محمد تیمور صاحب طالبِ علم علی گڑھ کالج
(ان کی درخواست پر حضورؑ نے تحریر فرمایا :’’بعد پورا کرنے تعلیم بی۔ اے اس کام پر لگیں ‘‘)
2۔ چوہدری فتح محمد صاحب سیالؓ
(ان کی درخواست پر حضورؑ نے تحریر فرمایا :’’منظور‘‘)
3۔ مولاناسید محمد سرور شاہ صاحبؓ
(ان کی درخواست پر حضورؑ نے تحریر فرمایا:’’آپ کو اس کام کے لائق سمجھتا ہوں ‘‘)
4۔ میاں محمد حسن صاحب دفتر رسالہ ریویو آف ریلیجنز(ان کی درخواست پر حضورؑ نے تحریر فرمایا: قبول ہے)
5۔ مفتی محمد صادق صاحبؓ ایڈیٹر اخبار بدر
(حضورؑ نے ان کی درخواست پر تحریر فرمایا:’’منظور‘‘)
6۔ صوفی غلام محمد صاحب طالب علم بی۔ اے
(حضورؑ نے ان کی درخواست پر تحریر فرمایا: ’’بی اے کا نتیجہ نکلنے کے بعد اس کام کے واسطے طیار ہو جائیں ‘‘)
7۔ مولوی محمد دین صاحب طالبِ علم علی گڑھ کالج
(ان کی درخواست پر حضورؑ نے تحریر فرمایا: ’’نتیجہ کے بعد اس خدمت پر لگ جائیں ‘‘)
8۔ شیخ عبد الرحمٰن صاحب طالبِ علم مدرسہ احمدیہ
(ان کی درخواست پر حضورؑ نے تحریر فرمایا: ’’سلسلہ کی پوری واقفیت پیدا کرلیں ‘‘)
9۔ اکبر شاہ خاں صاحب نائب سپرنٹنڈنٹ بورڈنگ ہاؤس مدرسہ تعلیم الاسلام ہائی سکول
(ان کی درخواست پر حضورؑ نے تحریر فرمایا: ’’وقت پر آپ کو یاد کیا جائے گا‘‘)
10۔ مولوی عظیم اللہ صاحب ساکن نابھہ
(ان کی درخواست پر حضورؑ نے تحریر فرمایا: ’’وقت پر آپ کو یاد کیا جائے گا‘‘)
11۔ مولوی فضل دین صاحب
12۔ خواجہ عبد الرحمٰن صاحب
13۔ قاضی محمد عبد اللہ صاحب
(ان کی درخواست پر حضورؑ نے تحریر فرمایا:’’خط کے مضمون سے آگہی ہوئی۔ امید ہے آپ کو انتظام کے وقت میں یاد رکھوں گا اور مناسب جگہ میں خدمتِ دین کے لئے بھیجوں گا۔ مناسب ہے اپنا نام مفتی صاحب کے رجسٹر میں درج کرا دیں۔ والسلام مرزا غلام احمد‘‘)
(حاشیہ : ان خطوط میں سے بعض کا عکس رسالہ انصار اللہ ربوہ کے ابتدائی نمبروں میں چھپ چکا ہے۔ )
حضرت اقدسؑ نے ان سب درخواستوں پر اظہارِ خوشنودی فرمایا اور 25؍اور 29؍ستمبر1907ءکواس سلسلہ میں نہایت قیمتی نصائح فرمائیں جو مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ حضورؑ کی سکیم یہ تھی کہ ابتداء میں 12 واعظین کا انتخاب کیاجائے جو قریبی اضلاع میں متعین ہوں اور دو ایک ماہ تبلیغ میں باہر گزار دیں پھر دس پندرہ روز کے لئے مرکز میں آجایا کریں۔ کچھ لٹریچر ان کے پاس موجود ہو تا جہاں مناسب سمجھیں وہاں تقسیم کریں۔
(بدر3؍اکتوبر1907ء)
وقف زندگی کی شرائط
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ’’وقفِ زندگی‘‘کی تحریک کا اعلان کرنے کے بعد میر حامد شاہ صاحب سے اس کی شرائط لکھوائیں اور کچھ اصلاح کے ساتھ ان کو پسند فرمایا۔
