الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
آنحضرتﷺ کا صحف سابقہ میں تذکرہ
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں : ہر ایک نبی کی سچائی تین طریقوں سے پہچانی جاتی ہے۔ اوّل عقلِ سلیم گواہی دیتی ہے کہ اس وقت نبی کے آنے کی ضرورت بھی تھی یا نہیں اور انسانوں کی موجودہ حالت چاہتی تھی یا نہیں کہ ایسے وقت میں کوئی مصلح پیدا ہو۔ دوسرے پہلے نبیوں کی پیشگوئیاں۔ تیسرے نصرتِ الٰہی اور تائید آسمانی۔ (ماخوذ از لیکچر سیالکوٹ صفحہ241)
ماہنامہ’’خالد‘‘ربوہ نومبرودسمبر2012ءمیںمکرم عبدالرحمٰن صاحب کا محرّرہ ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں صحف سابقہ میں درج پیشگوئیوں کے حوالے سے آنحضرتﷺ کی صداقت ثابت کی گئی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ اُمّی جسے وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ (الاعراف:158)
تورات کی پیشگوئیاں
چنانچہ تورات (استثناء باب18آیت18) میں یہ پیشگوئی درج ہے کہ ’’مَیں اُن کے لیے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ مَیں اسے حکم دوں گا وہ اُن سے کہے گا اور جو کوئی میری ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے تو مَیں ان کا حساب اس سے لوں گا۔ لیکن جو نبی گستاخ بن کر کوئی ایسی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا مَیں نے اس کو حکم نہیں دیا یا اَور معبودوں کے نام سے کچھ کہے تو وہ نبی قتل کیا جائے۔ ‘‘
عیسائی اس پیشگوئی کو حضرت مسیحؑ پر چسپاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ مسلمان آنحضورﷺ کو اس کا مصداق ٹھہراتے ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ الفاظ ’’ان کے لیے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی‘‘سے مراد آنے والے کا حضرت موسیٰؑ کا مثیل ہونا ہے جبکہ مسیحیوں کے نزدیک مسیح کا مقام خدا کے بیٹے کا ہے۔ وہ مسیح کی الوہیت کو مانتے ہیں نہ کہ نبوّت کو۔ دوسری بات یہ کہ تمہارے بھائیوں سے مراد ہے کہ بنی اسرائیل کے بھائی بنی اسماعیل (پیدائش باب25)۔ تیسری بات ’’اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا‘‘، تو قرآن کا دعویٰ ہے کہ یہ خدا کا کلام ہے جو آپؐ کے منہ میں ڈالا گیا۔ چوتھی بات یہ کہ جھوٹا نبی قتل ہوگا۔ چونکہ عیسائیوں کے نزدیک حضرت مسیحؑ قتل کیے گئے اس لیے اس پیشگوئی کے مطابق وہ موعود نبی نہ رہے۔ آنحضورﷺ کے بارے میں قرآن کہتا ہے: یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاس (المائدہ:68)۔ پانچویں بات یہ کہی گئی:’’جو خبریں وہ دے گا پوری ہوں گی۔‘‘اناجیل کی بعض پیشگوئیاں ایسی ہیں کہ جو تاویل کے باوجود بھی پوری نہیں ہوتیں جیسا کہ متی باب 10 میں ہے:’’کیونکہ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تم اسرائیل کے سب شہروں میں نہ پھر چکوگے کہ ابن آدم آجائے گا۔‘‘یہ پیشگوئی بظاہر پوری نہیں ہوئی اس لیے انہیں سچا اور موعود نبی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس کے مقابل پر آنحضرتﷺ کی پیشگوئیاں جو قرآن میں درج ہیں، بڑی شان کے ساتھ پوری ہوئیں اور ہورہی ہیں۔
