کیا صحابہ رسولﷺ کے نزدیک کوئی بھی نبی زندہ موجود تھا؟
رسول اللہﷺ کے وصال پر ارتداد اختیار کرنےوالے قبائل نے کیا دلیل پکڑی؟
رسول کریمﷺ کے وصال کے بعد عرب کے کئی قبائل نے ارتداد اختیار کر لیا تھا۔ اسلامی تاریخ کی مشہور کتاب تاریخ طبری جلد دوم باب 5میں مرتدین بحرین وعمان اور یمن کا ذکر ہے۔ اہل بحرین کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
’’اہل بحرین مرتد ہوگئے ان میں سے عبد القیس پھر اسلام لے آئے البتہ بکر مرتد ہی رہے جس شخص کی کوشش سے عبد القیس دوبارہ اسلام میں داخل ہوئے وہ جارود تھے۔‘‘
(تاریخ طبری از ابو جعفر محمد بن جریر الطبری جلد دوم صفحہ نمبر 99 ترجمہ سید محمد ابراہیم نفیس اکیڈمی اردو بازار کراچی )
اہل بحرین میں سے بنو عبد القیس کے ارتداد اختیار کرنے اور دوبارہ مسلمان ہونے کا واقعہ تفصیل سے درج ہے۔ بنو عبد القیس نے ارتداد اختیار کرتے ہوئے کیا دلیل پکڑی اور پھر واپس اسلام میں داخل کس دلیل سے ہوئے اس کا ذکر تاریخ طبری میں کچھ یوں ہے۔
’’رسول اللہﷺ نے وفات پائی ۔ان کے قبیلے نے عبد القیس سے کہا اگر محمدنبی ہوتے تو وہ کبھی نہ مرتے اور سب مرتد ہوگئے ۔اس کی اطلاع جارود رضی اللہ عنہ کو ہوئی انہوں نے ان سب کو جمع کیا تقریر کرنے کھڑے ہوئے اور کہا ’’اے گروہ عبد القیس ! میں تم سے ایک بات پوچھتا ہوں اگر تم اسے جانتے ہوتو بتانا او ر اگر نہ جانتے ہو تو نہ بتانا ‘‘انہوں نے کہا جو چاہو سوال ۔کرو جارود رضی اللہ عنہ نے کہا جانتے ہو کہ گذشتہ زمانے میں اللہ کے نبی دنیا میں آچکے ہیں۔ انہوں نے کہا ہاں۔ جارود نے کہا تم ان کو صرف جانتے ہو یا تم نے ان کو دیکھا بھی ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں ہم نے ان کو دیکھا تو نہیں لیکن ہم ان کو جانتے ہیں۔ جارود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر کیا ہوا؟انہوں نے کہا وہ مر گئے ۔جارود رضی اللہ عنہ نے کہا اسی طرح محمدﷺ بھی انتقال فرما گئے جس طرح سابقہ انبیاء دنیا سے اٹھ گئے اور میں اعلان کرتا ہوں لا الہ الا اللّٰہ وان محمدا عبدہ ورسولہ۔ ان کی قوم نے کہا کہ ہم بھی شہادت دیتے ہیں کہ سوائے اللہ کے کوئی حقیقی معبود نہیں ہے اور بےشک محمد اس کے بندے اور رسول ہیں اور ہم تم کو اپنا برگزیدہ اور اپنا سردار تسلیم کرتے ہیں۔ اس طرح وہ اسلام پر ثابت قدم رہے ارتداد کی وبا ان تک نہ پہنچی ‘‘
(تاریخ طبری از ابو جعفر محمد بن جریر الطبری جلد دوم صفحہ نمبر 99 ترجمہ سید محمد ابراہیم نفیس اکیڈمی اردو بازار کراچی )
اہل حدیث مکتبہ فکر اور سعودی عرب کے حکمران خاندان آل سعود کے امام شیخ الاسلام محمد بن عبد الوھاب اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ
’’وارتد اھل ھجر عن الاسلام فقام الجارود بن المعلی فی قومہ فقال: الستم تعلمون ما کنت علیہ من النصرانیۃ ؟ و انی لم آتکم قط الا بخیر و ان اللّٰہ تعالیٰ بعث نبیہ و نعی لہ نفسہ فقال (انک میت و انھم میتون)وقال (وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل۔الآیۃ )
