امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے پوچھے جانےوالے بنیادی مسائل پر مبنی سوالات کے بصیرت افروزجوابات بنیادی مسائل کے جوابات (قسط نمبر 2)
[سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مختلف وقتوں میں اپنے مکتوبات اور ایم ٹی اے کے مختلف پروگراموں میں بنیادی مسائل کے بارہ میں جو ارشادات مبارکہ فرماتے ہیں، ان میں سے کچھ افادۂ عام کےلیےالفضل انٹرنیشنل میں شائع کیے جا رہے ہیں۔]
سوال: ۔ ایک دوست نے حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں استفسار کیا کہ اسلام میں مختلف جانوروں کا گوشت کس بنا پر حلال اور حرام قرار دیا جاتا ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 11؍اپریل 2016ء میں اس کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:
جواب: ۔ کسی چیز کے حلال یا حرام ہونے کے بارہ میں دین اسلام کااصول یہ ہے کہ ہر وہ امر جس سے شریعت منع نہ کرے، جائز ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’اصل اشیاء میں حلت ہے حرمت جب تک نص قطعی سے ثابت نہ ہو تب تک نہیں ہوتی۔‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 474)
قرآن کریم نے مردار، بہتا ہوا خون، سؤر کا گوشت اور غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا جانے والا جانور حرام قرار دیا ہے۔
(سورۃ الانعام: 146)
قرآن کریم کی بیان کردہ ان چار اشیاء کو حرام کہا جاتا ہے۔ جبکہ بعض اشیاء کے کھانے سے آنحضرتﷺ نے منع فرمایا ہے ان کو ممنوع کہا جاتا ہے۔ جیسے جو جانور شکاری ہے وہ ممنوع ہے۔ اس میں درندے، شکاری پرندے وغیرہ سب داخل ہیں۔ ان اشیاء کی ممانعت احادیث پر مبنی ہے۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے:
نَهَى رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنْ السِّبَاعِ وَعَنْ كُلِّ ذِي مِخْلَبٍ مِنْ الطَّيْرِ۔
(صحیح مسلم کتَاب الصَّيْدِ وَالذَّبَائِحِ وَمَا يُؤْكَلُ مِنْ الْحَيَوَانِ باب تَحْرِيمِ أَكْلِ كُلِّ ذِي نَابٍ…)
یعنی رسول اللہﷺ نے ہر کچلیوں والے درندے اور پنجوں والے پرندے کاکھانا ممنوع قرار دیا ہے۔ اسی طرح حدیث میں آیا ہے:
عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى يَوْمَ خَيْبَرَ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ۔
(صحیح بخاری کتاب المغازی باب غَزْوَةِ خَيْبَرَ)
یعنی حضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے غزوۂ خیبر کے موقع پر پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا۔
حرام اور ممنوع کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ شریعت اسلامیہ میں جن اشیاء کے کھانے سے منع کیا گیاہے وہ دو قسم کی ہیں۔ اول حرام، دوم ممنوع۔ لغۃً توحرام کا لفظ دونوں قسموں پر حاوی ہے۔ لیکن قرآن کریم نے اس آیت (یعنی بقرہ: 174) میں صرف چار چیزوں کو حرام قرار دیا ہے۔ یعنی مردار، خون، سؤر کا گوشت اور وہ تمام چیزیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے نام سے نامزد کر دیاگیا ہو۔ ان کے سوا بھی شریعت میں بعض اور چیزوں کے استعمال سے روکا گیا ہے۔ لیکن وہ چیزیں اشیاء ممنوعہ کی فہرست میں تو آئیں گی، قرآنی اصطلاح کے مطابق حرام نہیں ہوںگی…۔
