انٹرنیٹ کا بڑھتا ہوا رجحان اور والدین کی ذمہ داری
اپنے بچوں کے باہر کے ماحول پر بھی نظر رکھا کریں اور گھر میں بھی بچوں کے جو پروگرام ہیں، ٹی وی پروگرام وہ دیکھتے ہیں یا انٹرنیٹ وغیرہ استعمال کرتے ہیں اُن پر بھی نظر رکھیں
موبا ئل فون اور انٹرنیٹ دور جدیدکی ایسی اہم ایجادات ہیں جنہوں نے انسانی زندگی کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ بیس پچیس سال کے مختصر عرصہ میں ساری دنیا موبائل فون اور انٹرنیٹ کے زیرتسلط آچکی ہے۔ کیا چھوٹا کیا بڑا، کیا مرد کیاعورت غرض ہر کوئی اپنے آپ کو انٹرنیٹ کے بغیر ادھورامحسوس کرنے لگا ہے۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ زمانہ جدید میں معلوما ت حاصل کرنے کے سب بڑے اور اہم ذرائع ہیں۔ ان کے آنے سے انسانی زندگی میں ایک انقلاب برپاہوا ہےاور ان کا اثر انسانی زندگی پر نظر آتا ہے۔ انٹرنیٹ اور موبائل فون کے ذریعہ افراد کو کسی بھی چیز کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے بہت سہولت میسر آئی ہے۔ اگر کسی بھی چیز کے بارے میں جاننا یا تحقیق کرنی ہوتو آج کے دور میں انٹر نیٹ ہی کو استعمال کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم کے شعبہ میں انٹرنیٹ ہی کا سہارا لیا جاتا ہے۔ جیسا کہ ماضی میں طلباء کوتحقیقی امور کے لیے مختلف لائبریریوں کا رخ کرنا پڑتا تھا۔ مگر آج ایسا نہیں ہے۔ اب تو تحقیقی عمل انٹرنیٹ کے ذریعہ انتہائی آسان ہو گیا ہے۔
اگر دفتری امور کی بات کی جائے تو موجودہ زمانے میں دفتری امور بھی انٹرنیٹ کے ذریعہ ہی چلائے جا رہے ہیں۔ دفتری معاملات خواہ وہ کسی بھی قسم کے ہوں ان کا ریکارڈ انٹرنیٹ کے ذریعہ محفوظ کر لیا جاتا ہے، اور انٹرنیٹ کے ذریعہ ہی دفتری امور کو ڈیل (deal)کیا جاتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں انٹرنیٹ اور موبائل فون کی وجہ سے اطلاعات اور معلومات تک رسائی اور ترسیل کے نظام میں ایک ایسا انقلاب دیکھنے میں آیا ہے کہ ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ انٹرنیٹ اور موبائل فون کی وجہ سے عالمی سطح پر رابطے بھی تیز ہو چکے ہیں۔ اس کی ایک مثال WhatsApp ہے جو کہ عالمی سطح پر رابطے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس کے ذریعہ دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک رابطہ کرنا انتہائی آسان ہو گیا ہے۔ غرض یہ کہ انٹرنیٹ اور موبائل فون سے فاصلوں اور دوریوں کااحساس اب نہ ہونے کے برابر ہے۔
ہر چیز کا ایک مثبت پہلو ہوتا ہے اورایک منفی۔ یہی بات انٹرنیٹ اور موبائل فون کے ساتھ بھی ہے۔ اگر ہم اس کے نقصان دہ پہلوئوں کاجائزہ لیں تویہ معاشرہ کے لیے کسی حد تک مہلک بھی ہیں۔ بالخصوص نوجوانوں میں پھیلتی ہوئی بے چینی اور بے راہ روی اور دیگر معاشرتی مسائل کے سر اٹھانے میں انٹر نیٹ کے بے جا استعمال کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ معاشرتی انحطاط اور نوجوانوں کی بے راہ روی کی بنیادی وجہ دینی تعلیمات سے دوری ہے۔ بچوں کی بلوغت کے دَور میں خاص طور پر تربیت اور نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے اور اسی زمانے میں بچے کے سدھرنے یابگڑنے کے یکساں امکانات ہوتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق بچوں کو موبائل فون اور انٹرنیٹ کی اجازت دینے سے قبل ان کی سماجی اور ٹیکنالوجی سے متعلق آگاہی لے لینی چاہیے۔ کلینیکل سائیکالوجسٹ ڈاکٹرببرک کے مطابق والدین کے لیے بچوں کو موبائل فون دینے سے قبل درج ذیل امور پر نظر رکھنا بےحد ضروری ہے۔
