خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 02؍ اکتوبر 2020ء

عشرہ مبشرہ میں شامل آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت بدری صحابی حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

آپؓ نےحضرت ابوبکرؓ کی تبلیغ سے مسلمانوں کے دارارقم میں پناہ گزیں ہونے سے پیشتر نویں نمبر پراسلام قبول کیا تھا

دس ہجری، حجة الوداع کے موقعے پر حضرت ابوعبیدہؓ نےرسول اللہﷺ کے ساتھ حج کیا

پاکستان میں احمدیوں کے مخالفین کو انتباہ اور احمدیوں کےلیے دعا کی تحریک

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 02؍ اکتوبر 2020ء بمطابق 02؍ اخاء 1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ  بنصرہ العزیز نے مورخہ 02؍ اکتوبر 2020ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت مکرم سفیر احمدصاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذ،تسمیہ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

بدری صحابہ کے ذکر میں جن صحابی کا ذکر ہوگا وہ ہیں حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ۔ آپؓ کا نام عامر بن عبداللہ تھا اور آپ کا تعلق قریش کے خاندان بنو حارث بن فہر سے تھا۔ حضرت ابو عبیدہؓ دراز قامت،چھدری داڑھی اور دُبلےپتلے جسم کےمالک تھے۔ سامنے کے دو دانت غزوۂ احد کے موقعے پر رسولِ خداﷺکے رخسار میں پھنسے خود کو نکالتے ہوئے ٹوٹ گئے تھے۔عشرہ مبشرہ میں شامل ابوعبیدہؓ نےمتعدد شادیاں کی تھیں ۔ آپؓ نےحضرت ابوبکرؓ کی تبلیغ سے مسلمانوں کے دارارقم میں پناہ گزیں ہونے سے پیشتر نویں نمبر پراسلام قبول کیا تھا۔ یمن یا نجران سے آئے ہوئے وفد نےجب دین سیکھنے کےلیے کسی شخص کوبھجوانے کی درخواست کی تو آنحضورﷺ نے حضرت ابوعبیدہؓ کاہاتھ تھام کر فرمایا ہر امّت کا ایک امین ہوتا ہے اور میری امّت کےامین ابوعبیدہؓ ہیں۔ حضرت عائشہؓ سے جب آنحضورﷺ کے متعلق پوچھا گیا کہ آپؐ کو اپنے اصحاب میں سب سے زیادہ کون محبوب تھا یا آپؐ اپنے بعد کسے جانشین بناتے تو حضرت ابوبکرؓ اور عمرؓ کےبعد عائشہؓ نے ابوعبیدہؓ کا نام لیا۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے اپنی وفات کےوقت فرمایا کہ اگر ابوعبیدہؓ زندہ ہوتے تو مَیں انہیں خلیفہ نامزد کرتا۔ ابوعبیدہؓ نے جب اسلام قبول کیا توآپؓ کے والد نے انہیں بہت تکالیف پہنچائیں۔ آپؓ نے حبشہ ہجرت بھی کی۔اسی طرح جب آپؓ مدینے پہنچے تو رسولِ کریمﷺ کا چہرہ انہیں دیکھ کر تمتما اٹھا۔ آپؓ کی مؤاخات حضرت سالمؓ، حضرت محمد بن مسلمؓہ یا حضرت سعد بن معاذؓ کے ساتھ قائم ہوئی۔ابوعبیدہؓ نے جنگِ بدر سمیت تمام غزوات میں شرکت کی۔ جنگِ بدر میں آپؓ کا باپ ’عبداللہ ‘کفّار کی طرف سے شریک تھا اور دورانِ جنگ مسلسل آپؓ کو نشانہ بنانے کی کوشش میں تھا۔ جب آپؓ نے دیکھا کہ ان کا باپ صرف توحید پر قائم ہونے کی وجہ سے کسی طور پران کاپیچھا نہیں چھوڑ رہا تو جذبۂ توحید نسبی تعلق پر غالب آیا اور آپؓ نے اپنے باپ کو قتل کردیا۔غزوۂ احد میں پتھر لگنے سے خود کی دو کڑیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار مبارک میں پیوست ہوگئیں۔حضرت ابوبکرؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں رسول اللہﷺ کی طرف بھاگا تو دیکھا کہ ابوعبیدہؓ اس قدر تیزی سے آنحضورﷺ کی طرف بھاگ رہے تھے جیسے اُڑ رہے ہوں۔ پھر ابوعبیدہؓ نے وہ دونوں کڑیاں اپنے دانتوں سے کھینچ کر نکالیں جس کی وجہ سے آپؓ کے دونوں دانت ٹوٹ گئے۔ صلح حدیبیہ ذوالقعدہ 6؍ ہجری میں صلح نامے پر دستخط کرنے والے معزز مسلمانوں میں آپؓ بھی شامل تھے۔ رسولِ کریمﷺ نے آپؓ کو متعدد سرایا کے لیے بھجوایا۔ ربیع الآخر 6؍ ہجری،سریہ ذوالقصہ میں جب حضرت محمد بن مسلمہؓ کے تمام دس ساتھیوں کو بنو ثعلبہ نےاپنی طرف سے شہید کردیا تو ایک مسلمان کے ذریعے محمد بن مسلمہؓ رسول اللہﷺ کے پاس پہنچے۔ آپؐ نے محمد بن مسلمہؓ کے انتقام اورمدینے پر حملے کے خطرے کے پیشِ نظر حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ کی کمان میں چالیس مستعد صحابہ کی جماعت روانہ فرمائی۔ آپؓ اس سریے میں کامیاب لوٹے۔

