دورِ جاہلیت اور اسلام میں تنازعات کے حل کا تقابلی جائزہ
اسلامی جنگوں اور ان کے اسباب پر اتنا کچھ لکھا گیا کہ بظاہر مزید کچھ لکھنے کی گنجائش بھی نہیں۔ مگر ایک پہلو ایسا ہے جو کچھ تحقیق کا تقاضا کرتا ہے۔ اور وہ ہے قبل از اسلام عرب میں تنازعات، مصالحت کی طرز اور مصالحت میں ناکامی کی صورت میں تنازعات کا حل۔
کسی بھی تنازع میں دو یا دو سے زیادہ فریقین کا ہونا ضروری ہے۔ سو تنازعات کی طرف آنے سےقبل یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ قبل اسلام عرب معاشرے میں فریق کس بنیاد پر قائم ہوتے تھے۔
چونکہ عرب میں کوئی ایک مرکزی سیاسی حکومت تو تھی نہیں، لہٰذا تمام مسائل قبائلی وابستگی کے گرد گھومتے تھے۔ یہ قبائلی وابستگی یا عصبیت بالعموم تین سطحوں پر معرضِ وجود میں آتی۔ کچھ رشتہ دار گھرانوں کے ملنے سے حیّکی شکل بنتی (جسے انگریزی کا لفظ community زیادہ بہتر بیان کرتا ہے)، پھر ان گھرانوں کے ملاپ سے قوم(clan) اور پھر ان قوموں کے ملاپ سے قبیلہ (tribe) وجود میں آتا۔ یعنی ایک گھرانہ، پھرپہلی پیڑھی کے رشتہ دار گھرانے، پھر آگے ان کی رشتہ داریوں یا تیسری چوتھی پیڑھی کہہ لیں، پر مبنی گھرانے۔ یہی وجہ ہے کہ قبائل کے نام کنیت کی طرز پر ہوتے یعنی ایک معروف آدمی کی اولاد اور اولاد در اولاد اور پھر ان کی باہمی رشتہ داریوں سے جنم لینے والے نئے clansجو باہم یکجا ہوتے ہوتے قبیلہ کی شکل اختیار کرلیتے۔
( تفصیل کے لیے Philip Hitti کی کتاب History of the Arabs صفحہ 132)
چونکہ نہ کوئی مرکزی حکومت تھی، نہ ریاست لہٰذا اس معاشرے میں کوئی قانون یاآئین بھی نہیں تھا۔ ہر قبیلہ کا سربراہ، جو سید یا شیخ کہلاتاتھا، وقت کی مناسبت سے احکامات جاری کرتا۔ مگر چونکہ ہر قبیلہ کا سردار اپنے قبیلے کے لیے احکامات جاری کرتا، دوسرے قبائل اس دستور یا ضابطے کے پابند نہ ہوتے۔ یوں کسی تنازعہ کی صورت میں کوئی ایسا متفق علیہ دستور عمل نہ ہوتا جس کی متابعت فریقین پر لازم ہوتی۔ یوں تنازعہ کو حل کرنے کی کوئی بھی ٹھوس صورت نہ ہوتی اور قبائل سالہاسال ایک ہی تنازعہ پر جنگ وجدل میں مشغول رہتے۔
یوں قبائل کے سردار حکمرانی سے زیادہ مصالحتی معاملات میں اپنے اختیار کا استعمال کرتے۔
(تفصیل کے لیے Bernard Lewis کی کتاب The Arabs in History صفحہ 24)
پس لق و دق صحرائے عرب میں ضابطوں یا حدود و قیود سے نا آشنا یہ قبائل تنازعات میں الجھے رہتے اور وہ زندگی بسر کرتے جو انہیں انسانیت سے دور اور حیوانی طرزِ معاشرت کے قریب تر کیے رکھتی۔
تنازعات کی بنیادی وجوہ
قبل اسلام کے عرب معاشرے پر زیادہ تر مواد اسلامی تاریخ و سیرت ہی کی کتب سے اخذ کیا جاتا ہے۔ اس سبب سے مغربی یا غیر مسلم محققین کو ان حقائق کو تسلیم کرنے میں انقباض رہا ہے۔ اس مضمون میں کوشش کی جائے گی کہ یہاں وہ حقائق پیش کیے جائیں جو مغربی محققین نے بھی تسلیم کیے ہیں۔ ایسے حقائق کے دو مأخذ ہوں گے۔ ایک تو مستند مسلم مورخین مثلاًعلامہ ابن اسحاق اور علامہ ابن ہشام اور دوسرےقبل اسلام کے ذرائع جو متفقہ طور پر قبل اسلام کے زمانہ میں تحریر کیے گئے، مثلاً معلقات اور دیگر شعری مجموعے جو المفضل الضبی جیسے ماہرین نے مجتمع کیے۔
یہاں سے آگے اس دور کے لیے ’جاہلیت‘ کی اصطلاح استعمال کی جائے گی جو مسلمانوں اور غیر مسلمانوں میں متفقہ طور پر مستعمل ہے۔
