تحریک جدید کی اہمیت اور اِس کے اغراض ومقاصد (قسط ہفتم)
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ایک دفعہ حضرت ابوعبیدہؓ نے لکھا کہ عیسائیوں نے لشکر اسلام پر سخت حملہ کر دیا ہے ان کا کئی لاکھ لشکر ہے اور اسلامی لشکر صرف چند ہزار ہے دشمن کا کامیاب مقابلہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کم از کم آٹھ ہزار سپاہی ہمیں مدد کے لئے بھجوائے جائیں۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا تمہارا خط پہنچا جس میں تم نے آٹھ ہزار فوج اپنی مد د کے لئے مانگی ہے میں معدَی کرب کو بھیجتا ہوں یہ تین ہزار کاقائم مقام ہے۔ باقی پانچ ہزار سپاہی بھی عنقریب بھیج دئیے جائیںگے۔صحابہؓ کا ایمان بھی دیکھو جب حضرت عمرؓ کا یہ خط پہنچا تو انہوں نے افسوس نہیں کیا کہ عمرؓ نے ہمارے مطالبہ کا کیا جواب دیا ہے بلکہ جب معدَی کرب آئے تو حضرت ابوعبیدہؓ نے لشکرِ اسلام سے کہا کہ معدَی کرب جن کو حضرت عمرؓ نے تین ہزار کا قائم مقام قرار دیا ہے آرہے ہیںان کا استقبال کرنے چلو۔چنانچہ جب معدَی کرب پہنچے تو لشکرِاسلام نے اس زور سے اَللّٰہُ اَکْبَرُ کے نعرے بلند کئے کہ دشمن نے سمجھا مسلمانوں کو کمک پہنچ گئی ہے اور وہ ڈر کر کئی مقامات سے خودبخود پیچھے ہٹ گیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے معدَی کربوں کی فوج کے سپاہی بھی اب یکے بعد دیگرے اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے باہر جانے شروع ہوگئے ہیں جن کی کوششوں کے نتیجہ میں ہماری جماعت مختلف ممالک میں اب پہلے سے بہت زیادہ مقبولیت حاصل کر رہی ہے اور اس کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ چنانچہ مختلف ممالک سے اس قسم کی کئی خوشخبریاں ہمیں مل رہی ہیں مثلاً انگلستان میں پہلے یہ حالت ہوا کرتی تھی کہ کسی ہسٹیریا کی ماری ہوئی عورت کو اگر عیسائیت میں اطمینان حاصل نہ ہوا تو وہ اسلام کی آغوش میں آگئی یا کسی عورت کا کوئی معشوق بھاگ گیا اور اُسے اپنی زندگی دوبھر معلوم ہونے لگی اور پھراس دوران میں اس نے ہمارے مبلّغ کو کہیں تقریر کرتے دیکھ لیا اور اُس نے سمجھا کہ شاید خدا کی پناہ میں مجھے اطمینان حاصل ہو جائے چنانچہ وہ آتی اور اسلام قبول کر لیتی۔ اسی طرح اگر کوئی مرد بھی اسلام قبول کرتا تو ایسا ہی ہوتا جو سوسائٹی کا مارا ہوا ہوتا سوائے تین چار کے جو اچھے طبقہ سے تعلق رکھتے تھے مگر اب نسبتاً زیادہ معقول اور باحیثیت لوگ احمدیت میں شامل ہو رہے ہیں۔
مَیں ہمیشہ اپنے اُن مبلّغوں کو جنہیں یورپ میں تبلیغ کے لئے بھیجا جاتا ہے کہا کرتا ہوں کہ تمہیں عورتوں کی بجائے مردوں کو زیادہ تبلیغ کرنی چاہئے کیونکہ یورپ میں عورتیں مردوں سے تین گناہیں اور اس وجہ سے اُن میں ہسٹیریاکا مرض زیادہ پایا جاتا ہے۔ اگر عورتوں کی طرف توجہ کی جائے تو زیادہ تر ایسی عورتیں ہی اسلام کی طرف آتی ہیں جو ہسٹیریکل ہوتی ہیں اور ہمارامبلّغ اپنی غلطی سے یہ سمجھنے لگ جاتا ہے کہ مجھے بہت بڑی کامیابی ہو رہی ہے حالانکہ ان کی توجہ محض ہسٹیریا کا نتیجہ ہوتی ہے۔