پھر استثناء باب33آیت2میں ہے:’’خداوند سینا سے آیااور شعیر سے ان پر طلوع ہوا۔ فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا۔ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا اور اُس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشی شریعت اُن کے لیے تھی۔ ‘‘
شعیر سے مراد بحیرہ مُردار (Dead Sea) کے جنوب مشرق میں واقع پہاڑ ہے۔ (پیدائش باب14آیت6)اور اسی نام کا دوسرا پہاڑ یروشلم کے شمال مغرب میں واقع تھا۔ (یشوع باب15آیت10)مسلمان علماء نے جلوۂ شعیر سے مراد حضرت مسیح ناصریؑ کی بعثت لی ہے جبکہ فاران سے مراد رسول کریمﷺ کی بعثت مقدسہ ہے۔ آپؐ حضرت اسماعیلؑ کی نسل میں سے تھے جو کہ ارض حجاز یعنی بیابانِ فاران میں آباد ہوئے اور جبالِ مکّہ کا قدیمی نام فاران ہے۔ آپؐ فاران سے جلوہ گر ہوئے اور فتح مکّہ کے موقع پر دس ہزار قدوسیوں والی بات بھی اسی طرح پوری ہوگئی۔ پھر آپؐ جو شریعت لے کر آئے وہ آتشی تھی یعنی اس میں نرمی کے ساتھ سختی بھی تھی۔
عیسائیوں کی طرف سے اس پیشگوئی پر دو بڑے اعتراضات کیے جاتے ہیں۔ پہلا یہ کہ فاران عرب میں نہیں بلکہ صحرائے سینا کے شمال میں واقع ہے۔ جبکہ فاران کا عربی میں رُوٹ،فارَ (فوراً)ہے جس کے معنے سخت جوش مارنا اور پھوٹ کر نکل پڑنا کے ہیں۔ نیز پیدائش باب21آیت20۔ 21میں حضرت اسماعیلؑ کے بارے میں لکھا ہے: ’’اور خدا اس لڑکے کے ساتھ تھا۔ وہ بڑا ہوا اور بیابان میں رہنے لگا اور تیرانداز بنا اور وہ فاران کے بیابان میں رہتا تھا اور اس کی ماں نے ملک مصر سے اس کے لیے بیوی لی۔ ‘‘اسی باب میں یہ بھی لکھا ہے کہ ہاجرہ نے فاران میں پھوٹ پڑنے والے کنویں سے خود بھی پیا اور بچے کو بھی پلایا۔
لسان العرب میں بھی فاران کو مکّہ کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ بتایا گیا ہے۔ نیز عرب کے عظیم جغرافیہ نویس امام شہاب الدین یاقوت الحموی اپنی کتاب ’’معجم البلدان‘‘ میں لکھتے ہیں کہ فاران ایک عبرانی لفظ ہےجو مکّہ کے ناموں میں سے ایک نام یا مکّہ کے ایک پہاڑ کا نام ہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے’’فصل الخطاب‘‘میں تحریر فرمایا ہے کہ مدینہ اور مکّہ کے درمیان ایک پڑاؤ ہے جس کا نام وادی فاطمہ ہے۔ وہاں بچے پھول بیچتے ہیں اور پوچھنے پر کہتے ہیں کہ یہ پھول وادیٔ فاران سے لائے ہیں۔
جیمزمنٹگمری(James Montgomery)نے اپنی کتاب “Arabia and the Bible” میں ثابت کیا ہے کہ کوہ فاران حجاز کے بعض پہاڑوں کا نام ہے اور اس کا فلسطین سے کوئی تعلق نہیں۔
