تحریک جدید کی اہمیت اور اِس کے اغراض ومقاصد (قسط دوم)
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
جب میں رات کو اپنے بستر پر لیٹتاہوں تو بسا اوقات سارے جہان میں تبلیغ کو وسیع کرنے کے لئے میں مختلف رنگوں میں اندازے لگاتا ہوں،کبھی کہتا ہوں ہمیں اتنے مبلّغ چاہئیں اور کبھی کہتا ہوں اتنے مبلّغوں سے کام نہیں بن سکتا اس سے بھی زیادہ مبلّغ چاہئیں یہاں تک کہ بعض دفعہ بیس بیس لاکھ تک مبلغینّ کی تعداد پہنچا کر مَیں سو جایا کرتا ہوں۔ میرے اُس وقت کے خیالات کو اگر ریکارڈ کیا جائے تو شاید دنیا یہ خیال کرے کہ سب سے بڑا شیخ چلّی مَیں ہوں مگر مجھے اپنے ان خیالات اور اندازوں میں اتنامزہ آتا ہے کہ سارے دن کی کوفت دُور ہو جاتی ہے ۔مَیں کبھی سوچتا ہوں کہ پانچ ہزار مبلّغ کافی ہوں گے، پھر کہتا ہوں پانچ ہزار سے کیا بن سکتا ہے دس ہزارکی ضرورت ہے، پھر کہتا ہوں دس ہزار بھی کچھ چیز نہیں، جاوا میں اتنے مبلّغوں کی ضرورت ہے، سماٹرا میں اتنے مبلّغوں کی ضرورت ہے، چین اور جاپان میں اتنے مبلّغوں کی ضرورت ہے، پھر میں ہر مُلک کی آبادی کا حساب لگاتا ہوں، اُن کے اخراجات کا اندازہ لگاتا ہوں اور پھر کہتا ہوں یہ مبلّغ بھی تھوڑے ہیںاِس سے بھی زیادہ مبلّغوں کی ضروت ہے۔ یہاں تک کہ بیس بیس لاکھ تک مبلّغوں کی تعداد پہنچ جاتی ہے۔ اپنے اِن مزے کی گھڑیوں میں مَیں نے بیس بیس لاکھ مبلّغ تجویز کیا ہے۔ دنیا کے نزدیک میرے یہ خیالات ایک واہمہ سے بڑھ کر کوئی حقیقت نہیں رکھتے مگر اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ جو چیز ایک دفعہ پیدا ہو جائے وہ مرتی نہیں جب تک اپنے مقصد کو پورا نہ کرے۔ لوگ مجھے بے شک شیخ چلّی کہہ لیں مگر میں جانتا ہوں کہ میرے اِن خیالات کا خداتعالیٰ کی پیدا کردہ فضامیں ریکارڈ ہوتا چلا جارہا ہے اور وہ دن دُور نہیں جب اللہ تعالیٰ میرے اِن خیالات کو عملی رنگ میں پورا کرنا شروع کر دے گا۔آج نہیں تو آج سے ساٹھ یا سَو سال کے بعد اگر خدا تعالیٰ کا کوئی بندہ ایسا ہوا جو میرے اِن ریکارڈوں کو پڑھ سکا اور اُسے توفیق ہوئی تو وہ ایک لاکھ مبلّغ تیار کردے گا، پھر اللہ تعالیٰ کسی اَور بندے کو کھڑا کر دے گا جو مبلّغوں کو دو لاکھ تک پہنچا دے گا، پھر کوئی اور بندہ کھڑا ہو جائے گا جو میرے اس ریکارڈ کودیکھ کر مبلّغوں کو تین لاکھ تک پہنچا دے گا اس طرح قدم بقدم اللہ تعالیٰ وہ وقت بھی لے آئے گا جب ساری دنیا میں ہمارے بیس لاکھ مبلّغ کام کررہے ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ کے حضور ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے اس سے پہلے کسی چیز کے متعلق امید رکھنا بیوقوفی ہوتی ہے۔ میرے یہ خیال بھی اب ریکارڈ میں محفوظ ہو چکے ہیں اور زمانہ سے مٹ نہیں سکتے آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں میرے یہ خیالات عملی شکل اختیار کرنے والے ہیں اور اگر اِن خیالات کا اور کوئی فائدہ نہیں تو کم سے کم اتنا فائدہ تو سرِدست ہو ہی جاتا ہے کہ میرے دن بھر کی کوفت دور ہو جاتی اور آرام سے نیند آجاتی ہے اور اس میں جو مزہ مجھے حاصل ہوتا ہے اُس کا اندازہ کوئی اور شخص لگا ہی نہیں سکتا۔ یہ کام ہے جو ہمارے سامنے ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ کام ہم نے ہی کرنا ہے کسی اَور نے نہیں کرنا۔ اور پھر ہمارے لئے یہ کوئی سوال نہیں کہ ہم نے یہ کام کتنی قربانی سے کرنا ہے۔ بعض کام ایسے ہوتے ہیں جن کے کرتے وقت انسان یہ سوچ لیتا ہے کہ اِس پر وہ کس حد تک روپیہ خرچ کر سکتا ہے۔ اگر زیادہ روپیہ خرچ ہو تو وہ اس کام کے لئے تیار نہیں ہوتا مثلاً اگر کوئی شخص کہے کہ میں ایک ایسا گھوڑا خریدنا چاہتا ہوں کہ جس پر تین سو روپیہ خرچ آتا ہو تو اِس کے صاف معنٰی یہ ہوں گے کہ اگر ساڑھے تین سو روپیہ کا گھوڑا ملے گا تو میں نہیں لو ں گا۔ لیکن ہم تو یہ نہیں کہتے کہ اگر فلاں قربانی سے کام ہوا تو ہم کریں گے ورنہ نہیں کریں گے ہمارا یہ اقرار ہے کہ ہم اسلام کے لئے اپنی ہر چیز یہاں تک کہ اپنے مال، جان اور عزت کو بھی قربان کر دیں گے۔ کئی لوگ پوچھا کرتے ہیں کہ کیا عزت اور آبرو کی قربانی بھی اسلام جائز قرار دیتا ہے؟ میں انہیں ہمیشہ یہ جواب دیا کرتا ہوں کہ ہاں اسلام کے لئے اگر عزت اور آبرو کو بھی قربان کرنا پڑے تو مومن کو یہ چیز قربان کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ ہزاروں اوقات انسانی زندگی میں ایسے آتے ہیں جب عزت اور آبرو خطرہ میں ہوتی ہے۔ دشمن ننگ و ناموس کو کچلنے کے لئے تیار ہوتا ہے مگر خدا اور اُس کے رسول کی طرف سے انسان پر جو فرائض عائد ہوتے ہیں وہ اُسے مجبور کرتے ہیں کہ وہ عزت و آبرو کا قربان ہونا برداشت کرلے مگر اپنے فرائض میں کسی قسم کی کوتاہی نہ ہونے دے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب عرب میں ایک طرف جھوٹے مدعیانِ نبوت کا فتنہ اُٹھا اور دوسری طرف قبائلِ عرب میں ایسے باغی پیدا ہو گئے جنہوںنے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا اور شورش اس حد تک بڑھی کہ مدینہ پر حملہ کا خطرہ پیدا ہو گیا تو اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کے ماتحت اُسامہ بن زیدؓ کی سرکردگی میں ایک لشکر شام کی طرف عیسائیوں کے مقابلہ کے لئے روانہ ہو رہا تھا۔ حالات کی نزاکت دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت ابوبکرؓ کے پاس آئے اور اُن سے کہا کہ اِس وقت باغیوں کی وجہ سے سخت خطرہ ہے اور مدینہ کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں بہتر ہو گا کہ اسامہؓ کے لشکر کو روک لیا جائے اگر یہ لشکر بھی روانہ ہو گیا اور باغیوں نے مدینہ پر حملہ کر دیا تو ہماری عورتوں کی وہ بے حرمتی ہو گی کہ اَلْاَمَان۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا خدا کی قسم! اگر دشمن ہم پر غالب آ جائے اور مدینہ کی گلیوں میں کتے ہماری عورتوں کی ٹانگیں گھسیٹتے پھر یں تب بھی میں اِس لشکر کو نہیں روکوں گا جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ ہونے کا ارشاد فرمایا ہے لشکر جائے گا اور ضرور جائے گا۔
(تاریخ الخلفاء للسیوطی صفحہ 51 مطبوعہ لاہور 1892ء)