یہ احکام اس آیت یا دوسری آیات کے مضمون کے مخالف نہیں ہیں۔ کیونکہ جس طرح اوامر کئی قسم کے ہیں بعض فرض ہیں، بعض واجب ہیں اور بعض سنت ہیں۔ اسی طرح نہی بھی کئی اقسام کی ہے۔ ایک نہی محرمہ ہے اور ایک نہی مانعہ ہے اور ایک نہی تنزیہی ہے۔ پس حرام چار اشیاء ہیں باقی ممنوع ہیں اور ان سے بھی زیادہ وہ ہیں جن کے متعلق نہی تنزیہی ہے یعنی بہتر ہے کہ انسان ان سے بچے۔ حرام اور ممنوع میں وہی نسبت ہے جو فرض اور واجب میں ہے۔ پس جن اشیاء کو قرآن کریم نے حرام کہا ہے ان کی حرمت زیادہ سخت ہے اور جن سے آنحضرتﷺ نے منع کیا ہے وہ حرمت میں ان سے نسبتاً کم ہیں۔ اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے احکام میں ان کی مثال فرض اور واجب اور سنت کی سی ہے حرام تو بمنزلہ فرض کے ہے اور منع بمنزلہ واجب کے۔ جس طرح فرض اور واجب میں فرق ان کی سزاؤں کے لحاظ سے کیا جاتا ہے اسی طرح جن اشیاء کی حرمت قرآن کریم میں آئی ہے اگر انسان اُن کو استعمال کرے گا تو اس کی سزا زیادہ سخت ہو گی۔ اور جن سے آنحضرتﷺ نے منع فرمایا ہے ان کے استعمال سے اس سے کم درجہ کی سزا ملے گی لیکن بہر حال دونوں جرم قابل گرفت اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہوں گے۔ حرام فعل کا ارتکاب کرنے سے انسان کے ایمان پر اثر پڑتا ہے اور اس کا نتیجہ لازماً بدی ہوتی ہے۔ لیکن دوسری چیزوں کے استعمال کا نتیجہ لازماً بدی اور بےایمانی کے رنگ میں نہیں نکلتا۔ چنانچہ دیکھ لو۔ مسلمانوں میں سے بعض ایسے فرقے جو ان اشیاء کو مختلف تاویلات کے ذریعے جائز سمجھتے اور انہیں کھالیتے ہیں جیسے مالکی، ان کا اثر ان کے ایمان پر نہیں پڑتا۔ اور ان میں بے ایمانی اور بدی پیدا نہیں ہوتی۔ بلکہ گذشتہ دور میں تو ان میں اولیاء اللہ بھی پیدا ہوتے رہے ہیں۔ لیکن خنزیر کا گوشت یا مردار کھانے والا کوئی شخص ولی اللہ نظر نہیں آئے گا۔ پس حرمت کے بھی مدارج ہیں اور ان چاروں حرام چیزوں کے سوا باقی تمام ممنوعات ہیں جن کو عام اصطلاح میں حرام کہا جاتا ہے ورنہ قرآنی اصطلاح میں وہ حرام نہیں ہیں۔‘‘(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ340)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ حلال و حرام کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’قرآن میں آیا ہے۔
لَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَذَا حَلَالٌ وَهَذَا حَرَامٌ لِتَفْتَرُوا عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ۔
یہ خد اپر افتراء باندھنا ہے کہ یہ حلا ل ہے یا حرام۔ خد ا نے فرمایا ہے
حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللّٰهِ۔
حدیث شریف میں رسول کریمﷺ نے فرمایا۔ کہ جو جانور شکاری ہے وہ حرام ہے۔ اس میں درندے، شکاری پرند وغیرہ سب داخل ہیں۔ اب اس سے زیادہ کوئی مجاز نہیں کہ کسی کو حلا ل اور حرام کہے۔ مگردنیا میں چونکہ ہزار ہا جانور ہیں پھریہ دقت ہوئی کہ اب کسے کھاویں اور کسے نہ کھاویں۔ اس مشکل کو اللہ تعالیٰ نے نہایت آسانی سے حل کردیا ہے۔
فَكُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلَالًا طَيِّبًا وَاشْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ۔
