تعدّدِ ازدواج (قسط اوّل)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شادیوں کی حکمت ۔ مستشرقین کے بعض اعتراضات اور ان کے جوابات
محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی بہت سی شادیاں قومی اور سیاسی اغراض کے ماتحت تھیں کیونکہ محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) یہ چاہتے تھے کہ اپنے خاص خاص صحابیوں کو شادیوں کے ذریعہ سے اپنی ذات کے ساتھ محبت کے تعلقات میں زیادہ پیوست کر لیں
عقل انسانی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ وہ نعمت ہے جس کے ذریعے انسان کو حق اور راہ ہدایت تک رسائی حاصل ہوتی ہے، البتہ بسا اوقات قومی عصبیت، مذہبی تعصب اور منفی رویہ انسان کی عقل پر پردہ ڈال دیتاہے، ایسے میں سچ اور سچائی خواہ روز روشن کی طرح عیاں ہو اس کا ادراک کرنا ایک امر محال ہوجاتا ہے، مغرب کے نام نہاد محققین نے جب تحقیق کا لبادہ اوڑھ کر اپنے مخصوص اہداف کے حصول کے لیے اسلام اور مسلمانوں سے متعلق ہر چیز کو اپنے بے جا اعتراضات اور سخت تنقید کا نشانہ بنانا شروع کیا، توخاص طور پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ سیرت کو داغدار کرنے اور آپ کے تئیں اہل اسلام کی عقیدتوں کو کمزور کرنے میں اپنی پوری توانائیاں صرف کردیں اور آپؐ کی صاف و شفاف سیرت وکردار پر ایسے بے سرو پا اعتراضات کیے اور آپؐ کی حیات طیبہ پر ایسے اتہامات اور الزامات عائد کیے، جن کا عقل و خرد اور حقائق سے کوئی واسطہ نہیں۔ اسی ضمن میں مستشرقین کی وہ من گھڑت اور افسانوی باتیں ہیں جن میں انہوں نے رسول کریمؐ کی متعدد شادیوں کو اپنی دریدہ دہنی کا نشانہ بنایا۔ یہ اس قدر بے ہودہ ہیں کہ واقعات کے پس منظر پر نظر رکھنے والا کوئی بھی صاحب بصیرت شخص ان میں معترضین کی کج فہمی، بہتان تراشی اور علم وتحقیق کے اصولوں سے روگردانی کو بآسانی دریافت کر سکتا ہے۔
مستشرقین کےاعتراضات
مستشرقین نے کثرتِ ازدواج کی بنا پر نعوذ باللہ من ذالک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوجنسی طور پر حد سے تجاوز کرنے والے انسان کے طور پر پیش کیا ہے۔ ان لوگوں نے آپؐ کے خلاف ایسی زبان استعمال کی ہےجو علمی وتحقیقی معیار سے تو کوسوں دُور ہے ہی بلکہ عام انسانی اخلاقیات بھی اس کے ذکر کی اجازت نہیں دیتے اور اس پر ستم ظریفی یہ کہ ان لوگوں کو سکالر اور محقق کہا جاتاہے۔ ان ہزاروں نام نہاد محققین میں سے چند مستشرقین کی تحریرات بطور نمونہ پیش خدمت ہیں۔
سر ولیم میور آپؐ کے بارے میں لکھتا ہے :
Mahomet was now going on to three-score years: but weakness for the sex seemed only to grow with age and the attractions of his increasing harem were insufficient to prove his passion from wandering beyond its ample limits.
اسی طرح مستشرقہ کیرن آرمسٹرانگ نے اپنی کتاب ’’Muhammad‘‘ میں بڑی عیاری کے ساتھ افسانوی انداز میں یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہؐ کی نظر حضرت زینب بنت جحش پہ پڑی اور اس کے حسن و خوبصورتی کی وجہ سے آپ اس کی محبت میں گرفتار ہوگئے (نعوذ باللہ) پھر جلد ہی حضرت زیدؓ اور حضرت زینبؓ کے درمیان طلاق ہوگئی۔ (Muhammad,P:167)
حضرت ام سلمہؓ سے شادی کے حوالے سے کہ جب آپؐ نے انہیں پیغام بھیجا، تو حضرت ام سلمہؓ نے معذرت کی اور اس کے تین اسباب بیا ن کیے : (1)معمر ہوں (2) یتیم بچوں کی ماں ہوں (3) میرے جذبات میں رقابت ہے۔ اس پر کیرن آرم اسٹرانگ لکھتی ہیں :
…he had a smile of great sweetness, which almost everybody found disarming.
