حکومتِ وقت کی اطاعت اور خیر خواہی (قسط سوم)
برٹش حکومت کی شکرگزاری
اخبارات ورسائل کا احوال
اخبار غم خوار ہند
’’رحم دل وائسرائے ‘‘۔ 7؍مارچ 1903ء
بنگال کے اخبارات لکھتے ہیں کہ حضور لارڈ کرز ن نے نوشیروانی انصاف کا نمونہ دکھایا ہے۔ مولوی بہاء الدین کو اپنی جیب سے 500روپیہ عنایت فرمایا۔ ڈپٹی کلکٹر کا عہدہ بھی عطا کیا۔
اخبار غم خوار ہند
جلسہ تعمیر مغل سرائے بیادگار دربار دہلی تاجپوشی شہنشاہ ہند۔7؍مارچ1903ء
مرزا محمد علی صاحب رئیس اعظم لاہور نے تاجپوشی شہنشاہ ہند کی خوشی میں ایک مغل سرائے اور مسجد کی افتتاحی تقریب منعقد کی جس میں ’اکثر رؤساء اور شرفاء اہل اسلام وہنود رونق افروز ہوئے اور عوام کا بڑا بھاری ہجوم تھا‘۔ مولوی فضل الدین صاحب پلیڈر چیف کورٹ پنجاب ووائس پریذیڈنٹ میونسپل کمیٹی لاہور( جو مسلمانوں کے لیڈر اور ریفارمر ہونے کی عزت رکھتے ہیں اورایک مشہور ومعروف لیکچرار ہیں ) کھڑے ہوکر نہایت برجستہ اورموزوں الفاظ سرکار ابدقرار گورنمنٹ عالیہ کے الطاف وحسنات بیان کرکے مرزا صاحب کی کما حقہ تعریف و توصیف کی‘۔ اس محفل میں مولانا ومقتدنا شمس العلماء فخر المجتہدین، مجتہد العصر والزمان جناب سید ابوالقاسم صاحب مد ظلہ العالی بھی موجود تھے۔
ندوة العلماء کا مشہور رسالہ ’’الندوہ‘‘
ہندوستانی علماء اور مشائخ کا گڑھ اور اسلامی تعلیم وتدریس میں ایک نامی گرامی نام رکھنے والے ادارہ ندوة العلماء نے مئی 1910ء میں ایڈورڈ ہفتم کی وفات پر اپنے ادارے کو 2 روز کےلیے مکمل بند رکھا۔ جو کہ برٹش حکومت سے محبت اور وفا اور اطاعت کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔ چنانچہ ندوة العلماء کے مئی 1910ء کے رسالہ ’الندوہ‘ کے پہلے صفحہ پر ملک معظم کی وفات کے عنوان سے ایک بین مضمون شامل ہے جس میں نہ صرف حکومت کے عدل کی تعریف کی گئی ہے بلکہ ندوة العلما ء کے 2روز بند رہنے کا بھی بتلایا گیا ہے۔ اور انتہائی موزوں الفاظ میں کچھ یوں درج کیا گیا ہے:
’’دارالعلوم ندوہ بھی جو ایک مذہبی درسگاہ ہے اس صدمۂ جانکاہ میں دو روز کے لیے بند کردیاگیااور نواب لفٹنٹ گورنر اورحضور وائسرائے کی خدمت میں تعزیت کے تار دیے گئے‘‘۔
سراج الاخبار جہلم
ملکہ وکٹوریہ کی 1901ء میں وفات پردیگر ہم عصر اخبارات کی طرح سراج الاخبار جہلم نے بھی اپنے اخلاص اور وفا کو چھپانا مناسب نہ گردانا۔ اور ملکہ معظمہ کی وفات کے غم میں خود لکھنے کے ساتھ ساتھ دیگر لکھنے والوں اور ماتمی جلوسوں کی رپورٹنگ کےلیے از بس جگہ مہیا کی۔ جو کہ کسی بھی اخبار کےلیے کافی مشکل کام ہے۔
علاوہ ازیں پورے ہندوستان میں ماتمی جلوسوں کا خاص طور پر اہتمام کیا گیا جس کا تفصیلی احوال بھی پڑھنے کے لائق ہے جہاں ملکہ مرحومہ (مذہباً عیسائی وانگریز)سے محبت کا لامتناہی سلسلہ نظر آتا ہے۔
انجمن حمایت اسلام
انجمن حمایت اسلام نے بھی اسلام کی بھرپور حمایت میں آنجہانی ملکہ معظمہ کی وفات پر نہ صرف یہ کہ ایک ماتمی جلسہ کا اہتمام کیا بلکہ اس جلسہ میں موجود عوام پر’’حضور ملکہ قیصرہ ہند کے محامد و اوصاف نہایت فصاحت سے‘‘ بیان کیے اور ’’واقعات صحیحہ کو ظاہر کرتے ہوئے حاضرین کو رلا دیا۔ ‘‘ اس پرسوز محفل میں جناب ایڈیٹر سراج الاخبار بھی شریک تھے۔
روزنامہ وطن اخبار لاہور
مولوی محمد انشاء اللہ کی ملکیت اور ایڈیٹرشپ میں نکلنے والے لاہور کے اخبار وطن نے بھی بھرپور حق ادا کیا۔ اور 1912ءمیں نئے شہنشاہِ انگلستان(شہزادے) کی تاجپوشی پر مسلسل تین چار اشاعتوں میں ٹائٹل صفحہ یعنی اخبار کی پیشانی پر تاجپوشی کو بھرپور جگہ دی۔ اور ملکہ معظمہ اور جارج ہفتم کی مغفرت کے ساتھ ساتھ ان کو جنت کی بھی راہ دکھا دی۔
