آنحضرت ﷺ کے بعض فرمودات اور آج کی جدید سائنس
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ
وبائی بیماریوں سے بچاؤ ، کلونجی ، قیلولہ، نیند کی کمی، عیادت مریضان ، عجوہ کھجور سے متعلق آنحضورؐ کے مبارک ارشادات جدید سائنسی تحقیقات کی روشنی میں
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتا ہے:
لَقَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَا عَنِتُّمۡ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ
(التوبہ:128)
یقیناً تمہارے پاس تمہی میں سے ایک رسول آیا۔ اسے بہت سخت شاق گزرتا ہے جو تم تکلیف اٹھاتے ہو (اور) وہ تم پر (بھلائی چاہتے ہوئے) حریص (رہتا) ہے۔ مومنوں کے لیے بے حد مہربان (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔
اسی طرح ایک اور جگہ پر اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتا ہے کہ
وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ۔
(الانبیاء:108)
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام دنیا کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا ایک نمایاں پہلو مخلوق خدا کی بہبود اور خدمت ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایاکہ ’’دین تو خیر خواہی کا نام ہے۔ ‘‘اسی طرح ایک موقع پر فرمایا :’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے تمام انسان امن میں ہوں۔ ‘‘
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ پوچھا کہ کون لوگ اللہ تعالیٰ کو سب سے پیارے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا۔ اللہ کو سب سے پیارے وہ لوگ ہیں جو دوسروں کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچاتے ہیں۔
(بحوالہ اسوۂ انسان کامل صفحہ204)
بلا شبہ دنیا میں سب سے زیادہ دوسروں کو فائدہ پہنچانے والی ہستی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاوجود مبارک تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمہ تن مخلوق خدا کی بہتری کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔ا سی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال میں ہمیں ایسی کئی نصیحتیں ملتی ہیں جن کا بظاہر براہ راست دین سےتو کوئی تعلق معلوم نہیں ہوتا مگر وہ عامۃ الناس کے فائدے کے لیے ہیں۔اور جن کی افادیت آج کل کی سائنسی تحقیق سے ثابت ہوتی ہے۔ اس کے باوجود یہ کہنا درست نہ ہو گا کہ احادیث کا مقصد سائنسی تحقیقات یا ایجادات کو بیان کرنا ہے، کیونکہ انبیاء کی بعثت کا بنیادی مقصد ایک روحانی انقلاب برپا کرنا ہوتا ہےتا انسان اپنی زندگی کے اصل مقصد کو پہچانتے ہوئے خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق پیدا کرے اور ایک مثالی معاشرہ دنیا میں قائم کرے۔اسی لیے احادیث بھی زیادہ تر روحانی، مذہبی اور معاشرتی معاملات سے متعلق ہی ہیں یہاں تک کہ ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کاشت کاروں کو یہ فرمایا کہ تم اپنے دنیا کے معاملات مجھ سے بہتر جانتے ہو کیونکہ میں تو دین کی تعلیم دینے آیا ہوں۔ (مسلم، ابن ماجہ)
چونکہ انبیاء خدا تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوتے ہیں اس لیے علیم اور خبیر خدا ان کی سچائی ثابت کرنے کے لیے ان کو غیب کی باتیں بطور نشان بتاتا ہے۔چنانچہ بعض احادیث میں ہمیں ایسے امور بھی ملتے ہیں جن کی حقیقت ہمیں آج کل کی جدید تحقیقات سے معلوم ہوتی ہے۔اس مختصر سی تمہید کے بعد اصل مضمون کی طرف آتے ہیں۔
