نمازوں کی پابندی اور تہجد میں شغف
نمازوں کی پابندی اور تہجد میں شغف(حصہ دوم)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھر حضرت ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحبؓ اور حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب ؓپر حضرت مسیح موعود ؑ کی بیعت کا کیا اثر ہوا ۔ اس بارہ میں ایک روایت یہ ہے بلکہ وہ خود ہی بتاتے ہیں کہ ’’ہمارے والد صاحب نے اپنے دوست کو بتایا کہ جب میرے یہ دونوں لڑکے1892ء اور 1893ء کے موسم گرما کی تعطیلات میں میرے پاس بمقام ککرہٹہ ضلع ملتان میں آئے تو مَیں نے ان کی حالت میں ایک عظیم تبدیلی دیکھی جس سے مَیں حیران رہ گیا اور مَیں حیرت میں کہتاتھا کہ اے خدا !تُو نے کون سے اسباب ان کے لئے میسر کردئے جن سے ان کے دلوں میں ایسی تبدیلی ہوئی کہ یہ نُوْرٌ عَلٰی نُوْر ہو گئے ۔یہ ساری نمازیں پڑھتے ہیں اور ٹھیک وقت پر نہایت ہی شوق اور عشق اور سوزوگداز کے ساتھ اور نہایت رقّت کے ساتھ کہ ان کی چیخیں بھی نکل جاتیں۔ اکثر ان کے چہروں کو آنسوئوں سے تر دیکھتا اورخشیت الٰہی کے آثار ان کے چہروں پر ظاہر تھے ۔اس وقت ان دونوں بچوں کی بالکل چھوٹی عمرتھی ۔داڑھی کاآغاز تھا۔ مَیں ان کی اس عمر میں یہ حالت دیکھ کر سجدات شکر بجا لاتا نہ تھکتا تھا اور پہلے جو اُن کی روحانی کمزور ی کا بوجھ میرے دل پرتھا وہ اتر گیا۔
والد صاحب نے اس دوست سے کہا کہ ان کی اس غایت درجہ کی تبدیلی کا عقدہ مجھ پر نہ کھلا کہ اس چھوٹی سی عمرمیں ان کو یہ فیض اور روحانی برکت کہاںسے ملی۔ کچھ مدت کے بعد یہ معلوم ہوا کہ یہ رُشد اِنہیں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی بیعت سے حاصل ہوئی ہے اور والد صاحب کو حضرت صاحب کی بیعت میں شامل کرنے کا ایک بڑا بھاری ذریعہ ہماری تبدیلی تھی۔ (یعنی بچوں کی تبدیلی سے والد احمدی ہوئے) جس نے ان کو حضرت اقدس کی طہار ت اور انفاس طیبہ کی نسبت اندازہ لگانے کا اچھا موقعہ دیا‘‘۔
(اصحاب احمدجلد 1صفحہ 186۔ مطبوعہ 1997ء)
حضرت چوہدری نصراللہ خان صاحبؓ کا نمونہ ،جو حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے والد تھے ۔ان کے ایک بیٹے کہتے ہیں کہ میری طبیعت پر بچپن سے یہ اثرتھاکہ والد صاحب (چوہدری نصراللہ خان صاحبؓ)نماز بہت پابندی کے ساتھ اور سنوار کر ادا فرمایا کرتے تھے اورتہجد کاالتزام رکھتے تھے۔ مَیں اپنے تصور میں اکثروالد صاحب کو نمازپڑھتے یا قرآن کریم کی تلاوت کرتے دیکھتاہوں۔ بیعت کرلینے کے بعد فجرکی نمازکبوتراں والی مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔مسجد ہمارے مکان سے فاصلے پرتھی اس لئے والد صاحب گھرسے بہت اندھیرے ہی روانہ ہو جایا کرتے تھے ۔‘‘
(اصحاب احمدجلد 11صفحہ163۔ مطبوعہ 1962ء)
