خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 13؍ نومبر 2020ء
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت بدری صحابہحضرت عبداللہ بن عمرو اور حضرت سماک بن خرشہ(ابو دجانہ) رضی اللہ عنہما کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
حضرت عبداللہ بن عمروؓ کے قرض کی ادائیگی کے لیے رسول اللہﷺ نے خود ان کی کھجوریں قرض خواہوں میں تقسیم فرمائیں
شجاع اور ماہر گھڑ سوار حضرت ابودجانہؓ غزوۂ بدر سمیت دیگر تمام غزوات میں شریک ہوئے اور ان کا شمار انصار کے کبار صحابہ میں ہوتا تھا
چار مرحومین مکرم محبوب خان صاحب (شہید) پشاور پاکستان، مکرم فخر احمد فرخ صاحب مربی سلسلہ پاکستان ،عزیزم احتشام احمد عبداللہ ابن مکرم فخر احمد فرخ صاحب مربی سلسلہ اور مکرم ڈاکٹرعبدالکریم صاحب ریٹائرڈ اکنامک ایڈوائزر سٹیٹ بینک آف پاکستان کا ذکر ِخیر اور نماز ِجنازہ غائب
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 13؍ نومبر 2020ء بمطابق 13؍ نبوت 1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 13؍ نومبر 2020ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت مکرم رانا عطاء الرحیم صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذ، اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
آج بدری صحابہ کا ذکر ہوگا۔ سب سے پہلےتو مَیں ایک وضاحت کرنا چاہتاہوں کہ دو خطبات پیشترحضرت معاذ بن جبلؓ کے ذکر میں ایک روایت پیش ہوئی تھی۔ جس میں آنحضرتﷺ نے فرمایا تھا کہ عنقریب تم شام کی طرف ہجرت کرو گے اور وہ تمہارے ہاتھوں فتح ہوگا لیکن وہاں پھوڑے اور پھنسیوں کی ایک بیماری تم پر مسلّط ہوجائے گی جو آدمی کوسیڑھی کےپائے سے پکڑ لےگی۔ یہ ترجمہ صحیح اور واضح نہیں اصل ترجمہ یہ ہے کہ وہ انسان کی ناف کے نچلے حصّے میں ظاہر ہوگی۔
حضورِانور نے مکمّل روایت بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ اب جوحضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کا ذکر چل رہا تھا ، وہ دوبارہ شروع ہوتا ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد کو نبی کریمﷺ کے پاس اس حال میں لایا گیا کہ آپؓ کا مثلہ کیا گیا تھا۔ عبداللہ بن عمروؓ کی بیٹی فاطمہ اس موقعے پر رونے لگیں تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ مت رو! کیونکہ فرشتے مسلسل اس پر اپنے پروں سے سایہ کیے ہوئے ہیں۔حضورِانور نے شہدائے احد کی تکفین و تدفین اور نمازِ جنازہ کے متعلق متعدد روایات بیان فرمائیں۔صحیح بخاری میں حضرت جابر سے مروی روایت کے مطابق غزوۂ احد کے شہدا ءمیں سے دودو آدمیوں کو ایک کپڑے میں اکٹھارکھا جاتا اور رسول اللہﷺ دونوں میں سے جو زیادہ قرآن جانتا اسے پہلے لحد میں اتارتے تھے۔ ان شہدا ءکو نہ نہلایا گیا اورنہ نمازِ جنازہ پڑھی گئی۔ ایک دوسری روایت کے مطابق آپؐ نے شہدائے احد کا جنازہ آٹھ سال بعد پڑھا تھا۔ سنن ابنِ ماجہ میں درج روایت کے مطابق غزوۂ احد کے شہداء کو رسول اللہﷺ کی خدمت میں لایا جاتا اور آپؐ دس دس شہداء کا جنازہ پڑھتے اور حضرت حمزہؓ کی میت آپؐ کے پاس ہی موجود رہتی جبکہ باقی شہدا ءکو لےجایا جاتا۔
حضورِانور نے فرمایا کہ حضرت مرزا بشیراحمد صاحبؓ نے مختلف تاریخوں سے یہ استنباط کیا ہے کہ گو اُس وقت نمازِ جنازہ ادا نہیں کی گئی لیکن بعد میں زمانۂ وفات کے قریب آنحضرتﷺ نے خاص طور پر شہدائے احد پر جنازہ کی نماز ادا کی۔
حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے اپنے والد کے لیے غزوۂ احد کے چھ ماہ بعد قبر بنائی اور انہیں اس میں دفن کیا تو مَیں نے ان کے جسم میں کوئی تغیّر نہیں دیکھا۔ غزوۂ احد کے چھیالیس برس بعد حضرت امیر معاویہ نے نہر جاری کی تو اس کا پانی شہدائے احد میں سے حضرت عبداللہ بن عمرؓو اور حضرت عمرو بن جموحؓ کی قبروں میں داخل ہوگیا۔ ان پر دو چادریں پڑی ہوئی تھیں، جب زخم سے ہاتھ ہٹایا گیا تو خون جاری ہوگیا ۔ حضورِانور نےفرمایا کہ یہ ناممکن ہے ، اس قسم کی بعض روایتیں بھی بیچ میں آجاتی ہیں جو محلِّ نظر ہوتی ہیں۔ فرمایا کہ یہ قانونِ قدرت ہے ؛ چھیالیس سال بعد تو یہ ہوہی نہیں سکتا کہ اثر نہ ہوا ہو اور ہڈیاں نہ رہ گئی ہوں۔
آنحضرتﷺ نے حضرت جابرؓ کو والد کی شہادت اور قرض داروں کے اصرار کے باعث اداس دیکھتے ہوئے فرمایا کہ اللہ نے کسی سے کلام نہیں کیا مگر پردے کے پیچھے سے مگر تمہارے والد سے آمنے سامنے ہوکر کلام کیا اور فرمایا کہ اے میرے بندے! مجھ سے مانگ کہ مَیں تجھےدوں۔انہوں نے عرض کی کہ اے میرے ربّ! مجھے دوبارہ زندہ کردے تاکہ مَیں تیری راہ میں دوبارہ قتل کیا جاؤں۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مَیں یہ فیصلہ کرچکا ہوں کہ جو ایک بار مرجائے وہ دنیا میں دوبارہ نہیں لوٹائے جائیں گے۔ اس پر حضرت عبداللہ بن عمروؓ نےعرض کی کہ میرے پیچھے رہنے والوں تک یہ بات پہنچادے۔
حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے خلافت سے قبل اپنی ایک تقریر میں فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن عمروؓ کی قلبی کیفیت کی خبر دے کر دراصل اللہ تعالیٰ آپؐ کو یہ پیغام دے رہا تھا کہ تیرا ایسا عشق ہم نے اپنے عارف بندوں کے دل میں بھردیا ہے کہ عالَمِ گزران سے گزر جانے کے بعد بھی تیرا خیال انہیں ستاتا ہے۔ وہ تجھے میدانِ جنگ میں تنہا چھوڑ کے چلے جانے پر کس طرح کبیدہ خاطر ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمروؓ کے قرض کی ادائیگی کے لیے رسول اللہﷺ نے خود ان کی کھجوریں قرض خواہوں میں تقسیم فرمائیں۔ حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ سب قرض ادا ہونے کے بعد بھی کھجوریں بچ گئیں۔
اگلے صحابی حضرت سماک بن خرشہؓ ہیں جو اپنی کنیت ابودجانہ سے زیادہ مشہور تھے۔ آپؓ کا تعلق قبیلہ خزرج کی شاخ بنو ساعدہ سے تھا۔ حضرت عتبہ بن غزوانؓ کی مؤاخات حضرت ابودجانہؓ کے ساتھ قائم فرمائی گئی تھی۔ شجاع اور ماہر گھڑ سوار حضرت ابودجانہؓ غزوۂ بدر سمیت دیگر تمام غزوات میں شریک ہوئے اور ان کا شمار انصار کے کبار صحابہ میں ہوتا تھا۔ دورانِ جنگ آپؓ اپنے سر پر سرخ رومال باندھ کر اپنی پہچان ظاہر فرماتے۔آپؓ غزوۂ احد میں ثابت قدم رہنے والے اصحاب میں سے تھے۔ احد کے روز رسول اللہﷺ نے ایک تلوار پکڑی اور فرمایا کہ اسے مجھ سے کون لےگا؟ اس پر ہرایک نے کہا کہ مَیں لوں گا۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ کون اس کو اس کے حق کے ساتھ لےگا؟ اس پر لوگ رُک گئے لیکن حضرت ابودجانہؓ نے کہا کہ مَیں اس کو اس کے حق کے ساتھ لیتا ہوں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اس تلوار سے کسی مسلمان کو قتل نہ کرنا اور اس کے ہوتے ہوئے کسی کافر کے مقابل پر نہ بھاگنا۔ ابودجانہؓ کولشکروں کے درمیان تفاخرانہ چال چلتےہوئے دیکھ کر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ کو ایسی چال سوائے اس مقام یعنی جنگ کے موقعے کےناپسند ہے۔
حضرت زبیرؓ احد کے روز کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ابودجانہ کے سامنے جو بھی آیا وہ اس کو ہلاک کرتے اور کاٹتے ہوئے آگے بڑھتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ وہ لشکر سے گزر کر ان عورتوں کے سروں پر جاپہنچے جو پہاڑ کے دامن میں دف بجارہی تھیں۔ آپؓ نے ایک عورت پر تلوار چلانے کےلیے ہاتھ بڑھایا اور پھر رسول اللہﷺ کی تلوار کی تکریم کی خاطر اسے عورت پر چلانے سے روک لیا۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ آپؐ عورتوں کے ادب اور احترام کی ہمیشہ تعلیم دیتے جس کی وجہ سے کفار کی عورتیں زیادہ دلیری سے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی تھیں مگر پھر بھی مسلمان ان باتوں کوبرداشت کرتے چلے جاتے تھے۔
