قرآن کریم کی بلند شان
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھر قرآن کریم کی بلند شان ہونے اور اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ قرآن مجید میں متفرق کتابوں کے تمام کمالات جمع ہیں اور صرف بطور قصہ کے نہیں بلکہ ایک مومن کے لئے عمل کرنے کے لئے ہیں آپؑ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے چاہا ہے کہ جیسے تمام کمالات متفرقہ جو انبیاء میں تھے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں جمع کر دئیے۔ اسی طرح تمام خوبیاں اور کمالات جو متفرق کتابوں میں تھے وہ قرآن شریف میں کر دئیے اور ایسا ہی جس قدر کمالات تمام اُمتوں میں تھے وہ اس اُمّت میں جمع کر دئیے۔ پس خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم ان کمالات کو پا لیں اور یہ بات بھی بھولنی نہیں چاہئے کہ جیسے وہ عظیم الشان کمالات ہم کو دینا چاہتا ہے اسی کے موافق اس نے ہمیں قُویٰ بھی عطا کئے ہیں کیونکہ اگر اس کے موافق قویٰ نہ دئیے جاتے تو پھر ہم ان کمالات کو کسی صورت اور حالت میں پا ہی نہیں سکتے تھے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی شخص ایک گروہ کی دعوت کرے تو ضرور ہے کہ اس گروہ کی تعداد کے موافق کھانا تیار کرے اور اسی کے موافق ایک مکان (یعنی دعوت کی جگہ بھی) ہو۔ یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ دعوت تو ایک ہزار آدمی کی کرے اور ان کے بٹھانے کے واسطے ایک چھوٹی سی کُٹیا بنا دے‘‘۔ (دعوت کرے ہزار آدمی کی اور جگہ بالکل تھوڑی سی رکھے۔)’’نہیں بلکہ وہ اس تعداد کا پورا لحاظ رکھے گا۔ (ان کے بیٹھنے کی جگہ بھی اتنی ہی رکھنی پڑے گی۔) اسی طرح پر خدا تعالیٰ کی کتاب بھی ایک دعوت اور ضیافت ہے۔ (قرآن کریم ایک دعوت اور ضیافت ہے) جس کے لئے کُل دنیا کو بلایا گیا ہے۔ (یہ دعوت، یہ شریعت تمام دنیا کے لئے ہے)۔ اس دعوت کے لئے خدا تعالیٰ نے جو مکان تیار کیا ہے وہ انسانی قویٰ ہیں‘‘۔ (انسان میں جو طاقتیں وہ بنائی گئی ہیں وہ بیٹھنے کے لئے مکان ہے اس لئے ہر انسان کے لئے یہ کہنا کہ ہم قرآن کریم کے فلاں حکم پر عمل نہیں کر سکتے یہ بڑا مشکل ہے یہ غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو وہ طاقتیں دی ہیں کہ ان پر عمل ہو سکے۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ) ’’جو اُن لوگوں کو دئیے گئے ہیں جو اس امّت میں ہیں‘‘۔ (مسلمانوں میں ان حقیقی مسلمانوں میں جو خالص ہو کر اپنے ایمان پر قائم ہیں ان کو یہ قویٰ دئیے گئے ہیں۔) پھر فرمایا کہ ’’قُویٰ کے بغیر کوئی کام نہیں ہوسکتا‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’اَب اگر بَیل، کتّے یا کسی اور جانور کے سامنے قرآن کی تعلیمات کو پیش کریں تو وہ نہیں سمجھ سکتے۔ اس لئے کہ ان میں وہ قُویٰ نہیں ہیں کہ جو قرآن کریم کی تعلیمات کو برداشت کر سکیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہم کو وہ قُویٰ دئیے ہیں کہ ہم ان سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 340-341۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس اگر انسان اپنے آپ کو یہ کہہ کر جانور نہ سمجھے کہ ہمیں قویٰ نہیں، ہمیں طاقتیں نہیں کہ قرآن کریم پر عمل کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک حقیقی مسلمان کو وہ طاقتیں دی ہیں اور ان کو نکھارنا پھر انسان کا کام ہے تا کہ قرآن کریم کے حکموں پر عمل کرے۔
(خطبہ جمعہ 16؍ دسمبر 2016ء)