امسال جب کورونا وائرس کی وبا دنیا میں پھیلنا شروع ہوئی تو مختلف ممالک میں اس سے بچاؤکے طریق پر بحث ہوئی۔ اکثر سائنسدانوں اور ماہرین نے یہی مشورہ دیا کہ بیماری کی روک تھام کے لیے فوراً لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندی لگانی چاہیے اور Lockdown لگا دینا چاہیے تاکہ انسان سے انسان تک اس بیماری کے منتقل ہونے کے امکانات کا سد باب کیا جا سکے۔ یہ بعینہٖ وہی تعلیم ہے جو آج سے 1400سال سے زائد عرصہ پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی تھی۔
چنانچہ تاریخ میں آتا ہے کہ ایک موقع پر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ شام کی طرف روانہ ہوئے تو منزل کے قریب پہنچنے پر آپ کو خبر ملی کہ وہاں طاعون کی وبا پھیل گئی ہے۔ آپ نے مختلف صحابہؓ سے مشورہ کیا تو حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان کی کہ اگر کسی جگہ وبا پھیل جائے تو کوئی اُس جگہ نہ جائے اور وبا زدہ علاقے کے لوگ دوسری جگہوں کی طرف رخ نہ کریں۔ یہ ایک ایسے زمانے کی بات ہے جبکہ وائرس اور بیکٹیریا وغیرہ کی کیفیت سے انسان لا علم تھے اور نہ ہی وبا کے پھیلنے اور انسانوں میں ایک دوسرے سے منتقل ہونے کی سائنسی باریکیوں پر کسی کو واقفیت تھی۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بظاہر چھوٹی سی نصیحت جدید طب کی روشنی میں بیماریوں کےروکنے کا نہایت کارآمد طریق ہے اور پوری دنیا میں آج کل اس پرسختی سے عمل کروایا جارہاہے۔چنانچہ جن ممالک نے موجودہ وبا کے دوران بروقت اس تدبیر پر عمل کرتے ہوئے lockdown اور مریضوں کی Isolationکو یقینی بنایا وہاں وبا کا پھیلاؤ بہت حد تک رک گیا جبکہ ایسے ممالک جہاں اس طرف خاص توجہ نہیں دی گئی وہاں پر نہ صرف بڑے پیمانے پر بیماری پھیلی بلکہ بھاری جانی نقصان بھی انہوں نے اٹھایا۔ مثلاًاس بیماری کے ابتدائی ایام میں امریکہ اور برازیل دو ایسے ممالک تھے جہاں دانستہ طور پر وبا کے پھیلاؤ کو نظر انداز کیا گیا اور Lockdown کی تدبیر پر عمل کرنے میں تردد سے کام لیا گیا۔ اب یہ دونوں ممالک وبا کی سخت گرفت میں ہیں۔صرف امریکہ میں ہی اب تک کم از کم 95 لاکھ افراد اس وائرس کا شکار ہوئے ہیں جبکہ اڑھائی لاکھ کے قریب اموات واقع ہو چکی ہیں۔اسی طرح برازیل میں 55 لاکھ سے زیادہ لوگ بیمار ہوئے اور ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد افراد اس بیماری میں اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نصیحت پر عمل کیا جاتا تو اس قدربھاری جانی نقصان سے بہت حد تک بچا جا سکتا تھا۔
احادیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا کہ کلونجی استعمال کرو! کیونکہ اس میں موت کے علاوہ ہر بیماری کی شفا ہے۔ کلونجی کی افادیت پرانے حکیموں نے تو بیان کی ہے مگر اس پر ایک دلچسپ اور مفصل تحقیقی جائزہ کچھ عرصہ قبل جرمنی کی فرائے برگ یونیورسٹی کی پروفیسر Sigrun Shrubasik-Hausmannنے ایک مقالہ میں پیش کیا ہے۔ اس تحقیق کے مطابق کلونجی جسے لاطینی میں Nigella Sativumکہا جاتاہے مختلف بیماریوں کے علاج میں فائدہ مند ہے۔