یعنی حلا ل طیب کھاؤ۔ اب گویا یہ بتادیا کہ جو چیز طیب ہو وہ کھاؤ چنانچہ ہر جگہ ہر قوم میں جو چیزیں عمدہ اور پاک ہوں اور شرفاء اور مہذب لوگ کھاتے ہوں وہ کھا لو۔ اس میں وہ استثناء جو پہلے بیان ہوچکے ان کا ملحوظ رکھنا نہایت ضروری ہے۔ طوطا کھا لینے میں کوئی حرج نہیں معلوم ہوتا ہے۔ مگر میں نہیں کھایا کرتا کیونکہ ہمارے ملک کے شرفاء نہیں کھاتے ایک دفعہ ایک صاحب میرے سامنے گو (ضب) پکا کر لائے کہ کھائیے میں نے کہا آپ بڑی خوشی سے میرے دستر خوان پر کھائیے مگر میں نہ کھاؤں گا کیونکہ شرفاء اسے نہیں کھاتے۔ ‘‘
(اخبار بدر نمبر 19 جلد 10 مؤرخہ 09 مارچ 1911ء صفحہ 1)
سوال: ۔ ایک خاتون نے اسلام میں مرد اور عورت میں برابری کے ضمن میں اپنی بعض الجھنوں کا ذکر کر کے اسلام کے مختلف حکموں کے بارے میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں رہ نمائی کی درخواست کی۔ جس کے جواب میں حضور انور نے اپنے مکتوب مورخہ 11؍اپریل 2016ء میں ان امور کے بارے میں درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:
جواب: ۔ آپ کے خط میں مذکور آپ کی الجھنیں اسلامی تعلیمات اور فطرت انسانی کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں۔ اسلام نے یہ کہیں دعویٰ نہیں کیا کہ مرد اور عورت ہر معاملہ میں برابر ہیں۔ اسلام کیا خود فطرت انسانی بھی اس بات کا انکار کرتی ہے کہ مرد اور عورت کو ہر لحاظ سے برابر قرار دیا جائے۔
ہاں اسلام نے یہ تعلیم ضرور دی ہے کہ نیکیوں کے بجالانے کے نتیجہ میں جس طرح اللہ تعالیٰ مردوں کو انعامات اور اپنے فضلوں سے نوازتا ہے اسی طرح وہ عورتوں کو بھی اپنے انعامات اور فضلوں کا وارث بناتا ہے۔ چنانچہ فرمایا:
فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّيْ لَا أُضِيْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْكُمْ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثٰى بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ فَالَّذِيْنَ هَاجَرُوْا وَأُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأُوْذُوْا فِيْ سَبِيْلِيْ وَقَاتَلُوْا وَقُتِلُوْا لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ثَوَابًا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الثَّوَابِ۔
(سورۃ آل عمران: 196)
ترجمہ: ۔ پس اُن کے ربّ نے اُن کی دعا قبول کرلی (اور کہا) کہ میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کا عمل ہرگز ضائع نہیں کروں گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ تم میں سے بعض، بعض سے نسبت رکھتے ہیں۔ پس وہ لوگ جنہوں نے ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور میری راہ میں دُکھ دئیے گئے اور انہوں نے قتال کیا اور وہ قتل کئے گئے، میں ضرور ان سے ان کی بدیاں دور کردوں گا اور ضرور انہیں ایسی جنتوں میں داخل کروں گا جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں۔ (یہ) اللہ کی جناب سے ثواب کے طور پر (ہے) اور اللہ ہی کے پاس بہترین ثواب ہے۔
