درود شریف کی اہمیت، فوائد و برکات، حکمت اور پڑھنے کا درست طریق
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے بصیرت افروز ارشادات کی روشنی میں
اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ۔ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(الاحزاب:57)
یقیناً اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو تم بھی اس پر درود اور خوب خوب سلام بھیجو۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مندرجہ بالا آیتِ کریمہ کی تلاوت کے بعد فرماتے ہیں:
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی پر اپنی رحمتیں نازل فرما رہا ہے۔ اس کے فرشتے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دعائیں دے رہے ہیں، اس کے لئے رحمت مانگ رہے ہیں۔ پس جب یہ صورتحال ہے تو وہ لوگ جو مختلف حیلے اور ہتھکنڈے استعمال کر کے اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ترقی کو روکنا یا کم کرنا چاہتے ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غلط الزامات لگاتے ہیں اور ہنسی اور ٹھٹھے کا نشانہ بنا کر سمجھتے ہیں کہ ہم کامیاب ہو جائیں گے وہ احمقوں کی جنت میں بستے ہیں۔ ان کی یہ سازشیں اور کوششیں اللہ تعالیٰ کے اس پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں۔ جس مقصد کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا ہے اس کا حصول اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوتا چلا جائے گا اور اس زمانے میں تو اس مقصد کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کے عاشق صادق کو بھیج کر اسلام کی خوبصورت تعلیم کو پھیلانے کے نئے دروازے کھول دئیے ہیں۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جن کو اللہ تعالیٰ نے ہر زمانے اور ہر قوم کے لئے نبی بنا کر بھیجا ہے اس کی مدد کے سامان بھی اللہ تعالیٰ اپنی رحمت اور فضل سے خود فرما رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین نہ پہلے کبھی کامیاب ہو سکے، نہ اب کامیاب ہو سکتے ہیں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے۔ اس لئے اس کی تو ایک حقیقی مسلمان کو فکر ہی نہیں ہونی چاہئے کہ اسلام کو یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو کوئی دنیاوی کوشش نقصان پہنچا سکتی ہے۔ ہاں جو کام اللہ تعالیٰ نے حقیقی مسلمان کے ذمہ لگایا ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح وہ اور اس کے فرشتے اس نبی کے مقام کو اونچا کرنے کے لئے اس پر رحمت بھیج رہے ہیں تم اپنا فرض ادا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے پیارے، کامل، مکمل اور آخری نبی پر بیشمار درود اور سلام بھیجو۔ پس یہ فرض ہے جو ایک حقیقی مسلمان کا ہے۔ اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کام کو ترقی دیتے چلے جانے والوں میں شامل ہو کر اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں کی بات کے پیچھے چلتے ہوئے بیشمار درود اور سلام ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھیجیں۔ گزشتہ دنوں فرانس میں جو حالات ہوئے اور مسلمان کہلانے والوں نے ایک اخبار کے دفتر پر حملہ کر کے جو بارہ آدمیوں کو ماردیا اس کے بارے میں گزشتہ جمعہ میں مختصر ذکر کر کے مَیں نے احمدیوں کو، افرادِ جماعت کو درود پڑھنے کی طرف توجہ دلائی تھی کہ قتل و غارت گری سے اسلام کی فتح نہیں ہو گی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے سے ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکیں گے۔ نیز اس فکر کا بھی مَیں نے اظہار کیا تھا کہ اس حملے کے بدلے میں غلط ردّ عمل دکھایا جا سکتا ہے یا دکھایا جائے گا اور یہی ان لوگوں سے امید کی جا سکتی تھی۔ غلط ردّ عمل دکھا کر ان لوگوں نے بھی دوبارہ خاکے شائع کئے جو پھر ہمارے لئے مزید تکلیف کا باعث بنے اور ہر حقیقی مسلمان کے لئے تکلیف کا باعث بننے چاہئیں تھے۔ اس دہشتگردی کا کیا فائدہ ہوا۔ دو تین سال پہلے جو ان اخبار والوں نے حرکت کی اور جو دب گئی تھی اس غلط حرکت کو پھر مسلمان کہلانے والوں کے غلط عمل نے ہوا دے دی۔ جو کچھ یہ اخبار پہلے کرتا رہا اس پر مغربی دنیا کے بہت سے لیڈرز نے سخت ردّ عمل دکھایا۔ اس کو سختی سے ردّ کیا اور کئی حکومتوں نے کہا کہ ہم کبھی اپنے اخباروں کو اجازت نہیں دیں گے۔ لیکن گزشتہ ہفتے کے واقعہ کے بعد بہت سے بظاہر عقل رکھنے والے اور ذمہ دار لوگوں نے اور لیڈروں نے اس بیہودہ اخبار کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ اور مختلف جگہوں سے انہیں کئی ملینز (millions) ڈالر کی امداد ملنی شروع ہو گئی۔ اس اخبار کی اشاعت جو صرف ساٹھ ہزار تھی اور کہا جا رہا تھا کہ شاید یہ اپنی موت آپ مرنے والا ہے، بالکل ختم ہونے و الا ہے اور ختم ہوجائے گا۔ مسلمان کہلانے والوں کے غلط عمل نے ایک دن کے اندر اندر، ایک ہفتے کے اندر اندر اس کی اشاعت کو پانچ ملین سے اوپر پہنچا دیا۔ اور اب بعض اندازے لگانے والے یہ کہتے ہیں کہ شاید اس اخبار کو دس بارہ سال اور مل گئے ہیں جو شاید چھ مہینے بھی نہ چلتا۔