آنحضرت یہ بات سن کر مسکرادیے وہی عظیم میٹھی مسکراہٹ جو ہر کسی کو پسپا کر دیتی تھی۔
تقابلی وتحقیقی جائزہ
حاسدین اسلام نے تعصب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض و عداوت کی وجہ سے آپؐ کی پاکیزہ زندگی اور بے عیب کردار کومتہم کرنے کے لیے تعدد ازدواج کو بہانہ بناکر آپؐ کی معصوم اورعفت مآب ذات پر شہوت پرستی اور خواہش نفسانی کے غلبہ کا بیہودہ الزام لگانے کی کوشش کی ہے۔ آئیے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو اہل عقل و انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
شادی کے لحاظ سے نبی کریمؐ کی زندگی کے چار مرحلے ہیں، (1) ولادت سے 25سال تک کا عرصہ، جس میں آپؐ نے کوئی شادی نہیں کی، (2)25 سال سے 55 سال تک کا عرصہ ہے، جس میں کبھی دو بیویاں آپؐ کے نکاح میں جمع نہیں ہوئیں (3)55 سے 60 سال تک کا مختصر عرصہ ہے، جس میں متعدد شادیاں ہوئیں۔ (4)60سے63سال کی عمر میں آپؐ کی وفات تک کازمانہ جس میں آپؐ نے کوئی نکاح نہیں فرمایا۔
آپؐ کی حیات طیبہ میں تعددازدواج کی مدت بہت مختصر ہے، اسے بنیاد بنا کر آپؐ کے اعلیٰ کردار پر کیچڑ اچھالنا حالات و واقعات کے پس منظر اور تاریخی حقائق سے ناواقفیت کی دلیل ہے، یہاں چند باتیں اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے:
1۔ اگر ایک سے زیادہ شادیاں کرنا شہوت پرستی اور خواہش نفسانی کی وجہ سے ہوتا ہے، تو پھر یہ الزام صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی کیوں ؟ اس کی زد میں تو بہت سی وہ عظیم ہستیاں بھی آتی ہیں، جو صرف اہل اسلام کے نزدیک نہیں ؛بلکہ یہود ونصاریٰ اور دیگر غیر مسلموں کے عقیدے کے مطابق بھی معزز ومکرم اور قابل احترام سمجھی جاتی ہیں، مثلاً :
بائبل کے مطابق حضر ت ابراہیمؑ کی تین بیویاں تھیں، حضرت ہاجرہ، سارہ اور قطورہ حضرت یعقوبؑ کی چار بیویاں تھیں، حضرت لیاہ، زلفہ، راحیل اور بلہاہ۔ حضرت داؤدؑ کی 9؍بیویوں کا نام ملتا ہے اور حضرت سلیمانؑ کی 700بیویوں اور300حرموں کا تذکرہ ملتا ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت سلیمانؑ کی بیویوں کی تعداد60سے100تک بیان ہوئی ہے۔ راجا دشرتھ کی تین بیویاں تھیں، رانی کوشلیہ، رانی سمترا اوررانی کیکئی۔ کرشن جی کی بہت سی گوپیوں کے علاوہ 18بیویاں تھیں۔
اگر تعدد ازدواج کی وجہ سے ان معزز اور تاریخی شخصیتوں پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا تو پھررسول اللہؐ کی شادیوں پر کیوں؟ اگر کوئی پیغمبر اسلام کی شادیوں پر سوال کھڑے کرتا ہے تو ازخود یہی اعتراض ان تمام شخصیات پربھی ہوں گے۔
2۔ پھر یہ بھی انتہائی اہم بات ہے کہ عرب کے اس معاشرے میں بے حیائی و شراب نوشی عام تھی، اس کے باوجود آپ کے جانی دشمن بھی آپ کے کردار کی پاکیزگی کی گواہی دیتے ہیں۔ آپ کے کسی دشمن نے بھی آپ کے پاکیزہ کردار پر انگلی نہیں اٹھائی، ظاہر ہے کہ اگر انہوں نے آپؐ کی ذات میں شہوت پرستی اورنفسانی خواہشات کا ادنیٰ شائبہ بھی محسوس کیا ہوتا، تو وہ ضرور اس پہلو سے آپؐ کی ذات کو طعن و تشنیع اور دشنام طرازی کا نشانہ بناتے ہیں۔