جہاں تک مرد اور عورت کی گواہی کا تعلق ہے تو ایسے معاملات جن کامردوں سے تعلق ہے اور عورتوں سے براہ راست تعلق نہیں ان میں اگر گواہی کے لیے مقررہ مرد میسر نہ ہوں تو ایک مرد کے ساتھ دو عورتوں کو اس لیے رکھا گیا ہے کہ چونکہ ان معاملات کا عورتوں سے براہ راست تعلق نہیں لہٰذا اگر گواہی دینے والی عورت اپنی گواہی بھول جائے تو دوسری عورت اسے یاد دلا دے۔ گویا اس میں بھی گواہی ایک عورت کی ہی ہے، صرف اس کے ایسے معاملات سے تعلق نہ ہونے کی وجہ سے اس کے بھول جانے کے اندیشہ کے پیش نظر احتیاطاً دوسری عورت اس کی مدد کے لیے اور اسے بات یاد کرانے کے لیے رکھ دی گئی ہے۔ قرآن کریم کا منطوق بھی اسی مفہوم کی تائید فرما رہا ہے۔ چنانچہ فرمایا:
يَآ أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلٰى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاکْتُبُوْہُ…وَاسْتَشْهِدُوْا شَهِيْدَيْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْ فَإِنْ لَّمْ يَكُوْنَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَّامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَٓاءِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرٰى۔
(سورۃالبقرۃ: 283)
ترجمہ: ۔ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم ایک معیّن مدت تک کے لئے قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو… اور اپنے مردوں میں سے دو کو گواہ ٹھہرا لیا کرو۔ اور اگر دو مرد میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں (ایسے) گواہوں میں سے جن پر تم راضی ہو۔ (یہ) اس لئے (ہے) کہ ان دو عورتوں میں سے اگر ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد کروا دے۔
اور جہاں تک عورتوں سے براہ راست متعلقہ معاملات کا تعلق ہے تو حدیث سے ثابت ہے کہ حضورﷺ نے صرف ایک عورت کی گواہی پر کہ اس نے اس شادی شدہ جوڑے میں سے لڑکے اور لڑکی دونوں کو دودھ پلایا تھا، علیحدگی کروا دی۔ چنانچہ حضرت عقبہ بن حارثؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ابوا ہاب بن عزیز کی لڑکی سے نکاح کیا۔ اس کے بعد ایک عورت نے آکر بیان کیا کہ میں نے عقبہ کو اور اس عورت کو جس سے عقبہ نے نکاح کیا ہے دودھ پلایا ہے (پس یہ دونوں رضاعی بہن بھائی ہیں، ان میں نکاح درست نہیں) عقبہ نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ تو نے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ تو نے (اس سے) پہلے کبھی اس بات کی اطلاع دی ہے۔ پھر عقبہ سواری پر سوار ہو کر رسول اللہﷺ کے پاس مدینہ گئے اور آپؐ سے (یہ مسئلہ) پوچھا تو نبیﷺ نے فرمایا کہ اب جبکہ یہ بات کہہ دی گئی ہے تم کس طرح اسے اپنے نکاح میں رکھ سکتے ہو۔ پس عقبہ نے اس عورت کو چھوڑ دیا۔ اور اس نے دوسرے شخص سے نکاح کرلیا۔
(صحیح بخاری کتاب العلم بَاب الرِّحْلَةِ فِي الْمَسْأَلَةِ النَّازِلَةِ وَتَعْلِيمِ أَهْلِهِ)