دورِ جاہلیت کے شعری مجموعوں سے تنازعات کی تین بڑی شکلیں سامنے آتی ہیں :
1۔ عصبیت
2۔ قلتِ وسائل
3۔ عصبی تفاخر
منٹگمری واٹ(Montgomery Watt)اپنی کتاب Muhammad at Mecca میں اپنا تجزیہ پیش کرتے ہیں کہ دورِ جاہلیت کا عرب معاشرہ کسی بھی حکومت یا آئین کا تابع نہیں تھا، لہٰذاآئے دن تنازعات کا اٹھنا ایک معمول کی بات تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ہر قبیلہ کو اپنی عسکری طاقت کو مضبوط رکھنا پڑتا تھا کہ یہی کسی بھی تنازعہ میں ان کی فتح کی ضامن ہو سکتی تھی۔ یہی عسکری طاقت کسی قبیلہ کو معزز بھی بناتی۔ کوئی قبیلہ کسی دوسرے قبیلے سے الجھنے سے پہلے اس بات کا اندازہ کر لیتا کہ دوسرے کیمپ میں اپنے دفاع اورنقصان پہنچانے کی صلاحیت کس سطح کی ہے۔
اس عسکری طاقت سے جہاں قبیلہ کو بحیثیت مجموعی فائدہ پہنچتا، وہاں فرد بھی احساسِ تحفظ کے باعث قبیلہ سے وابستگی رکھنے میں فخر محسوس کرتا۔
اس عصبیت کے باعث معاشرے میں فرد کی حیثیت قریب معدوم کے ہوتی اور اس کی شناخت کا اصل منبع اس کا قبیلہ ٹھہرتا۔
(تفصیل کے لیے Peter Mansfield کی کتاب The Arabs صفحہ 15)
قبیلے کے کسی بھی مفاد کے حصول کی مہم میں کسی فرد کا انقباض اس کی وفاداری پر سوال اٹھاتا اور اس کے خلاف قبیلے کے اندر ہی محاذ کھل جاتا۔ لہٰذا ہر فرد کا ہر مہم میں حصہ لینا لازم ٹھہرتا۔ دورِ جاہلیہ کے مشہور شاعر درید بن الصمہ کا شعر اس صورت حال کا عکاس ہے:
وَمَا اَنَا اِلَّا مِنْ غَزِیَّۃَ اِنْ غَوَتْ
غَوَیْتُ وَاِنْ تَرْشُدْ غَزِیَّۃُ اَرْشُدِ
(مندرج فی ’’الحماسہ‘‘، یہاں بحوالہ Reynold Nicholsonکی کتاب A Literary History of the Arabs)
یعنی میں تو غزیہ کے ساتھ ہوں۔ اگر وہ راہ راست پر ہے تو میں بھی راہ راست پر، اگر وہ گمراہ تومیں بھی گمراہ۔
لہٰذا فرد یا فرد کی اپنی رائے بے وقعت تھی۔ کسی بھی تنازعہ میں تمام ہم قبیل متحد ہوتے، بغیر یہ سوچے کہ ان کا قبیلہ حق پر ہے یا نہیں۔ یہ قبیلہ کے ’’شرف ‘‘ کا معاملہ ہوتا اور قبیلے کا شرف کسی بھی دوسرے جذبے پر حاوی ہوتا۔
یعنی کسی تنازعہ میں جان سے جانے والے کے عزیز ہی نہیں بلکہ قبیلہ کے تمام افراد اس خون کا بدلہ لینا اپنا فرض سمجھتے یا سمجھنے پر مجبور ہوتے۔
اور بات صرف انسانوں کے قتل یا زخمی ہونے تک محدود نہ تھی۔ جانوروں کے آزادانہ کسی کی زمین میں جا نکلنے پر بھی جنگیں چھڑ جاتیں اور برسوں بلکہ دہائیوں تک جاری رہتیں۔ دورِ جاہلیہ میں جنگِ بسوس کا سبب یہ بنا کہ بسوس نامی ایک عورت(جس کا تعلق قبیلہ بنوبکر سے تھا) کی اونٹنی کلیب بن وائل کی چرا گاہ میں چلی گئی اور پرندوں کے انڈے توڑ دیے۔ کلیب نے طیش میں آکر اونٹنی کے تھن میں تیر ماردیا۔ انتقام میں قبیلہ بنوبکر نے کلیب کو قتل کردیا۔ کلیب کے قبیلہ بنو تغلب نے جوابی کارروائی کی اور یوں دونوں قبائل میں یہ جنگ چالیس سال تک چلتی رہی۔
اوس اور خزرج نامی قبائل کے درمیان جنگ بعاث 120سال تک جاری رہی جو پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی مصالحت سے ختم ہوئی۔
(تفصیل کے لیے ابو عبیدہ بن المثنیٰ کی کتاب ’’ایام العرب‘‘ نیز ’’تاریخ طبری‘‘؛ ’’طبقات ابن سعد‘‘)