i. والدین کوعلم ہو کہ کیا بچہ اپنی چیزوں کی حفاظت کرنے کے قابل ہو گیا ہے یا نہیں ؟
ii. کیا بچہ فضول خرچی اور فضولیات سے خو د کو محفوظ رکھنے کامتحمل ہے یا نہیں ؟
iii. کیا بچہ سماجی خطرات کا ادراک رکھتا ہے یا نہیں ؟
iv. کیا بچہ گفتگو کے آداب سے واقف ہے ؟
v. ٹیکنالوجی کے بارے میں بچے کو کتنی سمجھ بوجھ ہے۔ کیا اس سے وہ باخبر ہے ؟
vi. کیا بچہ سکرین ٹائم کے اصولوں کا پابند ہے؟
بچوں کے ہاتھوں میں موبائل فون تھمانے سے قبل مندرجہ بالا امور کی جانچ کرنے سے والدین اپنی اولاد کو موبائل فون اور انٹرنیٹ کے منفی اثرات سے بچانے کے قابل ہو جائیں گے۔ اس معاملہ میں والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کا بھی خاص اہتمام کریں ۔ گھر میں کچھ اصول وضوابط مقرر کریں ۔ گھر کے تمام آلات خاص طورپر بچوں اورنوجوانوں کے موبائل فون، لیپ ٹاپ وغیرہ پر نظر رکھیں۔ ان کے استعمال کے اوقات مقرر کریں اور اس کی پابندی بھی کروائیں۔ بچوں کو انٹرنیٹ اور موبائل فون کے مفید استعمال کی ترغیب دیں۔ بچوں کو جدید آلات پر ایسی مصروفیات فراہم کریں کہ وہ ان کے غلط استعمال سے باز رہیں۔ بوقت ضرورت ہی موبائل دیں اور ایسے کوئی بھی جدید آلات جس کی گھر میں ضرورت نہ ہو نہ لائیں۔
انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے نوجوان بے حیائی اور اخلاقی بگاڑ کا شکار بھی ہو رہے ہیں ۔ سوشل میڈیا کے غلط استعمال سے اخلاقی بگاڑ کے علاوہ بچے مذہب سے بھی متنفر ہو نے لگے ہیں۔ فیس بک، وٹس ایپ وغیرہ کے ذریعہ معاشرہ میں کئی مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں ۔ موبائل فون، انٹرنیٹ، فیس بک، وٹس ایپ وغیرہ کابے محابہ استعمال بچوں کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں پر منفی اثرات بھی ڈال رہا ہے۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کی سوشل میڈیاآئی ڈیز پر بھی نظر رکھیں۔ نیز نوجوان نسل کی دینی تربیت کا خصوصی اہتمام کریں، بچوں کو معاشرتی برائیوں سے بچانے کےلیے دینی تربیت کو لازمی بنائیں کیونکہ دینی فکر سے انسان اچھے اور برے میں تمیز کرنےکے لائق بنتا ہے۔ اگر آج ہم نے ہر قدم اٹھاتے ہوئے انفرادی اور قومی طور پر اس طرف توجہ نہ کی تو ہم حقیقی ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جائیں گیااور ایک ذہنی اپاہج اور غلام نسل کو پروان چڑھائیں گے جو آگے چل کر معاشرہ کے لیے بوجھ بن جائے گی۔
والدین کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
‘‘بار بارمَیں والدین کو توجہ دلاتا ہوں کہ اپنے بچوں کے باہر کے ماحول پر بھی نظر رکھا کریں اور گھر میں بھی بچوں کے جو پروگرام ہیں، ٹی وی پروگرام وہ دیکھتے ہیں یا انٹرنیٹ وغیرہ استعمال کرتے ہیں اُن پر بھی نظر رکھیں۔ ’’
(خطبہ جمعہ فرمودہ13؍دسمبر2013ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 3؍جنوری2014ءصفحہ7)
٭…٭…٭