جہاں تک طلاق اور خلع کا تعلق ہے تو اس میں بھی کوئی فرق نہیں۔ بلکہ یہ اسلام کا احسان ہے کہ اس نے مرد کو طلاق کا حق دینے کے ساتھ ساتھ عورت کو خلع لینے کا حق دیا۔ اور اس میں بھی مرد اور عورت کو برابر کے حقوق دیے گئے ہیں۔ جب مرد طلاق دیتا ہے تو اسے عورت کو ہر قسم کے مالی حقوق دینے پڑتے ہیں اور مزید یہ کہ جو کچھ وہ بیوی کو پہلے مالی مفادات پہنچا چکا ہے اس میں سے کچھ بھی واپس نہیں لے سکتا۔ اسی طرح جب عورت اپنی مرضی سے خاوند کے کسی قصور کے بغیر خلع لیتی ہے تو اسے بھی مرد کے بعض مالی حقوق از قسم حق مہر وغیرہ واپس کرنا پڑتا ہے، لیکن اگر عورت کے خلع لینے میں مرد کی زیادتی ثابت ہو تو اس صورت میں عورت کو یہ زائد فائدہ دیا گیا ہے کہ اسے مہر کا بھی حقدار قرار دیا جاتا ہے۔ جس کا فیصلہ بہرحال قضاء تمام حالات دیکھ کر کرتی ہے۔
اہل کتاب سے شادی کرنے، ولی کی ضرورت اور مرد کے ایک سے زائد شادیاں کرسکنے کے معاملات میں دراصل عورت کی حفاظت، وقار اور عزت کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ عورت کو اللہ تعالیٰ نے مرد کی نسبت عموماً نازک بنایا اور اس کی فطرت میں اثر قبول کرنے کا مادہ رکھا ہے۔ پس ایک مسلمان عورت کو اہل کتاب مرد سے شادی کرنے سے روک کر اس کے دین کی حفاظت کی گئی ہے۔
شادی کے معاملہ میں لڑکی کی رضامندی کے ساتھ اس کے ولی کی رضامندی رکھ کر دیگر بہت سے فوائد میں سے ایک فائدہ عورت کو ایک مدد گار اور محافظ مہیا کرنا بھی ہے کہ عورت کے بیاہے جانے کے بعد اس کے سسرال والے اس بات سے باخبر رہیں کہ عورت اکیلی نہیں بلکہ اس کی خبر رکھنے والے موجود ہیں۔
عورت کو ایک وقت میں ایک ہی شادی کی اجازت دے کر اسلام نے اس کی عصمت کی حفاظت کی ہے اور انسانی غیرت اور انسانی جبلت کے عین مطابق یہ حکم دیا ہے۔
جس حدیث میں عورتوں کے جہنم میں زیادہ ہونے کا ذکر ہے، وہاں لوگوں نے اس حدیث کا ترجمہ سمجھنے میں غلطی کھائی ہے۔ اس حدیث کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ جہنم میں عورتوں کی کثرت ہوگی۔ بلکہ حضورﷺ نے فرمایا
أُرِيْتُ النَّارَ فَإِذَا أَكْثَرُ أَهْلِهَا النِّسَاءُ يَكْفُرْنَ۔
یعنی مجھے جہنم دکھائی جہاں میں نے دیکھا کہ اس میں ایسی عورتوں کی کثرت ہے جو اپنے خاوندوں کی ناشکرگزار ہیں۔ یعنی جو عورتیں اپنے اعمال کی وجہ سے جہنم میں موجود تھیں ان میں سے زیادہ وہ عورتیں تھیں جو اپنے خاوندوں کی ناشکر گزار تھیں۔
پس ایک تو اس حدیث کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ جہنم میں عورتیں مردوں سے زیادہ ہوں گی۔ دوسرا یہاں ان عورتوں کے جہنم میں جانے کی وجہ بھی بتا دی کہ وہ ایسی عورتیں ہے جوبات بات پر خدا تعالیٰ کے ان احسانات کی ناشکری کرنے والی ہیں، جو ان کے خاوندوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ان پر کیے ہیں۔
پھر اس کے بالمقابل احادیث میں نیک اور پاک باز خواتین کے پاؤں کے نیچے جنت ہونے کی بھی تو نوید سنائی گئی ہے جو کسی مرد کے بارہ میں بیان نہیں ہوئی۔
علاوہ ازیں اسلام نے مردوں اور عورتوں کے بعض حقوق و فرائض ان کے طبائع کے مطابق الگ الگ بیان فرمائے ہیں۔ مرد کو پابند کیا کہ وہ محنت مزدوری کرے اور گھر کی تمام ضروریات پوری کرے اور عورت کو کہا کہ وہ گھر اور بچوں کی حفاظت اور تربیت کرے۔ گویا باہر کی دوڑ دھوپ کے لیے مرد کو اس کی صلاحیتوں کے پیش نظر منتخب کیا اور عورت کی فطرت کے مطابق اور اس کے وقار کے پیش نظر گھر کی سربراہی اس کے سپرد کر دی۔