دس ہزار قدوسیوں کی تعداد پر عیسائی دوسرا اعتراض کرتے ہیں جس کا جواب یہ ہے کہ استثناء باب 33آیت2 میں عبرانی میں چار حرفی لفظ ’’ر ب ب تھ‘‘ آیا ہے جس میں ’’واؤ‘‘ نہیں ہے جبکہ عبرانی میں جمع کے لیے ’’واؤ‘‘ کی موجودگی ضروری ہے لہٰذا دوسری ب پر نقطہ لگادیا جو واؤ کا بدل ہے۔ یہ اعراب مسورائی علماء نے ساتویں آٹھویں صدی عیسوی میں لگائے۔ اسی باب کی آیت 17 میں یہی لفظ واؤ کے ساتھ آیا ہے یعنی جمع کے طور پر اور پانچ حروف ہیں ’’ر ب ب و تھ‘‘۔ اس کے معنی دسیوں ہزار یعنی لاکھوں کیے جاسکتے ہیں۔ لیکن پہلی جگہ واؤ نہیں ہے چنانچہ اُس کا ترجمہ دس ہزار ہی ہے۔ مسورائی متن میں اعراب لگانے والوں نے دانستہ طور پر آیت2 میں دوسری ب پر نقطہ ڈالا اور لفظ کو ربوتھ بنادیا۔ چنانچہ 1951ء سے پہلے کی اردو بائبلوں میں اس آیت کا ترجمہ دس ہزار ہی ملتا ہے جسے بعد میں لاکھوں کردیا گیا۔ لیکن 1976ء میں دنیا کی ننانوے بائبل سوسائٹیز کی طرف سےبائبل کے ترجمے پر نظرثانی کرکے نیا ترجمہ شائع کیا گیا تو یہاں دوبارہ دس ہزار (Ten Thousand)کردیا گیا جبکہ اگلی آیت میں Ten Thousands یعنی جمع کے ساتھ ترجمہ کیا گیا۔ چنانچہ یہ پیشگوئی بھی اپنی شان کے ساتھ آنحضرتﷺ پر پوری ہوتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ’’حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تورایت میں یہ بات کہہ کر کہ خدا سینا سے آیا اورسعیر سے طلوع ہوا اور فاران کے پہاڑ سے ان پر چمکا صاف جتلادیا کہ جلالیت الٰہی کا ظہور فاران پر آکر اپنے کمال کو پہنچ گیا ۔اور آفتاب صداقت کی پوری پوری شعاعیں فاران پر ہی آخر ظہور پذیر ہوئیں اور وہی توریت ہم کو یہ بتلاتی ہے کہ فاران مکّہ معظمہ کا پہاڑ ہے جس میں حضرت اسماعیل علیہ السلام جدامجد آنحضرتﷺ کےسکونت پذیر ہوئے۔ اور یہی بات جغرافیہ کے نقشوں سے بپایۂ ثبوت پہنچتی ہے اور ہمارے مخالف بھی جانتے ہیں کہ مکہ معظمہ میں سے بجز آنحضرتﷺ کوئی رسول نہیں اُٹھا۔ ‘‘(سرمہ چشم آریہ صفحہ281-280)
انجیل کی پیشگوئیاں
نئے عہدنامے کی کتاب یعنی متی کی انجیل میں حضرت مسیح علیہ السلام نے ایک تمثیل بیان فرمائی ہے جس میں ایک گھر کے مالک کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے کہ اُس نے اپنا احاطہ گھیر کر اُسے باغبانوں کو ٹھیکے پر دے دیا جنہوں نے مالک کے اُس بیٹے کو قتل کرنا چاہا جو پھل کے موسم میں اُن سے اپنے حصے کا پھل لینے آیا تھا۔ اس پر مالک نے اُن بدکاروں کو ہلاک کرکے باغ کا ٹھیکا دوسرے باغبانوں کو دے دیا جو موسم پر اس کو پھل دیں۔ کیا تم نے کتابِ مقدّس میں نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو معماروں نے ردّ کیا وہی کونے کا پتھر ہوگیا۔ اس لیے مَیں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہی تم سے لے لی جائے گی اور اُس قوم کو جو اس کے پھل لائے دے دی جائے گی اور جو اس پتھر پر گرے گا ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا لیکن جس پر وہ گرے گا اسے پیس ڈالے گا۔ یہ تمثیل سردار کاہنوں اور فریسیوں نے سنی تو سمجھ گئے کہ ہمارے حق میں کہتا ہے اور اسے پکڑنے کی کوشش میں تھے لیکن لوگوں سے ڈرتے تھے کیونکہ وہ اسے نبی جانتے تھے۔
