متفرق مضامین

مشہور فقیہ اور تابعی حضرت عروہ بن زبیرؒ

(حافظ نعمان احمد خان ۔ استاد جامعہ احمدیہ ربوہ)

حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےخطبہ جمعہ فرمودہ 4؍ستمبر2020ء کے آغاز میں حضرت زبیر بن عوامؓ کے ذکر کے تسلسل میں سورۂ آلِ عمران کی آیت نمبر173کی تلاوت کی اور اس کا درج ذیل ترجمہ پیش فرمایا۔

’’جن لوگوں نے اللہ اور رسول کا حکم اپنے زخمی ہونے کےبعدبھی قبول کیا ان میں سے ان کےلیے جنہوں نے اچھی طرح اپنا فرض ادا کیاہےاور تقویٰ اختیار کیا ہےبڑا اجر ہے۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 25؍ستمبر2020ء صفحہ5)

اس آیتِ کریمہ کے تناظر میں حضورِانور نے حضرت عائشہؓ سے مروی دو روایات پیش فرمائیں۔ فرمایا:

’’اس آیت کے بارے میں جو مَیں نے ابھی پڑھی ہے بیان فرماتے ہوئے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے بھانجے عروہ سے کہا کہ اے میرے بھانجے! تمہارے آباء زبیرؓ اور ابوبکرؓ اسی آیت میں مذکور صحابہ میں سے تھے۔ جب جنگِ احد میں رسول اللہﷺ زخمی ہوئے اور مشرکین پلٹ گئے تو آپﷺ کو اس بات کو خدشہ محسوس ہوا کہ وہ کہیں پھرلو ٹ کر حملہ نہ کریں۔ اس لیے آپﷺ نے فرمایا کہ ان کا پیچھا کرنے کون کون جائے گا۔ اسی وقت ان میں سے ستّرصحابہ تیار ہوگئے۔ راوی کہتے ہیں کہ ابوبکرؓ اور زبیرؓ بھی ان میں شامل تھے۔ یہ صحیح بخاری کی روایت ہے اور یہ دونوں حضرت ابوبکرؓ بھی اور حضرت زبیرؓ بھی زخمیوں میں سے تھے۔

صحیح مسلم میں اس طرح یہ روایت بیان ہوئی ہے کہ ہشام نے اپنے والد سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ نے مجھ سے کہا کہ تمہارے آباء ان صحابہ میں سے تھے جنہوں نے اپنےزخمی ہونے کےبعد بھی اللہ اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہا۔ ‘‘(الفضل انٹرنیشنل 25؍ستمبر2020ء صفحہ5)

اس روایت میں مذکور حضرت عائشہؓ کےبھانجے، حضرت اسماء بنت ابوبکرؓ اور حضرت زبیرؓ بن عوام کے فرزند، مشہور فقیہ اور تابعی حضرت عروہؒ بن زبیر ہیں۔ آپؒ کی کنیت ابوعبداللہ تھی۔ عروہؒ حضرت عمرؓ کے عہدِ خلافت کے آخر یا حضرت عثمانؓ کے زمانۂ خلافت کے آغاز میں پیدا ہوئے۔ علم وفضل اور زہدو ورع کے خانوادے میں آنکھ کھولنے کے طفیل حضرت عروہؒ کوفقہ و حدیث دونوں عُلوم میں بےپناہ کمال حاصل تھا۔ آپؒ نے حضرت عائشہؓ سے بالخصوص فیض پایا تھا۔ یہاں تک بیان کیا جاتا ہے کہ آپؒ حضرت عائشہؓ کے گودپالک تھے۔ عروہؒ کا اپنا بیان ہے کہ

’’مَیں نے عائشہؓ کی وفات سے چارپانچ سال پہلے ان کی کُل حدیثیں محفوظ کرلی تھیں، اگر ان کا انتقال اسی وقت ہوگیا ہوتا تو مجھے ان کی کسی حدیث کے باقی رہ جانے کا افسوس نہ ہوتا کیونکہ ان کی کُل احادیث میرے سینے میں محفوظ ہوچکی تھیں۔ ‘‘

(تہذیب التہذیب بحوالہ تابعین از شاہ معین الدین احمد ندوی، دارالمصنفین، مطبع معارف اعظم گڑھ، 1937صفحہ 265)