پس اس عمل نے دنیا کے بہت سے ممالک میں نہ صرف اسلام کی تعلیم کے غلط تصور کو ہوا دی ہے بلکہ مرتے دشمن کو زندہ کرنے کا کردار بھی ادا کیا ہے۔ کاش کہ مسلمان تنظیمیں جو اسلام کے نام پر ظلم کرتی ہیں سمجھیں کہ اسلام کی پیار و محبت کی تعلیم زیادہ جلدی دنیا کو اسلام کی آغوش میں لا سکتی ہے۔ اسلام جس طرح صبر اور حوصلے کی تعلیم دیتا ہے اس کا کوئی دوسرا مذہب مقابلہ ہی نہیں کر سکتا۔ یہ دنیا دار تو وہ لوگ ہیں جن کی دین کی آنکھ اندھی ہے، جو اللہ تعالیٰ کے نبیوں کی بات تو ایک طرف خود خدا تعالیٰ کا استہزاء کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ ان جاہلوں کے عمل پر اگر ہماری طرف سے بھی جاہلانہ ردّعمل ہو تو یہ ضد میں آ کر مزید جہالت کی باتیں کریں گے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان لوگوں کے منہ لگنے کے بجائے ان لغویات سے پُر لوگوں سے اعراض کرتے ہوئے علیحدہ ہو جاؤ۔ صرف ان کی مجلس میں بیٹھنا یا ان کی ہاں میں ہاں ملانا ہی گناہ نہیں ہے یا گنہگار نہیں بناتا بلکہ جب غلط کام کرنے والوں کو اس طرح الٹا کر جواب دیا جائے اور پھر وہ الٹا کر خدا تعالیٰ کا استہزاء کریں یا برا بھلا کہیں یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کریں یا کسی بھی رنگ میں اظہار کریں تو تب بھی ہم میں سے جو لوگ ایسا کرنے والے ہیں اس گناہ میں شامل ہو رہے ہوں گے۔
پس ایک حقیقی مسلمان کو اس سے بچنا چاہئے۔ معاملہ خدا تعالیٰ پر چھوڑنا چاہئے۔ خدا تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ جب میرے پاس لَوٹنا ہے تب ان کی حرکتوں کا خمیازہ انہیں بھگتنا ہو گا۔ آخر ایک دن اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹنا ہے تب اللہ تعالیٰ انہیں بتائے گا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں۔ آجکل دشمن اسلام کے خلاف تلوار اٹھانے کے بجائے ایسے ہی گھٹیا ہتھکنڈے استعمال کر کے اسلام کو، اسلام کی تعلیم کو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمت بھیجتے ہیں ایک اصولی بات بتا دی ہے کہ یہ حرکتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتیں۔ تمہارا کام ان لغویات میں پڑنے کے بجائے، اسی طرح جہالت سے جواب دینے کے بجائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود اور سلام بھیجنا ہے۔ یہ ایک حقیقی مسلمان کا کام ہے۔ اس کا حق ادا کرو تو سمجھو کہ تم نے وہ فرض ادا کر دیا۔ جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ وہ لوگ جو اس بیہودہ رسالے کے خلاف تھے اس حملے کے بعد ان میں سے بہت سے اس کے حق میں بھی ہو گئے کہ آزادی رائے کا ہر ایک کو حق ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان لوگوں میں ایسے انصاف پسند اور عقلمند بھی ہیں جنہوں نے اس رسالے کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بیہودہ اظہار کو ناپسند کیا ہے اور ناپسند کرتے ہوئے اس کی انتظامیہ کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ مثلاً اس رسالے جس کا نام چارلی ایبڈو (Charlie Hebdo) ہے اس کے ابتدائی ممبر جن کا نام ہنری رَسَل (Henri Roussel) ہے وہ کہتے ہیں کہ جو خاکے اس اخبار نے بنائے تھے وہ بھڑکانے والے تھے اور یہی وجہ ہے کہ اس غیر ذمہ دارانہ فعل کی وجہ سے ایڈیٹر نے اپنی ٹیم کو موت کے منہ میں دھکیل دیااور کہتے ہیں کہ اس قسم کی باتیں ہماری بنیادی پالیسی کے خلاف تھیں جو یہ گزشتہ کئی سالوں سے کر رہے ہیں۔ اسی طرح پوپ نے بڑا اچھا بیان دیا ہے کہ آزادی رائے کی کوئی حد ہونی چاہئے۔ آزادیٔ رائے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بالکل چھوٹ دے دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہر مذہب کا ایک وقار ہے اور اس کا احترام ضروری ہے اور کسی بھی مذہب کی عزّت پر حملہ نہیں کرنا چاہئے۔ اپنی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرے قریبی دوست (جو اُن کے دوروں کو آرگنائز کرتے ہیں ) اگر وہ بھی میری ماں پر لعنت ڈالیں یا برا بھلا کہیں تو میرا ردّ عمل یہی ہو گا کہ میں اس کے منہ پر مُکّا ماروں گا اور ان کو مجھ سے اس ردّ عمل کی توقع رکھنی چاہئے کہ مُکّا ماروں گا۔ بہرحال ان کا کسی کے جذبات کو بھڑکانا غلط ہے اور انہوں نے جذبات کو بھڑکایا ہے اس لئے قصور ان کا ہے۔ پوپ نے بڑا حقیقی بیان دیا ہے۔ مسلمانوں کو بھی اب عقل کرنی چاہئے اور اس کے بعد پھر غلط ردّ ِعمل نہیں دکھانا چاہئے۔ آجکل میڈیا دنیا پر چھایا ہوا ہے اور کہیں بھی آگ لگانے یا آگ بجھانے، فساد پیدا کرنے یا فساد روکنے میں یہ بڑا کردار ادا کرتا ہے۔ اس مرتبہ یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ اس واقعے کے بعد یوکے(UK) اور دنیا کے مختلف میڈیا نے جماعت سے بھی ہمارا ردّ عمل یا موقف اس بارے میں پوچھا جس میں ہم نے اس قتل کے واقعے کے بارے میں بتایا کہ یہ غیر اسلامی فعل ہے اور ہم اس پر افسوس کرتے ہیں لیکن آزادیٔ رائے کی بھی کچھ حدود ہونی چاہئیں ورنہ دنیا میں فساد پیدا کرنے کے ذمہ دار وہ لوگ ہوں گے جو دوسروں کے جذبات کو انگیخت کرتے ہیں۔ بہر حال اس کے علاوہ کچھ تفصیلی باتیں پریس میں بیان ہوئی ہیں۔ یوکے (UK) میں سکائی نیوز (Sky News)، نیوز فائیو (News Five)، بی بی سی ریڈیو (BBC Radio)، ایل بی سی (LBC)، بی بی سی لیڈز (BBC Leeds) اور لنڈن لائیو (London Live)، پھر باہر کے ٹی وی ہیں، فاکس ٹی وی (Fox Tv) ہے، سی این این (CNN) ہے، کینیڈا کے اخبارات ہیں، اسی طرح یونان، آئرلینڈ، فرانس، امریکہ کے مختلف اخبارات ہیں۔ انہوں نے ہمارا موقف بیان کیا۔ ان کے سٹوڈیو میں جا کر بھی انٹرویو ہوئے ہیں اور اس ذریعے سے کئی ملین لوگوں تک اسلام کا حقیقی موقف اور تعلیم پہنچی ہے۔ اس میں یہاں امیر صاحب کا بھی انٹرویو ایک ٹی وی نے لیا تھا اور امام مسجد فضل عطاءالمجیب راشد صاحب کا بھی انٹرویو لیا تھا۔ اسی طرح امریکہ، کینیڈا، فرانس میں ہماری ٹیمیں ہیں، نمائندے ہیں۔ ان کے ٹیموں کے نمائندے شامل ہوئے۔ پریس کی ٹیم ہے اور ان کو سٹوڈیو میں بلا کر ان کے انٹرویو لئے گئے یا سوال کئے گئے۔ اخباروں نے ہمارے مضمون چھاپے، آرٹیکل چھاپے یا اس حوالے سے خبر دی۔ تو بہرحال اس ٹیم نے بھی ہر جگہ دنیا میں یوکے (UK) میں بھی اور امریکہ اور کینیڈا میں بھی حقیقی تعلیم پہنچانے کا اچھا حق ادا کیا ہے۔
کینیڈا کی ٹیم کے پریس کے رابطے اور خبروں پر وہاں کے ایک جرنلسٹ نے لکھا ہے کہ میں یہ سوال پوچھتا ہوں کہ احمدیہ مسلم جماعت مسلمانوں میں ایک چھوٹا سا فرقہ ہے لیکن اس کے باوجود اتنی زیادہ ان کی طرف سے میڈیا میں کوریج ہوئی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ اور انہوں نے صحیح پیغام پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ تو یہ تو اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے کہ اسلام کی تعلیم کا صحیح رُخ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کی جماعت نے دنیا کو بتانا ہے جو آپ سے سیکھا۔
پس جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبے میں بھی کہا تھا کہ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے اپنے حلقے میں دنیا کو یہ پیغام دیں اور سمجھائیں کہ غلط ردّ عمل صرف فساد کو جنم دیں گے، اَور کچھ نہیں ہو گا۔ اور جو موجودہ حالات ہیں دنیا کے ان میں پھر بھڑک کر ایک آگ لگ جائے گی اور یہ آگ پھر چاروں طرف پھیلنے والی آگ بن جائے گی جس کی دنیا اس وقت متحمل نہیں ہو سکتی۔ پس غلط ردّعمل سے نہ لوگوں کو انگیخت کرو، نہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ کو آواز دو۔ خداتعالیٰ دنیا کو عقل دے۔
لیکن اس کے ساتھ ایک احمدی کا ایک بہت بڑا کام اس طریق پر چلنا بھی ہے جو خدا تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے کہ
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا
کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم بھی اس نبی پر درود اور سلام ایک جوش کے ساتھ بھیجو۔ گو اللہ تعالیٰ کے حکموں پر ایک مومن کو حتی المقدور عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور کیوں یا کس لئے کا سوال نہیں اٹھانا چاہئے۔ ظاہر ہے عموماً اٹھاتا بھی نہیں۔ جُوں جُوں کسی کا ایمان اور دینی معاملات کا علم اور دعاؤں کا فہم بڑھتا ہے حکم کی حکمت اور فوائد بھی نظر آنے لگ جاتے ہیں یا سمجھ آ جاتے ہیں۔ لیکن کچھ علم حاصل کر کے سیکھنا بھی اسلامی تعلیم کا ایک خوبصورت حصہ ہے۔ اسلام یہ بھی کہتا ہے کہ علم حاصل کرو اور سیکھو بھی اور یہ فہم اور ادراک حاصل کرنے کی کوشش بھی کرو۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف قدم بھی بڑھاؤ۔ بہر حال یہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ یہ سیکھو تا کہ حکمت جلد سے جلد سمجھ آ جائے۔ نہ کہ اس انتظار میں رہو کہ آہستہ آہستہ سیکھیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے کا فہم اور ادراک بھی حاصل ہو جائے اور پھر یہ فہم اور ادراک حاصل ہونے کی وجہ سے بہتر رنگ میں اس پر عمل ہو سکے۔
پس اس حوالے سے اس وقت میں بعض احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات پیش کروں گا جو درود شریف کی اہمیت اور اس کے فوائد کو بھی واضح کرتے ہیں۔ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبّت کا دعویٰ کرتے ہیں اور اس محبت کے تقاضے کی وجہ سے ہمارے دل اُس وقت چھلنی ہوتے ہیں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کوئی نازیبا الفاظ کہے جائیں یا کسی بھی طرح غلط رنگ میں آپ کی طرف کوئی بات منسوب کی جائے۔ لیکن اس محبت کا حقیقی اظہار اور اس کا فائدہ کس طرح ہو گا، اس بارے میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن لوگوں میں سے سب سے زیادہ میرے نزدیک وہ شخص ہو گا جو اُن میں سے مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجنے والا ہو گا۔
(سنن الترمذی کتاب الصلوٰۃ ابواب الوتر باب ما جاء فی فضل الصلوٰۃ …حدیث نمبر484)
پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی محبت کا اظہار جس کے نتیجے میں آپؐ کا قرب ملے درود شریف پڑھنے سے ہی ہے۔
پھر حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے روز اس دن کے خطرات سے اور ہولناک مواقع سے تم میں سے سب سے زیادہ محفوظ اور نجات یافتہ وہ شخص ہو گا جو دنیا میں مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجنے والا ہو گا۔ فرمایا کہ میرے لئے تو اللہ تعالیٰ کا اور اس کے فرشتوں کا درود ہی کافی تھا۔ یہ تو اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو ثواب پانے کا ایک موقع بخشا ہے کہ تم درود بھیجو۔