اب دیکھو یہ اسلام کے لئے عزت اور آبرو کی قربانی تھی جسے پیش کرنے کے لئے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ فوراً تیارہوگئے۔ بیس پچیس ہزار کا لشکر مدینہ کی طرف بڑھتا چلا آ رہا تھا اور صرف چند سَو آدمی مدینہ میں موجود تھے جو اُن کے مقابلہ کے لئے قطعاً کافی نہیں تھے۔ دس ہزار تجربہ کار سپاہیوں کا لشکر دشمن کو شکست دینے کیلئے موجود تھا مگر چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے شام کی طرف روانہ ہونے کا ارشاد فرما چکے تھے اس لئے حضرت ابو بکرؓ نے کہا کہ باوجود شدید خطرات کے یہ لشکر نہیں رُکے گااِسے ضرور بھیجا جائے گا خواہ مدینہ میں صرف بوڑھے، عورتیں اور بچے ہی رہ جائیں اور دشمن اس قدر غالب آجائے کہ عورتوں کی ٹانگیں مدینہ کی گلیوں میں کتے گھسیٹتے پھر یں۔ بھلا اس سے زیادہ عزت کی قربانی کیا ہوگی کہ شریف اور معزز عورتوں کی لاشیں مدینہ کی گلیوں میں روندی جائیں اور کتے اُن کی ٹانگیں گھسیٹتے پھریں۔
پس یقیناً سچے ایمان کے ساتھ ہر انسان کو اپنی جان، اپنے مال، اپنی عزت، اپنی آبرواور اپنے احساسات غرض ہر چیز کی قربانی کے لئے پوری طرح تیار رہنا چاہئے۔ اگر ہم ان قربانیوں کے بغیر اپنی کامیابی کی امید رکھتے ہیں تو یہ امید بالکل غلط ہے۔ قربانیاں ہی ہیں جو قوموں کو کامیاب کرتی ہیں اور قربانیاں ہی ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہوتی ہے جس دن ہماری جماعت قربانی کے انتہائی مقام پر پہنچ جائے گی اس دن وہ ایک پیارے بچے کی طرح خداتعالیٰ کی گود میں آجائے گی اورہماری ہر مصیبت اور تکلیف دیکھتے دیکھتے غائب ہو جائے گی۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ بچہ کو بعض دفعہ ماں اپنے ہاتھ میں چھری لے کر ڈراتی ہے اور کہتی ہے آؤ میں تمہیں ذبح کر دوں۔ جب بچہ اچھا کہہ کر چارپائی پر لیٹ جاتا ہے تو ماں اپنے گلے سے اُسے چمٹا لیتی اور اِتنے زور سے اسے چومتی ہے کہ اُس کے کَلّے سرخ ہو جاتے ہیں اِسی طرح اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندوں سے محبت کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اُن کو قربانیوں کی بھڑکتی ہوئی آگ میں چھلانگ لگانے کا حکم دیتا ہے۔ جب مومن قربانی کے ارادہ سے اِس تنور میں اپنے آپ کو جھونک دیتے ہیں تو مَعاً اللہ تعالیٰ کی محبت جوش میں آتی ہے اور وہ اِس قدر پیار کرتا ہے کہ انہیں ہر مصیبت اور تکلیف بھول جاتی ہے۔ جب تک ہماری جماعت کے افراد اپنے دلوں میں قربانی کا اِسی قسم کا جذبہ پیدا نہیں کرتے اُس وقت تک وہ کسی قسم کی ترقی حاصل نہیں کر سکتے۔
پس میں جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ انہیں قربانی کے میدان میں اپنے قدم کو ڈھیلا نہیں بلکہ تیز تر کرتے چلے جانا چاہئے۔ اسی طرح صدر انجمن احمدیہ کے چندے بھی نہایت اہم ہیں جن کی ادائیگی میں جماعت کو پوری توجہ کے ساتھ حصہ لینا چاہئے۔ میںنے بتایا ہے کہ موجودہ حالت ایسی ہے کہ ہم اسلام کی جنگوں کو ایک لمحہ کے لئے بھی روک نہیں سکتے ہمارا فرض ہے کہ ہم اِس جنگ کو جاری رکھیں اور اِس راہ میں کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کریں۔ ہم میں سے ہر فرد کو یہ امر اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ دین کی ضرورتیں ہم سے ایک بڑی قربانی کا مطالبہ کر رہی ہیں اگرہم سستی اور غفلت سے کام لیں گے اور خدا تعالیٰ کے عائد کر دہ فرائض کو نظر انداز کر دیں گے تو ہم سے زیادہ مجرم اور کوئی نہیں ہوگا۔ ہم خدا تعالیٰ کے سامنے اِس بات کے ذمہ دار ہیں کہ اسلام جو اِس وقت مُردہ ہو رہا ہے اِسے اپنی کوششوں سے زندہ کریں اور اپنی تدابیر کو انتہائی کمال تک پہنچا دیں۔ میں نے اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کے رحم پر بھروسہ رکھتے ہوئے اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے بہت سی تدابیر اختیار کی ہیں اور کئی سکیمیں ہیں جن کا جماعت کے سامنے اعلان کر چکا ہوں۔ یہ ہو سکتا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص ان میں سے بھی بہتر تدابیر جماعت کی علمی، تجارتی، صنعتی اور اقتصادی ترقی کے لئے بتاسکے لیکن تمہیں اِس حقیقت کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اگر تم آسمان کی چوٹی پر بھی پہنچ جاؤتب بھی اسلام تمہیں یہی کہتا ہے کہ
اَلْاِمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِہٖ
(بخاری کتاب الجھاد والسیر باب یقاتل من وراء الامام…الخ) تمہاری ڈھال تمہارا امام ہے اور تمہار ی تمام تر سلامتی محض اسی میں ہے کہ تم اُس کے پیچھے ہو کر جنگ کرو۔اگر تم اپنے امام کو ڈھال نہیں بناتے اور اپنی عقلی تدابیرکے ماتحت دشمن کا مقابلہ کرتے ہوتو تم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ کامیابی اسی شخص کے لئے مقدر ہے جو اسلام کی جنگ میری متابعت میں لڑے گا۔ پس ہو سکتا ہے کہ تم میں سے کسی شخص کی ذاتی رائے تجارت کے معاملہ میں مجھ سے بہتر ہو یا صنعت و حرفت کے متعلق وہ زیادہ معلومات پیش کر سکتا ہو لیکن بہرحال جو اصولی سکیم میری طرف سے پیش ہو گی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُسی میں برکت پیدا کی جائے گی اور وہی اس کے منشاء اور ارادہ کے ماتحت ہوگی۔ اگر تم اُس سکیم پر عمل کرو گے تو کامیاب ہو جاؤ گے اور اگر تم اُس سکیم کو نظر انداز کر کے اپنی ذاتی آراء کو مد نظر رکھو گے اور اپنے تجربہ اور ذاتی معلومات کو اپنا راہنما بناؤ گے تو تم کبھی کامیاب نہیں ہو سکو گے۔ میں امید کرتا ہوں کہ جماعتیںاِن تمام باتوں کو پوری طرح ملحوظ رکھیںگی اور کوشش کریں گی کہ اُن کا قدم ترقی کی دَوڑ میں پہلے سے زیادہ تیز ہو۔
میں نے اپنی ایک نظم میں کہا ہے کہ
ہے ساعتِ سعد آئی اسلام کی جنگوں کی
آغاز تو مَیں کر دوں انجام خدا جانے
چنانچہ ایک خوشی تو اللہ تعالیٰ نے جلدنصیب کر دی کہ اس نے محض اپنے فضل سے وہ دن مجھے دکھا دیا جبکہ مبلّغین، اسلام واحمدیت کی اشاعت اور خداتعالیٰ کے جلال اور اس کے جمال کے اظہار کے لئے بیرونی ممالک میں جارہے ہیں۔ اب یہ خداتعالیٰ کی مرضی ہے کہ وہ اس کا انجام مجھے دکھائے یا نہ دکھائے، وہ بادشاہ ہے ہمارا اُس پر کوئی حق نہیں ہم اُس کے رحم اور فضل کے ہر آن طلب گار ہیں اور ہم اُس سے یہی کہتے ہیں کہ اے خدا! تیرے نام کی بلندی ہو اور تیرا جلال دنیا میں پوری طرح ظاہر ہو لیکن انجام خواہ میں دیکھوں یا نہ دیکھوں، ہمارے لڑنے والے سپاہی اپنے غنیم پر کبھی فتح حاصل نہیں کر سکتے جب تک ہم اُن کی مدد نہ کریں، جب تک ہم اُن کے لئے سامان مہیا نہ کریں اور جب تک ہم اُن کے قائم مقام تیار کرنے کی کوشش نہ کریں۔پس جماعت کا فرض ہے کہ وہ ہر قسم کی قربانیوں میں حصہ لے کر اس بوجھ کو اُٹھانے کی کوشش کرے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُس پر عائد کیا گیا ہے اور اِس طرح نہ صرف تحریک جدید، وقف زندگی، وقف تجارت اور صنعت وحرفت وغیرہ تحریکات کو کامیاب کرے بلکہ صدر انجمن احمدیہ کے چندوں میں بھی کسی قسم کی کمی نہ آنے دے۔
(جاری ہے)