حضرت مصلح موعودؓ کا پہلا تاریخی دورۂ یورپ: قیام انگلستان کا آخری ہفتہ 17؍تا 24؍اکتوبر 1924ءاور مسجد فضل لندن کا سنگ بنیاد
اب ہم قیام انگلستان کے حالات بیان کرتے ہوئے اس کے آخری مگر اہم ہفتہ میں پہنچ گئے ہیں۔ اس ہفتہ کا آغاز ‘‘مسجد فضل’’ کی بنیاد کے ابتدائی انتظامات سے ہوا۔ اور اختتام رختِ سفر باندھنے پر۔ اس طرح وہ دن آن پہنچا جس کے انتظار میں حضورؓ نے ایک شعر میں فرمایا تھا:
آہ کیسی خوش گھڑی ہو گی کہ بانیل و مرام
باندھیں گے رخت سفر کو ہم برائے قادیاں
مسجد فضل لندن کا سنگ بنیاد(19؍ اکتوبر 1924ء)
اس ہفتہ کا یادگار دن 19؍اکتوبر 1924ء ثابت ہوا۔ جبکہ حضورؓ نے 4 بجے شام ایک بہت بڑے مجمع میں ‘‘مسجد فضل’’ (63 میلروز روڈ۔ لنڈن) کا اپنے دست مبارک سے سنگ بنیاد رکھا۔
اس تقریب پر سب سے پہلے (متعینہ) امام مسجد لندن حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب دردؓ نے خوش آمدید کا مختصر ایڈریس پڑھا۔ جس کے بعد تمام حاضرین مقام بنیاد کی طرف گئے۔ جہاں پہلے حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ نے تلاوت فرمائی۔ پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے انگریزی زبان میں ایک مضمون پڑھا جس میں مسجد کی غرض و غایت پر اسلامی نقطہ نگاہ سے روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:
‘‘پیشتر اس کے کہ میں اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھوں میں اس امر کا اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ یہ مسجد صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے بنائی جاتی ہے۔ تاکہ دنیا میں خدا تعالیٰ کی محبت قائم ہو اور لوگ مذہب کی طرف (جس کے بغیر حقیقی امن اور حقیقی ترقی نہیں ) متوجہ ہوں اور ہم کسی شخص کو جو خدا تعالیٰ کی عبادت کرنا چاہے ہرگز اس میں عبادت کرنے سے نہیں روکیں گے بشرطیکہ وہ ان قواعد کی پابندی کرے جو اس کے منتظم انتظام کے لئے مقرر کریں اور بشرطیکہ وہ ان لوگوں کی عبادت میں مخل نہ ہوں جو اپنی مذہبی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اس مسجد کو بناتے ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ رواداری کی روح جو اس مسجد کے ذریعہ سے پیدا کی جاوے گی۔ دنیا سے فتنہ و فساد دور کرنے اور امن و امان کے قیام میں بہت مدد دے گی۔ اور وہ دن جلد آجائیں گے کہ لوگ جنگ و جدال کو ترک کرکے محبت اور پیار سے آپس میں رہیں گے۔ ’’
اس مضمون کے بعد جس کا حاضرین پر ایک گہرا اثر تھا، حضرت خلیفۃ المسیحؓ نے بنیادی پتھر رکھا جس پر انگریزی میں ایک مضمون درج تھا۔ جس کے الفاظ ہم حضرت خلیفۃ المسیح ہی کے الفاظ ذیل میں نقل کر دیتے ہیں۔
اعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم۔
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھو الناصر
قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘میں میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی امام جماعت احمدیہ جس کا مرکز قادیان پنجاب ہندوستان ہے۔ خدا کی رضا کے حصول کے لئے اور اس غرض سے کہ خدا تعالیٰ کا ذکر انگلستان میں بلند ہو۔ اور انگلستان کے لوگ بھی اس برکت سے حصہ پاویں جو ہمیں ملی ہے آج ۲۰؍ ربیع الاول ۱۳۴۳ھ کو اس مسجد کی بنیاد رکھتا ہوں اور خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تمام جماعت احمدیہ کے مردوں اور عورتوں کی اس مخلصانہ کوشش کو قبول فرمائے۔ اور اس مسجد کی آبادی کے سامان پیدا کرے اور ہمیشہ اس کے لئے اس مسجد کو نیکی، تقویٰ، انصاف اور محبت کے خیالات پھیلانے کا مرکز بنائے اور یہ جگہ حضرت محمد مصطفیٰ خاتم النبیینﷺ اور حضرت احمد مسیح موعود نبی اللہ بروز و نائب محمد علیہما الصلوٰۃ والسلام کی نورانی کرنوں کو اس ملک اور دوسرے ملکوں میں پھیلانے کے لئے روحانی سورج کا کام دے اے خدا تو ایسا ہی کر۔ ۱۹ اکتوبر۱۹۲۴ء’’
لندن میں سب سے پہلی مسجد کی بنیاد رکھی جا چکی تو حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب دردؓ نے بلند آواز سے حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کا ایک تار پڑھ کر سنایا جو انہوں نے جماعت احمدیہ ہندوستان کی طرف سے اس تقریب پر مبارک باد کا بھیجا تھا۔ اس کے بعد حضورؓ نے لمبی دعا کی۔ پھر عصر کی نماز اسی مقام پر پڑھی اور حضورؓ نے اعلان فرمایا کہ ‘‘میں اعلان کرتا ہوں کہ اس مسجد کا باقاعدہ سنگ بنیاد رکھا گیا’’۔ اس تقریب کے فوٹو اور فلم ایک درجن کے قریب فوٹو گرافروں اور سینما والوں نے لئے۔ نماز کے بعد مبارکباد کی آواز ہر طرف بلند ہوئی اور مسجد کے محراب پر ایک جھنڈا لہرایا گیا جو حیدر آباد کے ہوم سیکرٹری نواب اکبر نواز جنگ صاحب نے دیا تھا۔ اس کے بعد پورا مجمع خیمہ کی طرف چائے نوشی کے لئے آیا۔
اس مجمع میں مختلف قوموں کے ممتاز آدمی شامل تھے۔ مثلاً انگریز، جرمن، سروین، ہنگری، زیکو سلواکیا، لیتھونیا، مصری، امریکن، اٹالین، جاپانی اور ہندوستان کے رہنے والے نیز مختلف مذاہب کے لوگ عیسائی، مسلمان، پارسی اور یہود بھی تھے۔ اگرچہ بارش کا دن تھا پھر بھی دو سو سے زیادہ معززین اس تقریب میں شامل ہوئے جن میں انگریزوں کے علاوہ دوسری حکومتوں کے نمائندے بھی موجود تھے جن میں جرمن سفیر، لیتھونیا اور سرویا کے وزیر، زیکو سلواکیا کا نمائندہ، ترکی، البانیہ اور فن لینڈ کے وزراء نے بذریعہ خطوط اچھی خواہشوں کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم انگلستان نے امام مسجد لندن اور جماعت احمدیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا۔ افسوس میں اس دن لندن میں نہیں ہوں گا۔
اس تقریب پر آنے والے مہمانوں کو ایسی دلچسپی پیدا ہو گئی کہ وہ بہت دیر تک اس جگہ ٹھہرے رہے اور سلسلہ کے متعلق اپنی دلچسپی ظاہر کرتے رہے۔ وانڈز ورتھ کے میئر نے کہا کہ کوئی مذہب جسے اس تقریر کے کسی حصہ پر بھی اعتراض ہو۔ مذہب کہلانے کا مستحق نہیں ہو سکتا اور لکھنے والا فرشتہ اس کو دوام کی سیاہی میں ڈبوئی ہوئی قلموں کے ساتھ لکھے گا۔ زیکوسلویکا کے نمائندہ نے کہا کہ مجھے نہایت ہی خوشی ہے کہ مجھے ایسے خیالات پہلی دفعہ سننے کا موقعہ ملا ہے۔
مسجد کے سنگ بنیاد پر بہت سے انگریزی اخباروں نے نوٹ لکھے جن میں سے صرف دوبطور نمونہ درج ذیل کئے جاتے ہیں۔ ‘‘ڈیلی کرانیکل’’نے لکھا:
‘‘ہز ہولی نس خلیفۃ المسیح نے جو اسلام کے فرقہ احمدیہ کے امام ہیں۔ کل 19؍ اکتوبر کو میلروز روڈ ساؤتھ فیلڈز میں لنڈن کی پہلی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا اس اصلاحی تحریک کے پیرو لندن میں ایک سو اور مشرق و افریقہ میں دس لاکھ سے بھی زیادہ ہیں۔ فی الحال یہ ارادہ ظاہر کیا گیا ہے کہ مسجد کے صرف ایک حصہ کو مکمل کیا جائے اور اس حصہ کی تعمیر کے لئے سارا روپیہ بذریعہ چندہ جمع ہو چکا ہے۔ اس تقریب پر جاپان اور جرمنی کے سفیر، وانڈزورتھ کے رئیس، استھونیا کا وزیر اور ترکی اور البانیا کے نمائندے بھی شامل تھے۔
(ترجمہ ڈیلی کرانیکل لندن20؍ اکتوبر 1924ء بحوالہ سلسلہ احمدیہ صفحہ 379)
‘‘ویسٹ منسٹر گزٹ’’نے لکھا:
‘‘ایک مسجد جو لنڈن میں پہلی مسجد ہو گی۔ ساؤتھ فیلڈز (Southfields)میں تعمیر کی جائے گی۔ جس کا مینار ستر فٹ بلند ہو گا۔ جہاں سے ایک مؤذن مومنوں کے لئے نماز کے وقت کا اعلان کرے گا۔ سنگ بنیاد کل ایک باغیچہ میں رکھا گیا۔ پھلدار درختوں میں خوشبو کا نیلا نیلا دھواں اٹھتا دکھائی دیتا تھا۔ گیلی زمین پر قالین بچھائے گئے۔ اور اس مجمع میں مختلف اقوام کے لوگ شامل تھے۔ ہز ہولی نس خلیفۃ المسیح نے یہ رسم ادا کی۔ آپ نے قرمزی رنگ کے کفوں والا گلابی رنگ کا کوٹ پہنا ہوا تھا سر پر ایک بھاری سفید عمامہ تھا اور ہاتھ میں ایک عصا جس کے سر پر آبنوس اور چاندی لگی تھی۔ انہوں نے فرمایا کہ میں میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی اور جماعت احمدیہ کا امام جس کا مرکز قادیان پنجاب ہندوستان میں ہے۔ آج ۲۰؍ ربیع الاول ۱۳۴۳ھ کو خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھتا ہوں کہ لنڈن میں اس کے نام کا جلال ظاہر ہو اور تاکہ اس ملک کے لوگ بھی ان برکات سے حصہ لیں جو ہمیں عطا کی گئی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ تقریب تو انسان کی اخوت اور وحدت کا ایک نشان ہے یہ ضروری نہیں ہے کہ اختلاف رائے سے تفرقہ پیدا ہو۔ عرب کا مقدس نبی فرماتا ہے کہ اختلاف رائے رحمت کا ایک سرچشمہ ہے کیونکہ اس سے علم اور حکمت کی ترقی میں مدد ملتی ہے رواداری اور عالی حوصلگی صرف اختلاف رائے کے مدرسہ میں سیکھی جا سکتی ہے۔
ہز ہولی نس کی رائے میں وہ دن دور نہیں جبکہ لوگ جنگ کے خیالات کو ترک کر دیں گے اور بھائیوں اور بہنوں کی طرح ایک ہی خالق کے بندہ ہو کر اتفاق سے زندگی بسر کریں گے …۔
امام مسجد مولوی عبدالرحیم صاحب درد نے بیان کیا کہ ایک دن مشرق مغرب مل جاویں گے … یہ سلسلہ جو کہ اسلام میں پہلا تبلیغی سلسلہ ہے۔ انگلستان کو ایشیا سے اور خصوصاً ہندوستان سے زیادہ قریب کر دے گا۔ انگلستان میں یہ پہلی مسجد ہے جس کو صرف مسلمانوں نے تعمیر کیا ہے مسٹر سی۔ ایچ اوشر مسجد کے انجینئر نے ہمارے نامہ نگار سے بیان کیا کہ وہ ایک وقت سلطان مراکش کے انجینئر تھے اس کی عمارت اپنی شکل میں شرقی طرز کی ہو گی یہ سلسلہ احمدیہ کی تعمیر کردہ مسجد ہو گی جن کا عقیدہ ہے کہ الہام کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔ وہ مذہبی جنگوں کے خلاف ہیں اور رواداری کی تعلیم دیتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ ہمارا سلسلہ دنیا کو نبی عربیﷺ کے خالص دین کی طرف واپس بلاتا ہے۔ ’’
(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ 456تا 460)