حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ (قسط دوم)
شرف بیعت سے ہجرت قادیان تک (حصہ اوّل )
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بیعت کے بعد اپنی ملازمت پر واپس جموں گئے تو حضرت حکیم مولانا نور الدین صاحبؓ نے حضرت اقدسؑ کے بارے میں چھوٹی چھوٹی تفصیل پوچھی اور بہت دلچسپی کا اظہار کیاجس سے آپ کے دل میں یہ تحریک ہوئی کہ دیگر احباب کو بھی اسی قدر دلچسپی ہوگی۔ چنانچہ آپ کو یہ لگن لگ گئی کہ جو کچھ دیکھیں باریک بینی سے دیکھیں اور نوٹ کرلیں پھر تفصیل سے دوسروں کو آگاہ کریں۔ چنانچہ آپ نے نوٹ لینے اور دور و نزدیک شہروں بلکہ ملکوں تک حالات لکھ کر بھیجنے شروع کر دیے۔ اسی شوق اور لگن نے بعد میں اخبار ‘الحکم’ ‘بدر’کے سلسلوں اور ‘ذکر حبیب’کی طرف رہ نمائی کی۔ یہ شوق وقت کے ساتھ بڑھتا گیا۔
وہ قصیدہ میں کروں وصفِ مسیحا میں رقم
جولائی 1899ءمیں ایک معزز افسر قادیان آ کر حضرت اقدس علیہ السلام سے ملے۔ آپؑ نے اس مہمان اور دوسرے احباب کو مخاطب کر کے مختصر خطاب فرمایا۔ حضرت مفتی صاحبؓ لکھتے ہیں :
‘‘یہ گفتگو ایسی مفید اور کارآمد باتوں پر مشتمل تھی کہ میں نے اکثر فقروں کو اپنی عادت کے موافق اُسی وقت اپنی نوٹ بک میں جمع کیا اور بعد میں مجھے خیال آیا کہ بذریعہ اخبار الحکم میں دوسرے احباب کو بھی اس پُر لطف تقریر کے مضمون سے حظ اُٹھانے کا موقع دوں۔ لہٰذا ان فقرات کی مدد سے اپنی یادداشت کے ذریعہ میں نے مفصلہ ذیل عبارت ترتیب دی ہے۔ ’’
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 206، ایڈیشن 1988ء)
آپ کے اس مفید شوق سے حضرت اقدس علیہ السلام کے فرمودات محفوظ ہوتے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے تحریر پر قدرت عطا فرمائی تھی۔ خوبی سے قلمبند یہ خزانہ آئندہ نسلوں پر ایک احسان عظیم ثابت ہوا۔ حضرت اقدسؑ کے شب و روزمعمولات طعام، معمولات سفر اور معمولات سیر غرضیکہ ہر لمحہ آپ کی مشتاق نگاہوں سے دل میں اُتر جاتا اور مشّاق قلم سے صفحۂ قرطاس پرکندہ ہو جاتا۔
نوٹس لینے کا شوق کس قدر سود مند تھا اس کے بارے میں تحریر کیا :
‘‘1890ء کا آخیر یا1891ء کا ابتدا تھا جب مجھے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے دست بیعت ہونے اور آپ کی غلامی میں شامل ہونے کا فخر حاصل ہے تب سے ہمیشہ میری یہ عادت رہی ہے کہ آپ کے مقدس کلمات کو نوٹ کرتا اور لکھ لیتا اور اپنی پاکٹ بکوں میں جمع کرتا۔ اور اپنے مہربانوں اور دوستوں کو کشمیر، کپور تھلہ، انبالہ، لاہور، سیالکوٹ، افریقہ، لندن روانہ کرتا۔ جس سے احباب کے ایمان میں تازگی آتی اور میرے لئے موجب حصول ثواب ہوتا۔ مدتوں لاہور میں یہ حالت رہی کہ جب احباب سُن پاتے کہ یہ عاجز دارالامان سے ہو کر آیا ہے تو بڑے شوق اور التزام کے ساتھ ایک جگہ اکٹھے ہوتے اور میرے گرد جمع ہو جاتے جیسا کہ شمع کے گرد پروانے۔ تب میں اُنہیں وہ روحانی غذا دیتا جو کہ میں اپنے امام کے پاس سے جمع کر کے لے جاتا اورا ُن کی پیاسی رُوحوں کو اس آبِ زُلال کے ساتھ سیر کر دیتا کہ اُن کی تشنگی اور بھی بڑھ جاتی اور اُن کی عاشقانہ رُوحیں اپنے محبوب کی محبت میں اُچھلنے لگتیں یہی حال ہرجگہ کے محبّان کا تھا۔ ’’
(ذکر حبیب صفحہ 80)
آپ کے اس شوق کوالحکم کی فائلوں کے مطالعہ نے بھی ہوا دی۔ کتاب نزول المسیح کی تصنیف کے دنوں میں بعض نشانات کے بارے میں لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے مفتی صاحبؓ کو ارشاد فرمایا کہ نشانات کی ایک فہرست بنائیں۔ وہ عاشق ِ صادق جو اس تاک میں رہتے تھے کہ خدمت کی راہیں ملیں تو سر دھڑ کی بازی لگا کر اس کام میں جُت گئے۔
اپنی کیفیت اس طرح تحریر فرماتے ہیں :
