حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ لایا ہوا روحانی انقلاب
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ لایا ہوا روحانی انقلاب
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اس کے بعد اب مَیں یہ بیان کرنا چاہتاہوںکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہوکر، آپ کی بیعت کرکے ،آپ سے ان دس شرائط پر عہد بیعت باندھ کر ان شرائط پر عمل بھی کیا گیا ، اطاعت کا نمونہ بھی دکھایا گیا یاصرف زبانی جمع خرچ ہی رہا کہ ہم ان شرائط پر آپ سے بیعت کرتے ہیں ۔ اس کے لئے مَیں نے چند نمونے لئے ہیں جن سے پتہ چلے کہ بیعت کرنے والوں نے اپنے اندر کیا روحانی تبدیلیاں کیں اورکیا روحانی انقلابات آئے ۔ اور یہ تبدیلیاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں بھی اوراس زمانہ میں بھی ہمیں نظر آتی ہیں ۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’میں حلفاً کہتا ہوں کہ کم از کم ایک لاکھ آدمی میری جماعت میں ایسے ہیں کہ سچے دل سے میرے پر ایمان لائے ہیںاور اعمال صالحہ بجا لاتے ہیں اور باتیں سننے کے وقت اس قدر روتے ہیں کہ ان کے گریبان تر ہوجاتے ہیں‘‘۔
(سیرت المہدی۔ جلد اول۔ صفحہ 165۔ ایڈیشن دوم۔ مطبوعہ 1935ء)
شرک سے اجتناب
تو ایک شرط یہ تھی کہ شرک سے اجتناب کریں گے۔صرف ہمارے مرد ہی نہیں بلکہ خواتین بھی ایسے اعلیٰ معیار قائم کر گئی ہیں اور ایسے اعلیٰ نمونے دکھائے ہیں کہ ان کو دیکھ کر دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھر جاتاہے کہ کیا انقلاب آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے دعا نکلتی ہے ۔
نمونے کا ایک واقعہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی والدہ کا نمونہ ہے کہ آپ کو کس طرح شرک سے نفرت تھی ۔ کہتے ہیں کہ آپ کے بچے اکثر وفات پاجاتے تھے۔ ایک دفعہ آ پ کا ایک بچہ بیمار ہوا۔ ’’بچے کا علاج شروع کیاگیا۔ ایک آدمی تعویذ دے گیا ۔اور ایک عورت نے یہ تعویذ بچے کے گلے میں ڈالنا چاہا۔ لیکن بچے کی والدہ نے تعویذ چھین کر چولہے کی آگ میں پھینک دیا اورکہا کہ میرابھروسہ اپنے خالق و مالک پر ہے۔مَیں ان تعویذوں کو کوئی وقعت نہ دوں گی۔ بچہ دو ماہ کا ہوا تو آپ اسے اپنے سسرال موضع ڈسکہ لے آئیں اور چھ ماہ وہاں قیام رہا۔ اب وہ آٹھ ماہ کا ہوچکا تھا۔ آپ اسے لے کر میکے آئیں۔ چھ روز ہوئے تھے کہ وہی جے دیوی ملنے کے لئے آئی اور بچے کو پیار کیا اور آ پ سے کچھ پارچات اور کچھ رسد اس رنگ میں طلب کی جس سے مترشح ہوتاتھاکہ گویا یہ چیزیں ظفر پر سے بلا ٹالنے کے لئے ہیں ۔ آپ نے جواب دیا کہ تم ایک مسکین بیوہ عورت ہو۔ اگر تم صدقہ یا خیرات کے طورپر کچھ طلب کروتو مَیں خوشی سے اپنی توفیق کے مطابق تمہیں دینے کے لئے تیارہوں۔ لیکن مَیں چڑیلوں اور ڈائنوں کی ماننے والی نہیں ۔ مَیں صرف اللہ تعالیٰ کو موت اورحیات کا مالک مانتی ہوں اور کسی اَور کا ان معاملات میں کوئی اختیار تسلیم نہیں کرتی ۔ ایسی باتوں کو مَیں شرک سمجھتی ہوں اور ان سے نفرت کرتی ہوں اس لئے اس بنا پر مَیں تمہیں کچھ دینے کے لئے تیار نہیں ہوں۔ جے دیوی نے جواب میں کہا کہ اچھا تم سوچ لو۔ اگربچے کی زندگی چاہتی ہوتو میرا سوال تمہیں پور ا ہی کرنا پڑے گا۔
چند دن بعد آپ ظفر کو غسل دے رہی تھیں کہ پھر جے دیوی آگئی اور بچے کی طرف اشارہ کرکے دریافت کیا: اچھا یہی ساہی راجہ ہے؟آپ نے جواب دیا:’’ ہاں یہی ہے‘‘۔جے دیوی نے پھر وہی اشیاء طلب کیں ۔ آپ نے پھروہی جواب دیا جو پہلے موقع پر دیا تھا۔ اس پر جے دیوی نے کچھ برہم ہوکر کہا :’’اچھا اگر بچے کو زندہ لے کر گھر لوٹیں تو سمجھ لینا کہ مَیں جھوٹ کہتی تھی‘‘۔ آپ نے جواب دیا:’’ جیسے خدا کی مرضی ہوگی وہی ہوگا‘‘۔ ابھی جے دیوی مکان کی ڈیوڑھی تک بھی نہ پہنچی ہوگی کہ غسل کے درمیان ہی ظفر کو خو ن کی قے ہوئی اور خون ہی کی ا جابت ہوگئی۔ چند منٹوں میں بچے کی حالت دگرگوں ہوگئی۔ اور چند گھنٹوں کے بعد وہ فوت ہو گیا۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کی یا اللہ! تُو نے ہی دیا تھا اور تُونے ہی لے لیا ۔ مَیں تیری رضا پر شاکر ہوں۔ اب تُو ہی مجھے صبر عطا کیجیو ۔اس کے بعد خالی گود ڈسکہ واپس آگئیں ۔‘‘