مذکورہ تمثیل میں حضرت مسیح علیہ السلام نے انبیاء کی تاریخ بیان کردی ہے۔ جس میں بیان کردیا گیا کہ خداتعالیٰ نے دین کا ٹھیکا دوسرے باغبانوں کو دے دیا اور کونے کا پتھر وہ ہے جسے راہگیروں نے ناپسند کیا یعنی حضرت اسماعیلؑ کی اولاد جنہیں بنو اسحاق حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ لیکن وہ کونے کا پتھر (خاتم النبیین) بنا، اُسی سے عیسائیت اور یہودیت ٹکرائی اور پاش پاش ہوگئی۔
یوحنا کی انجیل میں بھی مسیح علیہ السلام نےاپنے حواریوں سے فرمایا کہ ’’اب مَیں اپنے بھیجنے والے کے پاس جاتا ہوں اور یہ سن کر تمہارا دل غم سے بھرگیا ہے۔ لیکن مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لیے فائدہ مند ہے کیونکہ اگر مَیں نہ جاؤں تو وہ مددگار تمہارے پاس نہ آئے گا لیکن اگر جاؤں گا تو اسے تمہارے پاس بھیج دوں گا۔ مجھے تم سے اَور بھی بہت سی باتیں کہنا ہیں مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کرسکتے۔ لیکن جب وہ یعنی روحِ حق آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا۔ اس لیے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا۔ ‘‘ (یوحنا باب16)
یہ پیشگوئی بھی آنحضورﷺ پر پوری ہوتی ہے جو حضرت مسیحؑ کے بعد آئے اور حضرت مسیحؑ کی نامکمل تعلیم یعنی شریعت کی تکمیل کی۔ پھر روحِ حق نے اپنی طرف سے کچھ نہ کہا چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے: وہ خواہشِ نفس سے کلام نہیں کرتا، یہ تو محض ایک وحی ہے جو اتاری جارہی ہے۔ اسی طرح اس روح حق نے آئندہ کی خبریں بھی دیں جو پوری ہوئیں اور ہورہی ہیں۔
زرتشتی صحائف کی پیشگوئیاں
زرتشتی مذہب کی مقدّس کتاب ’’ژنداوستا‘‘ (زرتشتی شریعت) میں باب28آیت129 میں آنے والے موعود کے بارے میں لکھا ہے کہ اُس کا نام فاتح Soeshyant(یعنی بہت رحیم و کریم)یا Astvat-ereta ہوگا کیونکہ تمام مادی دنیا اس سے فیض پائے گی۔ وہ حاشر ہوگا کیونکہ کامل انسان اور روحانی انسان ہونے کی وجہ سے تمام لوگوں کی ہلاکت کے خلاف سینہ سپر ہوگا۔ وہ مشرکین اور ایماندار لوگوں کی بدیوں کی اصلاح کرے گا۔
آنحضرتﷺ پر یہ پیشگوئی لفظاً لفظاً صادق آتی ہے۔ آپؐ فاتح مہربان تھے، فتح مکّہ پر اس کا نظارہ دنیا نے دیکھا۔ آپ رحمۃللعالمین تھے۔ حاشر تھے یعنی آپؐ کے قدموں پر دنیا کی قوموں کو اکٹھا کردیا گیا۔ آپؐ نے بت پرستوں اور آتش پرستوں سب کی اصلاح فرمائی۔
ہندو صحائف میں ذکر