امّ المومنین حضرت خدیجہؓ کا ذکر خیر
اگر آپؐ کی متعدد شادیاں (معاذ اللہ) شہوت اور جنسی جذبے کی تسکین کے لیے ہوتیں، تو جب قریش کے سرداروں نے آپؐ کو عرب کی کسی بھی خوبصورت ترین خاتون سے نکاح کی پیشکش کی، تو آ پؐ نے اسے کیوں ٹھکرادیا ؟ آپؐ نے کسی حسین ترین دوشیزہ یا عرب رؤسا کی شہزادیوں کو اپنی زوجیت کے لیے منتخب کرنے کے بجائے ایک ایسی معمر خاتون کو زوجیت کا شرف بخشا، جو آپؐ سے پندرہ سال بڑی تھیں۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں :
’’بے شک یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سے زیادہ شادیاں کیں اور یہ بات بھی مسلمہ تاریخ کا حصہ ہے کہ علاوہ حضرت خدیجہؓ کے آپؐ کی ساری شادیاں اس زمانہ سے تعلق رکھتی ہیں جسے بڑھاپے کازمانہ کہا جاسکتا ہے مگر بغیر کسی تاریخی شہادت کے بلکہ واضح اور صریح تاریخی شہادت کے خلاف یہ خیال کرنا کہ آپ کی یہ شادیاں نعوذ باللہ جسمانی خواہشات کے جذبہ کے ماتحت تھیں ایک مؤرخ کی شان سے بہت بعید ہے اور ایک شریف انسان کی شان سے بھی بعید تر ہے۔ میورصاحب اس حقیقت سے بے خبر نہیں تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پچیس سال کی عمر میں ایک چالیس سالہ ادھیڑ عمر کی بیوہ عورت سے شادی کی اور پھر پچاس سال کی عمر تک اس رشتہ کواس خوبی اور وفاداری کے ساتھ نباہا کہ جس کی نظیر نہیں ملتی اور اس کے بعد بھی آپؐ نے پچپن سال کی عمر تک عملاً صرف ایک بیوی رکھی اور یہ بیوی حضرت سودہؓ بھی حسنِ اتفاق سے ایک بیوہ اور ادھیڑ عمر کی خاتون تھیں اور اس تمام عرصہ میں جو جذباتِ نفسانی کے ہیجان کا مخصوص زمانہ ہے آپؐ کو کبھی دوسری شادی کا خیال نہیں آیا۔‘‘
( سیرت خاتم النبیین صفحہ553تا554)
ایسی عظیم ہستی پر شہوت پرستی کا الزام انصاف کا خون نہیں تو اور کیا ہے ؟
تعدد ازدواج کا نظریہ اور دیگر ادیان
جیسا کہ پہلے مختصرا ًبیان کر چکی ہوں تعدد ازدواج کا نظریہ صرف اسلام میں موجود نہیں بلکہ دیگر مذاہب میں بھی اسی سراحت سے موجودہے۔
اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں :
’’…تعدّد ازدواج کے متعلق …یہ ذکر بھی بے موقع نہ ہو گا کہ تعدّد ازدواج کی اجازت دینے میں اسلام اکیلا نہیں ہے بلکہ دُنیا کے اکثر مذاہب میں تعدّد ازدواج کی اجازت دی گئی ہے مثلاً موسوی شریعت میں اس کی اجازت ہے۔ اور بنی اسرائیل کے بہت سے انبیاء اس پر عملاً کاربند رہے ہیں۔ ہندوؤں کے مذہب میں تعدّدازدواج کی اجازت ہے۔ اور کئی ہندوبزرگ ایک سے زیادہ بیویاں رکھتے رہے ہیں مثلاً کرشن جی تعدّدِ ازدواج پر عملاً کاربند تھے۔ اور ہندو راجے مہاراجے تو اب تک تعدّد ازدواج پر کار بند ہیں۔ اسی طرح حضرت مسیح ناصری کا بھی کوئی قول تعدّد ازدواج کے خلاف مروی نہیں ہے اور چونکہ شریعت موسوی میں اس کی اجازت تھی اور عملاً بھی حضرت مسیح ناصری کے زمانہ میں تعدّد ازدواج کا رواج تھا، اس لیے ان کی خاموشی سے یہی نتیجہ نکالا جائےگا کہ وہ اسے جائز سمجھتے تھے۔ پس اسلام نے اس میں کوئی جدّت نہیں کی؛ البتہ اسلام نے یہ کیا کہ تعدّدِ ازدواج کی حد بندی کر دی اور اسے ایسے شرائط کے ساتھ مشروط کر دیا کہ افراد اور اقوام کے استثنائی حالات کے لیے ایک مفید اور بابرکت نظام قائم ہو گیا۔‘‘