آنحضورﷺ کا ارشاد کہ عورت میں دین اور عقل کے لحاظ سے ایک طرح کی کمی ہے۔ اس میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں کیونکہ یہ بھی عورت کی فطرت کے عین مطابق کہی گئی بات ہے۔ دین کی کمی تو آنحضورﷺ نے خود بیان فرما دی کہ اس کی عمر کے ایک بڑے عرصہ میں اس پر ہر ماہ کچھ ایسے ایام آتے ہیں جن میں اسے ہر قسم کی عبادات سے رخصت ہوتی ہے۔ اور دیکھا جائے تو یہ بھی ایک طرح سے اس پر خدا تعالیٰ کا احسان ہے۔ جبکہ عقل کی کمی کی بات میں بھی عورت کی تحقیر نہیں کی گئی بلکہ اس سے مراد عورت کی سادگی ہے، جس کا ثبوت آج کی دنیا میں عورت نے خود مہیا کر دیا ہے کہ وہ بہت سادہ ہے۔ کیونکہ مغربی دنیا کے مرد نے اسے آزادی کا جھانسہ دے کر جس طرح اپنے فائدہ کے لیے استعمال کیا ہے وہ اصدق الصادقین حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے اس قول کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
مرد نے اپنی ہوس کی خاطر اسے گھر کی چار دیواری سے نکال کر باہر بازار میں لا کھڑا کیا ہے۔ اور اسلام نے روزی روٹی کی جو ذمہ داری مرد پر ڈالی تھی اس میں بھی مرد نے عورت کی سادگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی یہ ذمہ داری اسے بانٹ کر اسے اپنے فائدہ کے لیے استعمال کیا ہے۔ جہاں اسے مردوں کی طرح محنت کے ساتھ ساتھ مختلف الانواع مردوں سے واسطہ پڑتا ہے جو بسا اوقات اپنی نظروں کی ہوس پوری کرنے کے لیے مختلف زاویوں سے اس پر نظریں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پھر اگر غور کیا جائے تو مغربی دنیا کا عورت اور مرد کی برابری کا اعلان صرف ایک کھوکھلا دعویٰ ہی ہے۔ اسی مغربی دنیا میں کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں جس کی حکومتی مشینری چلانے والے پارلیمانی نظام میں مردوں کے برابر عورتیں موجود ہوں۔ انہیں مغربی ممالک میں بیسیوں جگہوں پر کسی ملازمت کے لیے جو پیکیج ایک مرد کو دیا جاتا ہے وہ عموماً اسی ملازمت کے لیے عورت کو نہیں دیا جاتا۔ اور یہ ساری باتیں عورت کی سادگی کی شاہد ناطق ہیں۔
جہاں تک قرآن کریم کے مرد کو قوّامقرار دینے کی بات ہے تو خود قرآن کریم نے اس کی وجوہات بھی بیان فرمائی ہیں۔ ایک وجہ یہ بیان فرمائی کہ گھریلو نظام چلانے کے لیے ایک فریق کو دوسرے پر کسی قدر فضیلت دی گئی ہے اور دوسری وجہ یہ بیان فرمائی کہ وہ اپنے اموال عورت پر خرچ کرتا ہے۔
ایک فریق کو دوسرے پر فضیلت کی وجہ فطرت انسانی کے عین مطابق ہے کیونکہ اگر ہم دنیا کے نظام پر نظر ڈالیں تو ہر جگہ ایک فریق اوپر اور ایک نسبتاً نیچے ہوتا ہے۔ اگر دنیا میں سب لوگ برابر ہوتے یا یوں کہیں کہ اگر سب لوگ بادشاہ بن جاتے تو دنیا ایک دن بھی نہ چل سکتی اس لیے اللہ تعالیٰ نے کچھ لوگوں کو بڑا اور کچھ کو چھوٹا، کچھ کو امیر اور کچھ کو غریب بنایا۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہر ملک میں نظام حکومت کو چلانے کے لیے ایک کابینہ ہوتی ہے اگر اس ملک کے سارے لوگ ہی کابینہ کا حصہ بن جائیں تو وہ ملک چل ہی نہیں سکتا۔ بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ نے گھریلونظام کو چلانے کے لیے مرد کو نسبتاً زیادہ اختیارات دیے لیکن جس طرح ایک سربراہ حکومت اور ملک کی کابینہ کے زائد اختیارات کے ساتھ ساتھ اسی نسبت سے زائد فرائض بھی ہوتے ہیں اسی طرح اسلام نے مرد پرعورت کی نسبت زائد ذمہ داریاں بھی ڈالی ہیں۔
