آنحضورﷺ کابے مثال جذبہ خدمت خلق (قسط دوم۔آخری)
ایک شخص نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں عرض کی کہ میرا غلام بہت غلطیاں کرتاہے اور زیادتی کرتا ہے۔ کیا میں اُسے سزا دے لیا کروں۔ آنحضورﷺ نے فرمایا: اپنے خادم سے دن میں ستّر دفعہ عفوودرگزر کا سلوک کیا کرو
عورتوں کے لیے آنحضورؐ کابے مثال جذبہ رحمت
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ
’’رسول کریمﷺ کی بعثت سے پہلے عورتوں کے کوئی حقوق تسلیم ہی نہیں کئے جاتے تھے بلکہ اُنہیں مالوں اور جائیدادوں کی طرح ایک منتقل ہونے والا ورثہ خیال کیا جاتا تھا اور ان کی پیدائش کو صرف مرد کی خوشی کا موجب قرار دیاجاتا تھا۔ حتیٰ کہ مسیحی جو اپنے آپ کو حقوق نسواں کے بڑے حامی کہتے ہیں اُن کے پاک نوشتوں میں بھی عورت کی نسبت لکھا تھا ’’البتہ مرد کو اپنا سر ڈھانپنا نہ چاہئے کیونکہ وہ خدا کی صورت اور اُس کا جلال ہے مگر عورت مرد کا جلال ہے۔ ‘‘
(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 512)
دورِ جاہلیت میں عورت سے جانوروں کا سا برتاؤ ہوتا تھا۔ وہ ظلم و ستم کی چکی میں پستی، اور حقارت سے دیکھی جاتی تھی۔ اگر کسی کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی تو اس کا باپ اس بات کو عار سمجھتا اور مارے شرم کے منہ چھپاتا پھر تا۔ قرآن کریم نے اس کا یوں نقشہ کھینچا ہے۔
وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمۡ بِالۡاُنۡثٰی ظَلَّ وَجۡہُہٗ مُسۡوَدًّا وَّ ہُوَ کَظِیۡمٌ۔ یَتَوَارٰی مِنَ الۡقَوۡمِ مِنۡ سُوۡٓءِ مَا بُشِّرَ بِہٖ ؕ اَیُمۡسِکُہٗ عَلٰی ہُوۡنٍ اَمۡ یَدُسُّہٗ فِی التُّرَابِ ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَحۡکُمُوۡنَ۔
(سورۃ النحل :60-59)
اور جب اُن میں سے کسی کو لڑکی کی بشارت دی جائے تو اُس کا چہرہ غم سے سیاہ پڑجاتا ہے اور وہ (اُسے) ضبط کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اس (خبر) کی تکلیف کی وجہ سے جس کی بشارت اُسے دی گئی۔ کیا وہ رُسوائی کے باوجود(اللہ کے)اُس( احسان) کوروک رکھے یا اُسے مٹی میں گاڑ دے ؟خبردار! بہت ہی بُرا ہے جو وہ فیصلہ کرتے ہیں۔
آنحضورﷺ کی بعثت کے بعد طبقہ نسواں کی حقارت و تذلیل کی بجائے اُسے عزت وتوقیر دے کر معاشرہ کا معزز طبقہ بنا دیا گیا، اُس کی حقیقی آزادی بحال کر دی گئی اور بحیثیت انسان اُسے مرد کے ہم پلّہ مقام ومرتبہ پر فائز فرمادیا گیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ
وَلَھُنَّ مِثۡلُ الَّذِیۡ عَلَیۡھِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیۡھِنَّ دَرَجَۃٌ
(البقرۃ:229)
اور ان (عورتوں ) کا دستور کے مطابق (مردوں ) پر اُتنا ہی حق ہے جتنا (مردوں کا) اُن پر ہے۔
پھر مردوں کو ارشاد فرمایا کہ
وَعَاشِرُوۡھُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ فَاِنۡ کَرِھۡتُمُوۡھُنَّ فَعَسٰٓی اَنۡ تَکۡرَھُوۡا شَیۡئًاوَّ یَجۡعَلَ اللّٰہُ فِیۡہِ خَیۡرًا کَثیۡرًا
(النساء:20)
اور ان سے نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو۔ اور اگر تم اُنہیں ناپسند کرو تو عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اُس میں بہت بھلائی رکھ دے۔
اُس دَورِ جاہلیت میں عورت سے روا رکھے جانے والے جذباتِ نفرت وحقارت کو زائل کرنے کے لیے انسانیت کے محسنِ اعظم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
’’مجھے تمہاری دنیا کی جو چیزیں سب سے زیادہ پسند ہیں اُن میں پہلے نمبر پر عورتیں ہیں، پھر اچھی خوشبو بھی مجھے محبوب ہے مگر میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز اور محبت لٰہی میں ہی ہے۔ ‘‘
(نسائی، کتاب عشرۃ النِّسآء باب حُبّ النِّسآء)
بیوہ عورت خود شوہر کی وراثت میں تقسیم ہوتی تھی۔ مرد کا بڑا بیٹا، سوتیلا بیٹا اُس سے شادی کرلیتے۔ خود نہ چاہتے تو عورت کی مرضی کے خلاف جہاں چاہتے اُس کی شادی کردیتے۔ عورت کا اپنا کوئی حق نہ تھا۔ (بخاری کتاب التفسیر سورۃ النّسآء) نبی کریمﷺ نے بیوہ عورت کو نکاح کا حق دیا اور فرمایا کہ وہ اپنی ذات کے بارے میں فیصلہ کا ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے۔ (بخاری، الحیل باب 10)اُس معاشرہ میں عورت سے گھر کی خادماؤں اور لونڈیوں سے بھی بدتر برتاؤ ہوتا تھا، رسول کریمﷺ نے اُسے اپنے گھر کی ملکہ بنادیا اور فرمایا:
’’عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے اور اُس سے اس ذمہ داری کے بارہ میں پوچھا جائے گا۔ ‘‘