‘‘اس کتاب کی تکمیل کے واسطے یہ بھی ضروری سمجھا گیا کہ ان نشانات میں سے بعض کی ایک فہرست اس میں درج کی جائے۔ جو حضرت حجۃ اللہ کے ہاتھ پر ظاہر ہو چکے ہیں۔ اس امر کے واسطے اس عاجز کو بھی حکم ہوا کہ بعض نشانات کو متفرق کتابوں وغیرہ سے جمع کر کے ان کی ایک یادداشت بنا کر امام برحق کی خدمت میں پیش کروں۔ تاکہ اس جہاد دینی میں میرے لئے کچھ ثواب کا حصہ ہو اس امر کے واسطے مجھے ضرورت ہوئی کہ میں اخبار‘الحکم’کے گزشتہ پرچوں سے کچھ مدد لوں۔ چنانچہ میں نے دفتر ‘الحکم’ سے سارے فائل منگوائے اور ان کو دیکھنا شروع کیا۔ مطلب تو اپنے مطلب ہی سے تھا لیکن ورق گردانی کرتے ہوئے کبھی اس سُرخی اور کبھی اُس سُرخی پر نظر پڑ کر میرے دل پر اس باقاعدہ ریکارڈ کا ایک عجیب اثر ہوا۔ اور اخبار کے کالموں میں اُن سالوں کے لئے اس پاک سلسلہ کی ایک محفوظ تاریخ دیکھ کر بے اختیار قلب میں ایڈیٹر‘الحکم’کا شکریہ اور اس کے واسطے دعائے خیر نکلی۔ ’’
(ذکرحبیب صفحہ80)
نزول المسیح کے لیے جو فہرست اور نقشہ پیشگوئیوں کا آپ نے تیار کیا وہی حضرت اقدس علیہ السلام نے مناسب اصلاح کے بعد کتاب میں شامل فرمایا۔
عبداللہ آتھم والی پیشگوئی اور مفتی صاحبؓ کا ثباتِ قدم
حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے عیسائی معاند عبداللہ آتھم کے متعلق پیشگوئی کی تھی کہ حق کی مخالفت کرنے والا پندرہ ماہ میں ہاویہ میں گرایا جائے گا۔ مگر آتھم نے توبہ کی اور وہ خوفزدہ ہوا تو حسبِ سنتِ الٰہی اُس کو مہلت دی گئی۔ اگرچہ بعد میں بے باکی کے باعث ہلاک کیا گیا مگر پندرہ ماہ میں ہلاکت کے ٹل جانے سے مخالفین کی کم فہمی کے باعث مخالفت کے شور کا خطرہ تھا۔ حضرت مفتی صاحبؓ اُس وقت جواں عمر تھے اور ایمان کی حدّت سے مخلصانہ جذبات میں سرشار تھے اپنے آقاؑ کے حضور اطاعت گزاری کا اظہار بدیں الفاظ ایک مکتوب میں کیا۔
‘‘میں قریباًچار سال سے آپ کے قدم پکڑے ہوئے ہوں اور آپ کی ہدایت پر دل سے ایمان لایا ہوں۔ پیشتر اس کے کوئی پیشگوئی پوری ہوتی ہوئی یا نشان ظاہر ہوتا ہوا د یکھوں، اب ایک بے نظیر نشان کے ظاہر ہونے کا وقت آ پہنچا ہے۔ میں اپنی تمام دعاؤں اور خواہشوں کو ترک کر کے رات دن خداوند کے حضور یہی دعا کر رہا ہوں کہ اے رحمٰن رب تیرے بندے ضعیف اور کوتاہ اندیش ہیں۔ ایسے وعدے کو تو کھلے کھلے طور سے پورا کر تا کہ لوگ اپنی نادانی سے تیرے فرستادہ کا انکار کر کے اپنے گلوں میں لعنت کے طوق نہ ڈال لیں
مگر ظاہر ہے کہ ایسے موقعوں پر کئی طرح کے ابتلا پیش آ جایا کرتے ہیں اس واسطے میں نہایت عاجزی سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میرا ایمان حضور کی صداقت پر پختہ ہے۔ اور اسے ہر گز کوئی جنبش بفضلہ تعالیٰ نہیں۔ پیشگوئی کے پورا ہونے کی خبر سننے کی خواہش مجھے اس لئے ہے کہ دوسروں کو سنایا جائے اور ان پر حجت قائم کی جائے ورنہ میں تو اُسی وقت سے اسے پورا ہو گیا ہوا سمجھتا ہوں جس وقت کہ آپ نے سنائی تھی۔ الغرض کچھ ہی ہو حضور مجھے اپنا غلام اور اپنی جوتیوں کا خادم سمجھیں اور دعا میں یاد رکھیں۔ (محمد صادق مفتی مدرس انگریزی جموں کالج)’’
(ذکر حبیب صفحہ 10)
جب پیشگوئی شان سے پوری ہو گئی تو مفتی صاحب نے ایک معاند پادری ٹامس ہاول کو ایک مکتوب لکھا جس کی نقل حضرت مولانا نور الدین صاحب کو بھجوائی۔ آپ نے یہ مکتوب حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں پیش کر دیا جس پر آپؑ نے اظہار پسندیدگی فرمایا۔ آپؑ کے الفاظ مبارک تھے:
‘‘اللہ ہی لکھواتا ہے’’
(ذکر حبیب صفحہ9)
یہ الفاظ ایسے مقبول ہوئے کہ مولا کریم نے مفتی صاحب کے نصیب میں قلم کا جہاد لکھ دیا اور ساری عمر خوب خوب لکھوایا۔ یہ عظیم حوصلہ افزائی ایک رنگ میں مستقبل کے لیے پیشگوئی ثابت ہوئی۔