پھر بلاناغہ نمازوں کی پابندی کے بارہ میں حضرت بابوفقیر علی صاحب رضی اللہ عنہ کا ایک نمونہ پیش کرتاہوں۔ ’’آپ دل بہ یا ر دست بہ کار‘‘پرعمل پیرا تھے ۔ ایم بشیر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ جس زمانہ میں انگریزوں کا رعب داب بھی بہت تھا ۔ وہ کہتاتھا مولوی صاحب! کو ئی حادثہ کروا دو گے۔ ہروقت نماز پڑھتے رہتے ہو۔ آپ اس کی ایسی باتوں سے بہت تنگ پڑے ۔ ایک روز دروازہ اورکھڑکی آپ نے بند کی (دفتر کی ) اور اس کے قریب ہو کر بات کرنے لگے ۔ تو وہ گھبرا گیا مباد ا آپ حملہ کردیں۔ آپ نے اسے اطمینان دلایا کہ میرا ایساارادہ نہیں۔ مَیں علیحدگی میں بات کرنا چاہتا ہوں جو یہ ہے کہ آپ دفترمیں قضائے حاجت پروقت صرف کرتے ہیں۔ اسی طرح چائے سگریٹ پینے پر بھی ۔پھرمجھ پر معترض کیوں ہیں؟ کہنے لگا یہ امور تو مقتضائے طبیعت ہیں ۔ آ پ نے کہا: مَیںآپ کے ماتحت ہوں ،آ پ کی فرمانبرداری کروں گا لیکن صرف انہی احکام میں جو فرض منصبی سے متعلق ہوں۔ دیگر امور کے متعلق اطاعت مجھ پر فرض نہیں ۔ اس لئے نمازوں سے آپ کے کہنے پرمَیں رُک نہیں سکتا۔ میر ی غفلت سے حادثہ رونما ہو یاٹرین میں تاخیرہو جائے تو بے شک آ پ مجھ سے نرمی کا سلوک نہ کریں۔ یہ کہہ کر آپ نے دروازہ اورکھڑکی کھول دی ۔ وہ آپ کی گفتگو سے بہت حیران ہوا۔… اس گفتگو کا اس پر ایسااثر ہوا کہ آپ کے لوٹے کو ہاتھ ڈالتے ہی وہ کہتا:مولوی صاحب آپ تسلی سے نماز پڑھیں ،مَیں آپ کے کام کاخیال رکھوں گا۔ ایک دن آپ کا روکھا سوکھا کھانا دیکھ کربھی اس پربہت اثر ہوا کہ ان کا یہ حال ہے ‘‘۔
(اصحاب احمدجلد 3صفحہ 61۔ طبع ثانی بعد اضافہ۔ قادیان، بھارت)
یہاں انگلستان میں ایک ہمارے پرانے احمدی بلال نٹل صاحب جب احمدی ہوئے تو انہوں نے اپنے لئے ’’بلال‘‘ نام کا انتخاب کیا اور پھرحضرت بلالؓ ہی کے تتبع میں انہوں نے نماز کی خاطر بلانے میں(اذان دینے میں) ایک خاص نام پیدا کیا۔ انہیں سچ مُچ نماز کے لئے بلانے کا از حد شوق تھا۔
(تلخیص از ماہنامہ انصاراللہ۔جون 1965ء۔ صفحہ 36)
نفسانی جوشوں کو دبانا
پھریہ شرط ہے کہ نفسانی جوشوں کو دبانا۔ اس میں کیا مثالیں ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک خوبی بیان فرماتے ہیں کہ ہندوؤں کے ساتھ جلسہ تھااور وہاں جھگڑا ہوگیااوربڑے ضبط کانمونہ دکھایا جماعت نے ۔فرماتے ہیں کہ’’ اگر پاک طبع مسلمانوں کو اپنی تہذیب کا خیال نہ ہوتا اور بموجب قرآنی تعلیم کے صبر کے پابند نہ رہتے اور اپنے غصہ کو تھام نہ لیتے تو بلا شبہ یہ بدنیت لوگ ایسی اشتعال دہی کے مرتکب ہوئے تھے کہ قریب تھاکہ وہ جلسہ کا میدان خون سے بھر جاتا۔ مگرہماری جماعت پر ہزار آفرین ہے کہ انہوں نے بہت عمدہ نمونہ صبر اور برداشت کا دکھایا اور وہ کلمات آریو ں کے جو گولی مارنے سے بدتر تھے، ان کو سن کر چپ کے چپ رہ گئے‘‘۔
(چشمۂ معرفت روحانی خزائن جلد 23۔ صفحہ 10)
اسی طرح فرماتے ہیںکہ ’’اگرمیری طرف سے اپنی جماعت کے لئے صبر کی نصیحت نہ ہوتی اوراگر مَیں پہلے سے اپنی جماعت کو اس طور سے تیار نہ کرتا کہ وہ ہمیشہ بدگوئی کے مقابل پر صبر کریں تو وہ جلسہ کا میدان خون سے بھر جاتا ۔مگر یہ صبر کی تعلیم تھی کہ اس نے ان کے جوشوں کو روک لیا ‘‘۔
