علماء کے نزدیک ’مسلمان‘ کی متفقہ تعریف؟!
احمدیوں کو دائرہ اسلام سے نکالنے کا شوق بعض نام نہاد علماء کو ہمیشہ بے چین اور مضطرب رکھتا ہے ۔اس سلسلے میں قرآن و حدیث میں بیان کردہ مسلمان کی تعریف سے ہٹ کر ہی کوئی تعریف کیوں نہ بنانی پڑے،یہ طبقہ اس سے بھی دریغ نہیں کرتا۔چنانچہ اس کی دلچسپ صورتحال 1953ء میں پیش آئی جب حکومت پنجاب نے اس سال ہونے والے احمدیہ مخالف فسادات کی تحقیقات کے لیے ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کیا۔یہ تحقیق دو فاضل جج صاحبان محمد منیر اور ایم آر کیانی نے بڑی محنت اور جانفشانی سے کی۔اس سلسلے میں 117 اجلاس کیے گئے۔تحقیقات کے لیے بڑے بڑے مسلمان علماء کو اس سلسلےمیں کمیٹی میں بلایا گیا۔ بعد ازاں ’’رپورٹ تحقیقاتی عدالت برائے تحقیقات فسادات پنجاب 1953ءالمعروف منیر انکوائری رپورٹ‘‘ کے نام سے شائع کی گئی۔624صفحات پر مشتمل اس رپورٹ کا مطالعہ انتہا پسند مذہبی ٹھیکیداروں کے کردار اور اخلاق کو جانچنے کا نہایت معلوماتی اور ٹھوس ثبوت ہے۔اس رپورٹ کے ایک حصہ میں مسلمان کی تعریف پر بحث شامل کی گئی ہے۔
کمیٹی نے اس دور کے جید علمائے دین سے مسلمان کی تعریف پوچھی اور سب کو اچھی طرح بتایا گیا کہ آپ وہ قلیل سے قلیل شرائط بیان کیجیے جن کی تکمیل سے کسی شخص کو مسلمان کہلانے کا حق حاصل ہوجاتا ہے۔ان علماء نے مسلمان کی جو جو تعریف کی اس پر کوئی سے دو علماء بھی ایک تعریف پر متفق نہیں تھے۔یاد رہے تعریف کرنے والے ان علماء میں ہر طبقہ فکر کی بڑی بڑی شخصیات شامل تھیں۔مثلاً مولانا ابو الحسنات محمد احمد قادری صدر جمیعت علماء پاکستان۔مولا نا احمد علی صاحب صدر جمیعت علماء مغربی پاکستان،مولانا ابو الاعلیٰ مودودی صاحب امیر جماعت اسلامی،غازی سراج الدین منیر صاحب،مفتی محمد ادریس صاحب جامعہ اشرفیہ نیلا گنبد لاہور،حافظ کفایت حسین صاحب ادارہ تحفظ حقوق شیعہ،مولانا عبد الماجد بدایونی صاحب،مولانا محمد علی کاندھلوی صاحب دار الشہابیہ سیالکوٹ،مولانا امین احسن اصلاحی صاحب ۔ چنانچہ ان علماء کی تعریفیں درج کرنے کے بعد رپورٹ میں فاضل جج صاحبان نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ
’’ان متعدد تعریفوں کو جو علماء نے پیش کی ہیں پیش نظر رکھ کر کیا ہماری طرف سے کسی تبصرے کی ضرورت ہے؟بجز اس کے کہ دین کے کوئی دو عالم بھی اس بنیادی امر پر متفق نہیں ہیں ۔اگر ہم اپنی طرف سے ’مسلم‘ کی کوئی تعریف کردیں جیسے ہر عالم دین نے کی ہے اور وہ تعریف ان تعریفوں سے مختلف ہو جو دوسروں نے پیش کی ہیں تو ہم کو متفقہ طور پر دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا جائے گا۔اور اگر ہم علماء میں سے کسی ایک کی تعریف کو اختیار کرلیں تو ہم اس عالم کے نزدیک تو مسلمان رہیں گے لیکن دوسرے تمام علماء کی تعریف کی رو سے کافر ہوجائیں گے۔‘‘
(منیر انکوائری رپورٹ صفحہ 340)
اس سے اگلے صفحہ پر لکھا ہے:
’’شیعوں کے نزدیک تمام سنی کافر ہیں اور اہل قرآن یعنی وہ لوگ جو حدیث کو غیر معتبر سمجھتے ہیں اور واجب التعمیل نہیں مانتے متفقہ طور پر کافر ہیں۔اور یہی حال آزاد مفکرین کا ہے۔اس تمام بحث کا آخری نتیجہ یہ ہے کہ شیعہ ،سنی،دیوبندی، اہل حدیث اور بریلوی لوگوں میں سے کوئی بھی مسلم نہیں۔ اور اگر مملکت کی حکومت کسی ایسی جماعت کے ہاتھ میں ہو جو دوسری جماعت کو کافر سمجھتی ہے تو جہاں کوئی شخص ایک عقیدے کو بدل کر دوسرا اختیار کرے گا ۔اس کو اسلامی مملکت میں لازما ًموت کی سزا دی جائے گی ۔‘‘
(منیر انکوائری رپورٹ صفحہ 341)
(مرسلہ: ساجد محمود بٹر۔گھانا)