شاگرد کی تربیت کا انداز
خدمت دین کے لیے آپ کی تربیت میں حضرت حکیم نور الدین صاحب کا بڑا ہاتھ تھا۔ وہ اپنے شاگرد کی سعادت اور قابلیت کو پہچان چکے تھے اور چاہتے تھے کہ ساری لیاقت جماعت کی خدمت میں صرف ہو۔ آپ کی اپنے ہونہار شاگرد کی تعلیم و تربیت میں دلچسپی کا اظہارایک بے حد قیمتی مکتوب سے ہوتا ہے جو آپ نے حضرت مفتی صاحبؓ کو 6؍دسمبر1893ء کو تحریر فرمایا۔ ملاحظہ فرمائیے۔
‘‘پیارے بچہ!السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
دنیا روزے چند کار باخداوند دوسرے سیپارے میں
لَیۡسَ الۡبِرَّ اَنۡ تُوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمۡ
سے دوسرا پاؤ شروع ہوتا ہے اس کو پڑھو۔ اس میں متقی کی صفتیں مندرج ہیں اور ادھر الٓـمّٓ کا پہلارکوع دیکھو اس میں
ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ
آیا ہے۔ پھر بدوں تقویٰ ہدایت ہی نہیں …تمہیں سیالکوٹ بلاتا مگر وہاں رہنے کا ارادہ نہ تھا۔ گلگت کے لئے اپنی کوشش رکھنا اور ضرور رکھنا۔ حضرت بھی آج کل فیروز پور میں ہیں جب تشریف لائیں گے…مفصل آپ کولکھوں گا…۔
والسلام
نور الدین
(بدر 19؍ستمبر 1912ء)
1893ء میں حضرت اقدسؑ لاہور میں چینیاں والی مسجد میں نماز جمعہ کے لیے تشریف لے گئے۔ اس موقع پر حضرت مفتی صاحبؓ کو آپ کی ہم راہی کا شرف حاصل ہوا۔
1894ء میں جب کسوف خسوف کی پیشگوئی پوری ہوئی آپ جموں سے قادیان آئے ہوئے تھے اس طرح اس پیشگوئی کے پورا ہونے کے چشم دید گواہ بنے۔
(ذکر حبیب صفحہ 16)
جموں میں ملازمت کے دوران آپ کو حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا مکتوب موصول ہوا جس میں تحریر تھا کہ مرزا فضل احمد (حضرت اقدسؑ کی پہلی بیوی سے دوسرے صاحبزادے) جموں میں پولیس میں ملازم ہیں بہت دنوں سے گھر میں کوئی خیریت کا خط نہیں آیا۔ اُن کی والدہ گھبرا رہی ہیں آپ ان کا حال اور خیر خیریت دریافت کر کے اطلاع دیں، ایساہی خط دوسری دفعہ بھی آیا آپ نے دونوں دفعہ خیریت معلوم کر کے بواپسی ڈاک اطلاع بھیجی۔
ترے کوچے میں گزرے زندگانی
اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک وجود کے طفیل اُس پاک بستی میں بھی کشش رکھ دی۔ آپ ایک بےقرارپروانے کی طرح موقع نکال کر قادیان پہنچ جاتے۔ ملازمت کی پابندیوں میں جہاں گنجائش نکلتی عازم سفر ہوتے جس کی منزل قادیان ہوتی۔ 1891ء میں نےایک دفعہ قادیان کا ارادہ کیا تو معلوم ہوا کہ حضرت اقدس علیہ السلام لدھیانہ تشریف لے گئے ہیں۔ آپ بھی لدھیانہ پہنچ گئے وہاں حضرت اقدس علیہ السلام کا ارادہ امرت سر جانے کا ہو گیا۔ آپؑ نے حضرت مفتی صاحب کو ارشاد فرمایا کہ آپ بھی ساتھ چلیں۔
(تاریخِ احمدیت جلد اوّل صفحہ 413)
اس طرح حضور کی معیت میں سفر کرنے کا موقع نصیب ہوا۔ ٹرین کا سفر تھا گاڑی رُکتی تو آپ تیزی سے جاتے مستورات کی خیر خبر لے آتے اور آ کر حضورؑ کو مطلع کرتے اس سرگرمی پر حضورؑ نے خوشنودی کا اظہار فرمایا:
‘‘آپ سفر میں بہت ہشیار ہیں۔ ’’
اس سند پر گویا آپ کی قسمت میں سفر لکھ دیے گئے بعد کی زندگی میں اعلائے کلمۂ حق کے لیے ملک میں اور بیرون ملک بہت سے سفر کیے۔ سفرو حضر میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے قریب سے قریب تر رہنے کا شوق تھا۔ اس سال کے اواخر میں اپنے دوست مولوی محمد صادق اور ایک طالب علم خان بہادر غلام محمد صاحب کے ساتھ قادیان آئے ان دو احباب نے بیعت کا شرف حاصل کیا۔ حضرت اقدسؑ قادیان سے ٹرین پر لاہور تشریف لے جا رہے تھے۔ آپ نے بھی سفر میں ہم راہی کی سعادت پائی۔