ابن اسحاق اور طبری کی تواریخ میں حجرِ اسود کی تنصیب کے قضیہ کا ذکر بھی محفوظ ہے۔ یہ تنازعہ تو کسی بیرونی قبیلے سے نہیں بلکہ قریش ہی کے خاندانوں کے درمیان کھڑا ہوگیا کہ سیلاب کے باعث اپنی جگہ سے ہٹ جانے والا حجرِ اسود واپس اس کی جگہ پر کون نصب کرے گا؟ ابن ہشام نے لکھا ہے کہ یہ قضیہ چار پانچ دن تک چلتا رہا تاوقتیکہ آنحضورﷺ (بعثت سے قبل)نے سب کے لیے ایک قابلِ قبول حل تجویز فرمادیا۔
پس عرب قبائل میں عصبیت (یہاں ethnocentrismکے معنی میں ) تحفظ، شرف اور تفاخر کا باعث ہوتی۔یہ جذبہ رشتوں اور مذہبی وابستگی پر بھی غالب ہوتا۔ یہی جذبہ باہمی تنازعات میں بھی سب سے بڑے محرک کا کام کرتا۔
قلتِ وسائل
آنحضورﷺ کی بعثت کے وقت مکہ ایک تجارتی مرکز کی حیثیت اختیار کرچکا تھا۔ طائف بھی مکہ ہی کی درآمدات مثلاً غذائی اجناس اور شراب کی منڈی تھا۔ یثرب کی اقتصاد کا انحصار زراعت پر تھا۔
(تفصیل کے لیے Maxine Rodinsonکی کتاب Muhammad صفحہ 35)
ان تین علاقوں کے مخیر قبائل کے مخیر حضرات مال کو پس انداز کرکے رکھتے کہ یہی ان کی ذات اور ان کے قبیلے کے لیے تفاخر، تحفظ اورعلاقے میں سیاسی بالادستی کا ضامن تھا۔
باقی جزیرہ نما عرب صرف بدّو قبائل پر مشتمل تھا جو اپنے ریورڑ چراتے اور لوٹ کھسوٹ پر گزر کرتے۔ لق و دق صحرا میں نخلستان پر قبضہ وسائل کی قلت کو دور کرنے کا واحد ذریعہ ہوتا اور یوں نخلستانوں پر قبضہ بین القبائل تنازعات کا سب سے بڑا محرک بنا رہتا۔ قبضہ حاصل کرلینے والے قبیلے کو دیگر چھوٹے قبائل کے لیے مسبب الاسباب بن جانے کےباعث بالادستی حاصل ہوجاتی۔ کم طاقتور قبائل غالب قبیلہ میں بطور غلام ضم ہو جاتے یا اپنی سلامتی کے لیے ٹیکس ادا کرتے یا پھر ہجرت کر کے کسی اور مقام پر وسائل کے حصول کے لیے نکل کھڑے ہوتے اور یوں تنازعات میں زندگی بسر ہوتی رہتی۔
(تفصیل کے لیے Fred M Donnerکی کتاب The Early Islamic Conquests اور Maxime Rodinson کی کتاب The Arabsدونوں مورخین جواد علی کی کتاب ’’الفصل فی تاریخ العرب قبل اسلام‘‘کا حوالہ دیتے ہیں )
پس زندگی کی بقا کے وسائل کی قلت، اور پھر بتدریج ان وسائل کی کثرت، دنیوی آرام و آسائش کی تمنا جنگ و جدال کا ایک اہم محرک بنے رہتے۔
عصبی تفاخر اور عدم اخلاقیات
مغربی محققین بھی اس حقیقت پر متفق ہیں کہ اقتصاد اور قبائلی سیاسیات کے علاوہ تنازعات کی ایک بڑی وجہ اخلاقی انحطاط بھی تھا۔
(تفصیل کے لیے Ira M Lapidusکی کتاب A History of Islamic Societies صفحہ 17)
اخلاق کی وہ تعلیم جن کا ماخذ ابراہیمی مذاہب ہی رہے تھے موجود تو تھی مگر ایک ایسی شکل میں جو معاشرہ کے لیے فائدہ سے زیادہ نقصان کا باعث ہو چکی تھی۔ مثلاً اکرامِ ضیف، عفو، عزت، شرف، شجاعت سبھی کچھ تھا مگر اپنے ہم قبیلہ لوگوں کے لیے۔ دوسرا قبیلہ حالتِ امن میں بھی دشمن اور حریف کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ مثلاً شجاعت سے مراد حق بات کے فروغ کے لیے ڈٹ جانے کی بجائے اپنے قبیلہ کے سیاہ و سفید مقاصد کے لیے ڈٹ جانا اور لڑمرنا رہ گئی تھی۔ شرف سے مراد اپنے قبیلے کے بارے میں کوئی بات سننا بھی برداشت نہ کرنا اور تلوار سونت لینا بن کر رہ گئی تھی۔
یہ اخلاقی انحطاط ہی ہے کہ قبل اسلام کا دور مسلم اور غیر مسلم مورخین میں متفقہ طور پر ’’جاہلیہ‘‘ کی اصطلاح سے موسوم ہے۔
(تفصیل کے لیے Karen Armstrongکی کتاب Muhammad: A Prophet of Our Time)