پھر اسلامی شریعت میں
لِلۡذَّکَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَیَیۡنِ (النساء:12)
کا اعلان کرکے عورت کو اُس کی ذمہ داری کے مطابق ورثہ کا حق دیا گیا کہ وہ بطور ماں، بیٹی اور بیوی جائیداد کی وارث ہوگی جبکہ اُس سے قبل بڑا بیٹا ہی ساری جائیداد کا وارث ہوتا تھا۔ بانیٔ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت کو بھی مَردو ں کی طرح ذاتی ملکیت رکھنے کا پورا حق عطا فرمایا اور حق ورثہ اور حق مہر کے اموال اُن کے تصرف میں دینے کی ہدایت فرمائی اور شادی کے بارہ میں بھی عورت کی پسند کا حق بھی قائم فرمایا۔ عورتوں کی گواہی کو قبول کرنے کا اُصول مقرر فرمایا جبکہ بعض اُمور میں حسب حالات وضرورت تنہا عورت کی گواہی بھی قبول فرمائی جیسے ولادت اور رضاعت وغیرہ۔ (اُسوہ ٔانسانِ کاملؐ، صفحہ 466-465) حضرت معاویہ بن حیدہؓ کے استفسار پر آنحضورﷺ نے فرمایا کہ تمہاری بیویوں کا تم پر حق ہے کہ تم کھانا کھاؤ تو اُن کو بھی کھلاؤ، خود لباس پہنتے ہو تو اُسے بھی پہناؤ۔ یعنی اپنی توفیق کے مطابق جو تمہارا معیار زندگی ہے بیویوں کے حقوق ادا کرو۔ اُسے سرزنش کرتے ہوئے چہرہ پر کبھی نہ مارو اور کبھی بُرا بھلا نہ کہو، اُسے گالی گلوچ نہ کرو۔ اور اس سے کبھی جُدائی اختیار نہ کرو، ہاں ضرورت پیش آنے پر گھر کے اندر بستر سے جدائی اختیار کرنے کی اجازت ہے۔ (ابوداؤد، کتاب النکاح باب 42) واضح ہو کہ جہاں تک مجبوری کی صورت میں عورت کو سزا دینے کا ذکر ہے یاد رکھنا چاہیے کہ آنحضورﷺ نے مَرد کو جو گھر کا سربراہِ اعلیٰ ہوتا ہے، صرف بے حیائی سے روکنے کے لیے اِس کی اجازت دی ہے، جیساکہ خطبہ حجۃ الوداع میں ذکر آیا ہے۔ مگر آنحضورﷺ نے جب دیکھا کہ اس رخصت کا غلط استعمال ہو رہاہے تو آپؐ نے اِس سے منع کرتے ہوئے فرمایا :
لَا تَضۡرِبُوۡا اِمَآء اللّٰہِ۔
عورتیں تو اللہ تعالیٰ کی لونڈیاں ہیں، ان پر دست درازی نہ کیا کرو۔ ایک اور موقع پر بعض لوگوں کے بارہ میں جب یہ پتہ چلاکہ وہ عورتوں سے سختی کرتے ہیں، آپﷺ نے فرمایاکہ
لَیۡسَ اُولٰٓئِکَ بِخِیَارِکُمۡ
یعنی یہ لوگ تمہارے اچھے لوگوں میں سے نہیں ہیں۔ (سنن ابی داؤد، کتاب النکاح باب :43)اسلام سے پہلے عورت کی بے توقیری و ذلّت کا ایک اور پہلو یہ بھی تھا کہ اپنے مخصوص ایّام میں اُسے سب گھر والوں سے الگ ہونا پڑتا۔ خاوند کے ساتھ بیٹھنا تو درکنار، اہلِ خانہ بھی اُس سے میل جول چھوڑ دیتے۔ (مسلم، کتاب الحیض باب 3) آنحضورﷺ نے اس معاشرتی برائی کو دُور کیا اور آپؐ کی شریعت میں یہ حکم اُترا کہ حیض ایک تکلیف دہ عارضہ ہے۔ ان ایّام میں صرف ازدواجی تعلقات کی ممانعت ہے، عام معاشرت ہرگز منع نہیں۔ (سورۃ البقرۃ:223) چنانچہ آنحضورﷺ بیویوں کے مخصوص ایّام میں اُن کا اور زیادہ لحاظ فرماتے، اُن کے ساتھ مل بیٹھتے، بِستر میں اُن کے ساتھ آرام فرماتے اور ملاطفت میں کوئی کمی نہ آنے دیتے۔ (ابوداؤد، کتاب الطھارۃ باب :104)
خاوند کی وفات کے بعد عرب میں عورت کا حال بہت رُسوا کُن اور بدترین ہوتا تھا۔ اُسے بدترین لباس پہنا کر گھر سے الگ تھلگ ویران حصہ میں ایک سال تک عدّت گزارنے کے لیے رکھا جاتا۔ سال کے بعد عربوں کے دستور کے مطابق کسی گزرنے والے کُتے پر بکری کی مینگنی پھینک کر اُس قید خانہ سے باہر آتی تھی۔
(بخاری، کتاب الطلاق باب :45)
اطالوی مستشرقہ پروفیسر ڈاکٹر وگلیری نے اسلام میں عورت کے تحفظ اور مثالی مقام کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ گو سماجی اعتبار سے یورپ میں عورت کو بڑا درجہ حاصل ہے لیکن اگر چند سال پیچھے جائیں اور یورپ کی عورت کی خودمختاری کا موازنہ دنیائے اسلام کی عورت کی خود مختاری سے کریں تو معلوم ہوگا کہ یورپ میں عورت کی حیثیت کم ازکم قانونی لحاظ سے بہت ادنیٰ رہی ہے اور بعض ملکوں میں اب تک یہی صورت باقی ہے۔ ایک مسلمان عورت کو حق ہے کہ اپنے بھائیوں کے ساتھ ورثہ میں شریک ہو (گو نسبتاً اُس کا حصہ کم ہے ) اور اُس کی مرضی کے بغیر اُس کی شادی نہ کی جائے اور شوہر اُس سے بدسلوکی نہ کرے۔ علاوہ بریں اُسے یہ بھی حق ہے کہ شوہر سے اپنا مہر وصول کرے اور نان ونفقہ میں خواہ وہ عورت پیدائشی مالدار ہو اور اگر وہ عورت قانونی لحاظ سے اس قابل ہو تو اُسے یہ بھی حق ہے کہ اپنی مرضی کے مطابق اپنی ذاتی جائیداد کا انتظام کرے۔
(وگلیری An Interpretation of Islamکا اردو ترجمہ اسلام پر نظر صفحہ 41,37 ازشیخ محمد احمدصاحب مظہر ایڈووکیٹ)
صحابہ کے لیے جذبہ رحمت