مثلاً تجربات کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ کلونجی میں موجود Thymoquinon سوزش کو کم کرنے میں ممدہے۔اسی طرح Thymoquinonکینسر کے cellsکو بڑھنے سے روکنے میں مدد دیتی ہے۔ کلونجی انسان کے مدافعتی نظام کو مضبوط کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور ذیابیطس کی روک تھام میں بھی مؤثر ہے اور اس سےجسم کے اندر insulin کی پیداوار بڑھتی ہے۔ نیز یہ اپنے اندر جراثیم کش صلاحیت بھی رکھتی ہے جس سے بعض جراثیم جیسے Salmonella یا Coli کے بیکٹیریا کوروکا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ایک تجربہ میں کلونجی نے Hepatitis -C کے وائرس کو جسم میں پھیلنے سے روکنے میں مدد کی۔ کلونجی کا تیل Arthritisکی تکلیف کو دور کرنے میں مدد دیتا ہے۔ ایک تجربہ کے دوران یہ بات بھی سامنےآئی کہ کلونجی سے بلڈ پریشر کم ہوتا ہے جبکہ دمہ کی بیماری کے اثرات میں بھی نمایاں کمی ہوتی ہے۔ غرض کلونجی کے چھوٹے سے دانوں میں اللہ تعالیٰ نے مختلف نوع کی بیماریوں کی روک تھام اور شفا کا نظام رکھا ہوا ہے۔ 2018ء میں کی گئی یہ تحقیق ان فوائد کو ثابت کر رہی ہے۔ جبکہ کلونجی کے طبی فوائد پر مزید تحقیقات ابھی جاری ہیں۔ 1400 سال سے زائد عرصہ پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کی سچائی آج ثابت ہو رہی ہے۔
(Prof. Sr. Sigrun Chrusbasik-Hausmann: Schwarzkümmel, Freiburg 2018)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرما یا کہ
قِیْلُوْا فَاِنَّ الشَّیْطَانَ لَا یَقِیْلُ (طبرانی)
یعنی قیلولہ کیا کرو کیونکہ شیاطین قیلولہ نہیں کرتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قیلولہ کیا کرتے تھے بلکہ قرآن کریم میں بھی قیلولہ کا ذکر آتا ہے۔ قیلولہ کے لیے آج کل power napکی اصطلاح رائج ہے۔ یعنی مختصر وقت کے لیے ایک گہری نیند سونا۔ قیلولہ کرنا اسلامی دنیا میں بلکہ یورپ کے بھی نسبتاً گرم ممالک مثلاً یونان، اٹلی یا سپین وغیرہ میں ایک عام رواج ہے اور ظہر کے وقت لوگ عموماً ان ممالک میں کچھ عرصہ کے لیے سستانے کے لیے سو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس اب تک اکثر شمالی یورپی ممالک میں قیلولہ کا ایسا تصور نہ صرف پایا ہی نہیں جاتا بلکہ اس کو روزمرہ کی انتہائی مصروف طرز زندگی میں و قت کا ضیاع سمجھا جاتا رہا ہے۔ دنیا اور دولت کی دوڑ میں آج کا انسان نیند عمداً نظر انداز کرنے کے لیے مختلف energy drinks اور ادویات کا استعمال کرتا ہے تاکہ نیند کا غلبہ نہ ہو اور وہ مزید وقت دنیا کے کمانے میں صرف کر سکے۔اس قسم کے مشروبا ت و ادویات کا بکثرت استعمال کچھ عرصہ بعد صحت پر منفی اثرات دکھانا شروع کر دیتا ہے اور انسانی جسم نیند کے فقدان کی وجہ سے مختلف عوارض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
نیند کے متعلق قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَ جَعَلۡنَا نَوۡمَکُمۡ سُبَاتًا(النبا :10)
یعنی تمہاری نیند کو ہم نے موجب تسکین بنایا ہے۔ اس لیے نیند کی انسانی جسم او رروح کے ترو تازہ رکھنے کے لیے خاص اہمیت ہے اور اس کو نظر انداز کرنے سے صحت پر برا اثر پڑتا ہے۔ سائنس اب اس بات پر متفق ہے کہ دن کے بارہ سے تین بجے کے دوران انسان میں توانائی کی سطح سب سے کم ہوتی ہے۔ اس وقت زیادہ دماغی کام اور توجہ برقرار رکھنا انسان کے لیے محال ہو جاتا ہے۔ اور اسی وقت اگر کوئی پندرہ سے بیس منٹ کے لیے قیلولہ کر لے تو اس کی توانائی کی سطح پھر سے بڑھ جاتی ہے اور وہ شام تک زیادہ اچھے طریق سے کام کرنے کی صلاحیت پیدا کر لیتا ہے۔