آپ نے 1895ء میں ایف اے کا امتحان پرائیویٹ طور پر پاس کر کے بی اے کی تیاری شروع کر دی۔ بی اے میں آپ نے انگریزی، عربی اور عبرانی مضامین رکھے۔ امتحان قریب آیا تو تیاری کے لیے چند دن کی رخصت لے کر قادیان آئے۔ حضرت اقدسؑ نے آپ کو اُس کمرے میں ٹھہرایا جومسجد مبارک اور حضورؑ کے قیام گاہ کے درمیان شمالی جانب ہے۔ اور جس میں مسجد مبارک کی طرف ایک کھڑکی کھلتی ہے اسے بیت الفکر کہتے ہیں۔ لیکن امتحان دینے سے قبل ہی آپ نے جموں کی ملازمت ترک کر دی اور لاہور منتقل ہونے کا ارادہ کیا۔ اس غرض کے لیے بزرگوں سے مشورہ کیا۔ تو سب نے اس تبدیلی کو پسند کیا کیونکہ لاہور میں تعلیمی ترقی اور دیگر بہت سی ترقیوں کے امکان اور مواقع زیادہ تھے جب آپ نے اپنے اس ارادہ کا ذکر حضرت اقدس مسیح موعودؑ سے کیا تو آپ نے بھی لاہور کو ترجیح دی۔ مگر پسندیدگی کی وجہ مختلف بتائی۔ اور وہ وجہ یہ تھی کہ لاہور جمو ں کی نسبت قادیان سے زیادہ قریب ہے۔ جب کبھی چھوٹی موٹی رخصت ہو تو چند دنوں یا ایک دن کے لیے بھی قادیان آ سکتے ہیں۔
والدہ صاحبہ کا قبول احمدیت
1897ءمیں آپ کی والدہ محترمہ فیض بی بی صاحبہ نے بیعت کی سعادت حاصل کی۔ بیعت کے بعد قادیان سے واپس بھیرہ جانے لگیں تو حضرت اقدس بنفسِ نفیس مفتی صاحب اور آپ کی والدہ صاحبہ کو الوداع کہنے کے لئے یکہ والی جگہ تک تشریف لائے اور کھانا منگوایا کھانا کسی کپڑے میں بندھا ہوا نہیں تھا۔ حضورؑ نے اپنے عمامہ مبارک سے ایک گز کے قریب کپڑا پھاڑا اور اُس میں کھانا باندھ دیا۔
(ذکر حبیب صفحہ 35تا36)
زمانہ قیام لاہور اور حضرت اقدسؑ کی عنایات خسروانہ
حضرت مفتی صاحبؓ جموں میں پانچ سال ملازم رہے اگست، ستمبر1895ء میں لاہور آ گئے۔ لاہور میں جنوری 1901ء تک قیام پذیر رہے۔
(تاریخ احمدیت جلد 9صفحہ561)
پہلے مدرسہ انجمن حمایت اسلام شیرانوالہ دروازہ میں چھ ماہ تک ریاضی کے اُستاد رہے پھر یہ ملازمت ترک کر کے اکاؤنٹنٹ جنرل پنجاب لاہور کے دفترمیں کلرک لگ گئے۔ آپ کی رہائش مزنگ کے علاقہ میں تھی۔ لاہور سے دیارِ محبوب کا رُخ رہتا۔ حضرت اقدسؑ آپ سے بے انتہا شفقت فرماتے للّٰہی محبت کے عجیب رنگ ہوتے ہیں۔
دیکھ لو میل و محبت میں عجب تاثیر ہے
ایک دل کرتا ہے جھک کر دوسرے دل کو شکار
آپس کی محبت کی چندجھلکیاں دیکھیے۔
رباعی لکھ دی:1897ء میں بھیرے کی ایک خاتون نے روپہلی کام والا مٹی کا ایک کوزہ حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیاآپؑ نے اس کی خوبصورت بناوٹ کی تعریف کی اور کسی شاعر کی ایک رباعی پڑھی۔ مفتی صاحبؓ کی درخواست پر آپؑ نے ازراہِ ذرہ نوازی رباعی ان کی نوٹ بک پر دستِ مبارک سے تحریر کردی۔ جس سے آپ کو بہت خوشی ہوئی۔ اور آپ نے اس کو دیرتک محفوظ رکھا۔ رباعی درج ذیل ہے۔
ایں کوزہ چو من عاشقِ زارے بودست
در بند سرِ زلفِ نگارے بودست
ایں دست کہ در گردن او می بینی
دست است کہ در گردنِ یارے بودست
پاک ممبر۔ نظیف مٹی۔ پاک محب
دسمبر1900ء کا حضرت اقدس علیہ السلام کا الہام ہے:
‘‘لاہور میں ہمارے پاک ممبر موجود ہیں ان کو اطلاع دی جاوے۔ نظیف مٹی کے ہیں۔ ……لاہور میں ہمارے پاک محب ہیں وسوسہ پڑ گیا ہے پر مٹی نظیف ہے وسوسہ نہیں رہے گا مٹی رہے گی’’
(تذکرہ صفحہ 328)
حضرت مفتی صاحبؓ اُن بیس خوش نصیبوں میں شامل ہیں جو اُن دنوں لاہور میں موجود تھے۔ اور قلبی اخلاص اور محبت کی وجہ سے مخلصین میں شمار ہوتے تھے جس کی آسمان سے تائید ہوئی۔
حضرت مسیح موعودؑ کا حضرت مفتی صاحبؓ کو لاہور کا سفر خرچ عطا فرمانا
آپؓ تحریر فرماتے ہیں :