چنانچہ لکھا ہے:
در مدح وتہنیت تاجپوشی جلالت مآبان معلیٰ اقتدار-درة لاتاج شہریاران روزگار –مہروماہ سپہر علو مرتبت وتاجداری-شمس و قمر آسمان سلطنت وجہانداری-مالک رقاب الامم شہنشاہ الاعظم جارج پنجم-ومحذوئیہ جہان معصومہ ادان قیصرہ زمان ملکہ میرین بادشاہ بیگم-ادام اللّٰہ اقبالہا و خلد اللّٰہ ملکہما ودولتھما-وافاض اللّٰہ علی العالمین بر ہما واحسانہما وتعزیت رحمت بابان شہنشاہان جہان ملکہ معظمہ محترمہ کوئین وکٹوریہ وملک معظم ایڈورڈ ہفتم جعل اللّٰہ الجنة ملکہما ورحمتہ ودولتہما
پیسہ اخبار 1891ء
ملکہ معظمہ کی تصاویر کی کثرت سے فروخت اور گھروں کی زینت بنائے جانا
عموماً ہمارے گھروں میں ایسے بزرگان کی تصاویر آویزاں ہوتی ہیں جن سے ہمیں عقیدت ہوتی ہے۔ چنانچہ برصغیر میں لوگ اپنے گھروں میں ملکہ معظمہ ہند کی تصاویر لگایا کرتے تھے جس کا بین ثبوت پیسہ اخبار کا یہ اشتہار ہے۔
افغانستان میں مذہب کے نام پر خون کرنے والے امیر کابل جو خود اپنے آپ کو انتہائی پکا مسلمان گردانتا تھا۔ خود بھی انگریزوں کی تنخواہ اور پذیرائی کا خواہاں رہا۔ اور 18 لاکھ کی خطیر رقم حاصل کرتا رہا۔ بلکہ انگریزوں سے تعلقات استوار کرنے کی حسرت لیے رہا۔ چنانچہ حکومتی رپورٹ از مقامی اخبارات سے اخبار عام 18؍ستمبر 1900ء کا یہ حوالہ امیر افغانستان کی انگریزوں سے قربت کی خواہش بتلاتا ہے:
مذکورہ بالا (قسط اول، دوم، سوم) میں مذکور تمام حوالہ جات اور تراشے دیکھنے کے بعد ایک معقول عقل کےلیے یہ امر جاننا انتہائی سہل ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰة والسلام نے جو حکومت برطانیہ کی تعریف کی ہے وہ دراصل ان کے عہد وپیمان، ان کے عدل وانصاف، ان کی مہیا کردہ سہولیات اور سب سے بڑھ کر ان کی طرف سے مسلمانوں کو مذہبی آزادی دیے جانے کے باعث تھا۔
اور یہی اس دَور کے علماء اور مشائخ کا طریق بھی رہا ہےجس کی تفصیل میں مختلف علماء کے بیانات بھی درج کیے جاچکے ہیں۔ پس ہر ایک محقق کےلیے ضروری ہے کہ جماعت احمدیہ پر انگریزوں کے خود کاشتہ ہونے کا الزام لگانے سے پہلے اپنے گھر میں موجود اپنے تمام علماء و معزز ہستیوں کی تاریخ پر ایک نظر ڈال لیں کہ آیا انہوں نے بھی انگریز حکومت کی تعریف کے ساتھ ساتھ نوکری تو نہیں کی۔ کیا وہ بھی ساری ساری رات انگریزوں کے دروازے کے باہر (سر سید احمد خان کی طرح) بندوق لگائے پہرہ تو نہیں دیتے رہے۔
پھر یہیں پر ہی بس نہیں کی گئی بلکہ حضور علیہ السلام کی ذات کو مشتبہ اور حکومت کی نظر میں سوالیہ نشان بنانے کی غرض سے یہی علماء آپؑ کے خلاف ایک بھرپور پروپیگنڈا کے تحت حکومت کو شکایات لگاتے رہے کہ کسی طرح خدا کے اس پہلوان کا سلسلہ کار رکوایا جاسکے۔ آج ’خود کاشتہ پودا ‘ کا الزام عائد کرنے والے ملاؤں کے اپنے آبا واجداد تو الٹا آپ کو انگریز مخالف ثابت کرنے کے درپے تھے۔ چنانچہ کبھی آپؑ ہی کی تحریرات کو توڑ مروڑ کر حکومت کے پاس شکایات لے جاتے تھے کہ یہ حکومت کے خلاف مستعمل ہے تو کبھی آپ علیہ السلام کے دعویٰ مہدویت کو خونی مہدی کے اپنے ہی نظریات سے خلط ملط کر کے حکومت کے خلاف جہاد وغیرہ کی بابت شرانگیزی پھیلانے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ بہرحال ان تمام مسائل پر تاریخی نگاہ سے آئندہ اقساط میں روشنی ڈالیں گے۔
(باقی آئندہ)