(اصحاب احمد۔ جلد 11۔ صفحہ 15-16۔ مطبوعہ 1969)
دیکھیں اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بھی کتنے انعامات سے نوازا ۔اور چوہدری ظفراللہ خان صاحبؓ جیسا بیٹا انہیں دیا جس نے بڑی لمبی عمر بھی پائی اوردنیا میں ایک نام بھی پیداکیا۔
نفسانی جوشوں سے مغلوب نہ ہونا
پھر بیعت کرنے کے بعدنفسانی جوشوں سے کس طرح لوگ محفوظ ہو رہے ہیں ۔ اب اُس زمانے کی نہیں مَیں اِس زمانے کی مثال دیتاہوں اوروہ بھی افریقہ کے لوگوں کی۔ افریقہ کے جو Pagan لوگ ہیں ان کے اندر بہت سی گندی رسمیں اور عادتیں پائی جاتی ہیں مگراحمدیت میں داخل ہوتے ہی وہ ان رسموں پر اس طرح لکیر پھیر دیتے ہیں اور اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کر لیتے ہیں جیسے یہ برائیاں کبھی اُن میں تھیں ہی نہیں۔ایسی رپورٹیں بھی آئیں کہ شراب کے رسیا ایک دم شراب سے نفرت کرنے لگ گئے اوراس کا دوسروں پر بھی بہت گہرا اثر ہوا ۔ اور جب وہ اس بات کا تذکرہ کرتے ہیں تو مولوی کہتے ہیں کہ احمدیت نے ان پرجادو کر دیاہے اور اس وجہ سے انہوں نے شراب چھوڑ دی ہے ۔
یہاں ایک واقعہ مجھے یاد آیا ۔ ایک مربی صاحب نے مجھے بتایا ۔ گھانا میں ہی ایک شخص احمدی ہوا جس میں تمام قسم کی برائیاں پائی جاتی تھیں۔ شراب کی بھی ،زناکی بھی ، ہر قسم کی۔ وہاں رواج یہ ہے کہ گھروں میں لوگ غربت کی وجہ سے یا رہائش کی کمی کی وجہ سے بڑے بڑے مکان ہوتے ہیں اس میں ایک کمرہ کرائے پر لے لیتے ہیں۔ اسی طرح رہنے کارواج ہے ۔ تو یہ شخص اسی طرح کے ماحول میں رہتاتھا ۔ عورتوں سے دوستی تھی لیکن جب احمدیت قبول کی توسب کو کہہ دیا کہ کسی غلط کام کے لئے کوئی میرے پاس نہ آئے ۔ لیکن ایک عورت اس کا پیچھا چھوڑنے والی نہیں تھی ۔ اس نے اس پر یہ طریقہ اختیار کیا کہ جب وہ اسے دور سے دیکھتاتھا تو کنڈی لگاکرفوراً نفل پڑھنا شروع کر دیتا یا قرآن شریف کی تلاوت کرنی شروع کر دیتاتھا، اس طر ح اس نے اپنے آپ کو محفوظ کیا۔ تو یہ انقلابات ہیں جو احمدیت لے کرآئی ہے۔
پھر ہمارے ایک مبلغ ہیں مکرم مولانا بشیر احمد صاحب قمر، وہ بیان کرتے ہیں کہ خاکسار جماعت احمدیہ گھانا کے افراد کے ساتھ ایک عید کی نماز کے بعد پیرا ماؤنٹ چیف سے ملنے گیا۔وہ اپنے سب سرکردہ افراد کے ساتھ ہمارے انتظار میں تھے۔ جب ہم اندرداخل ہوئے تو احمدی دوستوں نے چیفوں اور ان کے ساتھیوں کے سامنے بڑے جوش سے اس طرح گانا شروع کیا کہ ایک بوڑھا احمدی جو چیف کے سامنے تھا چھڑی ہوا میں لہرا لہرا کر گارہا تھا اور باقی دوست جو تین صد کے قریب تھے اس کے پیچھے وہی فقرات دہرا رہے تھے۔ میں نے ترجمان سے پوچھا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں تو اس نے مجھے بتایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے احسانات اور اسلام کی برکات کا ذکر کر رہے ہیں۔یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم بت پرست اور مشرک تھے۔ ہمیں حلال و حرام اورنیکی بدی کا کوئی علم نہیں تھا۔ ہماری زندگی بالکل حیوانی تھی ہم وحشی تھے۔ شراب کو پانی کی طرح پیتے تھے۔احمدیت نے ہمیں سیدھا راستہ دکھایا اور ہماری بدیاں ہم سے چھوٹ گئیں اور ہم انسان بن گئے۔ تو یہ لوگ اپنے ہی شہر کے ایک پیراماؤنٹ چیف اور دیگر اکابر کے سامنے جو ان کی سابقہ عادات و اخلاق سے پوری طرح واقف تھے اپنی تبدیلی بڑی تحّدی کے ساتھ بیان کر رہے تھے اور جماعت کی صداقت کے طور پر پیش کر رہے تھے۔
(ماخوذ ازماہنامہ انصاراللہ۔ جنوری1984ء۔ صفحہ 30-31)
(باقی آئندہ)