دورِ جاہلیت کی نمایاں خصوصیات کو حضرت جعفر طیارؓ کے اس خطاب سے سمجھا جاسکتا ہے جو انہوں نے نجاشی کے سامنے اپنے مذہب کے تعارف کے طور پر ارشاد فرمایا:
’’اے بادشاہ! ہم جاہل لوگ تھے، بتوں کی عبادت کرتے تھے، مردار کھاتے تھے، مکروہ افعال کے مرتکب ہوتے تھے، اقربا سے بد لحاظ تھے، پڑوسیوں کے تکلیف کا سامان کرتے تھے اور ہم میں سے جو طاقتور ہوتے، وہ کمزور کے حقوق غصب کر لیا کرتے…‘‘
(تفصیل کے لیے ’’السیرۃ النبویہ‘‘ از ابن ہشام)
ہجرتِ حبشہ میں مضمر ایک پیغام
یہ وہ معاشرہ تھا جو صبح وشام مختلف وجوہات کی بنا پر تنازعات کے چنگل میں پھنسا رہتا۔ مذہب نام کی چیز تو باقی رہ نہیں گئی تھی۔ جتنے قبائل تھے، اس سے کئی گنا زیادہ خدا تھے۔ جتنے خدا تھے، اتنی شریعتیں تھیں جو سب ان خداؤں کے قبائل کے حق میں احکام لیے ہوئے تھیں۔ یعنی اگر مذہب تھا بھی تو قبیلہ کی عصبیت اور تفاخر کے تابع جو اپنے ہی قبیلے کی قلتِ وسائل کو دور کرنے کے لیے حلال و حرام سب جائز قرار دیتا تھا۔ یوں اخلاقیات، جو مذہب کی سب سے بنیادی اکائی ہے، انحطاط کا شکار ہو کر معدوم ہو چکی تھی۔
ایسے میں آنحضورﷺ نے جب اپنے پیروؤں کو حبشہ ہجرت کرجانے کا حکم دیا تو فرمایا:
’’تمہیں حبشہ ہجرت کرجانا چاہیے جہاں ایک انصاف پسند بادشاہ حکمران ہے۔ جہاں حق گوئی اور نیکی کا دوردورہ ہے۔ وہاں تب تک رہو جب تک یہاں تمہارے حالات تبدیل نہیں ہو جاتے۔ ‘‘
(تفصیل کے لیے ’’السیرۃ النبویہ‘‘ از ابن ہشام)
آنحضورﷺ کے اس فرمان میں جو امور سامنے آتے ہیں ان میں چار سب سے نمایاں ہیں :
1۔ نیکی و راست بازی
2۔ انصاف
3۔ ریاست کا فرماں روا
4۔ فرماں روا کی مذہبی وابستگی
اور ’’جب تک یہاں حالات اچھے نہیں ہوجاتے‘‘ میں اشارہ یہ ہے کہ عرب معاشرہ ان چاروں خصوصیات سے عاری تھا۔ اور یہ بھی کہ آنحضورﷺ کے نزدیک ایک مہذب انسانی معاشرے کا تصور کم از کم ان چارخصوصیات پر مشتمل تھا۔ یوں یہ معاشرہ مذہبی شعور اور الہیات سے اتنا ہی دور ہو چکا تھا جتنا تخلیق آدمؑ کے وقت شیطان کا احوال قرآن کریم نے بیان فرمایاہے۔ یعنی حرص، حسد اور استکبار نے کل معاشرے کو لپیٹ میں لے لیا ہوا تھا۔
دورِ جاہلیت میں تنازعات کا حل
تاریخی طور پر تنازعات کا حل بالعموم تین طور پر کیا جاتا رہاہے: جبر سے، حقوق کی بنیاد پر یا ضروریات کو سمجھتے ہوئے افہام و تفہیم پر۔ پہلے دو اطوار تصادم اور ہار جیت کے رنگ میں ختم (یا حل) ہوتے ہیں۔ کسی بھی تنازعہ میں جہاں بات تنازعہ کی آجائے، وہاں حل تشدد یا سفارتی گفت و شنید سے نکل سکتا ہے۔ تاہم یہ حل اکثر اوقات ’’حل‘‘ ہونے کی بجائے ’’جبری تصفیہ‘‘پر منتج ہوتے ہیں۔
(تفصیل کے لیے J W Burton اور D J Sandole کا مضمون Generic Theory: The Basis of Conflict Resolution مطبوعہ Negotiation Journal, Vol 2, Issue 4, 1986)
دَورِ جاہلیت میں حقوق، فرائض اور تنازعات کا حل ہر قبیلہ کے اپنے اصولوں پر ہوتا۔ یہ کوئی باضابطہ آئین نہ ہوتا بلکہ قبیلہ کی روایات یا قبیلہ کے سربراہ کی مرضی پر موقوف ہوتا۔
(تفصیل کے لیے محمد حمیداللہ کا مضمون Administration of Justice in Early Islam مطبوعہ مجلہ Islamic Culture شمارہ 11، 1937ء)
دورِ جاہلیت کے ایک شاعر نے لکھا:
’’جو تمہاری اہانت کرے، اس کی تم بھی اہانت کرو، خواہ وہ تمہارا ہم قبیل ہی کیوں نہ ہو
اگر اس کی تذلیل نہ کرسکو، تو انتظار کرو کہ وہ تمہاری گرفت میں آجائے