مَیں جب پہلی دفعہ یورپ گیا تو ایک عورت نے بڑے شوق سے ہماری مجالس میں آنا شروع کر دیا۔ وہ ہر دوسرے تیسرے روز آجاتی اور آدھ آدھ گھنٹہ تک باتیں کرتی رہتی۔ ہمارے دوست کہتے کہ یہ عورت اسلام سے بہت دلچسپی رکھتی ہے ضرور مسلمان ہو جائے گی۔ مگر آخر مہینہ کے بعد وہ ایک دن برنارڈشاکی ایک کتاب میرے پاس لائی اور کہنے لگی میں نے بہت کوشش کی تھی کہ آپ کو برنارڈشا کا مرید بنا لوں مگر آپ نہ بنے یہ اس کی کتاب ہے میں آپ کو مطالعہ کے لئے دینا چاہتی ہوں اسے آپ ضرور پڑھیں ۔مَیں نے اپنے دوستوں سے کہا لو تم تو کہتے تھے کہ یہ عورت مسلمان ہو جائے گی مگر یہ تو اُلٹا مجھے برنارڈشا کا مرید بنانا چاہتی ہے۔ غرض پہلے زیادہ تر عورتیں ہی اسلام کی طرف توجہ کیا کرتی تھیں مگر اب جو نئے مبلّغ بھجوائے گئے ہیں ان کو میں نے خاص طور پر یہ ہدایات دی ہیں کہ وہ یونیورسٹیوں سے تعلقات رکھیں، مذہبی لوگوں سے واقفیت پیدا کریں، اخباروں اور رسالوں والوں سے میل جول رکھیں، مصنفوں سے تعلقات بڑھائیں اور تجارت کے ذریعہ سلسلہ کی آمد میں اضافہ کرنے کی کوشش کریں کیونکہ اس کے بغیر ہم اپنی تبلیغ کو وسیع نہیں کر سکتے۔ پھر صرف انگلستان میں ہی نہیں بلکہ اَور ممالک میں بھی احمدیت کی ترقی کے آثار خداتعالیٰ کے فضل سے پیدا ہو رہے ہیں بلکہ ایسے علاقوں میں بھی احمدیت پھیلنی شروع ہوگئی ہے جہاں پہلے باوجود کوشش کے ہمیں کامیابی نہیں ہوئی تھی۔ ملایا میں یا تویہ حالت تھی کہ مولوی غلام حسین صاحب ایاز کو ایک دفعہ لوگوں نے رات کو مار مار کر گلی میں پھینک دیا اور کتے اُن کو چاٹتے رہے اور یا اب جو لوگ ملایا سے واپس آئے ہیں انہوں نے بتایا ہے کہ اچھے اچھے مالدار ہوٹلوں کے مالک معزز طبقہ کے ستّر اسّی کے قریب دوست احمدی ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ روز بروز ترقی کر رہا ہے۔ جاوا اورسماٹرا سے جو اطلاع آئی ہے اس میں بھی یہی لکھا ہے کہ آگے کی نسبت تبلیغ کے راستے زیادہ کھل رہے ہیں غرض یہ ایک اہم موقع ہے جس سے ہمیں فائدہ اُٹھانا چاہئے اب ہم ویسے ہی مقام پر کھڑے ہیں جیسے قصہ مشہور ہے کہ پُرانے زمانہ میں ایک دیوارِ قہقہہ ہوا کرتی تھی جو بھی اُس پر چڑھ کر دوسری طرف جھانکتا وہ قہقہہ لگاتے ہوئے اُسی طرف چلا جاتاواپس آنے کا نام نہیں لیتا تھا۔ہم بھی اس وقت ایک دیوارِ قہقہہ کے نیچے کھڑے ہیں جو شخص جرأت کر کے اس دیوار کی دوسری طرف جھانکے گا اس کا دل دنیا سے ایسا سرد ہو جائے گا کہ پھرواپس لوٹنے کا نام نہیں لے گا اور کامیابی ہمارے قدم چوم لے گی۔