(کنزالعمال جزء اول صفحہ 254کتاب الاذکار / قسم الاقوال حدیث نمبر 2225دارالکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)
پھر دعا کرنے کے صحیح طریق کے بارے میں ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت فضالہ بن عبید روایت کرتے ہیں کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا ایک شخص آیا اور اس نے نماز پڑھی اور دعا کرتے ہوئے کہا۔
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ۔
حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے نماز پڑھنے والے تُو نے جلدی کی۔ چاہئے کہ جب تُو نماز پڑھے اور بیٹھے تو اللہ تعالیٰ کی حمد اور ثنا کرے۔ پھر مجھ پر درود بھیجے۔ پھر جو بھی دعا وہ چاہتا ہے مانگے۔ راوی کہتے ہیں پھر ایک دوسرا شخص آیا اس نے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
اَیُّھَا الْمُصَلِّی اُدْعُ تُجَبْ۔
کہ اے نماز پڑھنے والے دعا کر، قبول کی جائے گی۔
(سنن الترمذی ابواب الدعوات باب ما جاء فی جامع الصلوات عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم حدیث نمبر3476)
پھر حضرت عبداللہؓ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے، انہوں نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم مؤذن کو اذان دیتے ہوئے سنو تو تم بھی وہی الفاظ دہراؤ جو وہ کہتا ہے۔ پھر مجھ پر درود بھیجو۔ جس شخص نے مجھ پر درود پڑھا اللہ تعالیٰ اس پر دس گنا رحمتیں نازل فرمائے گا۔ پھر فرمایا میرے لئے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ مانگو یہ جنت کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے ایک بندے کو ملے گا۔ اور میں امید رکھتا ہوں کہ وہ مَیں ہی ہوں گا۔ جس کسی نے بھی میرے لئے اللہ سے وسیلہ مانگا اس کے لئے شفاعت حلال ہو جائے گی۔
(صحیح مسلم کتاب الصلوٰۃ باب القول مثل قول المؤذن لمن سمعہ ثم یصلی علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم حدیث نمبر849)
پس یہ درود جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت میں اضافہ کرتا ہے وہاں قبولیت دعا کے لئے بھی ضروری ہے اور اپنی بخشش کے لئے بھی ضروری ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی لئے فرمایا ہے کہ دعا آسمان اور زمین کے درمیان ٹھہر جاتی ہے اور جب تک اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر تم درودنہ بھیجو اس میں سے کوئی حصہ بھی خدا تعالیٰ کے حضور پیش ہونے کے لئے اوپر نہیں جاتا۔
(سنن الترمذ ی کتاب الصلوٰۃ ابواب الوتر باب ما جاء فی فضل الصلوٰۃ علی النبیﷺ حدیث نمبر486)
درود پڑھنے کے لئے کس طرح کوشش ہونی چاہئے؟ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ایک مرید کو لکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’آپ درود شریف کے پڑھنے میں بہت ہی متوجہ رہیں اور جیسا کہ کوئی اپنے پیارے کے لئے فی الحقیقت برکت چاہتا ہے ایسے ہی ذوق اور اخلاص سے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے برکت چاہیں اور بہت ہی تضرع سے چاہیں اور اس تضرع اور دعا میں کچھ بناوٹ نہ ہو بلکہ چاہئے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی دوستی اور محبت ہو اور فی الحقیقت روح کی سچائی سے وہ برکتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مانگی جائیں کہ جو درود شریف میں مذکور ہیں … اور ذاتی محبت کی یہ نشانی ہے کہ انسان کبھی نہ تھکے اور نہ ملول ہو اور نہ اغراض نفسانی کا دخل ہو (ذاتی غرض کوئی نہ ہو)۔ اور محض اسی غرض کے لئے پڑھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر خداوند کریم کے برکات ظاہر ہوں۔ ‘‘(مکتوبات احمد جلد اول صفحہ 534-535 مکتوب بنام میر عباس علی شاہ مکتوب نمبر18شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)
پھر درود کی حکمت بیان کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ
’’اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی دوسرے کی دعا کی حاجت نہیں۔ ‘‘ (جیسا کہ حدیث میں بھی آپؐ نے فرمایا کہ میرے لئے تو اللہ اور اس کے فرشتوں کا درود کافی ہے۔)حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں : ’’لیکن اس میں ایک نہایت عمیق بھید ہے۔ جو شخص ذاتی محبت سے کسی کے لئے رحمت اور برکت چاہتا ہے وہ بباعث علاقۂ ذاتی محبت کے اس شخص کے وجود کی ایک جزو ہو جاتا ہے‘‘ (جو ذاتی محبت کی وجہ سے کسی کے لئے رحمت اور برکت چاہتا ہے وہ اس ذاتی محبت کے تعلق کی وجہ سے اس وجود کے چاہنے والے کے جسم کا ایک حصہ بن جاتا ہے) فرمایا کہ’’پس جو فیضان شخص مَدْعُولَہٗ پرہوتا ہے وہی فیضان اس پر ہو جاتا ہے۔ ‘‘(اللہ تعالیٰ کا جو فیض جس شخص کے لئے دعا کی جا رہی ہے اس پر ہوتا ہے دعا کرنے والے پر بھی وہی فیض ہو جاتا ہے۔ ) اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر فیضان حضرت احدیّت کے بے انتہا ہیں اس لئے درود بھیجنے والے کو کہ جو ذاتی محبت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے برکت چاہتے ہیں بے انتہا برکتوں سے بقدر اپنے جوش کے حصہ ملتا ہے مگر بغیر روحانی جوش اور ذاتی محبت کے یہ فیضان بہت ہی کم ظاہر ہوتے ہیں۔ ‘‘(مکتوبات احمد جلد اول صفحہ 535مکتوب بنام میر عباس علی شاہ مکتوب نمبر18شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)