آنحضورﷺ کے صحابہ آپؐ پر اپنا سب کچھ فدا کرنے کا نا صرف دعویٰ کرتے بلکہ عملی طور پر بھی انہوں نے سب کچھ آپؐ پر فدا کر کے دکھایا۔ اس کے با وجود حضورﷺ ان کےساتھ ماتحتوں یا افسری والا سلوک نہ فرماتے بلکہ ان کے ساتھ کاموں میں ان کا ہاتھ بٹاتے اور جہاں باقی اصحابؓ جسمانی مشقت کا کام کرتے وہاں آنحضورﷺ بھی اس مشقت میں عملی حصہ لیتے۔
چنانچہ غزوہ خندق کے موقع پر، خندق کی کھدائی اور مٹی کے ڈھلائی کے کام میں رسول کریمﷺ صحابہ رضوان اللہ کے ساتھ برابر شریک کار رہتے۔
اس کی وضاحت سیرت خاتم النبیینﷺ میں اس طرح ملتی ہے:
’’آنحضرتﷺ بھی بیشتر حصہ اپنے وقت کا خندق کے پاس گزارتے تھے اور بسا اوقات خود بھی صحابہ کے ساتھ مل کر کھدائی اور مٹی کی ڈھلائی کاکام کرتے تھے اور ان کی طبیعتوں میں شگفتگی قائم رکھنے کے لیے بعض اوقات آپ کام کرتے ہوئے شعر پڑھنے لگ جاتے تھے جس پر صحابہ بھی آپ کے ساتھ سُر ملاکر وہی شعر دہراتے تھے۔ چنانچہ روایات میں آنحضرتﷺ کا اس موقعہ پر مندرجہ ذیل شعر پڑھنا خصوصیت کے ساتھ مذکور ہوا ہے
اَللّٰھُمَّ اِنَّ الۡعَیۡشَ عَیۡشُ الۡاٰخِرَہ
فَاغۡفِرۡ لِلۡآنۡصَارِ وَالۡمُھَاجِرَہ
یعنی اے ہمارے مولا! اصل زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے۔ پس تو اپنے فضل سے ایسا سامان کر کہ انصار ومہاجرین کو آخرت کی زندگی میں تیری بخشش اور عطا نصیب ہوجاوے۔‘‘
(سیرت خاتم النبیین، صفحہ 576-575)
غزوۂ بدر میں سواریاں کم تھیں۔ ایک سواری میں کئی اصحاب شریک تھے۔ رسول اللہؐ کے حصہ میں جو اونٹ آیا اس میں دو ساتھی اور شامل تھے۔ انہوں نے عرض کیا کہ حضورؐ اونٹ پر سوار ہوجائیں ہم پیدل چلیں گے۔ آپؐ فرماتے نہیں ہم باری باری سوار ہوں گے نہ تم مجھ سے زیادہ طاقتور ہو کہ تم پیدل چلو اور میں سوار ہوں اور نہ تمہیں ثوا ب اور اجر کی مجھ سے زیادہ ضرورت ہے کہ تم چل کر ثواب حاصل کرو اور میں اس سے محروم رہوں۔
(مسند احمد جلد 1صفحہ422بیروت )
’’ایک دفعہ صحابہ آنحضورﷺ کے ساتھ سفر میں تھے۔ ایک جگہ پڑاؤ ہوا۔ آنحضورؐ نے فرمایا: سب صحابہ میں کام تقسیم کئے جائیں۔ تعمیل ارشاد ہوئی۔ خیمہ لگانے، کھانا پکانے، پانی لانے وغیرہ کے سب کام تقسیم ہوچکے۔ آپؐ نے فرمایا: میرے ذمہ کیا کام ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا حضور ہم آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہیں۔ آپ تشریف رکھیں۔ آپؐ نے فرمایا: نہیں میں بھی کام کروں گا۔ پھر خود ہی فرمایا:آگ جلانے کے لیے لکڑیاں جمع کرنے کا کام ابھی تک کسی کے سپرد نہیں ہوا۔ میں یہ کام اپنے ذمہ لیتا ہوں (میں لکڑیاں جمع کروں گا) اور پھر آپؐ اس مقصد کے لیے جنگل میں چلے گئے۔ ‘‘
(بحوالہ اسوۂ انسان کامل صفحہ 771)
مہمان نوازی کے ذریعہ خدمت
رسول اللہﷺ کی یہ بھی سنت ہے کہ مہمان کو خود اپنے ہاتھ سے کھانا پیش کرتے۔
ایک دفعہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ کے ہاں مہمان ہوئے، حضورﷺ نے پہلو کا گوشت لانے کا حکم دیا۔ چنانچہ پہلو کا بھنا ہوا گوشت پیش کیا گیا۔ آپؐ چھری سے گوشت کاٹ کر حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دے رہے تھے کہ اتنے میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ آپ کو نماز کی اطلاع دینے کے لیے آگئے۔ آپؐ نے فرمایا:بلال کو کیا ہے ! اللہ اس کا بھلا کرے، لیکن آپؐ نے مہمان کی خاطر نماز نہیں چھوڑی، بلکہ فوراً چھری رکھ دی اور نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوگئے۔
(سنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ باب ترک الوضوء )
فتح خیبر کے موقع پر حبشہ کے مہاجرین حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں واپس آئے تو ان میں نجاشی کا بھیجا ہوا ایک وفد بھی تھا۔ حضورﷺ خود اُن کی مہمان نوازی اور خدمت کے لیے سعی فرماتے۔ آپ کے صحابہؓ نے عرض کی کہ حضورؐ ! ہم خدام جو خدمت کے لیے حاضر ہیں، آپؐ کیوں تکلیف فرماتے ہیں۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا: ان لوگوں نے ہمارے صحابہ کی عزت کی تھی، میں پسند کرتا ہوں کہ خود اپنے ہاتھوں سے مہمان نوازی کروں کہ اُن کے احسان کا یہی بدلہ ہے۔
(السیرۃ الحلبیہ جلد سوم صفحہ 49بیروت)
