ادبیات

ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط نمبر54)

(محمود احمد طلحہ ۔ استاد جامعہ احمدیہ یو کے)

قبولیت دعا کے لئے صبر واستقلال کی شرط

اس میں شک نہیں کہ اس مرحلہ کو طے کرنے اور اس مقام تک پہنچنے کے لئے بہت سے مشکلات ہیں اور تکلیفیں ہیں۔ مگر ان سب کا علاج صرف صبر سے ہوتاہے ،حافظ نے کیا اچھاکہا ہے ۔شعر؎

گویندسنگ لعل شود در مقام صبر

آرے شود ولیک بخُونِ جگر شود

یادرکھوکوئی آدمی کبھی دُعاسے فیض نہیں اُٹھاسکتا جب تک وہ صبر میں حد نہ کر دے اور استقلال کے ساتھ دُعاؤںمیں نہ لگارہے۔ اللہ تعالیٰ پرکبھی بد ظنی اور بد گمانی نہ کرے۔ اُس کو تمام قدرتو ں اور ارادوں کا مالک تصور کرے،یقین کرے پھر صبر کے ساتھ دُعاؤں میں لگا رہے ۔ وہ وقت آجائے گا کہ اللہ تعالیٰ اُس کی دُعاؤں کو سُن لے گا ۔اور اسے جواب دے گا ۔جو لو گ اس نسخہ کو استعما ل کر تے ہیں۔ وہ کبھی بد نصیب اور محرو م نہیں ہو سکتے بلکہ یقیناََ وہ اپنے مقصد میں کامیا ب ہو تے ہیں ۔ خدا تعا لیٰ کی قد رتیں اور طا قتیں بے شمار ہیں ۔اس نے انسانی تکمیل کے لئے دیر تک صبر کا قانون رکھا ہے ۔پس اس کو وہ بدلتا نہیں اور جو چا ہتا ہے کہ وہ اس قانو ن کو اس کے لئے بد ل دے ۔وہ گویا اللہ تعا لیٰ کی جناب میں گستاخی کر تا اور بے ادبی کی جرأت کرتا ہے ۔پھر یہ بھی یا د رکھنا چا ہیے کہ بعض لوگ بے صبری سے کام لیتے ہیں اور مدا ری کی طر ح چا ہتے ہیں ایک دم میں سب کا م ہو جائیں میں کہتا ہوں کہ اگر کوئی بے صبری کرے تو بھلا بےصبری سے خدا تعا لیٰ کا کیا بگا ڑے گا ۔ اپنا ہی نقصا ن کرے گا ۔ بے صبری کر کے دیکھ لے وہ کہا ں جائے گا ۔

میں ان با تو ں کو کبھی نہیں مان سکتا اور درحقیقت یہ جھوٹے قصے اور فرضی کہا نیاں ہیں کہ فلا ں فقیر نے پھو نک ما ر کر یہ بنا دیا اوروہ کر دیا ۔ یہ اللہ تعا لیٰ کی سنت اور قرآن شریف کے خلا ف ہے اس لئے ایسا کبھی نہیں ہو سکتا ۔

ہر امر کے فیصلہ کے لئے معیا ر قرآن ہے ۔ دیکھو حضرت یعقو ب علیہ السلا م کا پیا را بیٹا یو سف علیہ السلام جب بھا ئیوں کی شرارت سے ان سےالگ ہو گیاتوآپ ؑچالیس برس تک اس کے لئے دعا ئیں کرتے رہے۔اگر وہ جلد باز ہوتے تو کوئی نتیجہ پیدانہ ہوتا۔ چالیس برس تک دُعاؤں میں لگے رہے اور اللہ تعالیٰ کی قدرتوں پر ایمان رکھا ۔ آخر چالیس برس کے بعد وہ دُعائیں کھینچ کر یوسف علیہ السلام کو لے ہی آئیں۔اس عرصہ دراز میں بعض ملامت کرنے والوں نے یہ بھی کہا کہ تُویوسف کو بے فائدہ یاد کرتاہے۔ مگر اُنہوں نے یہی کہاکہ میں خداسے وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ بیشک ان کو کچھ خبر نہ تھی مگر یہ کہا

اِنِّیۡ لَاَجِدُ رِیۡحَ یُوۡسُفَ (یوسف:95)

پہلے تو اتنا ہی معلوم تھا کہ دُعاؤں کاسلسلہ لمبا ہوگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اگر دُعاؤں میں محروم رکھنا ہوتا۔ تو وہ جلد جواب دے دیتا۔ مگر اس سلسلہ کا لمبا ہونا قبولیّت کی دلیل ہے۔ کیونکہ کریم سائل کو دیر تک بٹھاکر کبھی محروم نہیں کرتا بلکہ بخیل سے بخیل بھی ایسانہیں کرتا۔ وہ بھی سائل کو اگرزیادہ دیر تک دروازہ پر بٹھائے تو آخر اس کو کچھ نہ کچھ دے ہی دیتاہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے دُعاؤں کے زمانہ کی درازی پر۔

وَابْیَضَّت عَیْنٰہُ (یوسف:85)

قرآن میں خود دلالت کر رہی ہیں۔ غرض دُعاؤں کے سلسلہ کے دراز ہونے سے کبھی گھبرانا نہیں چاہیے۔

اللہ تعالی ٰہر نبی کی تکمیل بھی جدا جدا پیرایوں میں کرتا ہے۔ حضرت یقوبؑ کی تکمیل اللہ تعالیٰ نے اسی غم میں رکھی تھی۔

مختصر یہ کہ دُعاکایہ اُصول ہے جو اس کو نہیں جانتاوہ خطرناک حالت میں پڑتاہے اور جو اس اُصول کو سمجھ لیتاہے اس کا انجام اچھااور مبارک ہوتاہے ۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 205-207)

اس حصہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے حافظ محمد شیرازی کا درج ذیل فارسی شعر استعمال کیا ہے۔

گُوْیَنْد سَنْگ لَعْل شَوَدْ دَرْ مَقَامِ صَبْر

آرِے شَوَدْ وَلِیْک بِخُوْنِ جِگَر شَوَدْ

*۔حافظ کی غزلیات میں سے غزل نمبر226کا یہ دوسرا شعر ہے جس کا ترجمہ حسب ذیل ہے۔

ترجمہ: کہتے ہیں صبر کرنے (یعنی لمبا عرصہ گزرنے)سے پتھر لعل بن جاتا ہے۔ہاں بن جاتا ہے لیکن خون جگر پی کر۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button