7یا 8؍ہجری میں سریہ ذات السلاسل کے موقعے پر بنو قضاعہ کی طرف حضرت عمرو بن عاصؓ کی سربراہی میں تین سَو صحابہ کو روانہ کیا گیا۔ دشمن کی تعداد زیادہ ہونے کی اطلاع ملنے پرحضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ کی سربراہی میں مزیدکمک بھجوائی گئی۔حضرت ابو عبیدہ ؓنےحضرت عمرو بن عاصؓ کی خواہش پر لشکر کی امارت اُنہیں کرنے دی اور اختلاف نہ کیا۔اس سریے میں ابو عبیدہؓ کی اطاعت کی کیفیت کا علم جب رسول اللہﷺکو ہوا تو آپؐ نے فرمایاابوعبیدہؓ پر اللہ کی رحمت ہو۔

سریہ سیف البحر8؍ ہجری میں ابوعبیدہؓ کوامیر مقرر کرکے تین سَو سواروں کے ساتھ بنو جہینہ کی طرف روانہ کیا گیا۔ یہ سریہ قریش کے تجارتی قافلے کی نگرانی کی غرض سے تھا ،جنگ مقصود نہ تھی۔ حضرت جابرؓکہتے ہیں کہ ہم آدھا مہینہ سمندر کے کنارے رہے اور سخت بھوک کےباعث ہم نے درختوں کے پتّے کھا کر گزارا کیا۔ ایسے میں سمندر نے ’عنبر‘ نامی ایک بہت بڑا جانورساحل پر اگل دیا۔ ہم آدھا مہینہ اس کا گوشت کھاتے رہے۔ جب ہم مدینے واپس پہنچے اور رسول اللہﷺ کی خدمت میں تمام حال بیان کیا تو آپؐ نے اس مچھلی کے ذکر پر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری حالت دیکھ کر تمہارے لیے رزق نکالا تھا۔ اگر اس میں سے کچھ ہم راہ لائے ہو تو ہمیں بھی کھلاؤ۔ اس پر ان میں سے کسی نے آپؐ کو ایک حصّہ دیا اور آپؐ نے اس کو کھایا۔ حضرت سیّد زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اس سریے کے متعلق اپنی شرح میں لکھتے ہیں کہ یہ مہم صلح حدیبیہ کے بعد پیش آئی تھی،جس میں کسی سےجنگ مقصود نہ تھی۔ آنحضرتﷺ نے دُوراندیشی سے کام لیتے ہوئےبطور احتیاط قافلے کے راستے میں چوکی قائم کرنے کےلیے یہ دستہ روانہ فرمایا تھا تاکہ شام سے آنے والے تجارتی قافلے سے تعرض نہ ہو اور یوں صلح کےمعاہدے کےبعدقریش کو نقضِ معاہدہ کا کوئی بہانہ نہ مل جائے۔

فتح مکّہ کے موقعے پررسول اللہﷺ نے حضرت ابوعبیدہؓ کو پیادہ لوگوں اور وادی کے نشیب کا سردار بنایا تھا۔

ایک موقعے پر آپؓ بحرین کے علاقے سے جزیہ لےکر واپس آئے تو لوگوں کو عِلْم ہوگیا اور نمازِ فجرسب نے رسول اللہﷺ کے پیچھے ادا کی۔ نماز کے بعد آپؐ مسکرائے اور فرمایا لگتا ہے تمہیں معلوم ہوگیا ہے کہ ابو عبیدہؓ کچھ لائے ہیں۔ فرمایا مَیں تمہارے متعلق محتاجی سے نہیں ڈرتا بلکہ دنیا کی کشادگی اور حرص سے ڈرتا ہوں۔ حضورِانور نے فرمایا پس یہ تنبیہ ہے جو ہر ایک کو اپنے سامنے رکھنی چاہیے۔ اس کو پیشِ نظر نہ رکھنے کی وجہ سے پیسے والے مسلمان اور لیڈر لالچ میں پیش پیش ہیں۔ ہمیں اس لحاظ سے اپنی حالتوں کا ہمیشہ جائزہ لیتےرہنا چاہیے۔