حضرت طخفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ ہمیں لے کر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر پہنچے اور فرمایا : عائشہ ! ہمارے کھانے کے لیے کچھ لادو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حریسہ لے کر آئیں۔ یہ ایک کھانا ہے جو پسے ہوئے آٹے سے بنایا جاتا ہے اور اس پر گوشت یا کھجور رکھ دی جاتی ہے۔ ہم نے کھانا کھا لیا تو حضورﷺ نے پھر فرمایا: عائشہؓ ! اب ہمارے پینے کے لیے کچھ لاؤ۔ اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا دودھ لے کر آئیں جو ہم نے پی لیا۔ حضورﷺ نے مزید پینے کا ارشاد فرمایا تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایک چھوٹے سے پیالے میں دودھ لے کر آئیں ہم نے وہ بھی پی لیا۔
(سنن ابو داؤد۔ کتاب الادب۔ باب فی الرجل ینبطح علی بطنہ)
کمزور اور غریب طبقہ کی بے لوث خدمت
منذر بن جریر اپنے والدؓ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہﷺ کے پاس دن کے پہلے حصہ میں تھے وہ کہتے ہیں آپؐ کے پاس کچھ لوگ ننگے پائوں ننگے بدن پھٹی ہوئی دھاری دار اونی چادریں یا چوغے پہنے ہوئے تلواریں لٹکائے ہوئے آئے۔ ان کی اکثریت مضر قبیلہ سے تھی بلکہ وہ سب کے سب مضر قبیلہ سے ہی تھے ان کے فاقہ کو دیکھ کر رسول اللہﷺ کا چہرہ متغیر ہوگیا۔ آپؐ اندر تشریف لے گئے پھر باہر آئے اور بلالؓ کو ارشاد فرمایا : انہوں نے اذان دی اور اقامت کہی۔ آپؐ نے نماز پڑھائی اور پھر خطاب فرمایا اور فرمایا :
یَا أَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفسٍ وَاحِدَۃٍ …(النساء:2)
اے لوگو!اپنے اس ربّ کاتقویٰ اختیار کرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا اور پھر ان دونوں میں سے مردوں اور عورتوں کو بکثرت پھیلا دیا اور اللہ سے ڈرو جس کے نام کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رحموں کے (تقاضوں ) کا بھی خیال رکھو یقینا ًاللہ تم پر نگران ہے۔ اور سورۃ الحشر کی یہ آیت تلاوت فرمائی
یَا أَیُّھَا الَّذِیۡنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَلۡتَنۡظُرۡ نَفۡسٌ …(الحشر:19)
ترجمہ :اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور ہر جان یہ نظر رکھے کہ وہ کل کے لئے کیا آگے بھیج رہی ہے اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو یقیناً اللہ اس سے جو تم کرتے ہو ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔ (اس پر ) ایک شخص اپنے دینار سے صدقہ کرتا ہے، اپنے درہم سے، اپنے کپڑے سے، اپنی گندم کے صاع سے، اپنی کھجور کے صاع سے یہاں تک کہ فرمایا خواہ کھجور کے ٹکڑے سے۔ راوی کہتے ہیں کہ انصار میں سے ایک شخص ایک چھوٹی سی تھیلی لے کر آیا قریب تھا کہ اس کی ہتھیلی اس سے عاجز آجاتی بلکہ وہ عاجز تھی۔ راوی کہتے ہیں پھر لوگ پے در پے آنے لگے یہاں تک کہ میں نے غلے کے اور کپڑے کے دو ڈھیر دیکھے یہاں تک کہ میں نے رسول اللہﷺ کا چہرہ دمکتا ہوا دیکھا گویا کہ وہ سونے کا ایک ٹکڑا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے اسلام میں اچھی سنت قائم کی اس کو اس کا اجر ہے اور ان کا اجر بھی جو اس کے بعد اس پر عمل کریں بغیر اس کے کہ ان کے اجر میں سے کچھ کم کیا جائے اور جس نے اسلام میں بُرا طریق قائم کیا اس پر اس کا بوجھ ہوگا اور ان کا بوجھ بھی جنہوں نے اس کے بعد اس پر عمل کیا بغیر اس کے کہ ان کے بوجھوں میں سے کچھ کم کیا جائے۔
(صحیح مسلم۔ کتاب الزکاۃ: بَاب الۡحَثِّ عَلَی الصَّدَقَۃِ وَلَوۡ بِشِقِّ تَمۡرَۃٍ أَوۡ کَلِمَۃٍ طَیِّبَۃٍ وَ أَنَّھَا حِجَابٌ مِنَ النَّارِ۔حدیث نمبر 1677)
حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ غریب اور کمزور مسلمانوں کے پاس تشریف لے جاتے۔ ان سے ملاقات کرتے۔ ان کے مریضوں کی عیادت کرتے اور ان کے جنازوں میں شرکت فرماتے۔
(کنزالعمال جلد 7صفحہ 155حدیث نمبر 18491)
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ایک غلام کے پاس سے گزرے جو بکری کی کھال اُتار رہا تھا۔ آپؐ نے فرمایا کہ میں تمہیں کھال اُتارنے کا طریقہ بتاتا ہوں۔ آپؐ نے اپنا بازو جلد اور گوشت کے درمیان داخل کیا اور اس کو دبایا یہاں تک کہ بازو کندھے تک کھال کے اندر چلا گیا۔ پھر فرمایا: اے بچے کھال اس طرح اتارو۔
(سنن ابن ماجہ ابواب الذبائح باب السلخ)
ہمسایوں کی خدمت کا جذبہ
اسلام میں ہمسائے سے حسن سلوک کی بے پناہ تاکید کی گئی ہے۔ آنحضورﷺ بدرجہ اولیٰ اس امر کا خیال رکھتے کہ آپ کے ہمسایوں کا ہر طرح سے خیال رکھا جائے۔ اسی طرح آپ کی تعلیم میں بھی ہمسائے کے حقوق کا بہت خیال رکھا جاتا۔