پس مرد و عورت کے حقوق و فرائض کے اعتبار سے اسلامی نظام فطرت کے عین مطابق ہے اور اس میں کسی قسم کا رخنہ نہیں۔
سوال: ۔ ایک خاتون نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی مجلس عرفان میں بیان فرمودہ ایک ارشاد کے حوالے سے چچا اور ماموں سے پردہ کرنے کے بارے میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے رہ نمائی کی درخواست کی۔ جس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ یکم جون 2020ء میں درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:
جواب: ۔ آپ نے اپنے خط میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے جس ارشاد کا ذکر کیا ہے وہ سورۃ النور کی آیت نمبر 32 کے حوالہ سے مجلس عرفان میں ایک سوال کے جواب میں بیان فرمودہ ہے۔
یہ بات درست ہے کہ اس آیت میں بیان رشتے جن سے عورت کو پردہ نہ کرنے کی رخصت دی گئی ہے، ان میں چچا اور ماموں کا ذکر نہیں ہے لیکن ان دونوں کا شمار محرم رشتوں میں ہی ہوتاہے، جیسا کہ حضور نے بھی اپنے اس ارشاد میں فرمایا ہے۔ اورسورۃ النساء میں بیان قرآنی حکم سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کیونکہ ان دونوں سے نکاح کی حرمت بیان ہوئی ہے۔
علاوہ ازیں احادیث میں حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ ان کے استفسار پر حضورﷺ نے انہیں چچا سے پردہ نہ کرنے کا ارشاد فرمایا تھا۔
لیکن اس کے ساتھ پردہ کے بارہ میں یہ بات بھی پیش نظر رہنی ضروری ہے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق محرم رشتوں میں بھی ہر درجہ کے رشتہ سے پردہ میں رخصت کی الگ کیفیت ہے۔ چنانچہ سورۃ النور میں جن محرم رشتہ داروں سے پردہ نہ کرنے کی رخصت آئی ہے، ان میں سے بھی ہر رشتہ کی دوسرے رشتہ سے پردہ کی رخصت کی ایک الگ صورت ہو گی۔ چنانچہ خاوند سے پردہ کی جو رخصت ہےوہ اسی آیت میں بیان والد، بیٹے اور بھائی وغیرہ سے پردہ کی رخصت سے الگ ہے۔
پس جس طرح اس آیت میں بیان رشتہ داروں سے پردہ کی مختلف کیفیات ہیں اسی طرح دیگر محرم رشتہ داروں سے بھی پردہ کی رخصت کی کیفیت میں فرق ہے۔ اور یہی مضمون حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ اپنے مذکورہ ارشاد میں سمجھا رہے ہیں کہ چچا اور ماموں جو ایک ہی گھر میں ساتھ رہنے والے رشتہ دار نہیں بلکہ باہر کے لوگ ہیں، اور اگرچہ ان کا شمار محرم رشتہ داروں میں ہی ہوتا ہے، لیکن جب وہ گھر میں آئیں تو عورتیں جس طرح اسی گھر میں ساتھ رہنے والے مردوں جن میں خاوند، باپ، بیٹے وغیرہ شامل ہیں، سےپردہ میں نسبتاً Relaxہوتی ہیں، باہر سے آنے والے محرم مردوں کی صورت میں انہیں نسبتاً کچھ زیادہ محتاط ہونا چاہیے اور اگرچہ ان کے سامنے چہرہ تو نہیں ڈھکا جاتا لیکن سر اور سینہ کو ڈھانپ کر اور اپنے آپ کو سنبھال کر ان کے سامنے بیٹھنے کا حکم ہے۔ پس یہ مضمون ہے جو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ بیان فرما رہے ہیں، نہ کہ چچا اور ماموں سے پردہ کرنے کا حکم دے رہے ہیں۔
(مرتبہ: ظہیر احمد خان۔ شعبہ ریکارڈدفترپرائیویٹ سیکرٹری لندن)