ان شرائط میں ایک شرط یہ تھی کہ
’’میں کوئی معاوضہ نہ لوں گا، چاہے مجھے درختوں کے پتے کھا کر گزارہ کرناپڑےمَیں کروں گا اور تبلیغ کروں گا۔ ‘‘
(الفضل24؍دسمبر1944ء صفحہ5کالم2)
ایک ضروری ہدایت حضورؑ نے یہ دی کہ واقفین کو ہر ہفتہ باقاعدگی سے اپنی رپورٹ بھجوانی ہو گی۔
تحریک ’’وقفِ زندگی‘‘کی بنیاد گو حضرت اقدس علیہ السلام ہی کے ہاتھ سے رکھی گئی۔ مگرحضورؑ کی زندگی میں اپنے نام پیش کرنے والے واقفین کو اندرون ملک یا بیرون ملک میں بغرض تبلیغ مقرر کرنے کی نوبت نہیں آسکی۔ تاہم حضورؑ کے منشاء مبارک کی تکمیل خلافت ثانیہ کے زمانہ میں ہوئی۔
(تاریخ احمدیت جلد 2صفحہ 498تا499)
جماعت کے مبلغین کے لئے ضروری صفات
25؍ستمبر1907ء(بوقت ظہر)حضرت اقدسؑ نے فرمایا :
’’ایک تجویز کی تھی۔ اگر راست آجاوے تو بڑی مراد ہے۔ یونہی عمر گذرتی جاتی ہے۔ آنحضرتﷺ کے صحابہؓ میں ایک کا بھی نام نہیں لے سکتے۔ جس نے اپنے لیے کچھ حصہ دین کا اور کچھ حصہ دنیا کا رکھا ہواور ایک صحابی بھی ایسا نہیں تھا جس نے کچھ دین کی تصدیق کر لی ہو اور کچھ دنیا کی بلکہ وہ سب کے سب منقطعین تھے اور سب اللہ کی راہ میں جان دینے کو تیار تھے۔ اگر چند آدمی ہماری جماعت میں سے بھی تیار ہوں جو مسائل سے واقف ہوں اور اُن کے اخلاق اچھے ہوں اور وہ قانع بھی ہوں تو ان کو باہر تبلیغ کے لئے بھیجا جاوے۔ بہت علم کی حا جت نہیں۔ آنحضرتﷺ کے صحابہؓ سب اُمّی ہی تھے۔ حضرت عیسیٰؑ کے حواری بھی اُمّی تھے۔ تقویٰ اور طہارت چاہئے۔ سچائی کی راہ ایک ایسی راہ ہے جو اللہ تعالیٰ خود ہی عجیب عجیب باتیں سجھا دیتا ہے۔
بچوں کو تعلیم کے لئے مرکز میں بھجوانے کا فائدہ
لوگ جو اپنے لڑکوں کو تعلیم دینے کے لئے یہاں کے سکول میں بھیجتے ہیں اگرچہ وہ اچھا کرتے ہیں اور یہ اچھا کام ہے مگر وہ محض للہ نہیں بھیجتے۔ کیونکہ اُن کا خیال ہوتا ہے کہ جو سرکاری تعلیم اور جماعت بندی اور دوسرے قواعد دیگر سکولوں میں ہیں وہی یہاں بھی ہیں اور یہاں بھیجتے وقت دنیاوی تعلیم کا بھی خصوصیت سے خیال رکھ لیتے ہیں ا ور جانتے ہیں کہ جو تعلیم دوسرے سکولوں میں ہے وہی یہاں ہے مگر تاہم بھی نیک نیتی کی بناء پر یہ سب عمدہ باتیں ہیں اور ان سے کچھ عمدہ نتیجہ ہی نکلنے کی توقع ہے۔
ا ور یہاں کے سکول میں تعلیم پانے سے اتنا فائدہ تو ضرور ہے کہ دن رات نیکو کاروں اور صادقوں کی صحبت میں رہنا پڑتا ہے۔ عمدہ عمدہ کتابوں اور ہماری تصانیف کے پڑھنے کا موقعہ بھی ملتا رہتا ہے اور مولوی ( نورالدین ) صاحب کی عمدہ عمدہ باتوں اور نصیحتوں اور درس کے سننے سے بہت فائدہ ہوتا ہے اور جب پچپن سے ہی ان طالب علموں کے کانوں میں صالح اور راستباز استادوں کی آواز پڑتی ہے تو اس سے وہ متا ثر ہوتے ہیں اور آہستہ آہستہ دینداری کی طرف ترقی کرتے رہتے ہیں۔ غرض یہ سچی بات ہے کہ اس مدرسہ کی بناء فائدہ سے خالی نہیں۔ اگر تین یا چار سو لڑکا تعلیم پاتا ہو اتنی امید ہے کہ تیس یا چالیس ہماری منشا کے مطابق بھی نکل آویں گے۔