(الفضل ربوہ جلسہ سالانہ نمبر1960ء)
کچھ عرصہ ہوا میں نے جماعت کے دوستوں کو بعض تحریکات کی تھیں جن کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ ان پر عمل کئے بغیر جماعت کُلّی طور پر کبھی ترقی نہیں کر سکتی مگرافسوس ہے کہ جماعت نے ان کی طرف پوری توجہ نہیں کی اب میں پھر دوستوں کو ان تحریکات کی طرف توجہ لانا چاہتا ہوں۔ ان میں سے ایک تحریک تو یہ ہے کہ ہر جگہ قرآن کریم کے درس جاری کئے جائیں اور کوشش کی جائے کہ جماعت کا ہر فرد قرآن کریم کا ترجمہ جانتاہو۔ خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ دونوں کا یہ کام ہے کہ وہ جماعت کی نگرانی رکھیں اور دیکھیں کہ ان میں سے کون کون لوگ قرآن کریم کا ترجمہ نہیں جانتے۔ پھر جو لوگ ایسے ہوں ان کو قرآن کریم کا ترجمہ پڑھایا جائے اور اس بارہ میں اس قدر تعہّد سے کام لیا جائے کہ جماعت کا کوئی ایک فرد بھی ایسا نہ رہے جو قرآن کریم کا ترجمہ نہ جانتا ہو اور جولوگ قرآن کریم کا ترجمہ جانتے ہوں ان کے متعلق کوشش کرنی چاہئے کہ انہیں دوسرے علوم سے واقفیت پیدا ہو۔
پھر میں نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ چونکہ دنیوی تعلیم بھی نہایت اہم چیز ہے اس لئے جماعت کا فرض ہے کہ وہ اپنے اپنے افراد کا جائزہ لے اور کوشش کرے کہ جماعت کاکوئی لڑکا ایسا نہ ہو جو کم از کم پرائمری پاس نہ ہو، پھر جو لڑکے پرائمری پاس ہوں اُن کے متعلق کوشش کرنی چاہئے کہ وہ مڈل تک تعلیم حاصل کریں، جن کی تعلیم مڈل تک ہے اُن کے متعلق کوشش کریں کہ وہ انٹرنس پاس کریں اور جو لڑکے انٹرنس پاس ہیں ان کے متعلق کوشش کریں کہ وہ کالج میں داخل ہوں اور ایف۔اے یا بی۔ اے پا س کریں۔غرض تعلیم کو ترقی دینا ہماری جماعت کا اہم ترین فرض ہے۔ اس طرح ایک طرف تو خود ان کے ایمان میں مضبوطی پیدا ہوگی اور دوسری طرف جماعت کی طاقت اور اس کی قوت میں بھی اضافہ ہو گا۔ پس میں جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ فوراً اس قسم کے نقشے پُر کر کے نظارت میں بھجوائیں کہ ہر جماعت میں پانچ سے بیس سال تک کی عمر کے کتنے لڑکے ہیں؟ ان میں سے کتنے پڑھتے ہیں اور کتنے نہیں پڑھتے۔ اور جو پڑھتے ہیں وہ کون کونسی جماعت میں پڑھتے ہیں، پھر جو نہیں پڑھتے ان کے والدین کو تحریک کی جائے کہ وہ انہیں تعلیم دِلوائیں اور کوشش کی جائے کہ زیادہ سے زیادہ لڑکے سکولوں میں تعلیم حاصل کریں اور ہائی سکولوں میں پاس ہونے والے لڑکوں میں سے جن کے والدین صاحبِ استطاعت ہوں ان کو تحریک کی جائے کہ وہ انہیں یہاں کالج میں پڑھنے کے لئے بھیجیں تا کہ ہماری جماعت دُنیوی تعلیم کے لحاظ سے بھی دوسروں پر فوقیت رکھنے والی ہو۔
