زندہ نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہیں
کس قدر افسوس کی بات ہے کہ جس نبی کی اُمّت کہلاتے ہیں اسی کو معاذ اللہ مُردہ کہتے ہیں اور اس نبی کو جس کی اُمّت کا خاتمہ
ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَ الْمَسْکَنَۃُ(البقرۃ:62)
پر ہوا ہے اسے زندہ کہا جاتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قوم یہودی تھی اور اس کی نسبت خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ
ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَ الْمَسْکَنَۃُ(البقرۃ:62)۔
اب قیامت تک ان کو عزت نہ ملے گی۔ اب اگر حضرت عیسیٰ پھر آگئے تو پھر گویا ان کی کھوئی ہوئی عزت بحال ہوگئی اور قرآن شریف کا یہ حکم باطل ہوگیا ۔جس پہلو اور حیثیت سے دیکھو جو کچھ وہ مانتے ہیں اس پہلو سے قرآن شریف کا ابطال اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین لازم آتی ہے۔ پھر تعجب ہے کہ یہ لوگ مسلمان کہلا کر ایسے اعتقادات رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو یہود کے لیے فتویٰ دیتا ہے کہ اُن میں نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا اور وہ ذلیل ہوگئے پھر اُن میں زندہ نبی کیسے آسکتا ہے؟ ایک مسلمان کے لیے تو اتنا ہی کافی ہے کہ جب اس کے سامنے قرآن شریف پیش کیا جاوے تو وہ انکار کے لیے لب کشائی نہ کرے مگر یہ قرآن سنتے ہیں اور پڑھتے ہیں وہ اُن کے حلق سے نیچے نہیں جاتا ورنہ کیا یہ کافی نہ تھا کہ قرآن شریف میں صاف فرمایا ہے
يٰعِيْسٰۤى اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَيَّ (اٰلِ عمران:56)
اور اس سے بڑھ کر خود حضرت مسیح کااپنا اقرار موجود ہے
فَلَمَّاتَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ (المائدۃ:118)
اور یہ قیامت کا واقعہ ہے جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے سوال ہوگا کہ کیا تُونے کہا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو خدا بنائو؟ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب تک میں اُن میں زندہ تھا میں نے تو نہیں کہا اور میں وہی تعلیم دیتا رہا جو تُو نے مجھے دی تھی ۔لیکن جب تو نے مجھے وفات دے دی اس وقت تو ہی اُن کا نگہبان تھا۔اب یہ کیسی صاف بات ہے۔
اگر یہ عقیدہ صحیح ہوتا کہ حضرت مسیح ؑکو دنیا میں قیامت سے پہلے آنا تھاتو پھر یہ جواب اُن کا کس طرح صحیح ہوسکتا ہے؟اُن کو تو کہنا چاہیے تھا کہ میں دنیا میں جب دوبارہ گیا تو اس وقت صلیب پرستی کا زور تھا اور میری الوہیت اور ابنیّت پر بھی شور مچا ہوا تھا مگر میں نے جاکر صلیبوں کو توڑا اورخنزیروں کو قتل کیا اور تیری توحید کو پھیلایا۔ نہ یہ جواب دیتے کہ جب تو نے مجھے وفات دے دی اس وقت تو خود نگران تھا۔ کیا قیامت کے دن حضرت مسیحؑ جھوٹ بولیں گے؟
ان عقائد کی شناعت کہاں تک بیان کی جاوے جس پہلو اور جس مقام سے دیکھو قرآن شریف کی مخالفت نظر آئے گی۔
پھر یہ امر بھی قابل لحاظ ہے کہ دیکھا جاوے کہ حضرت مسیح ؑآسمان پر جاکر کہاں بیٹھے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ وہاں جا کرحضرت یحییٰ علیہ السلام کے پاس بیٹھے ہیں۔ اور یحییٰ علیہ السلام بالاتفاق وفات یافتہ ہیں۔ پھر مُردوں میں زندہ کا کیا کام؟
غرض کہاں تک بیان کروں ایک غلطی ہو تو آدمی بیان کرے یہاں تو غلطیاں ہی غلطیاںبھری پڑی ہیں۔ باوجود ان غلطیوں کے تعصّب اور ضِدّ بڑھی ہوئی ہے اور اس ضد کے سبب سچ کے قبول کرنے میں عذر کر رہے ہیں۔ ہاں جس کے لیے خدا تعالیٰ نے مقدر کیا ہوا ہے اور اس کے حصہ میں سعادت ہے وہ سمجھ رہاہے اور اس طرف آتا جاتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کے لیے نیکی چاہتا ہے اس کے دل میں واعظ پیدا کر دیتا ہے جب تک دل میں واعظ نہ ہو کچھ نہیں ہوتا۔ اگر خدا کے قول کے خلاف کوئی قول ہوتو خداکو اس خلافِ قول کے ماننے میں کیا جواب دے گا۔
احادیث کی تصحیح و تغلیط بذریعہ کشف
احادیث کے متعلق خود یہ تسلیم کر چکے ہیں۔ خصوصاً مولوی محمدحسین اپنے رسالہ میں شائع کر چکا ہے کہ اہلِ کشف احادیث کی صحت بذریعہ کشف کرلیتے ہیں اور اگر کوئی حدیث محدثین کے اُصولوں کے موافق صحیح بھی ہوتو اہلِ کشف اسے موضوع قرار دے سکتے ہیں اور موضوع کو صحیح ٹھہرا سکتے ہیں۔
جس حال میں اہلِ کشف احادیث کی صحت کے اس معیار کے پابند نہیں جو محدثین نے مقرر کیا ہے بلکہ وہ بذریعہ کشف اُن کی صحیح قراردادہ احادیث کو موضوع ٹھہرانے کا حق رکھتے ہیں تو پھر جس کو حَکَم بنایا گیا ہے کیا اس کو یہ حق حاصل نہیں ہوگا؟ خدا تعالیٰ جو اُس کا نام حَکَم رکھتا ہے یہ نام ہی ظاہر کرتا ہے کہ وہ سارا رطب ویابس جو اُس کے سامنے پیش کیا جاوے گا تسلیم نہیں کرے گا بلکہ بہت سی باتوں کو ردّ کر د ے گا اور جو صحیح ہوں گی ان کے صحیح ہونے کا وہ فیصلہ دے گا ورنہ حَکَم کے معنے ہی کیا ہوئے؟ جب اس کی کوئی بات ماننی ہی نہیں تو اُس کے حَکم ہونے سے فائدہ کیا؟
(ملفوظات جلد 5 صفحہ 29۔31۔ ایڈیشن 1984ء)