وفی لفظ انہ قال ماشھادتکم علی موسیٰ ؟ قالوا نشھد انہ رسول اللّٰہ قال: فما شھادتھکم علی عیسیٰ؟ قالو ا نشھد انہ رسول اللّٰہ قال وانا اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ وان محمدا عبدہ رسولہ عاش کاما عاشوا ومات کما ماتوا واتحمل شھادۃ من ابی ان یشھد علی ذٰلک منکم فلم یرتد من عبد القیس احد ‘‘
(مختصر سیرۃ الرسولﷺ از محمد بن عبد الوھاب صفحہ نمبر 186، 187 ناشر دار العربیہ بیروت لبنان )
ترجمہ: جب اہل حجر نے اسلام سے ارتداداختیارکیا توحضرت جارود بن معلی رضی اللہ عنہ اپنی قوم میں کھڑے ہوئے، پس آپ نے فرمایا: کیا تم نہیں جانتے کہ جو (عرصہ)میں عیسائیت کے مذہب پر تھا؟اورمیں کبھی بھی تمہارے پا س خیر کی خبر کے سوا کچھ نہیں لایا۔ اوریقیناً اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو مبعوث فرمایا اور اس کی موت پر خود (اللہ تعالیٰ)سوگوارہوا۔ پس آپ نے یہ آیت تلاوت کی(إنك ميت وإنهم ميتون)اوریہ آیت بھی تلاوت فرمائی کہ
(وما محمدالارسول قد خلت من قبله الرسل)
اوران الفاظ میں بھی ہے کہ آپ نے فرمایا: حضرت موسیٰؑ کے بارہ میں تمہاری کیاگواہی ہے؟انہوں نے کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ وہ اللہ کا رسول ہے۔ آپ نے فرمایا: حضرت عیسیٰؑ کے بارہ میں تمہاری کیا گواہی ہے؟انہوں نے کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ وہ اللہ کارسول ہے۔ آپ نے فرمایا: اورمیں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سواکوئی معبود نہیں اوریہ کہ محمداللہ کے بندے اوراس کے رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح زندہ رہے جیسے وہ تمام(سابقہ انبیاء)زندہ رہے۔ اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح وفات پائی جیسے انہوں (یعنی سابقہ انبیاء)نے وفات پائی۔ اورمیں اپنے باپ کی جانب سے اس بات کی گواہی کا متحمل ہوں کہ وہ(یعنی میراباپ)تم میں سے اس بات پر گواہی دے۔ پس وفد عبدالقیس میں سے کسی ایک شخص نے بھی ارتداداختیارنہ کیا۔
غور طلب امور
(1) صحابہ کے لیے رسو ل کریمﷺ کی وفات پر یقین کرنا ایک مشکل امر تھا۔مدینہ میں موجود صحابہ کے سامنے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے دلیل واستدلال پیش کیا کہ
وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل… الشاکرین(آل عمران: 144)
(محمدﷺ ) پیغمبر ہی تو ہیں۔ ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے کیا اگر یہ فوت ہوجائیں یا قتل کر دئے جائیں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے ؟اس کے بعد صحابہ کو وفات کا یقین ہوگیا کہ جس طرح پہلے انبیا کی گزرنے کی دو ہی صورتیں تھیں وفات یا قتل(شہید )اسی طرح رسول کریمﷺ کا فوت ہوجانا قدرتی امر ہے۔ مدینہ کے علاوہ دیگر علاقوں میں بھی مسلمانوں کو رسول کریمﷺ کی وفات پر یقین نہیں ہوا ۔بعض نے تو ارتداد اختیار کر لیا۔ ان کے سامنے بھی گزشتہ انبیا ء کے گزرنے کی دوصورتوں کو ہی دلیل بنا کر رسول کریمﷺ کی وفات کا یقین دلایا گیا۔ جس کی وجہ سے بعض قبائل واپس اسلام میں داخل ہوئے۔