پہلے اسے دوست رکھو، پھر جب گرفت میں آجائے تو اس پر حملہ کردو۔ ‘‘
(مندرج فی ’’الحماسہ‘‘، یہاں بحوالہ Reynold Nicholsonکی کتاب A Literary History of the Arabs صفحہ 93)
قصاص اور دیت، جو بغیر کسی ضابطے اور قانون کے عمل میں لائی جاتیں، معاشرے میں خون کی ہولی کا سا سماں بنائے رکھتیں۔ کیونکہ قصاص اور دیت پر انتقام کی آگ ٹھنڈی ہونے کی بجائے مزید بھڑکتی چلی جاتی اور تنازعہ حل ہونے کی بجائے بگڑی ہوئی شکل اختیار کر لیتا۔
(تفصیل کے لیے Montgomery Wattکی کتابMuhammad at Mecca ؛ نیز محمد اجمل خان کا مضمون Jahiliyyah: A Description of the State and Model of LivingمطبوعہStudies in Islam, Vol 4, Issue 4, 1966)
دورِ جاہلیت میں تنازعات کا حل مذکورہ بالا تین طریقوں میں سے پہلے دو طریق پر ہوتا، یعنی طاقت اور حقوق کی بنیاد پرجنگ سے۔ عصبیت چونکہ سب سے مضبوط اور بنیادی محرک ہوتی، لہٰذا ایک قبیلہ دوسرے قبیلے کو جبر کے ذریعہ سے شکست سے دوچار کرنے کی کوشش کرتا۔ یہاں عسکری طاقت کام آتی اور کمزور قبیلہ بالعموم شکست کھا کر ہی رہتا۔
معافی بھی تنازعات کے حل کے لیے ایک اہم کردار ادا کرتی رہی ہے مگر جاہلیت کے زمانہ میں معافی بھی بطور نیکی کے نہ ہوتی بلکہ ہرجانہ (جو بصورت دیت بھی ہو تا) وصول کر کے ہی دوسرے فریق کو ’’معاف‘‘ کیاجاتا۔ مگر مغلوب قبیلہ کو دیت ادا کرنے میں بھی انقباض ہوتا کہ یہ ان کے نزدیک ظالم کے مفر میں سہولت پیدا کرنے کے برابر تھا۔ معافی مانگ بھی لی جاتی تو چونکہ اس کی بنیاد تقویٰ اور نیکی پر نہ ہوتی، لہٰذا انتقام کی آگ سالوں بھڑکتی رہتی اور کسی اور موقع پر ضرور سر اٹھا کر جنگی سرگرمی کو ازسر ِنو تازہ کردیتی۔
دورِ جاہلیت میں تصفیہ میں رکاوٹ
جیسا کہ بیان ہوچکا ہے، مصالحت کی گنجائش دورِ جاہلیت میں بھی موجود تھی مگر یہ کوشش بالعموم عبث ثابت ہوتی۔ مصالحت کے لیے دونوں فریقین کسی دوسرے قبیلہ کے شیخ یا سید کی مدد طلب کرتے جو خود یا اپنی ’’مجلس‘‘ کے مشورہ سے مصالحت کی کوئی صورت نکالنے کی کوشش کرتا۔
اگر ایک فریق یا دونوں فریقین کو مصالحت کی یہ مجوزہ صورت اپنے لیے مناسب محسوس نہ ہوتی، تو ’’حَکَم‘‘ کے فیصلے کو مسترد کردینے میں کوئی روک نہ ہوتی۔ اپیل کی بھی کوئی صورت نہ ہوتی اور یوں تنازعہ طول پکڑتا چلا جاتا۔
چونکہ توہم پرستی بھی عام تھی، لہٰذا کبھی کسی ’’کاہن‘‘ کو بھی بطور حاکم مقرر کر لیا جاتا، جو اپنی ’’روحانی قوت‘‘ کی بنا پر فیصلہ صادر کرتا۔ بد شگونی کے خوف سےاس کافیصلہ بآسانی مسترد نہ کیا جاسکتا مگر مسترد کردینے میں کوئی امرمانع بھی نہ ہوتا۔
(تفصیل کے لیے محمد حمیداللہ کی کتابAdministration of Justice in Early Islam صفحہ 163 ؛ نیز R S SErjeant کی کتاب Law and Customصفحہ 123)
ظہورِ اسلام اور تنازعات کا حل
تنازعات کے حل کے حوالے سے آنحضورﷺ کا رحجان کیا تھا، یہ آپﷺ کی بعثت سے قبل ہی نظر آجاتا ہے۔ اگرچہ دورِ جاہلیت میں تنازعات کا حل اکثر اوقات جبری اور متشدد طریقوں یعنی جنگ و جدل سے کیا جاتا، مگر جانی اور مالی نقصان سے بچنے کے لیے پر امن ذرائع کے استعمال کا رحجان بھی نظر آتا ہے۔ مثلاً صلح، وساطت اور تحکیم۔ آپؐ کے دادا حضرت عبدالمطلب، آپ کے چچا ابو طالب بن عبدالمطلب اور زبیر ابن عبدالمطلب حَکَم کے طور مصالحت کروانے کے لیے معروف تھے۔