‘‘جن ایّام میں مَیں دفتر اکونٹنٹ جنرل لاہور میں ملازم تھا اور بعض دینی خدمات کے خیا ل سے یا صرف حضرت صاحب کی ملاقات کے شوق میں بار بار قادیان آتا تھا بلکہ بعض مہینوں میں ایسا ہوتا کہ ہر اتوار میں قادیان آ جاتا ان ایّام میں عموماًحضرت صاحب مجھے واپسی کے وقت دو روپے مرحمت فرمایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ آپ کی اس دینی خدمت میں ہم بھی ثواب لینا چاہتے ہیں۔ اُن ایّام میں دو روپے میں لاہور قادیان کی آمدو رفت ہو جاتی۔ ’’
(ذکر حبیب صفحہ261)
حضرت مفتی صاحبؓ کی آمد سے حضرت مسیح موعودؑ کی خوشیوں میں اضافہ
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں :
‘‘مولوی شیر علی صاحبؓ نے مجھ سے بیان کیا کہ یوں تو حضرت صاحبؑ اپنے سارے خدام سے ہی محبت رکھتے ہیں لیکن میں محسوس کرتا تھا کہ آپ کو مفتی صاحبؓ سے خاص محبت ہے جب کبھی آپ مفتی صاحب کا ذکر فرماتے تو فرماتے‘‘ہمارے مفتی صاحب’’اور جب کبھی مفتی صاحب لاہو ر سے قادیان آیا کرتے تو حضرت صاحب ان کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے…’’
(سیرۃ المہدی روایت نمبر298بحوالہ ذکر حبیب صفحہ266)
حضرت اقدسؑ کا اپنے ایک مرید سے حسن ِسلوک قابلِ رشک تھا۔ انتہائی لطف و کرم سے خوش نصیب مفتی صاحب کو سرشار کر دیتے جس سے اس محب صادق کے والہانہ پن میں ہر لحظہ اضافہ ہوتا۔
حضرت مولوی فضل الٰہی بھیروی بیان کرتے ہیں :
‘‘جب بندہ لاہور اورینٹل کالج میں تعلیم حاصل کر رہا تھا تو حضرت مفتی صاحب کے ساتھ رہتا تھا حضرت مفتی صاحب موصوف قریباً ہر ہفتہ کی شام کو لاہور سے روانہ ہو کر رات بارہ بجے کے قریب سٹیشن بٹالہ پر اُتر کر پیدل چل کر نماز تہجد کے وقت قادیان دارالامان پہنچ جایا کرتے تھے….تمام دن حضرت اقدسؑ کی خدمت میں گزارکر عصر کے بعد قادیان سےروانہ ہو تے اور اُس وقت حضرت مفتی صاحب نے بتلایا۔ کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ میرے قادیان سے جانے کا یکہ کا کرایہ خود ادا فرماتے اس کی وجہ یہ بتلائی کہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جس قسم کا اخلاص آپ مجھ سے بوجہ مسیح موعود ہونے کے رکھتے ہیں اس اخلاص میں شریک ہو کر یہ ثواب حاصل کرنے کی خاطر ہم بھی آپ کے سفر خرچ میں کچھ حصہ ڈال دیتے ہیں اسی طرح ایک دفعہ حضرت اقدس علیہ السلام نے مبلغ دو روپیہ حضرت مفتی صاحب کو دئے اور فرمایا کہ ہم قادیان کی آمد و رفت میں خرچ کریں کیونکہ یہ ایک غریب آدمی نے بھیج کر لکھا ہے کہ کسی ایسی جگہ خرچ فرمانا جہاں مجھے بہت ثواب ہو اس لئے آ پ اس کو اس سفر میں خرچ کریں۔ ’’
(رجسٹر روایات نمبر12صفحہ322تا327)
پگڑی کے کپڑے میں کھانا
عنایات خسروانہ کے واقعات اتنے حسین ہیں کہ تبصرہ کی ضرورت نہیں رہتی مفتی صاحبؓ نے لکھا:
‘‘جب میں قادیان سے واپس لاہور جایا کرتا تھا تو حضور اندر سے میرے لئے ساتھ لے جانے کے واسطے کھانا بھجوایا کرتے تھے چنانچہ ایک دفعہ جب میں شام کے قریب قادیان سے آنے لگا تو حضرت صاحب نے اندر سے میرے واسطے کھانا منگوایا۔ جو خادم کھانا لایا وہ یونہی کھلا کھانا لے آیا۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ‘‘مفتی صاحب یہ کھانا کس طرح ساتھ لے جائیں گے کوئی رومال بھی ساتھ لانا تھا۔ جس میں کھانا باندھ دیا جاتا۔ اچھا میں انتظام کرتا ہوں، اور پھر اپنے سر کی پگڑی کا ایک کنارا کاٹ کر اس میں وہ کھانا باندھ دیا۔ ’’
(ذکر حبیب صفحہ253تا254)
آموں کی دعوت
‘‘گاہے حضور اپنے باغ سے آم منگوا کر خدام کو کھلاتے۔ ایک دفعہ عاجز راقم لاہور سے چند یوم کی رخصت پر قادیان آیا تھا۔ کہ حضور نے عاجز راقم کی خاطر ایک ٹوکرا آموں کا منگوایا اور مجھے کمرہ (نشست گاہ) میں بلا کر فرمایا کہ مفتی صاحب! یہ میں نے آپ کے واسطے منگوایا ہے۔ کھا لیں۔ میں کتنے کھا سکتا تھا۔ چند ایک میں نے کھا لئے اس پر تعجب سے فرمایا۔ کہ آپ نے بہت تھوڑے کھائے ہیں۔ ’’