چنانچہ امریکی فضائی ادارے ’ناسا‘ نے یہ تجربے کے ذریعہ معلوم کیا ہے کہ قیلولہ کرنے والے پائلٹس اپنے دوسرے ہم منصبوں کی نسبت زیادہ توجہ برقرا رکھنے کے قابل تھے۔
اسی طرح Harvard School of Public Healthنے ایک تحقیق کے دوران ثابت کیا کہ باقاعدگی سے قیلولہ کرنے والے افراد میں دل کے عوارض کے امکان 37 فیصد کم ہوجاتے ہیں۔
(Androniki Naska, Eleni Oikonomour, Antonia Trichopoulou: Seista in Healthy Adults and Coronary Mortality in the General Population in: Arch Intern Med. 2007, 167(3) p. 296 to 301)
اسی طرح فرانس میں پیرس کی یونیورسٹی کی ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ اگر نیند کا فقدان زیادہ ہو تو norepinephrineنامیhormoneاور interleukin-6 proteinکی سطح بہت کم ہو جاتی ہے جبکہ یہ دونوں انسانی قوت مدافعت اور stress levelکوکم کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ لیکن وہی افراد جب رات میں نیند کی کمی کے باوجود اگر دن کے وقت 30منٹ کا قیلولہ کر لیں تو norepinephrine اور interleukin-6اسی مقدار میں جسم میں پیدا ہو جاتا ہے جیسے کہ رات کو نیند پوری کرنے سے ہو۔
( The Journal of Clinical Endocrinology & Metabolism, 2015.)
اس طرح قیلولہ سے رات کی نیندکی کمی پوری ہو جاتی ہے۔ اسلام میں رات کی عبادت پر بہت زور دیا گیا ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے
وَ مِنَ الَّیۡلِ فَتَہَجَّدۡ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ ٭ۖ عَسٰۤی اَنۡ یَّبۡعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحۡمُوۡدًا (بنی اسرائیل:80)
اور رات کے ایک حصہ میں بھی اس (قرآن) کے ساتھ تہجّد پڑھا کر۔ یہ تیرے لیے نفل کے طور پر ہوگا۔ قریب ہے کہ تیرا ربّ تجھے مقامِ محمود پر فائز کردے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا۔ نِّصۡفَہٗۤ اَوِ انۡقُصۡ مِنۡہُ قَلِیۡلًا۔ اَوۡ زِدۡ عَلَیۡہِ وَ رَتِّلِ الۡقُرۡاٰنَ تَرۡتِیۡلًا۔
(المزمل3تا5)
یعنی رات کو قیام کیا کر مگر تھوڑا۔ اس کا نصف یا اس میں سے کچھ تھوڑا سا کم کر دے یا اس پر کچھ زیادہ کر دے اور قرآن خوب نکھار کر پڑھا کر۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رات کا ایک بڑا حصہ عبادت میں ہی گزار اکرتے تھے۔ اور صوفیاء نے اس بات پر زور دیا ہے کہ روحانی ترقی کے لیے کم کھانا، کم بولنا اور کم سونا ممد ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس سے رات کی نیند پر اثر پڑتا ہے مگر دن کے وقت قیلولہ کر کے اس کمی کو دور کیا جا سکتا ہے جیسا کہ مختلف تحقیقات سے اب ثابت ہو چکا ہے۔ انہی تحقیقات کی روشنی میں اب دنیا کی بعض مشہور کمپنیاں اور ادارے اپنے ملازمین کے لیے قیلولہ کرنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں جیسا کہ Google Pricewater Coopers یا Cisco وغیرہ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ
مَنْ عَادَ مَرِیْضًا لَمْ یَزَلْ فِیْ خَرفَۃِ الجَنَّۃِ حَتّٰی یَرْجِعَ
(مسلم)