606ء میں آنے والے ایک سیلاب کے دوران حجرِاسود (جو قبلِ اسلام بھی مقدس سمجھا جاتا تھا) اپنی جگہ سے ہٹ گیا تو اسے واپس رکھنا قریش کے قبائل کے لیے ’’شرف‘‘ کا مسئلہ بن گیا۔ ایسے میں آنحضورﷺ نے مصالحت کا طریق اختیار فرمایا جو بغیر جنگ و جدل کے سب قبائل کے لیے قابلِ قبول اور قابلِ عمل ٹھہرا۔
آنحضورﷺکی نوجوانی میں پیش آنے والی بڑی جنگ جس کا آپ نے خود مشاہدہ فرمایا، بھی آپ کے مصالحتی رحجان کا پتہ دیتی ہیں۔
جنگِ فجار قریش، کنانہ اور غیلان نامی قبائل کے درمیان لڑی گئی اور وہ بھی حرمت والے مہینے کے ایام میں۔ چونکہ ایک غیر تحریری باہمی مفادات پر مبنی ایک معاہدہ تھا کہ حرم کے گردونواح میں قبائل جنگیں نہیں لڑیں گے اور نہ ہی حرمت والے مہینوں میں کوئی جنگ لڑی جائے گی، لہٰذا جنگِ فجار کی سخت مذمت کی گئی۔ قریش کے پانچ ذیلی قبیلوں بنو ہاشم، بنو عبدالمطلب، بنو اسد، بنو زہرہ اور بنو تیم نے آپس میں امن معاہدہ کیا جو ’’حلف الفضول‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ آنحضورﷺ، جو اس وقت نوجوان تھے، اس معاہدہ کے طے پانے میں سرگرم رہے۔ اس معاہدہ کا بنیادی رکن یہ تھا کہ ’’کسی بھی قبیلہ کے ساتھ نا انصافی نہ ہو۔ ‘‘
(سیرت النبویہ از ابن ہشام؛ طبقات الکبریٰ از ابن سعد؛ الکامل فی التاریخ از ابن اسیر)
اس مجلس کا پہلا اجلاس تب ہوا جب مکہ کےایک مقامی رہائشی نے مکہ کے باہر سے آنے والے ایک تاجر سے بہت سا سامان خرید لیا مگر اس کی قیمت ادا کرنے سے انکار کردیا۔ تاجر نے مقامی احباب سے فریاد کی۔ اس پر حلف الفضول کا اجلاس بنو تیم کے سردار کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا۔ اس میں طے پایا کہ کوئی تاجر یا قافلہ مکہ کا ہو یا مکہ سے باہر کا، ناانصافی اور حق تلفی کسی کی نہیں ہونی چاہیے۔ نیز انہوں نے مقامی خریدار سے بیرونی تاجر کا حق دلوایا اور یوں یہ مسئلہ پر امن طریق پر حل ہوگیا۔
(سیرت النبویہ از ابن ہشام؛ طبقات الکبریٰ از ابن سعد؛ الکامل فی التاریخ از ابن اسیر)
اس مسئلہ کے پُر امن طریق پر حل ہوجانے سے حلف الفضول کو عرب بھر میں شہرت حاصل ہوئی اور یوں پیغمبر اسلامﷺ کی بعثت سے قبل ہی تنازعات کے پر امن اورمنصفانہ حل کی داغ بیل پڑ گئی۔
آنحضورﷺ کی پرورش قریش کے معزز گھرانے میں ہوئی جس میں آپؐ کے دادا اور پھر آپؐ کے چچا تنازعات میں مصالحت کروانے کے لیے معروف تھے۔ آپؐ نے ابتدائی عمر سے ہی تنازعات میں مصالحتی کوششوں کا مشاہدہ فرمایا۔ جہاں قریش جنگ میں شامل ہوئے، یعنی جنگ فجار میں، وہاں بھی آپؐ نے حلف الفضول جیسی مصالحتی مجلس کا قیام عمل میں آتے دیکھا۔ آپؐ اس میں شامل بھی رہے اورآپؐ کے سیرت نگاروں نے وہ احادیث بھی رقم کی ہیں جہاں آپؐ بعثت کے بعد کے زمانوں میں بھی حلف الفضول کا ذکر تکریم اور عزت سے فرمایا کرتے۔
توحید الہیٰ اور قیامِ امن
چونکہ قبائل کے تنازعات کی جڑ ان کی عصبیت میں مضمر تھی، اور یہ عصبیت مذہبی جذبات سے بھی بالاتر تھی، لہٰذامذہب باہمی معاملات میں لایعنی ہو کر رہ گیا تھا۔ یوں بھی مذہب کی کوئی باضابطہ صورت باقی نہ رہی تھی۔ ہر قبیلہ کے کئی خدا تھے اور چونکہ یہ خدا دوسرے قبیلہ کے خدا نہیں تھے، لہٰذا ان خداؤں کے’’احکامات‘‘ صرف قبیلہ میں شامل لوگوں پر گرفت رکھنے کے لیے استعمال ہوسکتے تھے۔ دوسرے قبائل کے لیے یہ ’’احکامات‘‘نہ تو کوئی معنی رکھتے تھے اور نہ وہ ان کے پابند تھے۔ یوں ان تنازعات کی اصل جڑ کو دیکھا جائے تو تعدد الہ (یعنی polytheism) بنتی ہے۔