صحابہ رضی اللہ عنہم کا نمونہ اختیار کرو
مگر جو بات ہم چاہتے ہیں وہ اس سے پوری نہیں ہو سکتی کیونکہ خواہ کچھ ہی ہو یہ باتیں ملونی سے خالی نہیں۔ ہمارا مطلب اس بات کے بیان کرنے کا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ جس نمونہ پر اس جماعت کو قائم کرنا چاہتا ہے وہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا نمونہ ہے۔ ہم تو منہاج نبوت کے طریقہ پر ترقیات دیکھنی چاہتے ہیں۔ موجود کارروائی کو خالص کارروائی نہیں کہہ سکتے۔ ہزار ہا مرتبہ رائے زنی کی جائے اصل میں جیسا کہ میں نے کل کہا تھا ابھی تو پانی کے ساتھ پیشاب کی ملونی ہے۔
غرض اس طرح کی تعلیم ہماری ترقیات کے لئے کافی نہیں۔ ہمارے سلسلہ کو تو صر ف اخلاص صدق اور تقویٰ جلد ترقی دے سکتا ہے۔ آنحضر تﷺ کے صحابہؓ ایک لاکھ سے متجاوز تھے۔ میرا ایمان ہے کہ ان میں سے کسی کا بھی ملونی والا ایمان نہ تھا۔ ایک بھی ان میں سے ایسا نہ تھا جو کچھ دین کے لئے ہواور کچھ دنیا کے لئے بلکہ وہ سب کے سب خدا تعالیٰ کی راہ میں جان دینے کے لئے تیار تھے جیسے کہ خدا تعالیٰ فرما تا ہے :
فَمِنْھُمْ مَّن قَضٰی نَحْبَہٗ وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ ( الاحزاب : 24)
جو لوگ ملونی والے ہوتے ہیں ان کو خدا تعالیٰ نے منافق کہا ہے۔ بیعت کرنے والوں کو خوش نہیں ہونا چاہیے کیونکہ منافق وہ لوگ ہیں جنہوں نے کچھ ملونی کی۔
منافق کون ہوتے ہیں
آنحضرتﷺ کے زمانہ میں جو منافق تھے اگر وہ اس زمانہ میں ہوتے تو بڑے بزرگ اور مومن سمجھے جاتے۔ کیونکہ شر جب بہت بڑھ جاتا ہے تو اس وقت تھوڑی سی نیکی کی بھی بڑی قدر ہوتی ہے۔ وہ لو گ جن کو منافق کہا گیا ہے۔ اصل میں وہ بڑے بڑے صحابہؓ کے مقابل پر منافق تھے۔ یا د رکھو جس شخص نے خدا تعالیٰ کے ساتھ کچھ حصہ شیطان کا ڈالا وہی منافق ہے۔
فرمایا :
قرآن شریف میں ہماری جماعت کی نسبت لکھا ہے :
وَآخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلحَقُوْا بِھِمْ (الجمعہ:4)
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہؓ میں سے ایک اَور گروہ بھی ہے مگر ابھی وہ ان سے ملے نہیں۔ ان کے اخلاق۔ عادات۔ صدق اور اخلاص صحابہؓ کی طرح ہوگا۔
جماعت کے مبلغین کی صفات