تیسری تحریک جو کچھ عرصہ سے میں جماعت کو کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ ہماری جماعت کو اب تجارت کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہئے۔ میں نے بارہا بتایا ہے کہ تجارت ایسی چیز ہے کہ اس کے ذریعہ دنیا میں بہت بڑا اثرورسوخ پیدا کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے دو نوجوان افریقہ گئے ایک کو ہم نے کہا کہ تمہیں خرچ کے لئے ہم 25روپے ماہوار دیں گے مگر دوسرے سے ہم نے کہا کہ تمہارے اخراجات برداشت کرنے کی ہمیں توفیق نہیں۔اس نے کہا توفیق کا کیا سوال ہے میں خود محنت مزدوری کر کے اپنے لئے روپیہ پیدا کروں گا سلسلہ پر کوئی بار ڈالنے کے لئے تیار نہیں۔ ہم نے کہا یہ تو بہت مبارک خیال ہے اگر ایسے نوجوان ہمیں میسر آجائیں تو اَور کیا چاہئے چنانچہ وہ دونوں گئے اور انہوں نے پندرہ روپیہ چندہ ڈال کر تجارت شروع کی۔ اب ایک تازہ خط سے معلوم ہوا ہے کہ وہی نوجوان جنہوں نے پندرہ روپے سے تجارت شروع کی تھی اب تک ایک ہزار روپیہ تبلیغی اخراجات کے لئے چندہ دے چکے ہیں اور اپنا گزارہ بھی اتنی مدت سے عمدگی کے ساتھ کرتے آرہے ہیں۔ اس کے علاوہ مقامی مشن کے ذمہ ان کا چالیس پونڈ کے قریب قرض بھی ہے جو انہوں نے اپنی تجارت کے نفع سے دیا۔ اُنہوں نے لکھا ہے کہ ہم اس سے بھی زیادہ روپیہ کما لیتے مگر چونکہ گورنمنٹ نے مال کی درآمدوبرآمد پر کئی قسم کی پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں اس لئے ہم زیادہ روپیہ کما نہیں سکے ورنہ اس قسم کی سینکڑوں مثالیں موجودہیں کہ اس مُلک میں بعض نوجوان ہزار ہزار دو دو ہزارروپیہ کے ساتھ آئے اور اب وہ لاکھ لاکھ ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ روپیہ کے مالک ہیں۔ یہاں سے ایک نوجوان امریکہ بھاگ گیا تھا وہ ذہین تو تھا مگر یہاں اسے دین سے کوئی اُنس نہیں تھا۔ غیر مُلک میں جاکر اسے دین سے بھی اُنس پیدا ہو گیا اور اس نے روپیہ بھی کمانا شروع کر دیا۔یہاں سے وہ جہاز میں چوری چھپے بیٹھ کر گیا تھا راستہ میں پکڑا گیا تو اسے جہاز میں کوئلہ ڈالنے پر مقرر کر دیا گیا اس طرح وہ امریکہ پہنچا۔ ایک پیسہ بھی اس کے پاس نہیں تھا مگر اب وہ سال میں دو تین ہزار روپیہ چندہ بھیج دیتا ہے۔ ابھی تھوڑے دن ہوئے اس نے تحریک جدید کے امانت فنڈ میں تیس پینتیس ہزار روپیہ بھجوایا ہے اس کے علاوہ چھ سات ہزار روپیہ اس نے وصیت کا بھی بھیجا ہے حالانکہ یہاں سے وہ بغیر کسی پیسہ کے گیا تھا۔غرض نوجوان اگر ہمت سے کام لیں تو غیر ممالک میں جاکر وہ ہزاروں روپیہ بڑی آسانی سے کما سکتے ہیں مگر مَیں حیران ہوں کہ ہماری جماعت کے بعض نوجوانوں کو کیا ہو گیا ہے کہ اگر ان کے سپرد کوئی کام کیا جائے تو اُس کو محنت سے سر انجام دینے کی بجائے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔
(جاری ہے)
٭…٭…٭