ایسے میں ایسے احکامات کی ضرورت تھی جو ایک خدا کی طرف سے ہوں اورسب کے لیے واجب الاطاعت ہوں۔ ایسے احکامات ایک خدا ہی طرف سے آسکتے تھے۔ پس تعدد الہٰ کے اس پر فتن ماحول میں اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو مبعوث فرمایا اور آپ کے ذریعہ سے دنیا تک وہ احکامات پہنچائے جو دیگر بہت سے فوائد کے ساتھ ساتھ تنازعات کا پر امن حل بھی مہیا فرماتے ہیں۔
چونکہ عصبیت بھی کوئی غیر فطری جذبہ نہیں،لہٰذا آنحضورﷺ کے ذریعہ سے آنے والی تعلیم نے ایتاء ذی القربیٰ کو یکسر نظر انداز نہیں کیا، بلکہ اسے پر امن معاشرے کی بنیادی اکائیوں میں شامل کیا۔ البتہ عدل اور احسان کی تعلیمات کےاضافے کے ساتھ عصبیت کا جذبہ قبائل کی حدود سے بڑھا کر انسانیت کے بحرِ بے کنار تک وسیع کردیا گیا۔
ایک بے گناہ کے قتل کو انسانیت کا قتل قرار دیا تو ساتھ قتل کے بدلہ میں قصاص کی اجازت دیتے ہوئے عفو کی تعلیم بھی عطا فرمائی اور اسے احسان کے اعلیٰ درجہ سے منسوب کردیا۔ یوں قبائل میں رائج ’’شرف‘‘ کا فرسودہ اور مضر تصور بھی تبدیل ہو کر احسان کے ساتھ وابستہ ہو گیا۔ یعنی ظلم کے بدلے میں معاف کردینا( اگر اس سے اصلاحِ احوال واقع ہوتی ہو) شرف کی ایک بہتر علامت بن گیا۔
مگر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ قائم رہی کہ ظہورِ اسلام کے بعد سبھی قبائل تو اسلام نہ لے آئے۔ یوں ان کے لیے قرآن کی تعلیمات واجب الاطاعت نہ تھیں۔ لہٰذا ایک ریاست کا قیام عمل میں لانا ضروری ہوا، اور پھر قرآنی احکامات کے مطابق آنحضورﷺ نے ریاست ِمدینہ قائم فرمائی۔
یہاں بھی آنحضورﷺ کا مصالحتی رحجان نظر آتا ہے۔ آپ نے اپنی ابتدائی جماعت کو حبشہ ہجرت کرجانے کا حکم فرمایا تا کہ جنگ و جدل کی فضا نہ بنے اور نقل مکانی کے ذریعہ تنازعہ حل ہوجائے۔ بعدمیں جماعت بڑھی تو بھی آپؐ نے اپنی جماعت کو مدینہ ہجرت کر جانے کا حکم فرمایا اور وہاں خود بھی سکونت اختیار فرمائی۔
یوں توحیدِ باری تعالیٰ کے ساتھ ساتھ سیاسی، معاشرتی اور معاشی وحدت کے ذریعہ سے سرزمینِ عرب کو اس گمراہی سے نکالنے کی کوشش فرمائی جس میں وہ صدیوں سے بھٹکتے اور ایک دوسرے کی گردنیں مارتے چلے آتے تھے۔
ریاست کے قیام کے بعد آپ نے قرآن کریم کی روشنی میں قوانین وضع فرمائے جو عرب کے کثیر القبائل معاشرے میں ہر کسی کے لیے واجب الاطاعت ٹھہرے۔ بالکل ویسے ہی جیسے اس وقت کی رائج ریاستوں اور سلطنتوں میں قانون کی پاسداری سب پر فرض تھی۔
ایسے میں جہاں کسی قبیلہ نے ظلم، ناانصافی، جبر، تشدد اور استبداد کے ذریعہ قانون سے بالا ہونے کی کوشش کی، وہاں اس کی یہ منفی طاقتیں اسی کی طرف لوٹا دی گئیں اور اسی معکوس طاقت کے ذریعہ ان کے ظلم و استبداد کا سدِ باب کر دیا گیا۔
اسلامی جنگوں کی حقیقت تو یہی ہے۔ اگر آج کے دَور میں قاتل کو قتل کی سزا دینا ظلم ہے تو اسلامی جنگوں کو ظلم کہہ لیجیے۔ اگر زانی، چور، اچکے کی آزادی کو سلب کرلینا دورِ جدید کے قانون میں روا اورقانون کی بالادستی ہے، تو اسلامی ریاست میں یہ کارِ خیر ظلم کی تعریف میں کیونکر شامل کردیا جائے؟
اسلامی جنگوں کا پس منظر