یعنی جو کسی مریض کی عیادت کو جاتا ہے وہ جنت کے باغ میں رہتا ہے یہاں تک کہ وہ لوٹ جائے۔
نیز فرمایا:
اِذَا حَضَرْتُمُ الْمَرِیْضَ اَوِ الْمَیِّتَ فَقُوْلُوْا خَیْرًا
(مسلم کتاب الجنائز)
یعنی جب تم کسی مریض یا میت کے پاس جاؤتو اچھی بات کرو۔
عام طور پر مریض کی عیادت کو ایک معاشرتی فرض کے طور پر دیکھا جا تا ہے مگر اس کے نفسیاتی اور طبی فوائد کا کم لوگوں کو ہی علم ہے۔ جرمنی جیسے یورپین ملک میں اس قسم کی عیادت کو welfare careکے زمرہ میں شمار کیا جاتا ہے یعنی بعض مخصوص لوگ مریضوں کی عیادت اور اس مشکل وقت میں ان کا حوصلہ بڑھانے کے لیے متعین ہیں اور عوام کا ایک طبقہ یہی سمجھتا ہے کہ یہ کام انہیں لوگوں کے لیے مخصوص ہے جبکہ باقی سب اس ذمہ داری سے کلیۃًآزاد ہیں۔ اس کے برعکس اسلام میں ہر مسلمان کو اس کی تلقین کی گئی ہے۔ مریضوں کی عیادت اور ان کو اچھی بات کہہ کر ان کی ہمت بڑھانا صحت یابی کے عمل میں اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ دوا سے علاج کرنا۔ اس سلسلہ میں 2016ء میں جرمنی کے ایک جریدے میں ایک دلچسپ تحقیق شائع ہوئی جس نےثابت کیا گیاہے کہ امراض قلب کے مریضوں کی تیمارداری ان کو روبہ صحت کرنے میں مدد گارثابت ہوئی ہے۔ اس تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ 94 فیصد مریضوں نے اس بات کا اقرار کیا کہ بیمارپرسی سے ان کی صحت یابی کے عمل میں بہتری ہوئی، جبکہ89 فیصد نے کہا کہ اس سے ان کی مستقبل کے لیے امید بڑھی۔ اسی طرح 78 فیصد نے بتایا کہ اس سے ان کے خوف میں واضح کمی واقع ہوئی۔
(Jörg Kittel, Marthin Karoff: „Die Seelsorge hat mir Kraft gegeben, meine Krankheit besser zu vertragen“. Witten/Herdecke December 2015.)
غرض تیمارداری نفسیات اور صحت پر اچھا اور مثبت اثر ڈالتی ہے۔ اور یہی وہ تعلیم ہے جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار تاکید کی ہے بلکہ یہاں تک فرمایا کہ
مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَعُوْدُ مُسْلِمًا غَدْوَۃً اِلَّا صَلَّی عَلَیْہِ سَبْعُوْنَ اَلْفَ مَلَکٍ حَتَّی یُمْسِیَ، وَ اِنْ عَادَہ عَشِیَّۃً اِلَّا صَلَّی عَلَیْہِ سَبْعُوْنَ الْفَ مَلَکٍ حَتَّی یُصْبِحَ وَ کَانَ لَہٗ خَرِیْفٌ فِیْ الْجَنَّۃِ۔
(ریاض الصالحین بحوالہ ترمذی حدیث 899)
یعنی اگر کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کی عیادت کے لیے صبح جاتا ہے تو ستّر ہزار فرشتے اس کےلیے دعا کرتے ہیں یہاں تک کہ شام ہو جاتی ہے اور اگر وہ شام کو عیادت کو جائے تو ستّر ہزار فرشتے اس کے لیے دعا کرتے ہیں یہاں تک کہ صبح طلوع ہو جاتی ہے اور اس کے لیے جنت کے پھلوں میں حصہ ہو گا۔
رمضان المبارک میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عموماً کھجور سے افطار کیا کرتے تھے اور آپ کی ہی سنت پر عمل کرتے ہوئے دنیا بھر کے مسلمان روزہ کھجور کھا کر ہی کھولا کرتے ہیں۔ اس کی حکمت جدید سائنس کی روشنی میں واضح ہوتی ہے۔ روزہ کے دوران جب انسان سارا دن کھانے پینے سے اجتناب کرتا ہے تو اس سے اس کے جسم پر اثر پڑتا ہے مثلاً شوگر یا توانائی کی سطح کم ہو جاتی ہے۔ کھجور ایک ایسا پھل ہے جس میں وہ تمام غذائی اجزا موجود ہیں جو اس قسم کی کمی کو فوراً پورا کر سکیں۔ کھجور میں ویٹامن Aاور B کے علاوہ Magnesium, Calcium اور Iron پایا جاتا ہے جو انسان کے خون میں Red blood cells کی پیداوار بڑھاتے ہیں۔اسی طرح کھجور میں cholestrol نہیں ہوتا باوجود اس کے کہ کھجور میں carbohydrates بڑی مقدار (تقریباً 78 فیصد)موجود ہوتے ہیں نیز اس میں sodiumکی مقدار بھی کم ہوتی ہے۔ طبیب اس قسم کے کھانے کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ کھانا ایسا ہو جس میں cholestrol، fat اور sodiumکم ہو جبکہ اس میں fibre زیادہ ہو۔ اور یہ تمام باتیں کھجور میں پائی جاتی ہیں۔
(Sobhy Ahmad El-Sohaimy: Biochemical and Nutritional Characterizations of Date Palm Fruits in: Journal of Applied Sciences Research, Augsust 2010, p. 1060 to 1067)
ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کے متعلق فرمایا:
مَنْ تَصَبَّحَ سَبْعَ تَمَرَاتِ عَجْوَةٍ لَمْ يَضُرُّهُ ذٰلِكَ الْيَوْمَ سَمٌّ وَلَا سِحْرٌ
(بخاری)
جو ہر صبح سات عجوہ کھجوریں کھائے اسے اس دن کوئی زہر اور سحر نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
سائنسی تحقیق کی بنیادحصولِ علم اور اس کی جستجو ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حوالے سے بھی اپنی امت کو بہت نصائح فرمائیں۔علوم اور سائنس میں ترقی ایک ترقی یافتہ معاشرہ کے حصول میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد
اُطْلُبُوْا العِلْمَ وَ لَوْ فِیْ الصِّیْن (بحار الانوار)
کہ علم حاصل کروچاہے چین جانے سے ہو اس کی اہمیت واضح کرتا ہے۔ چین اس زمانہ میں ایک لحاظ سے دنیا کا آخری کونہ تھا جہاں کا سفر ہی کئی مہینوں کی مسافت پر تھا۔ مگر آپ نے اس بات پر زور دیا کہ اتنا پر خطر اور دشوار سفر بھی علم کے حصول میں حائل نہ ہو۔اسی طرح فرمایا کہ علم کا حصول ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ ( مستدرک الوسائل) پھر فرمایا کہ
الْحِکْمَۃُ ضَالَۃُ الْمُوْمِنِ فَحَیْثُ وَجَدَھَا فَھُوَ اَحَقُّ بِھَا۔(ترمذی)
یعنی حکمت کی بات مومن کی گم شدہ چیز ہے جہاں وہ اسے پائے وہ اس کا سب سے زیادہ حقدار ہے۔ اور ایک اور موقع پر آپؐ نے فرمایا کہ
من سلک طریقا یطلب علما سلک اللّٰہ بہ طریقا من طرق الجنۃ وان الملائکۃ لتضع اجنحتھا رضا لطالب العلم وان العالم لیستغفر لہ من فی السموات و من فی الارض والحیتان فی جوف الماء و ان فضل العالم علی العابد کفضل القمر لیلہ البدر علی سائر الکواکب
(سنن ابو داؤد کتاب العلم)
ترجمہ:جو علم کے حصول کے لیے سفر اختیار کرے تو اللہ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دے گا اور فرشتے طالب علم کے لیے اپنی رضا کےپر بچھاتے ہیں اور جو کوئی آسمان اور زمین میں ہے یہاں تک کہ پانی کے اندر مچھلیاں بھی مغفرت طلب کرتی ہیں اور عالم کی عابد پر ایسی ہی فضیلت ہے جیسے چودہویں کے چاند کو ستاروں پر ہوتی ہے۔
اسی تعلیم کی وجہ سے اسلام کے ابتدائی زمانہ میں مسلمان سائنسدانوں نے علمی میدان میں گرانقدر خدمات انجام دیں جن کا اثر آج کے دور پر بھی ہے اور جس کی تفصیل ایک علیحدہ مضمون کی متقاضی ہے۔ غرض 1400 سال پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی علم اور سائنس کے حصول کی تعلیم آج کے زمانہ میں سب سے زیادہ سمجھی جا سکتی ہے جب انسان کی ترقی کا ہر پہلو علم کے حصول اور سائنس کی ترقی سے جڑا ہوا ہے۔
٭…٭…٭