(چشمۂ معرفت روحانی خزائن جلد 23۔ صفحہ 8)
پھرنفسانی جوشوں کو دبانے کی ایک مثال حضرت سید عبدالستار شاہ صاحبؓ کی ہے۔ عجیب نمونہ ہے ۔روایت ہے کہ ’’ایک روز حضرت شاہ صاحب نماز کی ادائیگی کے لئے نزدیکی مسجد میں تشریف لے گئے ۔ اس وقت ایک سخت مخالف احمدیت چوہدری رحیم بخش صاحب وضو کے لئے مٹی کا لوٹا ہاتھ میں لئے وہاں موجود تھے۔ حضرت ڈاکٹر صاحب کو دیکھتے ہی (ڈاکٹر صاحب سرکاری ڈاکٹر تھے ، سرکاری ہسپتال میں وہاں تعینات تھے ) مذہبی بات چیت شروع کردی ۔ حضرت ڈاکٹرصاحب کی کسی بات پرچوہدری رحیم بخش صاحب نے شدید غصہ میں آکرمٹی کا لوٹا زور سے آپؓ کے ماتھے پر دے مارا۔ لوٹا ماتھے پر لگتے ہی ٹوٹ گیا ۔ماتھے کی ہڈی تک مائوف ہوگئی اورخون زور سے بہنے لگا ۔ ڈاکٹر صاحب کے کپڑے خون سے لت پت ہوگئے۔ آ پ نے زخم والی جگہ کو ہاتھ سے تھام لیا اور فوراً مرہم پٹی کے لئے ہسپتال چل دئے۔ ان کے واپس چلے جانے پر چوہدری رحیم بخش بہت گھبرائے کہ اب کیا ہوگا؟ یہ سرکاری ڈاکٹر ہیں۔ افسر بھی ان کی سنیں گے اور میرے بچنے کی اب کوئی صورت نہیں ۔مَیں کہاں جائوں !اور کیا کروں ! ؟وہ ان خیالات میں ڈرتے ہوئے اور سہمے ہوئے (مسجد )میں ہی دبکے پڑے رہے ۔ ادھر ڈاکٹر صاحب نے ہسپتال میں جاکر زخمی سرکی مرہم پٹی کی، دوائی لگائی اور پھرخون آلود کپڑے بدل کردوبارہ نماز کے لئے اسی مسجد میں آگئے۔ جب ڈاکٹر سیدعبدالستار شاہ صاحب دوبارہ مسجد میں داخل ہوئے اور چوہدری رحیم بخش صاحب کو وہاں دیکھا تو دیکھتے ہی آپ مسکرائے اور مسکراتے ہوئے پوچھا کہ ’’چوہدری رحیم بخش! ابھی آپ کا غصہ ٹھنڈا ہوا ہے یا نہیں ؟‘‘
یہ فقرہ سنتے ہی چوہدری رحیم بخش کی حالت غیرہوگئی ۔ فوراً ہاتھ جوڑتے ہوئے معافی کے ملتجی ہوئے اورکہنے لگے کہ شاہ صاحب! میری بیعت کا خط لکھ دیں۔ یہ اعلیٰ صبر کا نمونہ اور نرمی اورعفو کاسلوک سوائے الٰہی جماعت کے افراد کے اورکسی سے سرزد نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ چوہدری صاحب احمدی ہوگئے اور کچھ عرصہ بعد ان کے باقی اصحاب خانہ بھی جماعت احمدیہ میں داخل ہوگئے ۔
(حضرت ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب۔ صفحہ 63۔ مرتّبہ احمد طاہر مرزا۔ شائع کردہ مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان)
تویہ چند نمونے ہیں جو مَیں نے پیش کئے ۔یہ پہلی تین چار شرائط بیعت کے تعلق میں ہیں۔ انشاء اللہ کوشش کروں گا کہ آئندہ کچھ اورنمونے بھی پیش کروں کہ لوگوں میں بیعت میں داخل ہونے کے بعد کیاانقلابات آئے تاکہ نئے آنے والوں کو بھی اور آئندہ نسلوں کو بھی پتہ چلے اور وہ بھی اپنے اندرایسی پاک تبدیلیاں پیدا کریں اورکبھی ان پر رعبِ دجال نہ آئے ۔ آمین۔
(از خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ 26؍ستمبر2003ء بمطابق 26؍ تبوک 1382ہجری شمسی۔ بمقام مسجد فضل لندن)
(باقی آئندہ)