پس ہمیں چاہئے کہ یہ ذاتی جوش پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ پھر درود شریف پڑھنے کی وجہ بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا کہ
’’ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی صدق و وفا دیکھئے۔ آپ نے ہر قسم کی بدتحریک کا مقابلہ کیا۔ طرح طرح کے مصائب اٹھائے لیکن پرواہ نہ کی۔ یہی صدق و وفا تھا جس کے باعث اللہ تعالیٰ نے فضل کیا۔ اسی لئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ۔ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔
اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے رسول پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم درود اور سلام بھیجو نبی پر۔ ‘‘ فرمایا کہ ’’اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال ایسے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف یا اوصاف کی تحدید کرنے کے لئے کوئی لفظ خاص نہ فرمایا۔ ‘‘(ان کو محدود کرنے کے لئے کوئی خاص لفظ نہیں فرمایا۔ ) ’’لفظ تو مل سکتے تھے لیکن خود استعمال نہ کئے۔ یعنی آپ کے اعمال صالحہ کی تعریف تحدید سے بیرون تھی۔ ‘‘(کہ اس کی کوئی حد مقرر کی جائے۔ اس سے وہ باہر تھی۔ ) ’’اس قسم کی آیت کسی اور نبی کی شان میں استعمال نہ کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح میں وہ صدق و وفا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال خدا کی نگاہ میں اس قدر پسندیدہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے یہ حکم دیا کہ آئندہ لوگ شکر گزاری کے طور پر درود بھیجیں۔ ‘‘(تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد سوم صفحہ730، تحفہ سالانہ یا رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء صفحہ50-51۔ ملفوظات جلد اوّل صفحہ 23-24۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر یہ بیان فرماتے ہوئے کہ درود شریف حصول استقامت اور قبولیت دعا کا ذریعہ ہے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے ازدیاد اور تجدید کے لئے (یعنی محبت میں بڑھنے کے لئے اور اس کی تجدید کرنے کے لئے) ہر نماز میں درود شریف کا پڑھنا ضروری ہو گیا۔ تاکہ اس دعا کی قبولیت کے لئے استقامت کا ایک ذریعہ ہاتھ میں آ جائے۔ درود شریف جو حصول استقامت کا ایک زبردست ذریعہ ہے بکثرت پڑھو۔ نہ رسم اور عادت کے طور پر بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حُسن اور احسان کو مدِنظر رکھ کر اور آپ کے مدارج اور مراتب کی ترقی کے لئے اور آپ کی کامیابیوں کے واسطے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ قبولیت دعا کا شیریں اور لذیذ پھل تم کو ملے گا۔ ‘‘
(ریویو آف ریلیجنز جنوری 1904ء جلد 3نمبر1 صفحہ 14-15)
یہ مدارج وغیرہ کی ترقی کیسے ہوتی ہے؟ یہ بھی بتاؤں گا آگے جا کے۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں :
’’یہ زمانہ کیسا مبارک زمانہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان پُرآشوب دنوں میں محض اپنے فضل سے‘‘(اُن دنوں میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں غلط باتیں کی جاتی تھیں جب آپ نے یہ ارشاد فرمایا کہ) ’’ان پُرآشوب دنوں میں محض اپنے فضل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے اظہار کے لئے یہ مبارک ارادہ فرمایا کہ غیب سے اسلام کی نصرت کا انتظام فرمایا اور ایک سلسلے کو قائم کیا۔ ان لوگوں سے پوچھنا چاہتا ہوں جو اپنے دل میں اسلام کے لئے ایک درد رکھتے ہیں اور اس کی عزت اور وقعت ان کے دلوں میں ہے وہ بتائیں کہ کیا کوئی زمانہ اس سے بڑھ کر اسلام پر گزرا ہے جس میں اس قدر سبّ و شتم اور توہین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کی گئی ہو اور قرآن شریف کی ہتک ہوئی ہو؟ پھر مجھے مسلمانوں کی حالت پر سخت افسوس اور دلی رنج ہوتا ہے اور بعض وقت میں اس درد سے بیقرار ہو جاتا ہوں کہ ان میں اتنی حِسّ بھی باقی نہیں رہی کہ اس بے عزتی کو محسوس کر لیں۔ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ بھی عزت اللہ تعالیٰ کو منظور نہ تھی جو اس قدر سبّ و شتم پر بھی وہ کوئی آسمانی سلسلہ قائم نہ کرتا۔ ‘‘ (اللہ تعالیٰ کو کچھ بھی عزت منظور نہ تھی جو اس قدر سب و شتم پر وہ کوئی آسمانی سلسلہ قائم نہ کرتا۔ یہاں یہ نہیں فرمایا کہ تم اٹھو اور بندوقیں پکڑو اور ڈنڈے لو اور قتل و غارت شروع کر دو بلکہ اس عزت کے قائم کرنے کے لئے آسمانی سلسلے کا قیام ضروری تھا اور فرمایا کہ) ’’اور ان مخالفین اسلام کے منہ بند کر کے آپ کی عظمت اور پاکیزگی کو دنیا میں پھیلاتا۔ ‘‘ (دلیل سے، آپ کی خوبصورت تعلیم سے ان کے منہ بند کرتا نہ کہ گولی چلا کر۔ ) ’’جبکہ خود اللہ تعالیٰ اور اس کے ملائکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں تو اس توہین کے وقت اس صلوٰۃ کا اظہار کس قدر ضروری ہے اور اس کا ظہور اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے کی صورت میں کیا ہے‘‘ (یعنی جماعت احمدیہ کی صورت میں۔ ) پس ہمارایہ اور بھی زیادہ فرض بن جاتا ہے کہ پہلے سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجیں۔ پس آپ نے یہ فرمایا کہ’’مجھے بھیجا گیا ہے تا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کھوئی ہوئی عظمت کو پھر قائم کروں۔ ‘‘ (اس کے آگے یہ بھی آپ نے فرمایا) ’’اور قرآن شریف کی سچائیوں کو دنیا کو دکھاؤں۔ ‘‘