اسلامی جنگوں کے پس منظر پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ یہ جنگیں دفاعی تھیں، یہ بھی ٹھوس حقائق کے ساتھ ثابت کیاجا چکاہے۔ ایک بات کا اعادہ یہاں ضروری ہے اور وہ یہ کہ یہ جنگیں بھی تنازعات کے حل کی ایک مثال تھیں۔ چونکہ جبر اور تشدد تنازعات کے حل کے لیے ایک قدیم طریق چلاآتاہے، لہذا یہ نسلِ انسانی کی اجتماعی نفسیات پر نقش ہوچکا ہے۔ جہاں طاقت ور کو کوئی کمزور نظر آیا، اسے تنازعہ کو حل کرنے کے دیگر ذرائع استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ یہ اعتماد ضرور رہا کہ آخری حربہ کے طور پر طاقت اور جبر کا استعمال تو کیا ہی جاسکتا ہے۔ اور یہ حربہ، جو ہابیل اورقابیل کے زمانوں سے رائج ہوا، قبلِ اسلام کے دَور میں بھی رائج رہا، اسلام کے زمانہ میں بھی اسلام کے خلاف قائم رہا اور آج تک دنیا بھر میں رائج ہے۔
یوں اسلامی جنگوں کے ذریعہ سے آنحضورﷺ نے یہ دکھا دیا کہ ظالم کے ظلم کے خلاف اپنا دفاع کرنا کسی بھی طرح ناجائز نہیں۔ تنازعات کو پر امن طریق سے حل کرو۔ مذاکرات کرو۔ افہام و تفہیم کرنے کی کوشش کرو۔ اور اگر ظالم پھر بھی ظلم پر کمربستہ رہے، تو اس کے جبر اور تشدد کو اسی کی طرف پلٹاؤ، اگر اس کی طاقت رکھتے ہو۔
یہ الزام کہ اسلام کو عددی اور عسکری طاقت حاصل ہوجانے کے بعد بانیٔ اسلامﷺ نےتنازعات کے حل کے لیے وہی طریق اپنایا جو دورِ جاہلیت میں اپنایا جاتا تھا، صلح حدیبیہ کی عظیم الشان مصالحت سے پاش پاش ہو جاتا ہے۔ یہ اسلام کے عروج کا زمانہ تھا۔ عسکری طاقت بھی میسر تھی۔ عسکری معرکوں میں فتح کے جھنڈے بھی لہرائے جاچکے تھے۔ مگر امن کے بادشاہﷺ نے صلح جوئی کی ایک بے نظیر داستان رقم فرما دی۔
فتح مکہ کے وقت سب مخالفین اپنی گردنیں آپﷺ کے سامنے ڈال چکے تھے۔ اگرقبائلی طرز پر انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرنا ہوتا، تو اس سے بہتر کوئی موقع نہ تھا۔ فتح مکہ کا دوسرا نام شکستِ کفار بھی تو ہوسکتا ہے۔ مگر یہاں عام معافی کا اعلان فرما کر ثابت فرمایا کہ بد امنی کو بڑھانا چاہو تو تلوار نیام سے نکال لو۔ امن قائم کرنا چاہو، تو بے وجہ تلوار سونت لینا کبھی تنازعات کو حل نہیں کرسکتا۔
جاہلیت کے دَور میں جنگ و جدل کےمعرکے بغیر کسی بھی اصول یا ضابطے کے ہوتے۔ آنحضورﷺ کی تعلیم نے ثابت کیا کہ انسان کو انسان بنانے والی بنیادی خصوصیت قانون، ضابطہ، دستور اور اصول کا قیام اور اس کی پاسداری ہے۔ ورنہ حیوان اور انسان میں کیا فرق رہ گیا۔
پس بانیٔ اسلامﷺ کے دَور میں لڑی جانے والی جنگیں تنازعات کے حل کے لیےایک عملی تربیت کا رنگ لیے ہوئے تھیں۔ اس دَور میں ان جنگوں کے ذریعہ دنیا پر یہ کھلا کہ جنگ کا مطلب یہ نہیں کہ انسان کا خون کرنے کے لیے انسانیت کا خون کر دیا جائے۔
اسلامی جنگ نے تو یہ سمجھایا کہ بچہ ہر حال میں محفوظ رہے۔ عورت اگر جنگ میں شامل نہیں، تو اسے چھوا بھی نہ جائے۔ اگر شامل ہے تو بھی جنگی قیدی کے طور پراس کے ساتھ عزت کا سلوک کیا جائے۔ پیرانہ سالی میں بے بس اور لاچار آدمی کو جنگ کی اندھی آگ میں نہ جھونکا جائے۔ یہاں تک کہ درخت کو بھی گزند نہ پہنچائی جائے۔
پس اسلامی جنگیں دراصل اپنے اندر ایک ساعتِ سعد کا پیغام لیے ہوئے تھیں۔ موجودہ زمانہ کی بد امنی بھی اسی بات کی متقاضی ہے کہ تنازعات کے حل میں امن اور آشتی کے قیام کو مد نظر رکھا جائے۔
٭…٭…٭