حضرت عائشہؓ کی مرویات کی تعداد 2210بیان کی جاتی ہے۔ حضرت عروہ بن زبیرؓ کا حضرت عائشہؓ سے اپنائیت اور انس کا محبت بھرا تعلق تھا۔ چنانچہ ایک بار امّ المومنین حضرت عائشہؓ نے عروہ بن زبیرؒ سےفرمایا کہ رسول اللہﷺ نے اپنی کسی زوجہ کا بوسہ لیا اور پھر نماز کے لیے تشریف لےگئےاور وضو نہ کیا۔ عروہ کہتے ہیں کہ مَیں نے عرض کیا کہ وہ زوجہ آپؓ ہی ہوں گی تو اس پر عائشہؓ مسکرا اٹھیں۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الطھارة وسننھا باب الوضوء من القبلة)

آپؒ نےحضرت عائشہؓ کے علاوہ امہات المومنین حضرت امِّ سلمہؓ اور حضرت امِّ حبیبہؓ سے اورحضرت زید بن ثابتؓ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ، حضرت اسامہ بن زیدؓ، حضرت ابوایّوب انصاریؓ، حضرت ابوہریرہؓ، حضرت سعیدبن زیدؓ، حضرت حکیم بن حزامؓ، حضرت جابر بن عبداللہؓ، حضرت عمرو بن العاصؓ، حضرت نعمان بن بشیرؓ اور حضرت حسنؓ جیسے اکابر صحابہ کی ایک بڑی جماعت سے بھی اکتسابِ فیض کا موقع ملاتھا۔

علمِ فقہ حضرت عروہؒ کاخاص میدان تھا۔ چنانچہ آپؒ مدینہ منوّرہ کے ’’فقہائے سبعہ‘‘ یعنی سات مشہور فقہاء تابعین میں شمار کیے جاتے تھے۔ محترم ملک سیف الرحمٰن صاحب کی تصنیف ’’ تاریخ افکار اسلامی‘‘ کے مطابق درج ذیل کبار تابعین ’’فقہائے سبعہ‘‘ میں شمار ہوتے ہیں۔

(1) حضرت سعید بن المسیّبؒ

(2) حضرت ابوبکر بن عبیداللہ بن الحارثؒ

(3) حضرت عروہ بن زبیرؒ

(4) حضرت قاسم بن محمد بن ابی بکر الصدیقؒ

(5) حضرت عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود

(6) حضرت سلیمان بن یسارؒ

(7) حضرت خارجہ بن زید بن ثابتؒ

(تاریخ افکاراسلامی صفحہ 38)

حضرت عروہ بن زبیرؓ کوعلمِ فقہ میں اس قدر دسترس حاصل تھی کہ بعض صحابہ بھی مسائل میں آپؒ کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز بھی آپ کی رائے کو بہت اہمیت دیتے۔ عروہؒ حضرت عمربن عبدالعزیزؒ کی دس فقہا پر مشتمل مجلس مشاورت کا بھی حصّہ تھے۔ تحصیلِ علم کے بعد آپؒ نےمروجہ طریق کے مطابق درس کا آغاز فرمایا۔ مسجدِ نبوی میں آپؒ کا حلقۂ درس بہت وسیع تھا۔ آپؒ کے جیّد طلباءمیں تمیم بن ابوسلمہؒ، سعد بن ابراہیمؒ، سلیمان بن یسارؒ، زہری، یحیٰ بن ابو کثیرؒ، عبداللہ بن ذکوانؒ، عبداللہ بن عروہؒ، عطا بن ابورباحؒ اور عمرو بن دینارؒ وغیرہ معروف علماء ہیں۔

حضرت عروہؒ بن زبیر کے زہد و تقویٰ، عبادت اور یادِ الٰہی کے متعلق متعدد روایتیں ملتی ہیں۔ آپؒ قائم اللّیل اور صائم الدہر، مشکلات پر صبر کرنے والے بڑے سخی اور فیاض بزرگ تھے۔ آپؒ کو حضرت زبیر بن عوامؓ کے ترکے سے بھاری حصّہ ملا تھا۔ آپؒ کے پاس جو کھجور کا باغ تھا اسے کھجورکے موسم میں عوام کےلیے کھول دیا جاتا۔ لوگ آتے پیٹ بھر کر کھاتے اور ساتھ باندھ کر لےجاتے، کوئی روک ٹوک نہ تھی۔

(تابعین اولین از سیدجلال الدین احمد جعفری، مطبع انوار احمدی الٰہ آباد)

حضرت عروہ بن زبیرؒ کی چار بیویاں اور اٹھارہ بچے تھے۔ آپؒ کے بیٹوں میں سے یحییٰ، ہشام، عبداللہ اور عثمان نے روایتِ حدیث میں بڑا حصّہ لیا ہے۔ حضرت عروہؒ کی وفات 94ہجری میں فرع مقام پر آپؒ کے باغات میں ہوئی اور وہیں تدفین عمل میں آئی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button