ہمسائے کے حقوق کے حوالے سے ایک تربیتی پہلو کا ذکر ایک روایت میں ملتا ہے کہ حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ ایک غزوہ کے لیے تشریف لے جارہے تھے تو آپؐ نے فرمایا: آج ہمارے ساتھ وہ شخص نہ جائے جس نے اپنے پڑوسی کو تکلیف دی ہے۔ ایک صحابی نے ایک معمولی بات کا ذکر کیا تو آپؐ نے فرمایا: آج تم ہمارے ساتھ نہیں جاسکتے۔
(مجمع الزوائد جلد 8صفحہ 107)
پھر ایک اور موقع پر رسول اللہﷺ نے پڑوسی کو تکلیف دینے والے کے بارےفرمایا:
اللہ کی قسم ! وہ مومن نہیں ہوسکتا، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ہوسکتا، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ہوسکتا۔ پوچھا گیا : اے اللہ کے رسولؐ ! کون مومن نہیں ہوسکتا؟ آپؐ نے فرمایا : وہ آدمی جس کے پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہ ہوں۔
(صحیح بخاری۔ کتاب الأدب، باب اثم من لا یأمن جارہ بوائقہ، حدیث 6016)
حضرت انسؓ بن مالک رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوتا جب تک کہ اپنے بھائی یا فرمایا اپنے پڑوسی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔
(صحیح مسلم کتاب الایمان، بَاب الدَّلِیلِ عَلَی أَنَّ مِنۡ خِصَالِ الۡاِیمَانِ…حدیث:56)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کا ہمسایہ اس کی ایذاء رسانیوں سے امن میں نہیں۔
(صحیح مسلم۔کتاب الایمان۔ :بَاب بَیَانِ تَحۡرِیۡمِ اِیذَاءِ الۡجَارِ۔ حدیث:58)
حضرت ابوہریرہؓ نے نبیﷺ سے روایت کی کہ آپؐ نے فرمایا: اے مسلم خواتین! غور سے سنو۔ کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کو حقیر نہ سمجھے گو وہ بکری کا کُھر ہی (بھیجے)۔
(صحیح بخاری کِتَابُ الۡھِبَۃِ وَفَضۡلِھَا وَالتَّحۡرِیۡضِ عَلَیۡھَا۔ باب1:اَلۡھِبَۃُ وَ فَضۡلُھَا وَالتَّحۡرِیۡضُ عَلَیۡھَا۔ حدیث:2566)
حضرت ابوذرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :اے ابوذرؓ ! جب تو شوربہ بنائے تو اس میں پانی زیادہ ڈال دے اور پڑوسیوں کا خیال رکھ۔
(صحیح مسلم۔کتاب البروالصلۃ والآداب۔ بَاب الۡوَصِیَّۃِ بِالۡجَارِ وَالۡاِحۡسَانِ اِلَیۡہِ۔ حدیث:4744)
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:پڑوسیوں میں سے بہترین پڑوسی اللہ کے ہاں وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے لیے سب سے بہتر ہے۔
(جامع ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ماجاء فی حق الجوار، حدیث:1944)
دشمنوں اور غیر مسلموں کی بے مثال خدمت
اپنوں سے حسن سلوک تو ہر کوئی کر ہی لیتا ہے مگر دشمنوں سے حسن سلوک اور ان کے حقوق کا خیال رکھنا حقیقت میں شان محمدی ہے۔
ایک دفعہ مکہ میں شدید قحط پڑا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ ہڈیاں اور مردار کھانے پر مجبور ہوگئے۔ ان حالات میں مجبور ہوکر ابوسفیان حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ آپؐ تو صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔ آپؐ کی قوم اب ہلاک ہو رہی ہے آپؐ اللہ سے ہمارے حق میں دعا کریں (کہ قحط سالی دُور فرما ئے ) اور بارشیں نازل ہوں ورنہ آپؐ کی قوم تباہ ہو جائے گی۔
آپؐ نے ابو سفیان کو احساس دلانے کے لیے صرف اتنا کہا کہ تم بڑے دلیر اور حوصلہ والے ہو جو قریش کی نافرمانی کے باوجود ان کے حق میں دعا چاہتے ہو۔ مگر دعا کرنے سے انکار نہیں کیا کیونکہ آپ کو اپنی قوم کی ہلاکت ہر گز منظور نہ تھی۔ پھر لوگوں نے دیکھا کہ اسی وقت آپؐ کے ہاتھ دعا کے لیے اٹھ گئے اور اپنے مولیٰ سے قحط سالی دور ہونے اور باران رحمت کے نزول کی دعا کی چنانچہ یہ دعا بارگاہ الٰہی میں خوب مقبول ہوئی اور اس قدر بارش ہوئی کہ قریش کی فراخی اور آرام کے دن لوٹ آئے۔ مگر ساتھ ہی وہ انکار ومخالفت میں بھی تیز ہو گئے۔
(بخاری کتاب التفسیر سورۃ الروم لدخان۔ بحوالہ انسان کامل صفحہ 704)
اس کے علاوہ حضورﷺ نے اہل مکہ کی امداد کے لیے کچھ رقم کا بھی انتظام کیا اور وہ قحط زدگان کے لیے مکہ بھجوائی۔
(المسبوط للسرخسی جلد10صفحہ92۔ بحوالہ انسان کامل صفحہ 704)
مکہ کی فتح کے بعد طائف سے بنو ثقیف کا ایک وفد آیا تو حضور نبی کریمﷺ نے ان کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا اور ان کی خاطر تواضح کا خاص اہتمام فرمایا۔ اس پر بعض لوگوں نے سوال اُٹھایا کہ یہ تو مشرک لوگ ہیں ان کو مسجد نبوی میں نہ ٹھہرایا جائے کیونکہ قرآن کریم نے مشرکین کو نجس یعنی ناپاک قرار دیا ہے۔ اس پر حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا: اس آیت میں ظاہری ناپاکی کی بجائے دل کی ناپاکی کی طرف اشارہ ہے۔