ہندوؤں کی مقدّس کتب وید، اپنیشد اور پران ہیں۔ پرانوں میں بعض پیشگوئیوں کا ذکر ہے۔ ہندو عقیدے کے مطابق جب مذہب دنیا سے اٹھ جاتا ہے تو اس کو دوبارہ واپس لانے کے لیے اوتار دنیا میں آتے ہیں۔ پرانوں کے مطابق آخری زمانے میں ایک کلکی اوتار نے دنیا کی اصلاح کے لیے آنا ہے جس کا ذکر بھگوت پران اور کلکی پران میں تفصیل سے ہوا ہے۔ کلکی اوتار کی علامات یوں ہیں کہ وہ آخری زمانے میں آئے گا۔ وہ سمبھل گرام میں پیدا ہوگا۔ اس کا جنم بڑے پروہت گھرانے میں ہوگا۔ اس کے والد کا نام وشنویش اور ماں کا نام سوماتی ہوگا۔ فرشتے اس کو ایک تیزرفتار گھوڑا اور ایک تیزرفتار تلوار دیں گے تاکہ وہ دنیا کو نجات دے اور خبیثوں کو زیر کرے۔ وہ آخری اوتار ہوگا۔ پرشورام اُس کو ایک پہاڑی چوٹی کی غار میں تعلیم دیں گے۔ اُس کے چار ساتھی ہوں گے جو شیطانوں کو زیر کرنے میں اُس کی مدد کریں گے، فرشتے بھی کلکی اوتار کی مدد کریں گے۔ وہ بڑی دلفریب شخصیت کے مالک ہوں گے۔ اُس کا جسم بڑا خوشبودار ہوگا۔ اُس میں آٹھ بےمثل خوبیاں ہوں گی یعنی دانشمندی، معزز حسب و نسب، ضبط نفس، الہامی علم، جرأت، متوازن گفتگو، انتہا سخاوت اور جذبۂ احسان مندی۔ وہ ویدک دھرم کو قائم کریں گے۔
یہ ساری علامات بھی آنحضورﷺ پر پوری ہوتی ہیں۔ آپؐ سمبھل گرام میں پیدا ہوئے۔ پریاگ یونیورسٹی کے سنسکرت عالم ڈاکٹر ویدپرکاش اپادھیائے کے مطابق سمبھل کسی جگہ کا نام نہیں بلکہ مقام کی خصوصیت ہے۔ سم کا معنی امن ہے اور سمبھل کے معنی وہ مقام جہاں کسی کو امن و امان ملتا ہے۔ چنانچہ آنحضورﷺ مکّہ میں پیدا ہوئے جسے قرآن کریم میں بلدالامین کہا گیا ہے یعنی امن والا شہر۔
پھر آپؐ کا جنم پروہت گھرانے یعنی قریش میں ہوا جو لمبے عرصے سے خانہ کعبہ کا متولّی چلا آرہا تھا۔
آپؐ کے والد کا نام عبداللہ یعنی خدا کا بندہ تھا جبکہ وشنویش کا مطلب بھی خدا کی عبادت کرنے والا ہے۔ والدہ کے نام سماتی کا مطلب ہے شریف اور بامروّت۔ جبکہ آمنہ کا نام بھی انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
پیشگوئی کے مطابق کلکی اوتار کو پرشیورام نے پہاڑ کی چوٹی پر تعلیم دی۔ چنانچہ آپؐ پر وحی کی تعلیم غارحرا میں ہوئی۔
پھر یہ کہا گیا کہ وہ دنیا کا نجات دہندہ ہوگا چنانچہ آپ رحمۃللعالمین تھے اور دنیا کی نجات کے ضامن بنے، اسلام عالمگیر مذہب ہے جبکہ پہلے مذاہب علاقائی ہوا کرتے تھے۔
اسی طرح آپؐ کے چار ساتھی (خلفاء)آپؐ کے ساتھ شیطان کے خلاف برسرپیکار رہے۔
پھر یہ علامت کہ فرشتے اس کی مدد کریں گے چنانچہ اسلام کے دشمنوں کے ساتھ جنگیں اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ تعداد کے لحاظ سے بہت کم مسلمانوں نے فرشتوں کی مدد سے بڑی تعداد میں حملہ آور کفّار کو شکست دی۔ فرشتوں کی مدد سے آپؐ کو فتح عطا فرمانے کا ذکر قرآن کریم میں بھی ہے۔
یہ علامت کہ اُن کے جسم سے خوشبو آئے گی۔ چنانچہ ذکر ملتا ہے کہ لوگ آپؐ کا پسینہ خوشبو کے لیے اکٹھا کیا کرتے تھے اور جو آپؐ سے مصافحہ کرتا اُس کے ہاتھ معطّر ہوجاتے۔
جو آٹھ خوبیاں بھگوت پران میں بیان ہوئی ہیں وہ تمام خوبیاں آپؐ میں موجود تھیں جن کا تذکرہ سیرت کی کتب میں موجود ہے۔ پھر آپؐ آخری اوتار یعنی خاتم النبیین تھے۔
آخری بات کہ وہ ویدک دھرم کو قائم کرے گا تو تمام مذاہب کا منبع ایک ہے اور صحیح ویدک دھرم اسلام ہی ہے۔
………٭………٭………٭………
حضرت محمدﷺ مذہبی رواداری کے علمبردار