میرا دل گوار ا نہیں کرتا کہ اب دیر کی جاوے۔ چاہیے کہ ایسے آدمی منتخب ہوں جو تلخ زندگی کو گوار ا کرنے کے لئے تیار ہوں اور اُن کو باہر متفرق جگہوں میں بھیجا جاوے۔ بشرطیکہ ان کی اخلاقی حالت اچھی ہو۔ تقویٰ اور طہارت میں نمونہ بننے کے لائق ہوں۔ مستقل، راست قدم اور بردبار ہوں اور ساتھ ہی قانع بھی ہوں اور ہماری باتوں کو فصاحت سے بیان کر سکتے ہوں۔ مسائل سے واقف اور متقی ہوں کیونکہ متقی میں ایک قوت جذب ہوتی ہے۔ وہ آپ جاذب ہوتا ہے۔ وہ اکیلا رہتا ہی نہیں۔
جس نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے۔ اس نے پہلے ازل سے ہی ایسے آدمی رکھے ہیں جو بکلّی صحابہؓ کے رنگ میں رنگین اور انہیں کے نمونہ پر چلنے والے ہوں گے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر طرح کے مصائب کو برداشت کرنے والے ہوں گے اور جو اس راہ میں مر جائیں گے وہ شہادت کا درجہ پائیں گے۔
دین کی حقیقت
اللہ تعالیٰ نرے اقوال کو پسند نہیں کرتا۔ اسلام کا لفظ ہی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جیسے ایک بکرا ذبح کیا جاتا ہے ویسے ہی انسان خدا تعالیٰ کی راہ میں جان دینے کے لئے تیار رہے۔ آنحضرتﷺ کے پاس ایک قوم آئی اور کہنے لگی کہ ہمیں فرصت کم ہے ہماری نما زیں معاف کی جائیں آنحضرتﷺ نے فرمایا وہ دین ہی نہیں جس میں نمازیں نہیں۔ جب تک عملی طور پر ثابت نہ ہو کہ خدا تعالیٰ کے لئے تکلیف گوار ا کر سکتے ہو تب تک نرے اقوال سے کچھ نہیں بنتا۔ نصاریٰ نے بھی جب عملی حالت سے لا پرواہی کی تو پھر ان کی دیکھو کیسی حالت ہوئی کہ کفارہ جیسا مسئلہ بنا لیا گیا۔
صدق دل سے ایک ہی قدم میں ولی بن سکتے ہو
اگر آدمی صدق دل سے محض خدا تعالیٰ کے لئے قدم اُٹھائے تو میرا ایمان ہے کہ پھر بہت برکت ہوگی۔
میں تو جانتا ہوں کہ وہ اولیاء اللہ میں داخل ہو جائے گا۔ یاد رکھو ایک قدم سے ہی انسان ولی بن جاتا ہے۔ جب غیر اللہ کی شراکت نکال لی بس عبادالرحمٰن میں داخل ہو گیا۔ جب اس کے دل میں محض خدا ہی خدا ہے اور کچھ نہیں تو پھر ایسے کوہی ہم ولی کہتے ہیں ۔دیکھو صادق کے واسطے یہ کوئی مشکل کام نہیں۔ اس میں ایک کشش ہوتی ہے۔ وہ خالی جاتا ہی نہیں۔
دُنیا کی زندگی کا آرام ہو۔ ہر طرح سے آسودگی اور عیش وعشرت کے سامان ہوں۔ یہ ایمانی اُصول کے مخالف پڑا ہوا ہے۔ ایمانی اصول تو چاہتا ہے کہ ایسے لوگوں کا نہ دن نہ رات کوئی وقت آرام سے گذرتا ہی نہیں۔ ایک مرحلہ مصائب کا اگر طے کرتے ہیں تو دوسرا مرحلہ درپیش ہوتا ہے۔ کاش اگر صحابہؓ کی طرح بعد میں آتے تو ایک بھی کافر نہ رہتا مگر وہ دل نہ ہوئے جو اُن کے تھے۔ وہ اخلاص اور صدق نہ ہوا جوان کا تھا وہ تقویٰ اور استقلال نہ رہا جو اُن کا تھا۔
تبلیغ کا صحیح طریق