(احکام القرآن للجصاص جلد3صفحہ109)
رسول اللہﷺ کا ایک یہودی خادم بیمار ہوگیا تو آپؐ بلاتکلف اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔
(صحیح بخاری، کتاب المرض، باب عیادۃ المشرک حدیث نمبر 5657)
مہمان نوازی نبی کریمﷺ کا ایک اہم وصف تھا۔ اس کی کچھ جھلک پہلے گزر چکی ہے۔ اس وصف کا ایک خاص پہلو یہ بھی تھا کہ اس میں اپنے پرائے، مسلم، غیر مسلم کی کوئی تمیز نہ تھی بلکہ آپ ہر مہمان کا اکرام کرتے اور حسبِ توفیق اس کی خدمت کرتے۔ کتب احادیث میں غیر مسلم مہمانوں کی مہمان نوازی کے متعدد واقعات بیان ہوئے ہیں۔ ایک بہت دلچسپ اور ایمان افروز واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ
رسول کریمﷺ نے ایک کافر کی مہمان نوازی کی۔ نبی کریمﷺ نے اس کے لیے ایک بکری منگوائی اور اس کا دودھ دوہا گیا۔ وہ اس کا دودھ پی گیا۔ پھرایک دوسری بکری منگوائی گئی اور اس کا دودھ دوہا گیا تو اس نے اس کا دودھ پی لیا۔ پھر ایک تیسری بکری منگوائی گئی تو وہ اس کا دودھ بھی پی گیا۔ حتیٰ کہ وہ سات بکریوں کا دودھ پی گیا۔ اگلے دن صبح کے وقت اس نے اسلام قبول کرلیا۔ پھر رسول کریمﷺ نے بکری منگوائی اور اس کا دودھ دوہا گیا پس اس نے دودھ پی لیا۔ پھر نبی کریمﷺ نے اس کے لیے ایک اور بکری منگوائی مگر وہ اس کا دودھ مکمل طورپر نہ پی سکا۔
(جامع ترمذی، کتاب الأطعمۃ باب ما جاء أن المؤمن بأکل فی معی واحد…حدیث نمبر1819)
جنگ بدر میں ستر کفار مکہ قیدی ہوئے۔ ان لوگوں اور ان کے اقارب نے مسلمانوں پر مکہ میں سخت مظالم ڈھائے تھے جس کی وجہ سے مسلمانوں کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا اور وہ مدینہ آکر آباد ہوئے۔ مگر مدینہ میں بھی ان ظالموں نے مسلمانوں کو چین سے نہ رہنے دیا اور نہتے مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے۔ لیکن نبی کریمﷺ نے کفار قریش کے ان قیدیوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تعلیم دی۔ رسول کریمﷺ نے مختلف گھرانوں میں بدر کے قیدی تقسیم کرتے ہوئے فرمایا :’’دیکھو ان قیدیوں کا خیال رکھنا۔‘‘
ابو عزیز بن عمیر (جو حضرت مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیر کے بھائی تھے ) بھی ان قیدیوں میں تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں انصار کے ایک گھرانے میں قید تھا۔ جب وہ صبح یا شام کا کھانا کھاتے تو مجھے خاص طور پر روٹی مہیا کرتے اور خود کھجور پر گزارہ کرلیتے کیونکہ رسول اللہﷺ نے ان کو قیدیوں کے بارہ میں حسن سلوک کی ہدایت فرمائی تھی۔ ان کے خاندان کے کسی فرد کے ہاتھ میں روٹی کا کوئی ٹکڑہ آجاتا تو وہ مجھے پیش کر دیتا۔ میں شرم کے مارے واپس کرتا مگر وہ مجھے ہی لوٹادیتے۔
(سیرت ابن ہشام جلد دوم صفحہ 288)
غلاموں کے لیے بے مثال جذبہ خدمت
جنگ کو غلامی کے مسئلہ کے ساتھ بنیادی تعلق ہے۔ آنحضورﷺ کی بعثت کے وقت نہ تو مذہبی آزادی تھی اور نہ ہی کمزور طبقہ کو اپنے ضمیر اور مرضی و منشاء کے مطابق کچھ کرنے کی اجازت تھی۔ طاقتور قبائل اور اقوام جب اور جسے چاہتے حملہ آور ہوکر قید کرکے غلام بنا لیتے اور یہ غلامی پھر نسلاً بعد نسلٍ چلتی جاتی۔
قرآن کریم نے غلاموں کے آزاد کرنے کو اولوالعزم کام قرار دیتے ہوئے فرمایاکہ
وَمَآ اَدۡرٰکَ مَالۡعَقَبَۃُ۔ فَکُّ رَقَبَۃٍ۔ (سورۃ البلد:14-13)
اور تجھے کس نے بتایا ہے کہ چوٹی کیا (ہے اور کس چیز کا نام ہے )؟(چوٹی پر چڑھنا غلام کی ) گردن چھڑانا ہے۔
اسی طرح محسن انسانیتﷺ نے اپنے والدین کے ہاں آزاد پیدا ہونے والے انسانوں کو جن طوقوں سے نجات دلائی اُن میں سے ایک غلامی کا طوق بھی ہے۔ اس لحاظ سے یہ آپ کی ایک عظیم الشان خدمت خلق ہے۔
قرآن کریم میں آپﷺ کے ذریعہ غلامی کے خاتمہ کا اعلان کرتے ہوئے یہ اعلان فرمایا گیا کہ سوائے اس کے کہ خون ریز جنگ ہو اور مدّ مقابل دشمن تمہارے آدمی قید کرے، بلا وجہ کسی کو قیدی نہیں بنایا جاسکتا۔ (الانفال:68)
رسول کریمﷺ پر نازل ہونے والی دائمی، آخری اور کامل شریعت پر مشتمل کتاب (قرآن کریم ) میں غلامی کے خاتمہ اور غلام بنانے کی پُر حکمت حوصلہ شکنی فرماتے ہوئے اور غلاموں کی آزادی کی مؤثر تحریک کو ترغیب دیتے ہوئے بعض جرائم کی سزا کے طور پر غلام کو آزاد کرنے کا حکم دیا ہے۔
مثلاً جوغلطی سے قتل کرے(النساء:93)، قسم کو توڑے (المائدۃ:90)یا جو لوگ اپنی بیویوں کو ماں کہہ دیتے ہیں اور اپنی بیویوں سے علیحدہ رہنے کا عہد کر لیتے ہیں لیکن پھر وہ کسی وجہ سے اُن کی طرف رجوع کرنا چاہتے ہیں تو اُن کا کفارہ یہ ہے کہ وہ ایک غلام آزاد کریں۔ (المجادلۃ:5-4)