مشہور مستشرق سرولیم میور حضرت ابودجانہؓ کی دلیری کانقشہ کھینچتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ابودجانہ اپنی خود کے ساتھ سرخ رومال باندھے اُس تلوار کے ساتھ جو اسے محمدﷺ نے دی تھی چاروں طرف موت بکھیرتا جاتا تھا۔
رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد مسیلمہ کذاب نے جھوٹی نبوت کا دعویٰ کرکے مدینے پر لشکرکشی کا ارادہ کیا تو حضرت ابوبکرؓ نے اس کی سرکوبی کےلیے 12 ہجری میں لشکر روانہ کیا۔ حضرت ابودجانہؓ بھی اس لشکر کا حصّہ تھے۔ مسیلمہ کذاب اپنے ساتھیوں کے ہم راہ یمامہ کے ایک باغ میں محصور ہوا تو آپؓ کے کہنے پر مسلمانوں نے ابودجانہؓ کو باغ کےاندر پھینک دیا۔ اس طرح آپؓ کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی لیکن آپؓ نے بڑی بےجگری سے لڑائی کی اور مشرکین کو وہاں سے ہٹادیا چنانچہ مسلمان اندر داخل ہوگئے۔ حضرت ابودجانہؓ مسیلمہ کذاب کےقتل میں عبداللہ بن زید اور وحشی بن حرب کے ساتھ شامل تھے۔آپؓ نے جنگِ یمامہ کے روز ہی شہادت پائی۔
خطبے کے دوسرےحصّے میں حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے چار مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔
پہلا ذکرِ خیر مکرم محبوب خان صاحب ابن سید جلال صاحب ضلع پشاور کا تھا۔ آپ کو 8؍نومبرکی صبح 8بجے مخالفینِ احمدیت نے فائرنگ کرکے شہید کردیا تھا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآاِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔مرحوم کی عمرتقریباً اسّی سال تھی۔ آپ بےشمار خوبیوں کے مالک، عبادت کا ذوق اور دعوتِ الیٰ اللہ کا شوق رکھنے والی شخصیت کے مالک تھے۔مہمان نوازی اور سخاوت آپ کے نمایاں اوصاف تھے۔پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دوبیٹے،دوبیٹیاں، پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں یادگار چھوڑے ہیں۔
دوسرا جنازہ مکرم فخر احمد فرخ صاحب ابن سیف الرحمٰن صاحب مربی سلسلہ پاکستان کا تھا۔ مرحوم یکم نومبر کو ایک حادثے میں وفات پاگئے تھے۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآاِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
آپ نے 1996ء میں جامعہ احمدیہ ربوہ سے فارغ التحصیل ہونے کےبعد پاکستان اور آئیوری کوسٹ میں خدمت کی توفیق پائی۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ چار بیٹیاں شامل ہیں۔
تیسرا جنازہ مکرم فخر احمد فرخ صاحب کے بیٹے عزیزم احتشام احمد عبداللہ کا تھا۔ یہ اپنے والد کے ہم راہ اسی حادثے میں وفات پاگئے تھے۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآاِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
مرحوم وقفِ نو کی تحریک میں شامل اور فرسٹ ایئر کے طالبِ علم تھے۔
چوتھا جنازہ مکرم ڈاکٹر عبدالکریم صاحب ابن میاں عبداللطیف صاحب ریٹائرڈ اکنامک ایڈوائزر سٹیٹ بینک آف پاکستان کا تھا۔ان کی 14؍ستمبر کو 92 برس کی عمر میں وفات ہوگئی تھی۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآاِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
مرحوم قادیان کے تعلیم الاسلام کالج کے اولین طلباءمیں شامل تھے۔ مرحوم آئی ایم ایف جیسے عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ وابستہ رہنے کے علاوہ جماعتی سطح پر قائم کمیٹیوں کے بھی فعال رکن رہے۔
حضورِانور نے تمام مرحومین کی بلندی درجات کے لیے دعا کی۔
٭…٭…٭