(ملفوظات جلد5صفحہ13-14۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس درود شریف کو کثرت سے پڑھنا آج ہر احمدی کے لئے ضروری ہے تا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے مقصد کو بھی ہم پورا کرنے والے ہوں۔ خدا تعالیٰ کی آواز پر ہم لبّیککہنے والے ہوں۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کے دعوے پر پورے اترنے والے ہوں۔ صرف نعروں اور جلوسوں سے یہ محبت کا حق ادا نہیں ہو گا جو غیرازجماعت مسلمان کرتے رہتے ہیں۔ اس محبّت کا حق ادا کرنے کے لئے آج ہر احمدی کروڑوں کروڑ درود اور سلام اپنے دل کے درد کے ساتھ ملا کر عرش پر پہنچائے۔ یہ درود بندوقوں کی گولیوں سے زیادہ دشمن کے خاتمے میں کام آئے گا۔
پھر مزید وضاحت فرماتے ہوئے کہ درود پڑھنے کا طریق کیا ہے آپؑ اپنے ایک خط میں جو آپ نے اپنے ایک مرید کو لکھا، فرماتے ہیں کہ’’یہ لحاظ بدرجہ غایت رکھیں کہ ہر ایک عمل رسم اور عادت کی آلودگی سے بکلّی پاک ہو جائے۔‘‘ (جو عمل بھی ہے صرف رسم نہ ہو اور عادت نہ ہو) اور دلی محبّت کے پاک فوّارے سے جوش مارے۔ ‘‘(اس کا رسم اور عادت کا گند جو ہے رسم اور عادت کا اس سے پاک کریں اور دل سے نکلنے والی محبت جو ہے وہ فوارے کی طرح پھوٹ رہی ہو۔ فرمایا) ’’مثلاً درود شریف اس طور پر نہ پڑھیں کہ جیسا عام لوگ طوطے کی طرح پڑھتے ہیں۔ نہ ان کو جناب حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ کامل خلوص ہوتا ہے نہ وہ حضور تام سے اپنے رسول مقبول کے لئے برکات الٰہی مانگتے ہیں‘‘ فرمایا کہ ’’بلکہ درود شریف سے پہلے اپنا یہ مذہب قائم کر لینا چاہئے کہ رابطہ محبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس درجے تک پہنچ گیا ہے کہ ہرگز اپنا دل یہ تجویز نہ کر سکے کہ ابتدائے زمانہ سے انتہا تک کوئی ایسا فرد بشر گزرا ہے جو اس مرتبہ محبت سے زیادہ محبت رکھتا تھا یا کوئی ایسا فرد آنے والا ہے جو اس سے ترقی کرے گا۔ ‘‘ (یہ محبت ایسی ہو کہ بہت سوچنے کے بعد بھی کبھی دل میں یہ خیال پیدا نہ ہو سکے کہ کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ایسا تھا جس سے ایسی محبت پیدا ہو سکے، نہ کبھی آئندہ پیدا ہو سکتا ہے جس سے اس شدت سے محبت کی جا سکے یا کوئی ایسا فرد آنے والا ہے جو اس سے ترقی کرے گا) ’’اور قیام اس مذہب کا اس طرح پر ہوسکتا ہے کہ جو کچھ محبّان صادق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں مصائب اور شدائد اٹھاتے رہے ہیں یا آئندہ اٹھا سکیں گے جن جن مصائب کا نازل ہونا عقل تجویز کر سکتی ہے وہ سب کچھ اٹھانے کے لئے دلی صدق سے حاضر ہو۔ ‘‘ (یہ صورت کس طرح پیدا ہو گی کہ جو کچھ مصیبتیں پہلے اٹھائی جا سکتی ہیں یا کوئی عقل تجویز کر سکتی ہے کہ یہ مشکلیں پیدا ہو سکتی ہیں دلی سچائی کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں وہ مشکلات اور مصیبتیں اٹھانے کے لئے تیار ہو جائے۔ فرمایا) ’’اور کوئی ایسی مصیبت عقل یا قوت واہمہ پیش نہ کر سکے کہ جس کے اٹھانے سے دل رک جائے۔ اور کوئی ایسا حکم عقل پیش نہ کر سکے کہ جس کی اطاعت سے دل میں کچھ روک یا انقباض پیدا ہو۔ اور کوئی ایسا مخلوق دل میں جگہ نہ رکھتا ہو جو اس جنس کی محبت میں حصہ دار ہو۔ اور جب یہ مذہب قائم ہو گیا۔ ‘‘ (اس طرح ایمان ترقی کر گیا) ’’تو درود شریف جیسا کہ مَیں نے زبانی بھی سمجھایا ہے‘‘(آپؑ اس مرید کو لکھ رہے ہیں ) ’’اس غرض سے پڑھنا چاہئے کہ تا خداوند کریم اپنی کامل برکات اپنے نبی کریم پر نازل کرے اور اس کو تمام عالم کے لئے سرچشمہ برکتوں کا بناوے اور اس کی بزرگی اور اس کی شان و شوکت اِس عالَم اور اُس عالم میں ظاہر کرے۔ یہ دعا حضور تام سے ہونی چاہئے۔ ‘‘(بڑے دل کی گہرائی سے ہونی چاہئے، توجہ سے ہونی چاہئے) ’’جیسے کوئی اپنی مصیبت کے وقت حضور تام سے دعا کرتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ تضرّع اور التجا کی جائے اور کچھ اپنا حصہ نہیں رکھنا چاہئے کہ اس سے مجھ کو یہ ثواب ہو گا یا یہ درجہ ملے گا۔ ‘‘(اس سوچ میں نہیں درود بھیجنا، نہ دعا کرنی ہے کہ مجھے کوئی ثواب ہو گا یا درجہ ملے گا) ’’بلکہ خالص یہی مقصود چاہئے کہ برکات کاملہ الٰہیہ حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوں اور اس کا جلال دنیا اور آخرت میں چمکے اور اسی مطلب پر انعقاد ہمّت چاہئے اور دن رات دوام توجہ چاہئے۔ یہاں تک کہ کوئی مراد اپنی دل میں اس سے زیادہ نہ ہو۔ ‘‘(مستقل مزاجی سے کام کریں۔ ) ’’پس جب اس طور یہ درود شریف پڑھا گیا تو وہ رسم اور عادت سے باہر ہے اور بلا شبہ اس کے عجیب انوار صادر ہوں گے۔ اور حضور تام کی ایک یہ بھی نشانی ہے کہ اکثر اوقات گریہ و بکا ساتھ شامل ہو اور یہاں تک یہ توجہ رگ اور ریشے میں تاثیر کرے کہ خواب اور بیداری یکساں ہو جاوے۔ ‘‘
(مکتوبات احمد جلد اول صفحہ 522-523مکتوب بنام میر عباس علی شاہ مکتوب نمبر10شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)