(ذکر حبیب صفحہ258)
رضائی محمود کی ہے اور دھسا میرا
حضرت مفتی صاحب نے بیان فرمایا کہ ایک دفعہ میں لاہور سے حضور کی ملاقات کے لئے آیا اور وہ سردیوں کے دن تھے۔ اور میرے پاس اوڑھنے کیلئے رضائی وغیرہ نہیں تھی۔ میں نے حضرت اقدس کی خدمت میں کہلا بھیجا کہ حضور رات کو سردی لگنے کا اندیشہ ہے۔ حضور مہربانی کر کے کوئی کپڑا عنایت فرمائیں۔ حضرت صاحب نے ایک ہلکی رضائی اور ایک دھسا ارسال فرمائے اور ساتھ ہی پیغام بھیجا کہ رضائی محمود کی ہے اور دھسا میرا۔ آپ ان میں سے جو پسند کریں رکھ لیں اور چاہیں تو دونوں رکھ لیں۔میں نے رضائی رکھ لی اور دھسا واپس بھیج دیا۔ اس خیال سے کہ چادر بہت قیمتی تھی اور نیز اس خیال سے کہ دُلائی صاحبزادہ صاحب کی مستعملہ تھی۔
(ماخوذ ازذکر حبیب صفحہ253و257)
وضو کے واسطے پانی لا دیا
‘‘ایک دفعہ میں وضو کے واسطے پا نی کی تلاش میں لوٹا ہاتھ میں لئے اُس دروازے کے اندر گیا جو مسجد مبارک میں سے حضرت صاحب کے اندرونی مکانات کو جاتا ہے تاکہ وہاں حضرت صاحب کے کسی خادم کو لوٹا دے کر پانی اندر سے منگواؤں ۔اتفاقاً اندر سے حضرت صاحب تشریف لائے ۔مجھے کھڑا دیکھ کر فرمایا۔ میں لا دیتا ہوں۔ اور خود اند رسے پانی ڈال کر لے آئے اور مجھے عطا فرمایا۔ ’’
(ذکر حبیب صفحہ 257تا258)
‘‘جب عاجز راقم لاہور سے قادیان آیا کرتا تھا تو حضورؑ مجھے عموماً صبح ہر روزپینے کے واسطے دودھ بھیجا کرتے تھے ایک دفعہ مجھے اندر بلایا ۔ایک لوٹا دودھ کا بھرا ہوا حضور کے ہاتھ میں تھا اُس میں سے ایک بڑے گلاس میں حضور نے دودھ ڈالا اور مجھے دیا اور محبت سے فرمایا۔ آپ یہ پی لیں۔ پھر میں اور دیتا ہوں۔ میں تو اس گلاس کو بھی ختم نہ کر سکا۔ ابھی اُس میں دودھ باقی تھا بس کر دی اور واپس کیا۔ تبسم کرتے ہوئے حضور نے فرمایا۔ بس۔ آپ تو بہت تھوڑا پیتے ہیں۔ ’’
(ذکر حبیب صفحہ134)
اب وہ کتاب مل جائے گی
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں نے لاہور کی پبلک لائبریری میں ایک کتاب دیکھی جس میں یوزآسف کے نام کے گرجے کا حوالہ دیا گیا تھا۔ میں نے حضرتؑ سے اس کا تذکرہ کیا۔ حضوؑ نے فرمایاکہ وہ کتاب تو ضرور لانی چاہیے۔ حضور نے مجھے بھیجا۔ مگر خدا کی شان میں اس کتاب کا نام ہی بھول گیا۔ اس لئے مجھے خالی ہاتھ واپس آنا پڑا۔ اس واقعہ کے ٹھیک ایک ہفتہ کے بعد حضور نے فرمایا کہ مفتی صاحب اب جائیے وہ کتاب آپ کو مل جائے گی۔ چنانچہ حسبِ ارشادمیں چلا گیا۔ نام میں تو بھول چکا تھا۔ لائبریرین کسی حاجت کے لئے باہر گیا ہوا تھا۔ اس کی میز پر اتفاقاً ایک کتاب میں نے اُٹھا کر دیکھی۔ تو وہ وہی کتاب تھی۔ جس کے لئے میں گیا تھا۔ لائبریرین آیا اس سے میں نے ذکر کیا۔ اس نے کہا۔ اگرآپ کچھ دیر پہلے آتے تب بھی آپ کو یہ کتاب نہ ملتی۔ کیونکہ یہ باہر گئی ہوئی تھی۔ اور یہ ابھی آئی ہوئی ہے۔ اور اگر آپ تھوڑی دیر بعد آتے تب بھی آپ کو نہ ملتی۔ کیونکہ یہ ابھی اپنی جگہ پر رکھ دی جاتی۔ اور جس طرح آپ پہلے خالی واپس چلے گئے اسی طرح اب بھی خالی ہاتھ جانا پڑتا۔
حضور کے طفیل سے ہمیں بھی یہ شرف حاصل ہوا کہ ہماری دعائیں بھی قبول کی جاتی ہیں۔ ایک دفعہ جمعہ کا دن تھا۔ حضورؑ نے مجھے فرمایا۔ آپ جائیے مجھے تو سر میں سخت درد ہو رہی ہے۔ میرے دل میں ایک درد پیدا ہوا۔ اور میں نے دعاکی کہ الٰہی حضرتؑ کو جلد شفا ہو جائے۔ اتنے میں دیکھا کہ حضرت صاحبؑ بھی تشریف لے آئے ہیں اور فرمایا۔ مفتی صاحب آپ چلے آئے تو میری درد بھی اچھی ہو گئی۔
مخدوم نے خدمت کا نمونہ دکھایا