(2) حضرت جارود بن معلی رضی اللہ عنہ کی قوم نے اس وجہ سے ارتداد اختیار کیا کہ رسول کریمﷺ نبی ہوتے تو وہ فوت نہ ہوتے۔ حضرت جارود رضی اللہ عنہ نے اپنی قوم کو واپس اسلام میں لانے کے لیے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی دلیل کو ہی پیش کیا کہ پہلے نبی بھی فوت یا شہید ہوتے تھے۔ اگر حضرت جارود رضی اللہ عنہ کی قوم میں سے کسی ایک بھی شخص کے علم میں گزشتہ انبیاء میں ایک بھی نبی کے گزرنے کی تیسری صورت یعنی زندہ جسم سمیت آسمان پر جانے کا علم ہوتا تو یقیناً حضرت جارود رضی اللہ عنہ کے استدلال کو کمزور کرنے کے لیے اور اپنے ارتداد کا جواز نکالنے کے لیے اس کا ذکر کرتے۔ کسی ایک شخص کی طرف سے تیسری صورت کا ذکر نہ کرنا بتاتا ہے کہ اس وقت نہ صرف مدینہ بلکہ عرب کے دیگر علاقوں میں بھی کسی ایک کا یہ عقیدہ نہیں تھا کہ کوئی نبی اس وقت زندہ جسم سمیت آسمان پر موجود ہے۔
(3) حضرت جارود رضی اللہ عنہ کی قوم کے خیال میں نبی کی سچائی کی دلیل اس کی زندگی ہے۔ ان کے خیال میں نبی فوت نہیں ہوتا۔ اگر ان کی قوم کے علم میں ہوتا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جسم سمیت زندہ آسمان پر موجود ہیں تو کبھی کسی صورت میں واپس اسلام میں داخل نہ ہوتے بلکہ عیسائی ہوجاتے کیونکہ حضرت جارود رضی اللہ عنہ کی دلیل اور استدلال سے ان کے خیال کا رد نہیں ہوتا تھا۔ ان سب کا حضرت جارود رضی اللہ عنہ کی دلیل واستدلال کو قبول کرنا بتاتا ہے کہ گزشتہ تمام انبیاء کی وفات سے رسول کریمﷺ کی وفات کا استدلال کرنا ایک مضبوط دلیل ہے۔
(4) حضرت جارود رضی اللہ عنہ قبولیت اسلام سے قبل عیسائی تھے اگر عیسائیوں کا عقیدہ ہوتا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ جسم سمیت آسمان پر موجود ہیں اور ان کے پاس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کی کوئی دلیل ہوتی یا قرآن کی کسی آیت یا رسول کریمﷺ کی کسی حدیث سے پتہ چلتا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ جسم سمیت آسمان پر موجود ہیں تو یقیناً حضرت جارود رضی اللہ عنہ اس دلیل، آیت یا حدیث کی موجودگی میں کبھی یہ دلیل پیش نہ کرتے کہ ومات کما ماتوا کہ گزشتہ انبیاء کے فوت ہونے کی طرح رسول کریمﷺ بھی فوت ہوگئے ہیں۔ کبھی کوئی صحابی رسولﷺ ایسا استدلال پیش نہیں کرسکتا جو خلاف واقعہ ہو۔ نہ ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ انہوں نے جان بوجھ کر اپنی پیش کردہ دلیل کے برخلاف بات کو چھپا کر غیر حقیقی استدلال کیا ہے۔ (نعوذ باللہ )یقیناً کسی قرآنی آیت یا کسی حدیث سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ جسم سمیت آسمان پر جانے کا ثبوت نہیں ملتا۔
(عبدالکبیر قمر)
٭…٭…٭