دس ہجری، حجة الوداع کے موقعے پر حضرت ابوعبیدہؓ نےرسول اللہﷺ کے ساتھ حج کیا۔ رسول اللہﷺ کی وفات کے فوراً بعد خلافت کے متعلق انصار اور مہاجرین میں اختلاف ہوا۔ انصار حضرت سعد بن عبادہؓ کے گھر پر جمع ہوئے اوران کی رائے تھی کہ انصارومہاجرین ہر دو گروہ سے ایک ایک امیر ہونا چاہیے۔ مہاجرین کی طرف سے اس موقعے پرحضرت ابوبکرؓ،حضرت عمرؓ اور ابوعبیدہؓ گئے۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ مَیں اس موقعے پر تقریرکرنا چاہتا تھا کیونکہ مجھے ڈرتھاکہ ابوبکرؓ ویسی بات نہ کہہ سکیں گے جیسے مَیں نے تیاری کی ہے۔ لیکن حضرت ابوبکرؓ نےاس موقعے پر ایسی شان دار اور فصیح تقریر کی جو تمام تقاریر سے بڑھ کر تھی۔ فرمایا کہ ہم یعنی مہاجرین امیر ہیں اور تم یعنی انصار وزیر ہو۔ پس حضرت عمرؓ اور ابو عبیدہؓ میں سے کسی ایک کی بیعت کرلو۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ نہیں! ہم تو آپؓ کی بیعت کریں گے کیونکہ آپؓ ہمارے سردار ،ہم سب سے بہتر اوررسول اللہﷺ کے سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ یہ کہہ کر حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کی اور اس کےبعد سب لوگوں نے بھی حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کرلی۔ بہرحال حضرت ابوبکرؓ کے نزدیک حضرت ابو عبیدہؓ کایہ مقام تھا کہ خلافت کے لیے آپؓ کا نام تجویز فرمایا۔ خلافت کے بارے میں بحث میں حضرت ابوعبیدہؓ نے انصار سے فرمایا کہ تم تو وہ ہو جنہوں نے سب سے پہلے مدد کی تھی کہیں ایسا نہ ہو کہ اب تم ہی سب سے پہلے اختلاف پیدا کرنے والے ہوجاؤ۔

حضرت ابوبکرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں بیت المال کا کام حضرت ابو عبیدہؓ کے ذمے لگایا۔ 13؍ہجری میں شام کی طرف آپؓ کوامیرِ لشکر بناکر بھجوایا گیا۔ حضرت عمرؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو بطور سپہ سالار معزول فرمایا تو ابوعبیدہؓ کو سپہ سالار مقرر فرمایا۔ رومیوں کے خلاف لڑائی میں کئی اطراف سےلشکر کشی کی گئی تو آپؓ حمص کی طرف بڑھنے والے چوتھے دستےکے قائد تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ جب سب لشکر ایک جگہ اکٹھے ہوجائیں تو حضرت ابوعبیدہؓ سپہ سالار ہوں۔

جنگِ اجنادین جمادی الاوّل 13؍ہجری میں رومیوں کی ایک لاکھ فوج کے مقابل پر مسلمانوں کی تعداد پینتیس ہزار تھی۔ اس جنگ میں بھی حضرت ابوعبیدہ ایک دستے کے سالار تھے۔ دمشق کی فتح کےبعد معرکہ فحل کے موقعے پر رومی فوج نے صلح کی غرض سے اپنے سفیر کو ابوعبیدہؓ کے پاس بھجوایا تو اس نےآپؓ کو سپاہیوں اور ماتحتوں کےساتھ بیٹھے دیکھا۔ سفیرنےحضرت ابوعبیدہؓ کو واپس جانے کے عوض خوب لالچ دیا لیکن آپؓ نےانکار کردیا۔

اس کے بعد حضرت ابوعبیدہؓ نے مزیدپیش قدمی کرتے ہوئے لاذقیہ کا محاصرہ کیا۔ یہ مقام حفاظتی انتظامات کے لحاظ سے بہت مستحکم تھا۔ آپؓ نے خاص حسنِ تدبیر سے اس مقام کو فتح کیا۔

حضرت ابوعبیدہؓ کا ذکر آئندہ جاری رہے گا۔ خطبےکے آخر میں حضورِانور نے پاکستان کے احمدیوں کےلیے دعا کی تحریک فرمائی۔ فرمایا اللہ تعالیٰ اُنہیں مولویوں اور حکومتی اہل کاروں کے شر سے محفوظ رکھے۔ قانون کے محافظ،قانون کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید اس طرح انہیں سیاسی استحکام مل جائے گا ۔لیکن یہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہی چیز ان کی تباہی کا ذریعہ بنے گی۔ اللہ کرےکہ اس کی مدد اور نصرت جلد آئے اور وہاں کے احمدی ان مشکلات سے جلد چھٹکارا پاسکیں۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button