رسول کریمﷺ کی مذہبی رواداری کے حوالے سے مکرم حافظ مظفر احمد صاحب کا ایک مضمون ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ نومبر و دسمبر 2012ء کی زینت ہے جس میں مختلف روایات کی روشنی میں اسلام کی شاندار تعلیم کی عکاسی کی گئی ہے۔
رسول کریمﷺ نے غیرحربی مشرکین سے ہمیشہ حسن معاملہ کا طریق اختیار فرمایا۔ ایک دفعہ ایک مشرک مہمان کی خود مہمان نوازی کی اور اسے سات بکریوں کا دودھ پلایا۔
فتح مکّہ کے بعد وفد ثقیف کا وفد طائف سے آیا تو اُن کے بعض لوگ مدینہ میں اپنے حلیفوں کے پاس ٹھہرے۔ جبکہ بنی مالک کے لیے نبی کریمﷺ نے خود خیمہ لگاکر انتظام کروایا اور آپؐ روزانہ نماز عشاء کے بعد جاکر اُن سے مجلس فرماتے۔ بعض لوگوں نے عرض کیا کہ یہ مشرک لوگ ہیں ان کو مسجد میں نہ ٹھہرایا جائے کیونکہ قرآن شریف میں مشرکین کو نجس یعنی ناپاک قرار دیا گیا ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اس آیت میں دل کی ناپاکی کی طرف اشارہ ہے، جسموں کی ظاہری گندگی مراد نہیں۔
جنگ بدر میں ستّر کفار قیدی ہوئے۔ یہ مسلمانوں کے اشد دشمن تھے لیکن آنحضورﷺ نے ان کو مختلف گھرانوں میں تقسیم کرتے ہوئے فرمایا: دیکھو اِن قیدیوں کا خیال رکھنا۔
حضرت مصعب بن عمیرؓ کے بھائی ابوعزیز بن عمید بھی ان قیدیوں میں شامل تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں انصار کے ایک گھرانے میں قید تھا۔ وہ صبح و شام مجھے خاص طور پر روٹی مہیا کرتے اور خود کھجور پر گزارا کرلیتے۔ ان کے خاندان کے کسی فرد کے ہاتھ میں روٹی کا کوئی ٹکڑا آجاتا تو وہ مجھے پیش کردیتا، مَیں شرم کے مارے واپس کرتا مگر وہ مجھے ہی لَوٹا دیتے۔
ان قیدیوں میں لمبے قد کے حضرت عباسؓ بھی تھے جن کے جسم پر کوئی قمیص نہ تھی۔ آخر تلاش کے بعد عبداللہ بن ابی کی قمیص اُن کو پوری آئی۔
اس زمانے کے دستور کے مطابق جنگی قیدیوں کی سزا موت تھی جو استثنا ءمیں بھی بیان ہوئی ہے کہ جس قوم پر فتح پاؤ مردوں کو قتل کردو اور عورتوں اور بچوں کو قیدی بنالو۔ مگر نبی کریمﷺ نے اپنے ان جانی دشمنوں کے ساتھ نہایت احسان کا سلوک کرتے ہوئے ان کی جان بخشی فرمائی۔ اگرچہ حضرت عمرؓ کی رائے تھی کہ یہ کفار قتل کیے جانے کے لائق ہیں مگر رسول کریمﷺ بار بار اُن کے لیے جذبہ رحم ابھارتے اور فرماتے: اب اللہ نے تم لوگوں کو ان پر قبضہ اور اختیار دے دیا ہے اور یہ کل تک تمہارے بھائی تھے۔ تب حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ ان کو معاف کرکے فدیہ قبول فرمائیں۔ رسول کریمﷺ یہ مشورہ سن کر بہت خوش ہوئے اور بالآخر یہی فیصلہ فرمایا اور قیدیوں سے فدیہ قبول فرمالیا۔ سر ولیم میور لکھتا ہے: محمدؐ کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے اہالیانِ مدینہ کے پاس جب قیدی آئے تو انہوں نے ان سے نہایت عمدہ سلوک کیا۔ بعد میں خود ایک قیدی کہا کرتا تھا کہ اللہ رحم کرے مدینہ والوں پر، وہ ہمیں سوار کرتے اور خود پیدل چلتے۔ ہمیں کھانے کے لیے گندم کی روٹی دیتے جس کی بہت قلّت تھی اور خود کھجور پر گزارکرتے۔ اس لحاظ سے یہ بات تعجب خیز نہیں تھی کہ بعد میں جب ان قیدیوں کے لواحقین فدیہ لے کر انہیں آزاد کروانے آئے تو ان میں سے کئی قیدیوں نے مسلمان ہونے کا اعلان کردیا اور ایسے تمام قیدیوں کو رسول اللہﷺ نے فدیہ لیے بغیر آزاد کردیا۔ (لائف آف محمدؐ )