‘‘مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میں لاہورسے قادیان آیا ہوا تھا غالباً1897ء یا1898ءکا واقعہ ہو گا۔ مجھے حضرت صاحبؑ نے مسجد مبارک میں بٹھایا جو کہ اس وقت ایک چھوٹی سی جگہ تھی۔ فرمایا کہ آپ بیٹھئے میں آپ کے لئے کھانا لاتا ہوں۔ یہ کہہ کرآپؑ اندر تشریف لے گئے۔ میرا خیال تھا کہ کسی خادم کے ہاتھ کھانا بھیج دیں گے۔ مگر چند منٹ کے بعدجبکہ کھڑکی کھلی تو میں کیادیکھتا ہوں کہ اپنے ہاتھ سے سینی اُٹھائے ہوئے میرے لئے کھانا لائے۔ مجھے دیکھ کر فرمایا کہ آپ کھانا کھائیے میں پانی لاتا ہوں۔ بے اختیار رقت سے میرے آنسونکل آئے کہ جب حضرت ہمارے مقتدا پیشوا ہو کر ہماری یہ خدمت کرتے ہیں تو ہمیں آپس میں ایک دوسرے کی کس قدر خدمت کرنی چاہیے۔ ’’
(ذکر حبیب صفحہ258)
چل کے خود آئے مسیحا کسی بیمار کے پاس
‘‘جب میں لاہور میں ملازم تھااور وہاں اکوٹنٹ جنرل کے دفتر میں آڈیٹر تھا تو وہاں میں ایک دفعہ ایسا بیمار ہو گیا۔ کہ دن رات چارپائی پر لیٹا رہتا۔ اور کہیں آنے جانے کی ہمت نہ تھی۔ اتفاق سے انہی دنوں میں حضرت مسیح موعودؑ چند روز کے لئے قادیان سے لاہور تشریف لے گئے اورلاہور میں منشی تاج الدین صاحب احمدی کے مکان پر مقیم ہوئے۔ سب دوست حضور سے ملنے کے لئے جاتے رہے۔ مگر میں بسبب علالت نہ جا سکا۔ ایک دن حضورؑ نے اپنی مجلس میں دوستوں سے ذکر کیا کہ مفتی صاحب ہمیں ملنے نہیں آئے کیا سبب ہے؟دوستوں نے عرض کیا کہ مفتی صاحب ایسے بیمار ہیں کہ چل نہیں سکتے۔ حضور نے فرمایا۔ وہ چل نہیں سکتے تو ہم تو چل سکتے ہیں۔ ہم اُن کی بیمار پُرسی کے لئے چلیں گے۔ چنانچہ دوسری صبح حضورؑ میرے مکان پر تشریف لائے۔ میں اس وقت لاہور کے محلہ ستھاں میں ایک کرایہ کے چھوٹے سے چوبارے میں رہتا تھا۔ حضورؑ اس چوبارے میں میرے پاس تشریف لائے۔ صاحبزادہ محمود احمد اور حضرت مولوی نور الدین صاحب آپ کے ساتھ تھے۔ چنداور دوست بھی تھے مگر وہ نیچے گلی میں کھڑے رہے۔ چونکہ اُوپر مکان تنگ تھا۔ حضورؑ میرے پاس چارپائی پر بیٹھ گئے اور حالات دریافت فرماتے رہے اور مختلف باتیں ہوتی رہیں۔ قریباً ایک گھنٹہ کے بعد حضورؑ نے پینے کے واسطے پانی مانگا۔ جو میری بیوی نے پاس کے کمرہ سے پیش کر دیا۔ جب حضورؑ پی چکے تو میں نے ہاتھ بڑھایا تا کہ باقی پانی میں پی سکوں۔ حضورؑ نے فرمایا۔ کیا آپ پیئیں گے میں نے عرض کیا۔ پیوں گا۔ تب حضورؑ نے فرمایا اچھا میں اس میں دم کرکے دیتا ہوں۔ حضورؑ نے کچھ پڑھ کر اس میں دم کرکے مجھے دیا۔ اور میں نے پی لیا۔ اس کے بعد حضورؑ نے فرمایا۔ کہ آپ بیمار ہیں۔ اور لکھا ہے کہ بیمار کی بھی دعا قبول ہوتی ہے۔ آپ ہمارے سلسلہ کی ترقی اور کامیابی کے واسطے دعا کریں۔
(الحکم 21تا 28؍جون 1943ء)
عشاء سے فجر ہوگئی
1897ء کی گرمیوں کی ایک رات کا یادگار واقعہ اور مفتی صاحب کامؤثر انداز ِبیان ملاحظہ فرمائیں۔
‘‘حضرت نے ایک نہایت ضروری مضمون لکھنا تھا جس کا صبح تک تیار ہوجانا ضروری تھا ۔عشاء کے قریب ایوب و صادق کو حکم ہوا کہ حضرتؑ مضمون جلدی جلدی لکھتے جائیں گے جس کا صاف کرنا بھی ضروری ہے اس واسطے ایوب بیگ لکھاتے جائیں گے اور محمدصادق لکھتا جائے گا ۔چونکہ حضرتؑ میرے طرز خط کو پسند کرتے تھے اس واسطے یہ فخر مجھے حاصل ہوا۔ دنیا دار تو کہا کرتے ہیں
اے روشنیٔ طبع تو بر من بلا شدی
مگر مسیح موعودؑ کے قدموں کے طفیل میرے خط کی عمدگی برائے من رحمت شدی والا معاملہ ہوگیا۔ عشاء کے بعد ہم اندر والے مکان میں بیٹھ گئے۔ دوہری کین روشن کئے گئے لکھتے لکھتے فجر ہوگئی مؤذن نے اللہ اکبر کہا توحضرت نے قلم رکھا۔ ہمارا حال تو یہ تھا کہ خیال ہوتا تھا مؤذن نے غلطی کھائی ہنوز اذان کا وقت کہاں ابھی تو بہت تھوڑا ہی وقت گزرا ہے کہ ہم لکھنے بیٹھے تھے۔ مگر رات بھر کی کوفت نے اورمعلوم نہیں کتنی ایسی شب حضرت نے پہلے گزاری ہوگی ۔’’
(بدرنمبر22جلد15۔ 11؍دسمبر1913ء)