ہماری جماعت کے لو گ گومالی امداد میں تو کچھ فرق نہیں کرتے مگر اللہ تعالیٰ تو ہر امر میں آزمانا چاہتا ہے۔ اب تلوار کی بجائے گالیاں کھا کر صبر کرنا چاہئے کہ بڑی نرمی اور خو ش خلقی سے لوگوں پر اپنے خیالات ظاہر کئے جاویں۔ بہ نسبت شہروں کے دیہات کے لوگوں میں سادگی بہت ہے اور ہمارے دعویٰ سے بہت کم واقفیت رکھتے ہیں۔ اگر ان کو نرمی سے سمجھا یاجاوے تو اُمید ہے کہ سمجھ لیں گے۔ جلسوں کی بھی ضرورت نہیں۔ اور نہ ہی با زاروں میں کھڑے ہو کر لیکچر دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس طرح سے فتنہ پیدا ہوتا ہے۔ چاہئے کہ ایک ایک فرد سے علیحدہ علیحدہ مل کر اپنے قصے بیان کئے جاویں۔
جلسوں میں تو ہار جیت کا خیال ہو جاتا ہے۔ چاہیے کہ دوستانہ طورپر شریفوں سے ملاقات کرتے رہیں اور رفتہ رفتہ موقعہ پا کر اپنا قصہ سنا دیا۔ بحث کا طریق اچھا نہیں بلکہ ایک ایک فرد سے اپنا حال بیان کیا اور بڑی آہستگی اور نرمی سے سمجھانے کی کو شش کی۔ پھر تم دیکھو گے کہ بہت سے آدمی ایسے بھی نکلیں گے جو کہیں گے کہ ہم پر تو ان مولویوں نے اصلیت ظاہر ہی نہیں ہونے دی۔ چاہیےکہ جس شخص میں علم اور رُشد کا مادہ دیکھا اسی کو اپنا قصہ بتا دیا اور فرد اً فرداً واقفیت بڑھاتے رہے۔ یہ نہیں کہ سب کے سب ظالم طبع اور شر یر ہوتے ہیں۔ بلکہ شریف اور مخلص بھی انہیں میں چھپے ہوئے ہوتے ہیں۔
لاہور کے ایک شخص نے رات کے پہلے حصہ میں کشف میں دیکھا کہ زنا فسق وفجور۔ بدکاری اور بے حیائی کا بازار بڑا گرم ہے۔ تب وہ جاگا اور خیال کیا کہ اگر ایسا ہی حال ہے تو یہ شہر تباہ کیوں نہیں ہوتا۔ مگر جب وہ تہجد کی نما ز پڑھ کر پچھلی رات کو پھر سویا تو کیا دیکھتا ہے کہ صدہا آدمی ہیں جو دعاؤں میں مشغول ہیں اور خدا تعالیٰ کی یاد میں مصروف ہیں۔ کوئی صدقہ وخیرات کر رہے ہیں۔ کوئی بیکسوں اور یتیموں کی مدد کر رہے ہیں۔ غرض توبہ اور استغفار کا بازار گرم ہے۔ تب اس نے سمجھا کہ انہیں کی خا طر یہ شہر بچا ہوا ہے۔ یہ سنت اللہ ہے کہ ابرار اخیار کے واسطے بڑے بڑے بد کار اور بدمعاش آدمی بھی بچائے جاتے ہیں۔
یاد رکھو کہ کچھ نہ کچھ نیک لوگ بھی ضرور مخفی ہوتے ہیں۔ اگر سب ہی بُرے ہوں تو پھر دنیا ہی تباہ ہو جاوے۔ ‘‘
(الحکم جلد1نمبر35صفحہ3مؤرخہ30ستمبر1907ء ملفوظات جلد9صفحہ413تا419)
جماعت احمدیہ میں وقف کا نظام
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے وقف کے نظام کی تاریخ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ
’’اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں دین کی خاطر زندگی وقف کرنے کا نظام کسی نہ کسی شکل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے سے ہی قائم ہے اور خلافتِ ثانیہ میں اس میں ایک باقاعدگی پیدا ہوئی۔ باقاعدہ زندگی وقف کرنے کے بانڈ (Bond) یا فارم پُر کئے جانے لگے۔ دینی تعلیم کے لئے جامعہ احمدیہ کے نظام کو مزید منظم کیا گیا۔ مبلغین بیرونِ ملک بھیجے جانے لگے جنہوں نے تبلیغی میدانوں میں بڑے کارہائے نمایاں سرانجام دئیے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے تبلیغی اور تربیتی سرگرمیوں میں اپنی پہچان کروائی اور یہ کام اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج تک جاری ہے اور مبلغین مختلف ممالک میں اس کام میں مصروف ہیں۔ ان مبلغین اور مربیان اور معلمین میں پاکستان، ہندوستان کے علاوہ اب مختلف قوموں کے افراد شامل ہو چکے ہیں۔ خاص طور پر افریقن ممالک کے اسی طرح انڈونیشیا کے مبلغین اورمعلمین کافی تعداد میں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ وفا کے ساتھ ان سب کو خدمات بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے۔
واقفینِ زندگی کے نظام میں ایک دوسرا گروہ بھی ہے۔ صرف مبلغین نہیں ، ڈاکٹرزاور ٹیچرز اور دوسرے لوگ ہیں ، وہ بھی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ بہر حال جوں جوں جماعتی ضروریات بڑھ رہی ہیں ، تبلیغی میدان میں بھی وسعت پیدا ہو رہی ہے اور خدمات کے دوسرے میدانوں میں بھی وسعت پیدا ہو رہی ہے جہاں واقفینِ زندگی اور مبلغین کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس جس طرح یہ وسعت پیدا ہو رہی ہے، کام بڑھ رہے ہیں ، احمدیت کا پیغام پھیل رہا ہے۔ دنیا احمدیت کی آغوش میں بھی آ رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ واقفینِ زندگی اور دینی علم رکھنے والوں کی ضرورت بھی بڑھ رہی ہے جو تبلیغ اور تربیت کا فریضہ سرانجام دے سکیں۔ جیسا کہ ان آیات سے ظاہر ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جماعت کے ہر فرد کا ہمہ وقت تبلیغی اور تربیتی کاموں میں مصروف رہنا ممکن نہیں۔ اس لئے ایک گروہ ہو جو خاص طور پر یہ کام سرانجام دے۔ باوجود اس کے کہ ایک دوسری جگہ امت کے ہر فرد کی یہ ذمہ داری لگائی گئی ہے کہ وہ نیکیوں کے پھیلانے، برائیوں سے روکنے اور دعوتِ الی اللہ کا فرض ادا کرے۔ لیکن پھر بھی یہ فرمایا ہے کہ کیونکہ یہ جو نظامِ دنیا ہے اس کو چلانا بھی ضروری ہے، اس لئے جو اس میں مصروف ہوں گے وہ بھی ہمہ وقت، وقت نہیں دے سکتے۔ پھر ہر ایک کا مزاج بھی ایسا نہیں ہوتا کہ وہ تبلیغی اور تربیتی کام احسن رنگ میں سرانجام دے سکے۔ پھر تمام کے تمام امت کے افراد دین کا وہ فہم اور ادراک بھی حاصل نہیں کر سکتے جو ایک مبلغ اور مربی کے لئے ضروری ہے۔ اور پھر یہ بھی کہ تمام لوگوں کو خاص توجہ کے ساتھ ٹریننگ بھی نہیں دی جا سکتی۔ اس لئے ایک گروہ ہونا چاہئے جو پوری توجہ سے دین سیکھے۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات، اوامر و نواہی سے واقفیت حاصل کرے۔ ان کی گہری حکمت سیکھے اور پھر پھیلائے۔ ما شاء اللہ جماعت میں ایسے بھی بہت سے افراد ہیں جو اپنے ذوق اور شوق کی وجہ سے دنیاوی تعلیم کے علاوہ بھی دینی علم کا کافی درک رکھتے ہیں۔ لیکن بعض دفعہ، بلکہ اکثر دفعہ ان کی دوسری مصروفیات ایسی ہو جاتی ہیں جو مستقل طور پر وقت دینے میں آڑے آتی ہیں۔ بہر حال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دین کے کام کے لئے واقفِ زندگی کا ایک گروہ ہونا چاہئے اور پھر کیونکہ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے اس لئے ہر فرقے میں سے یعنی ہر گروہ میں سے، ہر طبقے میں سے، لوگوں کے ہر حصے میں سے متفرق قسم کے لوگوں میں سے یہ ایک گروہ ہونا چاہئے۔ اور پھر مزید وسعت پیدا کریں تو فرمایا کہ ہر قوم میں سے ایسے لوگ ہوں جو دین سیکھیں اور آگے سکھائیں۔ ہر قوم اور ہر گروہ اور ہر طبقے کے مزاج، نفسیات اور طریق مختلف ہوتے ہیں۔ اس کے مطابق تبلیغ کا طریق اختیار کیا جائے۔ اس طرح تبلیغ کرنی بھی آسان رہے گی اور تربیت بھی آسان رہے گی۔ بہر حال یہ رہنمائی اللہ تعالیٰ نے فرمائی کہ مومنوں کا ایک گروہ ہو جو تبلیغی اور تربیتی کام سرانجام دے اور پھر یہ کہ ہر قوم اور ہر طبقے کے لوگوں میں سے ہو تا کہ اس کام میں سہولت پیدا ہو سکے۔
پس جماعت احمدیہ میں اس اصول کے تحت دین کی خاطر زندگی وقف کرنے کا نظام قائم ہے۔ اور جیسا کہ میں نے کہا مختلف قوموں اور طبقوں کے لوگ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب اس نظام کا حصہ بن چکے ہیں اور بن رہے ہیں۔ اور جیسا کہ میں نے کہا کہ جماعتی ضروریات بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس تعداد میں اضافے کی بھی ضرورت ہے اور یہ ضرورت آئندہ بڑھتی بھی چلی جائے گی۔ فی الحال صرف موجودہ وقت میں ضرورت نہیں ہے بلکہ آئندہ اس ضرورت نے مزید بڑھنا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس ضرورت کو بھانپتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی پا کر واقفینِ نو کی سکیم شروع فرمائی تھی۔ اور اس کی بنیادی اینٹ ہی تقویٰ پر رکھتے ہوئے والدین کو یہ تحریک فرمائی تھی کہ بجائے اس کے کہ بچے بڑے ہو کر اپنی زندگیاں وقف کریں اور اپنے آپ کو پیش کریں ، والدین دین کا درد رکھتے ہوئے اور تقویٰ پر قائم ہوتے ہوئے اپنے بچوں کو ان کی پیدائش سے پہلے دین کی راہ میں وقف کرنے کے لئے پیش کریں۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍ اکتوبر 2010ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل12؍نومبر2010ءصفحہ5تا6)
٭…٭…٭