رسول کریمﷺ نے ہر قیدی کی توفیق کے مطابق آسان فدیہ مقرر کرکے ان کی آزادی کا اعلان فرمادیا۔ جو قیدی لکھنا جانتے تھے اُن پر صرف یہ فدیہ عائد کیا گیا کہ وہ دس مسلمان بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھادیں۔
ایک غزوے کے بعد مقتولین میں کچھ بچوں کی نعشیں ملیں تو آنحضورﷺ نے فرمایا کہ یہ کون ہیں جنہوں نے جنگجو مردوں کے ساتھ معصوم بچوں کو بھی قتل کرڈالا ہے۔ ایک شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ! وہ مشرکوں کے بچے ہی تو تھے۔ آپؐ نے فرمایا کہ آج تم میں سے جو بہترین لوگ ہیں وہ بھی کل مشرکوں کے بچے ہی تو تھے۔ یاد رکھو کہ ہر بچہ نیک فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ اس کی یہ کیفیت اس وقت تک باقی رہتی ہے جب تک وہ بولنا سیکھتا ہے اس کے بعد اس کے ماں باپ اسے یہودی یا عیسائی بنا دیتے ہیں۔
سٹین لے پول کے بقول جس دن محمدﷺ کو اپنے دشمنوں پر فتح حاصل ہوئی وہی دن آپؐ کی اپنے نفس پر فتح حاصل کرنے کا دن تھا جب آپؐ نے قریش کے سالہاسال کے ظالمانہ مصائب سے درگزر کرتے ہوئے تمام باشندوں کو ایک عام معافی نامہ دے دیا۔
سرولیم میور لکھتا ہے کہ محمدؐ نے جلد ہی اس کا انعام بھی پالیا اور وہ یوں کہ آپؐ کے وطن کی ساری آبادی صدقِ دل سے آپؐ کے ساتھ ہوگئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم چند ہفتوں میں دو ہزار مکّہ کے باسیوں کو مسلمانوں کی طرف سے (حنین میں ) لڑائی کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔
ہجرت مدینہ کے بعد آنحضورﷺ نے مدینہ کے یہود، مشرکین اور دیگر قبائل کے ساتھ میثاق مدینہ کے نام سے معاہدہ کیا۔ یہ معاہدہ انسانی حقوق، آزادیٔ مذہب اور حرّیت ضمیر کی بہترین ضمانت ہے۔ چنانچہ جب ایک مسلمان اور یہودی کے مابین رسول اللہﷺ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فضیلت کا تنازعہ کھڑا ہوا تو آپؐ نے فرمایا کہ مجھے موسیٰؑ پر فضیلت مت دو۔
آنحضورﷺ ایک بار کسی جنازے کے احترام میں کھڑے ہوئے تو کسی نے عرض کیا کہ یہ یہودی کا جنازہ ہے۔ فرمایا: کیا اس میں جان نہیں تھی؟ کیا وہ انسان نہیں تھا؟
ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے نبی کریمﷺ کے ساتھ کئی سفر کیے۔ کبھی ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ آپؐ نے کسی انسان کی نعش پڑی دیکھی ہو اور اُسے دفن نہ کروایا ہو۔ آپؐ نے کبھی یہ نہیں پوچھا کہ یہ مسلمان ہے یا کافر ہے؟
چنانچہ بدر میں ہلاک ہونے والے مشرک سرداروں کو بھی آپؐ نے میدانِ بدر میں ایک گڑھے میں دفن کروایا جسے قلیب بدر کہتے ہیں۔