ان تمام صورتوں میں غلاموں کو آزاد کرنے کا ذکر بطور کفارہ ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ غلاموں کو آزاد کرنے کے علاوہ ان گناہوں کی اور سزائیں بھی ان ایات میں بیان کی گئی ہیں جس میں اشارہ مضمر ہے کہ اسلام دراصل غلامی کی گندی رسم کو ختم کرنا چاہتا ہے اور یہ غلاموں کو آزاد کرنے کا کفارہ صرف اس وقت موجود غلاموں کو آزاد ی دلوانے کا ایک طریق تھا۔
رسول اللہﷺ غلاموں سے حسن سلوک کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ
’’تمہارے غلام، تمہارے بھائی ہیں جس کا بھائی (غلام) اُس کے ماتحت ہو اُسے چاہیے کہ اُسے وہی کھانا دے جو وہ خود کھاتا ہے اور اُسے ویسا ہی لباس دے جیسا وہ خود پہنتا ہے اور تم اپنے غلاموں کو ایسا کام نہ دیا کرو جو اُن کی طاقت سے زیادہ ہو اور اگر کبھی ایسا کام دو تو پھر اُس کام میں خود اُن کی مدد کیا کرو۔‘‘
(بخاری کتاب العتق، باب المعاصی من امر الجاہلیۃ)
فرمایا کہ اگر کسی کے پاس لونڈی ہو اور وہ اُسے اچھی تعلیم دے اور اُس کی اچھی طرح تربیت کرے پھر اُسے آزاد کرکے اُس کے ساتھ شادی کرے تو ایسا شخص خدا کے حضور دہرے ثواب کا مستحق ہوگا۔ (صحیح بخاری کتاب النکاح )
حضرت ابومسعود بدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اپنے غلام کو کوڑے سے مار رہا تھا کہ میں نے اپنے پیچھے سے ایک آواز سُنی، خبردار، اے ابومسعود!مگر میں غصّے کی حالت میں ہونے کی وجہ سے آواز کو نہیں سمجھ سکا۔ جب آواز دینے والا میرے قریب ہوا تو دیکھا کہ وہ تو رسول اللہﷺ ہیں۔ آپؐ فرمارہے تھے خبردار، اے ابو مسعود !اللہ تعالیٰ تجھ پر اس سے کہیں زیادہ قادر ہے جتنا تو اس غلام پر ہے۔ میں نے کہا اس کے بعد میں کبھی کسی غلام کو نہیں ماروں گا۔
ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت ابو مسعود نے کہاکہ اے اللہ کے رسولؐ ! اللہ کی رضا کے لیے میں اسے آزاد کرتا ہوں۔ جس پر آپؐ نے فرمایا: تجھے جہنّم کی آگ ضرور چُھوتی۔
(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب صحبۃ الممالیک )
نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ خادم یا غلام جب کھانا لائے تو اُسے بھی ساتھ بٹھا کر اُس میں سے کھلاؤ اگر وہ نہ مانے تو کچھ کھانا ہی دے دو کہ اُس نے کھانا تیار کرتے ہوئے گرمی اور دھواں کھایا ہے۔
(ابن ماجہ کتاب الاطعمۃ )
ایک شخص نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں عرض کی کہ میرا غلام بہت غلطیاں کرتاہے اور زیادتی کرتا ہے۔ کیا میں اُسے سزا دے لیا کروں۔ آنحضورﷺ نے فرمایا: اپنے خادم سے دن میں ستّر دفعہ عفوودرگزر کا سلوک کیا کرو۔
(مجمع الزوائد لھیثمی جلد 4صفحہ435)
پھر ایک موقع پر فرمایاکہ غلاموں کی اپنی اولاد کی طرح عزت کرو اور جو خود کھاتے ہو اُس میں سے اُن کو کھلاؤ۔
(بخاری، کتاب العتق، باب :16)
آپؐ نے غلاموں کی عزتِ نفس قائم کرنے کے لیے ایک انسان ہونے کے ناطے اُن کی تکریم وعزت کی ہدایت فرمائی اور فرمایا کہ اُن کو ‘‘میرا غلام ’’ یا ‘‘میری لونڈی’’ کہہ کر نہ پکارا کرو بلکہ ‘‘نوجوان’’ یا‘‘لڑکی’’ کہہ کر بلایا کرو (تاکہ اُن کی عزت نفس مجروح نہ ہو)
(بخاری، کتاب العتق باب:18)
سر ولیم میور، اپنی کتاب لائف آف محمد میں اسیرانِ بدر کے ساتھ، مسلمانوں کے حسن سلوک کا ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہےکہ
’’محمد(ﷺ )کی حکومت میں اہلِ مدینہ اور وہ مہاجرین جنہوں نے یہاں اپنے گھر بنالئے تھے کے پاس جب (بدرکے) قیدی آئے تو اُنہوں نے، اُن سے نہایت عمدہ سلوک کیا۔ بعد میں خود ایک قیدی کہا کرتاتھا کہ ’’اللہ رحم کرے مدینہ والوں پر وہ ہمیں سوار کرتے تھے اور خود پیدل چلتے تھے۔ ہمیں کھانے کے لئے گندم کی روٹی دیتے تھے جس کی اُس زمانے میں بہت قلّت تھی اور خود کھجوروں پر گزارہ کرتے تھے …بعد میں جب ان قیدیوں کے لواحقین فدیہ لے کر انہیں آزاد کروانے آئے، اُن میں سے کئی قیدیوں نے مسلمان ہونے کا اعلان کردیا اور ایسے تمام قیدیوں کو رسول اللہﷺ نے فدیہ لئے بغیر آزاد کر دیا۔‘‘
(The Life of Mahamet By Sir William Mur Vol.1 page 242)
آزاد شدہ غلاموں کے متعلق تعلیم
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ تحریر کرتے ہیں کہ