( سیرت خاتم النبیین صفحہ 445)
بعض مشتشرقین کاآپؐ کے حق میں اعتراف
’’… گو مخالفین کی طرف سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شادیوں پر بہت سخت سخت اعتراض کئے گئے ہیں اور ہر شخص نے اپنی فطرت اور اپنے خیالات کے مطابق آپؐ کے تعدّدِ ازدواج کے مسئلہ کو دیکھا ہے مگر پھر بھی صداقت کبھی کبھی مخالفین کے قلم و زبان پر بھی غالب آگئی ہے اور انہیں اگر کلی طور پر نہیں تو کم از کم جزواً حقیقت کا اعتراف کرنا پڑا ہے۔ چنانچہ مسٹر مارگو لیس بھی جن کی آنکھ عموماً ہر سیدھی بات کو اُلٹا دیکھنے کی عادی ہے اس معاملہ میں حقیقت کے اعتراف پر مجبور ہوئے ہیں۔ وہ اپنی کتاب ’’محمد‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم ) کی بہت سی شادیاں جو خدیجہؓ کے بعد وقوع میں آئیں بیشتر یورپین مصنفین کی نظر میں نفسانی خواہشات پر مبنی قرار دی گئی ہیں لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ زیادہ تر اس جذبہ پر مبنی نہیں تھیں۔ محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی بہت سی شادیاں قومی اور سیاسی اغراض کے ماتحت تھیں کیونکہ محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) یہ چاہتے تھے کہ اپنے خاص خاص صحابیوں کو شادیوں کے ذریعہ سے اپنی ذات کے ساتھ محبت کے تعلقات میں زیادہ پیوست کر لیں۔ ابو بکر و عمر کی لڑکیوں کی شادیاں یقینا ًاسی خیال کے ماتحت کی گئی تھیں۔ اسی طرح سربرآوردہ دشمنوں اور مفتوح رئیسوں کی لڑکیوں کے ساتھ بھی محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی شادیاں سیاسی اغراض کے ماتحت وقوع میں آئی تھیں … باقی شادیاں اس نیت سے تھیں کہ تا آپ کو اولاد نرینہ حاصل ہو جاوے جس کی آپؐ کو بہت آرزو رہتی تھی۔‘‘
یہ اس شخص کی رائے ہے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سوانح نگاروں میں عناد اور تعصب کے لحاظ سے غالباً صفِ اوّل میں ہے اور گو مارگولیس صاحب کی یہ رائے غلطی سے بالکل پاک نہیں ہے۔ مگر اس سے یہ ثبوت ضرور ملتا ہے کہ صداقت کس طرح ایک عنید دل کو بھی مغلوب کر سکتی ہے۔‘‘
( سیرت خاتم النبیین صفحہ 445تا446)
اسی طرح راہبہ پروفیسر کیرن آرمسٹرانگ جو کہیں کہیں معترض بھی نظر آتی ہیں وہ بھی اس سچائی کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں اور تعدّد ازدواج پراہل مغرب کا جنس پرستی کا اعتراض ردّ کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’محمد‘‘ میں لکھا:
But, seen in context, polygamy was not designed to improved the sex life of the boys. It was a piece of social legislation. The problem of orphans had exercised Muhammad since the beginning of his career and it had been exacerbated by the deaths at Uhud. The men who had died had left not only widows but daughters, sisters and other relatives who needed a new protector. Their new guardians might not be scrupulous about administering the property of these orphans: some might even keep these women unmarried so that they could hold on to their property. It was not unusual for a man to marry his women wards as a way of absorbing their property into his own estate
’’اگرتعدّد ازدواج کو اس کے پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ ہرگز لڑکوں کی تسکین جنس کے سامان کے طور پر ایجادنہیں کی گئی تھی۔ بلکہ یہ معاشرتی قانون سازی کا ایک حصّہ تھا۔ یتیم لڑکیوں کا مسئلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آغاز سے ہی درپیش تھا لیکن جنگ احد میں کئی مسلمانوں کی شہادت نے اس میں اضافہ کردیا تھا۔ شہید ہونے والوں نے محض بیوگان ہی پیچھے نہیں چھوڑیں بلکہ بیٹیاں بہنیں اور دیگر رشتہ دار بھی تھے جو نئے سہاروں کے متقاضی تھے۔ کیونکہ ان کے نئے نگران ان یتامیٰ کی جائدادوں کی انتظام و انصرام کے قابل نہ تھے۔ بعض جائداد روکنے کی خاطران لڑکیوں کی شادی اس لئے نہ کرتے تھے اورایک مرد کے لئے اپنے زیر کفالت عورتوں سے شادی کرنا کوئی غیرمعمولی بات نہ تھی جس کے ذریعہ وہ ان کی جائداد بھی اپنے قبضہ میں کرلیں۔‘‘
(ماخوذ ازاسوۂ انسان کامل صفحہ458تا459)
تعدد ازدواج پہ چند اہم نوٹ
امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تعدد ازدواج کے بارے میں فرماتے ہیں کہ
’’خدا کے قانون کو اس کے منشاء کے برخلاف ہرگز نہ برتنا چاہئے اور نہ اس سے ایسا فائدہ اٹھانا چاہئے جس سے وہ صرف نفسانی جذبات کی ایک سپر بن جاوے۔ یاد رکھو کہ ایسا کرنا معصیت ہے۔ خدا تعالیٰ بار بار فرماتا ہے کہ شہوت کا تم پر غلبہ نہ ہو بلکہ تمہاری غرض ہر ایک امر میں تقویٰ ہو۔ اگر شریعت کو سپر بنا کر شہوات کی اتباع کے لئے بیویاں کی جاویں گی تو سوائے اس کے اَور کیا نتیجہ ہو گا کہ دوسری قومیں اعتراض کریں کہ مسلمانوں کو بیویاں کرنے کے سوا اَور کوئی کام ہی نہیں۔ زنا کا نام ہی گناہ نہیں بلکہ شہوات کا کھلے طور پر دل میں پڑ جانا گناہ ہے۔ دنیاوی تمتّع کا حصہ انسانی زندگی میں بہت ہی کم ہونا چاہئے، تاکہ
فَلْیَضْحَکُوْا قَلِیْلًا وَّ لْیَبْکُوْا کَثِیْرًا۔ (التوبہ: 82)
یعنی ہنسو تھوڑا اور روؤ بہت کا مصداق بنو۔ لیکن جس شخص کی دنیاوی تمتّع کثرت سے ہیں اور وہ رات دن بیویوں میں مصروف ہے اس کو رقّت اور رونا کب نصیب ہو گا۔ اکثر لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ ایک خیال کی تائید اور اتباع میں تمام سامان کرتے ہیں اور اس طرح سے خدا تعالیٰ کے اصل منشاء سے دُور جا پڑتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے اگرچہ بعض اشیاء جائز تو کر دی ہیں مگر اس سے یہ مطلب نہیں ہے کہ عمر ہی اس میں بسر کی جاوے۔ خدا تعالیٰ تو اپنے بندوں کی صفت میں فرماتا ہے
یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّھِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا (الفرقان:65)
کہ وہ اپنے رب کے لئے تمام تمام رات سجدہ اور قیام میں گزارتے ہیں۔ اب دیکھو رات دن بیویوں میں غرق رہنے والا خدا تعالیٰ کے منشاء کے موافق رات کیسے عبادت میں کاٹ سکتا ہے؟ وہ بیویاں کیا کرتا ہے گویا خدا کے لئے شریک پیدا کرتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نو بیویاں تھیں اور باوجود ان کے آپؐ ساری ساری رات خدا کی عبادت میں گزارتے تھے…
خوب یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کا اصل منشاء یہ ہے کہ تم پر شہوات غالب نہ آویں اور تقویٰ کی تکمیل کے لئے اگر ضرورت حقّہ پیش آوے تو اور بیوی کر لو۔ …
پس جاننا چاہئے کہ جو شخص شہوات کی اتباع سے زیادہ بیویاں کرتا ہے وہ مغز اسلام سے دُور رہتا ہے۔ ہر ایک دن جو چڑھتا ہے اور رات جو آتی ہے اگر وہ تلخی سے زندگی بسر نہیں کرتا اور روتا کم یا بالکل ہی نہیں روتا اور ہنستا زیادہ ہے تو یاد رہے کہ وہ ہلاکت کا نشانہ ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد 4صفحہ50تا51، ایڈیشن 1988ء)
حضرت مصلح موعودؓ تعدد ازدواج کے ضمن میں فرماتے ہیں :
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اُن کی کئی بیویاں تھیں اور یہ کہ آپ کا یہ فعل نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ عیاشی پر مبنی تھا مگر جب ہم اس تعلق کو دیکھتے ہیں جو آپؐ کی بیویوں کو آپ کے ساتھ تھا تو ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ آپؐ کا تعلق ایسا پاکیزہ، ایسا بے لوث اور ایسا روحانی تھا کہ کسی ایک بیوی والے مرد کا تعلق بھی اپنی بیوی سے ایسا نہیں ہوتا۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق اپنی بیویوں سے عیاشی کا ہوتا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلنا چاہئے تھا کہ آپ کی بیویوں کے دل کسی روحانی جذبہ سے متأثر نہ ہوتے۔ مگر آپ کی بیویوں کے دل میں آپ کی جو محبت تھی اور آپ سے جو نیک اثر انہوں نے لیا تھا وہ بہت سے ایسے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے جو آپؐ کی وفات کے بعد آپؐ کی بیویوں کے متعلق تاریخ سے ثابت ہے۔ مثلاً یہی واقعہ کتنا چھوٹا سا تھا کہ میمونہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلی دفعہ حرم سے باہر ایک خیمہ میں ملیں۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُن سے تعلق کوئی جسمانی تعلق ہوتا، اور اگر آپ بعض بیویوں کو بعض پر ترجیح دینے والے ہوتے تو میمونہؓ اِس واقعہ کو اپنی زندگی کا کوئی اچھا واقعہ نہ سمجھتیں بلکہ کوشش کرتیں کہ یہ واقعہ اُن کی یاد سے بھول جائے۔ لیکن میمونہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پچاس سال زندہ رہیں اور 80سال کی ہو کر فوت ہوئیں۔ مگر اس برکت والے تعلق کو وہ ساری عمر بھلا نہ سکیں۔ 70سال کی عمر میں جب جوانی کے جذبات سب سرد ہو چکے ہوتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے پچاس سال بعد جو عرصہ ایک مستقل عمر کہلانے کا مستحق ہے میمونہؓ فوت ہوئیں اور اُس وقت اُنہوں نے اپنے اِردگرد کے لوگوں سے درخواست کی کہ جب میں مر جائوں تو مکہ کے باہر ایک منزل کے فاصلہ پر اس جگہ جس جگہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خیمہ تھا اور جس جگہ پہلی دفعہ میں آپ کی خدمت میں پیش کی گئی تھی میری قبر بنائی جائے اور اُس میں مجھے دفن کیا جائے۔ دنیا میں سچے نو ادر بھی ہوتے ہیں اور قصے کہانیاں بھی مگر سچے نوادر میں سے بھی اور قصے کہانیوں میں سے بھی کیا کوئی واقعہ اس گہری محبت سے زیادہ پُر تأثیر پیش کیا جا سکتا ہے؟
(دیباچہ تفسیر القرآن صفحہ 205)
فرمایا: ’’بعض ایک سے زیادہ شادیوں کو ظلم قرار دیتے ہیں مگر یہ ظلم نہیں کیونکہ ایسی ضرورتیں پیش آتی ہیں جب شادی نہ کرنا ظلم ہو جاتا ہے۔ ایک عورت جو پاگل ہو جائے، کوڑھی ہو جائے، یا اس کی اولاد نہ ہو اس وقت اس کا خاوند کیا کرے؟ اگر وہ دوسری شادی نہیں کرے گا اور کسی بد کاری وغیرہ میں مبتلا ہو گا تو یہ اس کا اپنی جان اور سوسائٹی پر ظلم ہو گا اور اگر وہ کوڑھی ہے تو اپنی جان پر ظلم ہو گا اگر اولاد نہیں ہوئی تو قوم پر ظلم ہو گا اور اگر وہ پہلی عورت کو جدا کر دےتو یہ حد درجہ کی بےحیائی اور بے وفائی ہو گی کہ جب تک وہ تندرست رہی یہ اس کے ساتھ رہا اور جب وہ اس کی مدد کی سب سے زیادہ محتاج تھی اس نے چھوڑ دیا۔ غرض بہت سے مواقع ایسے پیش آتے ہیں کہ دوسری شادی جائز ہی نہیں کہ یہ بہت کمزور لفظ ہے بلکہ ضروری نہیں بلکہ ایک قومی فرض ہو جاتا ہے۔
میاں بیوی کے تعلقات کے بعد اولاد پیدا ہوتی ہے جو تمدن کی گویا دوسری اینٹ ہیں اولاد کے متعلق اسلام نے یہ حکم دیا ہے کہ ان کی عمدگی سے پرورش کی جائے … پھر فرمایا کہ بچوں کو علم اور اخلاق سکھائے جائیں اور بچپن سے ان کی تربیت کی جائے تاکہ وہ بڑے ہو کر مفید بن سکیں۔
(احمدیت یعنی حقیقی اسلام، انوار العلوم جلد8صفحہ 276)
فرمایا:اب رہا کثرت ازدواج کا مسئلہ اس کی طرف ابھی تک مغرب نے سنجیدگی سے توجہ نہیں کی لیکن آخر کو ایسا کرنا پڑے گا کیونکہ قدرت کے قوانین کا مقابلہ دیر تک نہیں کیا جا سکتا لوگ کہتے ہیں کہ یہ ایک عیاشی کا ذریعہ ہے لیکن اگر اسلام کے احکام پر غور کیا جائے تو ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ عیاشی نہیں بلکہ قربانی ہے اور قربانی بھی عظیم الشان قربانی۔ عیاشی کسے کہتے ہیں ؟ اسی کو کہ انسان اپنے دل کی خواہش کو پورا کرے مگر اسلامی احکام کے ماتحت ایک سے زیادہ شادیوں میں دل کی خواہش کس طرح پوری ہو سکتی ہے؟ اسلام حکم دیتا ہے کہ ایک بیوی خواہ کتنی بھی پیاری ہو اس کے ساتھ ظاہری معاملہ میں فرق نہ کرو۔ تمہارا دل اسے خواہ اچھا لباس پہنانے کو چاہتا ہو مگر تم اس کو وہ لباس نہیں پہنا سکتے جب تک دوسری بیوی کو بھی ویسا ہی لباس نہ پہناؤ۔ تمہارا دل خواہ اسے عمدہ کھانا کھلانے یا اس کے پاس نوکر رکھ دینے کو چاہتا ہے مگر اسلام کہتا ہے کہ تم ہر گز ایسا نہیں کر سکتے جب تک ایسا ہی سلوک دوسری بیوی سے نہ کرو۔ تمہارا دل خواہ ایک بیوی کے گھر کتنا ہی رہنے کو چاہتا ہو مگر اسلام کہتا ہے کہ تم ہر گز ایسا نہیں کر سکتے جب تک اسی قدر تم دوسری بیوی کے پاس نہ رہو یعنی برابر کی باری مقرر کرو۔ پھر تمہارا دل ایک بیوی سے خواہ کس قدر ہی اختلاط کو چاہتا ہو۔ اسلام کہتا ہے بے شک تم اپنے دل کی خواہش کو پورا کرو مگر اسی طرح تمہیں اپنی دوسری بیوی کے پاس جا کر بیٹھنا ہو گا۔ غرض سوائے دل کے تعلق کے جو کسی کو معلوم نہیں ہو سکتا سلوک، معاملہ، امداد، خیر خواہی کسی امر میں فرق کرنے کی اجازت نہیں کیا یہ زندگی عیاشی کہلا سکتی ہے یا یہ قوم اور ملک کے لئے یا ان فوائد کے لئے جن کے لئے دوسری شادی کی جاتی ہے ایک قربانی ہے اور قربانی بھی کتنی بڑی ؟
(احمدیت یعنی حقیقی اسلام، انوار العلوم جلد 8صفحہ 27)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں :
’’…اسلام نے تعدّد ازدواج کی بعض خاص وجوہات بھی بیان کی ہیں وہ تین ہیں۔ اوّلؔ حفاظتِ یتامیٰ، دوم ؔ انتظام بیوگان، سوم تکثیرِ نسل…ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ یہ ایک نہایت ہی بابرکت انتظام ہے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے دنیا میں قائم کیا ہے اور اس میں بنی نوع انسان کے بڑے سے بڑے حصہ کی بڑی سے بڑی بھلائی مدِّ نظر ہے۔ …خلاصہ کلام یہ کہ اسلام میں تعدّد ازدواج کا انتظام ایک استثنائی انتظام ہے جو انسانوں کی خاص ضروریات کو مدِّ نظر رکھ کر جاری کیا گیا ہے اور یہ ایک قربانی ہے جو مرد اور عورت دونوں کو اپنے اخلاق اور دین اور خاندان اور قوم اور ملک کے لیے خاص حالات میں کرنی پڑتی ہے …پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ تعدّد از دواج کی جائز ضرورت کے پیدا ہونے پر بھی اسلام نے تعدّدِ ازدواج کو لازمی نہیں قرار دیا…اس موقع پر یہ ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اسلام سے پہلے عربوں میں بلکہ دنیا کی کسی قوم میں بھی تعدِّد ازدواج کی کوئی حد بندی نہیں تھی اور ہر شخص جتنی بیویاں بھی چاہتا تھا رکھ سکتا تھا۔ مگر اسلام نے علاوہ دوسری شرائط عائد کرنے کے تعداد کے لحاظ سے بھی اسے زیادہ سے زیادہ چار تک محدود کر دیا؛ چنانچہ تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ جن نو مسلموں کی چار سے زیادہ بیویاں تھیں انہیں یہ حکم دیا جاتا تھا کہ وہ باقیوں کو طلاق دیدیں۔ مثلاً غیلان بن سلمہ سقفی جب مسلمان ہوئے تو ان کی دس بیویاں تھیں۔ جن میں سے چھ کو حکماً طلاق دلوادی گئی۔‘‘
( سیرت خاتم النبیین صفحہ 435تا441)
٭…٭…(جاری ہے)…٭…٭