اے صادق مجھے تین بجے جگا دینا
ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ کی مجلس میں یہ تذکرہ تھا کہ پچھلی رات نماز تہجد کے جاگنے کے لئے کیا تجویز کرنی چاہیے۔ تب حضرت مسیح موعودؑ نے مجھے فرمایا کہ اگر آپ سوتے وقت اپنے آپ کو مخاطب کر کے یہ کہا کریں۔
‘‘اے صادق مجھے تین بجے جگا دینا تو ضرور تین بجے آپ کی آنکھ کھل جائے گی۔ ’’
(ذکر حبیب صفحہ 131)
تین دن۔ تین سال
ایک دفعہ تین دن کی چھٹی تھی۔ قادیان آتے ہوئے بےچین ہو کر دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان تین دنوں کو تین سالوں جیسی طوالت دے دے۔ قادیان پہنچے تو حضورؑ نے ارشاد فرمایا مفتی صاحب آپ بڑے عمدہ وقت پر پہنچے ہیں۔ آپ کے آنے کے ساتھ ہی ایک کتاب تفسیر بائبل پہنچی ہے لیکن انگریزی میں ہے آپ مجھے پڑھ کر سنا دیں ساتھ ہی پوچھا آپ کی رخصت کتنی ہے۔ عرض کی تین دن۔
فرمایا۔ ‘‘تین دن میں انشاء اللہ ختم ہو جائے گی۔ ’’آپ یہ کہہ کر مفتی صاحب کو اندرلے گئے اب سارا دن حضورؑ اس کتاب کو سنتے رہے یا مفتی صاحب تھے یا حضورؑ باہر تشریف لائے تو مفتی صاحب کے ساتھ کھانا پینا سب حضورؑ کے ساتھ۔ یہاں تک کہ تین دن اسی طرح گزر گئے۔
(الفضل13؍جولائی1923ءصفحہ10)
میرا قدم حضرت اقدسؑ کے قدم کے ماتحت
‘‘ایک دفعہ میں نے اپنی ایک کمزوری کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں شکایت کی کہ مجھ میں یہ کمزوری ہے۔ اور میں اس میں بار بار گرتا ہوں اور اس سے نکلنے کی توفیق نہیں پاتا۔ حضور نے دعا کاو عدہ فرمایا۔ 31؍اگست1899ء کی رات مجھے رؤیا ہوا کہ میں قادیان میں ایک چارپائی پر بیٹھا ہوں ایک اور چارپائی پر حضرت مسیح موعودؑ بیٹھے ہیں اور دونوں چارپائیوں کے درمیان قریباً تین چارپائیوں کی چوڑائی کا فاصلہ ہے ایک رسی ہے جس کا ایک سرا میرے پاؤں سے بندھا ہو ا ہے کہ میں قدم اُٹھا نہیں سکتا جب تک کہ حضرت صاحب پہلے نہ اُٹھائیں۔ گویا میرا قدم حضرت صاحب کے قدم کے ماتحت کر دیا گیا ہے۔ (فقط)اُس وقت سے وہ کمزوری مجھ سے دُور ہو گئی اور پھر اُس نے مجھے نہ ستایا۔ ’’
(ذکر حبیب صفحہ 184)
مقابلہ مضمون نویسی
حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے خدام کو ضرورت امام و مصلح کے موضوع پر مضمون لکھنے کا ارشاد فرمایا۔ مفتی صاحب نے بھی مضمون لکھا۔ سب مضامین مکرم منشی ظفر احمد صاحب نے حضور کو پڑھ کر سنائے۔ اور مفتی صاحب کو بتایا کہ حضورؑ نے آپ کے مضمون کو بہت پسند فرمایا۔
(ماخوذ از ذکر حبیب صفحہ46)
تحائف
ایک بار حضرت مفتی صاحب موسم گرما کی رخصتوں میں قادیان تشریف لائے ہوئے تھے۔ حضرت مولانا حکیم نور الدین قادیان ہجرت کر چکے تھے۔ وہ مکان بن چکا تھا جہاں آپ مطب کیا کرتے تھے۔ حضرت مفتی صاحب قریباً سارا وقت اسی مطب میں گزارتے تھے۔ ایک د ن حضرت اقدسؑ اکیلے وہاں تشریف لے آئے ہاتھ میں کچھ کتابیں تھیں آپ بے تکلفی سے اُسی چٹائی پر بیٹھ گئے جہاں آپ کے دو غلام بیٹھے تھے۔ آپ نے حضرت حکیم صاحب سے فرمایا کہ ‘‘یہ چند نسخےسرمہ چشم آریہ کے میرے پاس پڑے ہوئے تھے میں لایا ہوں کہ حسبِ ضرورت آپ تقسیم کر دیں۔ ’’ حضرت مفتی صاحب نے عرض کی کہ ایک مجھے چاہیے۔ آپؑ نے ایک نسخہ عنایت فرمایا۔
(ماخوذ از ذکرحبیب صفحہ 16تا17)
مفتی صاحب ایک دفعہ لاہور سے قادیان آئے ہوئے تھے مسجد سے جوتا گم ہو گیا جب حضرت اقدسؑ کو معلوم ہوا تو اپنا پرانا جوتا عنایت فرمایا۔ ایک دفعہ آپ نے ایک جیبی گھڑی حضرت اقدسؑ کی خدمت میں پیش کی آپ نے اندر بلایا اور فرمایا۔ ہمارے پاس دو گھڑیاں ہیں ….. یہ آپ لے جائیں۔ اور دونوں گھڑیاں مفتی صاحب کو عنایت فرمائیں۔ ’’
(ماخوذ از ذکر حبیب صفحہ36)
٭…٭(جاری ہے)٭…٭