مدینہ میں آنحضورﷺ نے ایک یہودی بچہ گھریلو کاموں کے لیے ملازم رکھا ہوا تھا۔ جب وہ بیمار ہوا تو آپؐ اس کی عیادت کے لیے اُس کے گھر تشریف لے گئے۔
آپؐ بلاامتیاز رنگ و نسل و مذہب و ملّت دعوت قبول فرماتے تھے۔ ایک یہودی کی معمولی دعوت بھی قبول فرمائی جس میں اُس نے جَو اور چربی پیش کیے۔
سورۃالمائدہ میں فرمان ہے: ’’تم غیرقوموں میں سے عیسائیوں کو نسبتاً اپنے زیادہ قریب اور محبت کرنے والا پاؤگے۔ ‘‘چنانچہ نجران کے عیسائیوں کے وفد کو آپؐ نے مسجد نبوی میں ہی اپنے مذہب کے مطابق مشرق کی طرف منہ کرکے عبادت کرنے کی اجازت دے دی۔ پھر اس وفد سے جو معاہدہ ہوا اُس میں انہیں مذہبی آزادی کے مکمل حقوق عطا کیے گئے۔ ایسے معاہدات کے حوالے سے مسٹر کرینسٹن اپنی کتاب ’’World Faith‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’کیا دنیا میں کسی فاتح قوم یا مذہب نے اپنی مفتوح قوم کو اس سے بڑھ کر تحفظات کی ضمانت دی ہے جو ہادیٔ اسلامﷺ کے ان الفاظ میں موجود ہے … دنیا کے کسی مذہب میں اس سے زیادہ روادارانہ اور حقیقی طور پر برادرانہ تعلیم تلاش کرنا مشکل ہے۔ … اٹلانٹک چارٹر میں تو مذہبی آزادی اور دہشت و ہراس سے نجات کو انسانی حقوق میں آج شامل کیا گیاہے لیکن اس سے تیرہ سو سال قبل محمدﷺ نے یہودی اور عیسائی قبیلوں پر فتح حاصل کرنے کے بعد جو معاہدات کیے ان میں مذہبی عبادات کی آزادی اور مقامی لحاظ سے ان کی خودمختاری کو تسلیم کیا گیا تھا۔ ‘‘
اسلامی رواداری کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر وگلیری لکھتے ہیں : ’’قرآن شریف فرماتا ہے کہ اسلام میں جبر نہیں۔ محمدﷺ ہمیشہ ان خدائی احکام کی پیروی کرتے تھے اور سب مذاہب کے ساتھ عموماً اور توحید پر قائم مذاہب کے ساتھ خصوصاً بہت رواداری برتتے تھے۔ آپؐ کفار کے مقابلے میں صبر اختیار کرتے تھے۔ آنحضرتﷺ نے نجران کے عیسائیوں کے متعلق یہ ذمہ لیا کہ عیسائی ادارے محفوظ رکھے جائیں گے اور یمن کی مہم کے سپہ سالار کو حکم دیا کہ کسی یہودی کو اُس کے مذہب کی وجہ سے دُکھ نہ دیا جائے۔ … شرط صرف یہ تھی کہ جو لوگ اسلام قبول نہ کریں ایک معمولی سا ٹیکس یعنی جزیہ ادا کریں جو اُن ٹیکسوں سے بہت ہلکا تھا جو خود مسلمانوں پر اسلامی حکومت کی طرف سے عائد ہوتے تھے۔ جزیے کے بدلے میں رعایا یعنی ذمّی لوگ ایسے ہی مامون و مصئون ہوجاتے تھے جیسا کہ خود مسلمان۔ … پھر پیغمبرِ اسلام اور خلفاء کے طریق کو قانون کا درجہ حاصل ہوگیا اور ہم حتماً بلامبالغہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام نے مذہبی رواداری کی تلقین پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ رواداری کو مذہبی قانون کا لازمی حصہ بنادیا۔ مفتوحین کے ساتھ معاہدہ کرنے کے بعد مسلمانوں نے اُن کی مذہبی آزادی میں دخل نہیں دیا اور نہ تبدیلی مذہب کے لیے کوئی سختی کی۔
………٭………٭………٭………