پھردعاؤں اور درود کے لئے کوشش کے بارے میں اپنے ایک مرید کو ایک خط میں آپ فرماتے ہیں کہ ’’نماز تہجد اور اور اد معمولی میں آپ مشغول رہیں۔ تہجد میں بہت سے برکات ہیں۔ بیکاری کچھ چیز نہیں۔ بیکار اور آرام پسند کچھ وزن نہیں رکھتا۔ ‘‘پھر فرمایا
’’وَقَالَ اللّٰہ تعالیٰ، وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا(العنکبوت: 70)‘‘
(کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ جو میرے رستے میں جہاد کرے گا اس کو ہم اپنے رستوں کی ہدایت دیں گے۔ فرمایا کہ)’’درود شریف وہی بہتر ہے کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلا ہے اور وہ یہ ہے
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارکْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ ‘‘
فرمایا: ’’جو الفاظ ایک پرہیز گار کے منہ سے نکلتے ہیں ان میں ضرور کسی قدر برکت ہوتی ہے۔ پس خیال کر لینا چاہئے کہ جو پرہیزگاروں کا سردار اور نبیوں کا سپہ سالار ہے۔ اس کے منہ سے جو لفظ نکلے ہیں ‘‘ (یعنی یہ درود شریف کے الفاظ جو ابھی پڑھے گئے ہیں ) ’’وہ کس قدر متبرّک ہوں گے۔ غرض سب اقسام درود شریف سے یہی درود شریف زیادہ مبارک ہے۔ یہی اس عاجز کا وِرد ہے۔ ‘‘(یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہی اس عاجز کا ورد ہے) ’’اور کسی تعداد کی پابندی ضروری نہیں۔ اخلاص اور محبت اور حضور اور تضرع سے پڑھنا چاہئے اور اس وقت تک ضرور پڑھتے رہیں کہ جب تک ایک حالت رقّت اور بے خودی اور تاثر کی پیدا ہو جائے اور سینے میں انشراح اور ذوق پایا جاوے۔ ‘‘(مکتوبات احمد جلد اول صفحہ526مکتوب بنام میر عباس علی شاہ مکتوب نمبر13شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)
اللہ تعالیٰ یہ روح ہم سب میں پیدا کرے۔ ہمارے دل سے ایسا درودنکلے جو عرش پر پہنچے اور ہمیں بھی اس سے سیراب کرے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو درود پڑھتے ہیں اور بڑے درد سے پڑھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں اس کے فیض کے نظارے بھی دکھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ اس طرح درود پڑھنے والوں کی جماعت میں تعداد بڑھتی چلی جائے جس کا فائدہ جماعتی طور پر بھی ہو گا، جماعتی ترقی میں بھی ہو گا۔ حضرت مصلح موعودؓ کا ایک درود کا انداز مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ گو ہم میں سے بعض اس کے قریب قریب پڑھتے ہیں لیکن یہ ایسا انداز ہے جو مَیں آپ کے سامنے بھی رکھنا چاہتا ہوں جس سے درود کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ذاتی محبّت میں ایک نئے رنگ میں اضافہ ہوتا ہے اور جماعتی ترقی کے لئے بھی دعا کا ادراک پیدا ہوتا ہے۔
آپ نے ایک جگہ فرمایاکہ’’جب ہم دوسرے کے لئے دعا کرتے ہیں تو یہ دعا ایک رنگ میں ہمارے لئے بھی بلندیٔ درجات کا موجب بنتی ہے چنانچہ ہم جب درود پڑھتے ہیں تو اس کے نتیجے میں جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درجات بلند ہوتے ہیں وہاں ہمارے درجات میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور اُن کو انعام مل کر پھر اُن کے واسطے سے ہم تک پہنچتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے چھلنی میں کوئی چیز ڈالو تو وہ اس میں سے نکل کر نیچے جو کپڑا پڑا ہو اس میں بھی آ گرتی ہے۔ اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے اس اُمّت کے لئے بطور چھلنی بنایا ہے۔ پہلے خدا اُن کو اپنی برکات سے حصہ دیتا ہے اور پھر وہ برکات ان کے توسّط اور ان کے طفیل سے ہمیں ملتی ہیں۔ جب ہم درود پڑھتے ہیں اور خدا تعالیٰ اس کے بدلے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مدارج کو بلند فرماتا ہے تو لازماً خدا تعالیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی بتاتا ہے کہ یہ تحفہ فلاں مومن کی طرف سے آیا ہے۔ ‘‘ (یہ درود کا تحفہ جو دل سے پڑھا گیا ہے یہ فلاں مومن کی طرف سے آیا ہے) ’’اس پر ان کے دل میں (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں ) ہمارے متعلق دعا کی تحریک پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کی دعا کی وجہ سے ہمیں اپنی برکات سے حصہ دیتا ہے۔ ‘‘
فرمایا کہ ’’مَیں اپنے متعلق بتاتا ہوں کہ جب بھی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قبر پر دعا کرنے کے لئے آتا ہوں مَیں نے یہ طریق رکھا ہوا ہے کہ پہلے مَیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دعا کیا کرتا ہوں۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے دعا کرتا ہوں۔ اور دعا یہ کرتا ہوں کہ یااللہ! میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جو مَیں اپنے ان بزرگوں کی خدمت میں تحفے کے طور پر پیش کر سکوں۔ میرے پاس جو چیزیں ہیں وہ انہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتیں۔ البتہ تیرے پاس سب کچھ ہے اس لئے میں تجھ سے دعا اور التجا کرتا ہوں کہ تُو مجھ پر احسان فرما کر میری طرف سے انہیں جنت میں کوئی ایسا تحفہ عطا فرما جو اس سے پہلے انہیں جنت میں نہ ملا ہو۔ تو وہ ضرور پوچھتے ہیں کہ یا اللہ یہ تحفہ کس کی طرف سے آیا۔ ‘‘(جب اللہ تعالیٰ تحفہ دے گا تو وہ ضرور پوچھیں گے کہ یہ تحفہ کس کی طرف سے آیا) ’’اور جب خدا انہیں یہ بتاتا ہے کہ کس کی طرف سے آیا تو اس کے لئے دعا کرتے ہیں اور اس طرح دعا کرنے والے کے مدارج بھی بلند ہوتے ہیں اور یہ بات قرآن اور احادیث سے ثابت ہے۔ اسلام کا مسلّمہ اصل ہے اور کوئی شخص اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ دعائیں مرنے والے کو ضرور فائدہ پہنچاتی ہیں۔ قرآن کریم نے بھی
فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَآ (النساء: 87)
کہہ کر اس طرف توجہ دلائی ہے کہ جب تمہیں کوئی شخص تحفہ پیش کرے تو تم اس سے بہتر تحفہ اسے دو۔ ورنہ کم از کم اتنا تحفہ تو ضرور دو جتنا اس نے دیا۔ قرآن کریم کی اس آیت کے مطابق جب ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے دعا کریں گے اور ان پر درود اور سلام بھیجیں گے تو خدا تعالیٰ ہماری طرف سے اس دعا کے نتیجے میں انہیں کوئی تحفہ پیش کر دے گا۔ ہم نہیں جانتے کہ جنّت میں کیا کیا نعمتیں ہیں مگر اللہ تعالیٰ تو ان نعمتوں کو خوب جانتا ہے اس لئے جب ہم دعا کریں گے کہ الٰہی! تُو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی ایسا تحفہ دے جو اس سے پہلے انہیں نہ ملا ہو تو یہ لازمی بات ہے کہ جب وہ تحفہ انہیں دیا جاتا ہو گا تو ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بھی بتایا جاتا ہو گا کہ یہ فلاں شخص کی طرف سے تحفہ ہے۔ پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ اس علم کے بعد وہ چُپ کر کے بیٹھے رہیں اور تحفہ بھجوانے والے کے لئے دعا نہ کریں۔ ایسے موقع پر بے اختیار ان کی روح اللہ تعالیٰ کے آستانے پر گر جائے گی اور اور کہے گی کہ اے خدا! اب تو ہماری طرف سے اس کو بہتر جزا عطا فرما۔ اس طرح
فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَآ۔
کے مطابق وہ دعا پھر درود بھیجنے والے کی طرف لوٹ آئے گی اور اس کے درجہ کی بلندی کا باعث ہو گی۔ پس یہ ذریعہ ہے جس سے بغیر اس کے کہ کوئی مشرکانہ حرکت ہو ہم خود بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور قوم بھی فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ گویا قومی اور فردی دونوں فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ ‘‘
(مزار حضرت مسیح موعودؑ پر دعا اور اس کی حکمت، انوار العلوم جلد 17صفحہ190تا 192)
اس طرح درود پڑھنے اور جواب دینے سے۔ پس یہ طریق ایسا ہے اور جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اس سے جماعتی ترقی کے بھی راستے کھلتے ہیں اور جب جماعت ترقی کرے گی۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے والوں کی تعداد بڑھے گی تو مخالفین کی تعداد بھی گھٹتی چلی جائے گی۔
اس کے علاوہ ایک اَور بات بھی کہنا چاہتا ہوں۔ بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ
اور
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ
علیحدہ علیحدہ کیوں ہیں ؟ تو اس بارے میں لغت میں اس طرح وضاحت ہے کہ لغوی اعتبار سے اَلصَّلوٰۃ کا مطلب اَلتَّعْظِیْم بھی ہے۔ اس بناء پر
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ
کی دعا کے یہ معنی ہوں گے کہ اے اللہ! تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دنیا میں تو ان کا ذکر بلند کر کے اور ان کے پیغام کو کامیابی اور غلبہ عطا فرما کر اور ان کی شریعت کے لئے بقا اور دوام مقدر کر کے عظمت عطا فرما جبکہ آخرت میں ان کی امّت کے حق میں شفاعت کو قبول فرماکے اور ان کے اجر و ثواب کو کئی گنا بڑھا کر دینے کے ذریعہ سے انہیں عظمت سے ہمکنار فرما۔
اس کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات میں بھی بعض فقروں میں ان کا تفصیلی ذکر اس طرح آ چکا ہے لیکن لغت کے معنی سے نہیں۔ پھر آگے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف کے متعلق حدیث میں
بَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ اٰل مُحَمَّدٍ
کے الفاظ آئے ہیں۔ (صحیح البخاری کتاب تفسیر القرآن باب قولہ ان تبدوا شیئًا او تخفوہ… حدیث نمبر4797)
اس کے معنی یہ ہیں کہ اے اللہ! تو نے جو بھی عزت و عظمت اور عظیم شان اور بزرگی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مقدر فرمائی ہوئی ہے اس کو ان کے لئے قائم فرما دے اور اس کو ہمیشگی اور دوام بخش۔ ہمیشہ قائم رہنے والی ہو۔
پس خلاصہ یہ ہے کہ
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ
میں آپ کی شریعت کے غلبے اور ہمیشہ قائم رہنے اور امت کے حق میں آپ کی شفاعت سے فیض پانے کی دعا ہے اور
اَللّٰھُمَّ بَارکْ
میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و عظمت اور شان اور بزرگی کے ہمیشہ قائم رہنے کے لئے دعا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی رنگ میں درود پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس درود کی وجہ سے ہم جہاں خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والے ہوں وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں ہمیشہ ترقی کرتے چلے جانے والے بھی ہوں اور آپ کی شریعت کے پھیلانے کے کام میں اپنی صلاحیّتوں کو صَرف کرنے والے ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے مطابق دنیا سے فتنہ و فساد کو ختم کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ16؍جنوری2015ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 6؍فروری2015ءصفحہ5تا9)
٭…٭…٭