’’غلاموں کی آزادی کے اس انتظام میں اس بات کو بھی مدِّنظر رکھا گیا تھا کہ آزاد ہونے کے بعد بھی آزاد شدہ غلام بالکل بے سہارا اور بے یارومددگار نہ رہیں۔ چنانچہ آنحضرتﷺ نے ایسا انتظام فرمایاتھا کہ مالک اور آزاد شدہ غلام کے درمیان ایک قسم کا رشتۂ اخوت مستقل طور پر قائم رہے۔ چنانچہ آپؐ کے حکم کے ماتحت مالک اور آزاد شدہ غلام ایک دوسرے کے ’’مولیٰ‘‘ یعنی دوست اور مددگار کہلاتے تھے تاکہ آقا اور غلام دونوں کے دلوں میں یہ احساس رہے کہ ہم ایک دوسرے کے دوست ہیں اور بوقتِ ضرورت ہم نے ایک دوسرے کے کام آنا ہے اِسی مصلحت کے ماتحت آزاد شدہ غلام اور مالک کو ایک دوسرے کے متعلق حقِ موروثیت بھی عطا کیا گیا تھا۔ یعنی اگر غلام بے وارث مرتا تھا تو اس کا ترکہ اس کے سابقہ آقا کو جاتا تھا اور اگر مالک بے وارث رہ جاتا تھا تو اس کا وِرثہ اس کے آزاد کردہ غلام کو ملتا تھا۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے …
…کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی آزاد شدہ غلام لاوارث مرجاوے تو اس کا ترکہ اس کے سابق مالک کو ملے گا اور ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص ایسی حالت میں مرگیا کہ اس کا کوئی وارث نہیں تھا، البتہ اس کا ایک آزاد شدہ غلام تھا۔ آنحضرتﷺ نے اس کا ترکہ اس کے آزاد شدہ غلام کو عطا فرمادیا۔
چونکہ اس حقِ موروثیت کی بنیاد مالی اور اقتصادی خیالات پر مبنی نہیں تھی بلکہ اصل منشاء مالک اور آزاد شدہ غلام کے تعلق کو قائم رکھنا تھا اس لیے آنحضرتﷺ نے یہ حکم جاری فرمایا کہ یہ حق موروثیت کسی صورت میں بھی بیع یا ہبہ وغیرہ نہیں ہوسکتا۔ …
پھر آزاد شدہ غلاموں کی عزت واحترام کے قیام کے لیے حدیث میں آتا ہے :… ایک دفعہ سلمان اور صہیب اور بلال وغیرہ جو آزاد شدہ غلام تھے ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے ان کے سامنے سے ابوسفیان گزرا تو انہوں نے آپس میں کہا کہ ’’یہ خدا کا دشمن خدائی تلوار سے بچ گیا ہے حضرت ابوبکرؓ نے اُن کی یہ بات سنی تو اُنہیں فہمائش کی اور کہا کہ کیا تم قریش کے سردار کے متعلق ایسی بات کہتے ہو؟ اس کے بعد ابوبکر آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپؐ سے سارا ماجرا عرض کیا۔ آپؐ نے فرمایا: ابوبکر ! تم نے بلال وغیرہ کو کہیں ناراض تو نہیں کردیا ؟ اگر تم نے انہیں ناراض کیا ہے تو ان کی ناراضگی میں خدا کی ناراضگی ہے۔ حضرت ابوبکر فوراً بلال وغیرہ کے پاس واپس آئے اور کہا۔ بھائیو! تم میری بات پر ناراض تو نہیں ہوئے۔ انہوں نے کہا : نہیں بھائی ہم ناراض نہیں ہوئے فکر نہ کرو۔
(مسلم باب فضائل سلمان و صہیب و بلال )
…تاریخ سے ثابت ہے کہ جہاں تک صحابہ اور اُن کے متّبعین کی کوشش کا تعلق تھا انہوں نے غلاموں کے آزاد کرنے اور آزاد کرانے میں اپنی پوری توجہ اور پوری سعی سے کام لیا اور وہ نمونہ دکھایا جو یقینا ًتاریخ عالم میں اپنی نظیر نہیں رکھتا۔ چنانچہ تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ اس زمانہ میں مسلمان نہ صرف اپنے ہاتھ میں آئے ہوئے غلاموں کو کثرت سے آزاد کرتے رہتے تھے بلکہ خاص اس نیت اور اس ارادے سے غلام خریدتے بھی تھے کہ انہیں خرید کر آزاد کردیں اور اس طرح بے شمار غلام مسلمانوں کی مساعی جمیلہ سے داغِ غلامی سے نجات پاگئے۔ …
آنحضرتﷺ کے متعلق ایک اور بات بھی یاد رکھنی چاہئے اور وہ یہ کہ آپ کے متعلق بہت سی روایات سے ثابت ہے کہ کبھی کوئی ایک غلام بھی آپؐ کے قبضہ میں نہیں آیا کہ اُسے آپ نے آزاد نہ کر دیا ہو، چنانچہ مندرجہ ذیل روایت میں بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔
عَنۡ عَمۡرِوبۡنِ الۡحَارِثِ اَخِیۡ جُوَیۡرِیَۃَ اُمِّ الۡمُؤمِنِیۡنَ قَالَ مَا تَرَکَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ عِنۡدَ مَوۡتِہٖ دِرۡھَمًا وَلَا دِیۡنَاراً وَلَا عَبۡداً وَلَا اَمَۃً
(بخاری بروایت مشکوٰۃ باب وفات النبیﷺ )
یعنی ’’عمروبن الحارث سے روایت ہے جو ام المومنین جویریہؓ کے حقیقی بھائی اور آنحضرتﷺ کے سالے تھے کہ آنحضرتﷺ نے اپنی موت کے وقت کوئی درہم کوئی دینار، کوئی غلام اور کوئی لونڈی اپنے پیچھے نہیں چھوڑی۔‘‘
الغرض اسلام کی یہ تعلیم جو اس نے غلاموں کے متعلق دی صرف کاغذوں کی زینت نہیں تھی بلکہ یہ تعلیم اسلامی تہذیب و تمدّن اور اسلامی طریقِ معاشرت کا ایک ضروری جزو بن گئی تھی اور افراد و حکومت دونوں پورے شوق کے ساتھ اس پر عمل پیرا تھے۔‘‘
(سیرت خاتم النبیین، صفحہ 394-398)
نبوّت کے تھے جس قدر بھی کمال
وہ سب جمع ہیں آپؐ میں لا محال
صفاتِ جمال اور صفاتِ جلال
ہر ایک رنگ ہے بس عدیمُ المثال
لیا ظُلم کا عَفو سے انتقام
علیک الصلوٰۃ علیک السّلام
٭…٭…٭