خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 20؍نومبر2020ء

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوایوب انصاری کے حق میں دعا فرمائی کہ

اَللّٰهُمَّ احْفَظْ اَبَا اَيُّوْبَ كَمَا بَاتَ يَحْفَظُنِيْ

کہ اے اللہ! ابوایوب کی حفاظت فرما جس طرح اس نے پوری رات میری حفاظت کرتے ہوئے گزاری

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت بدری صحابہ حضرت عوف بن حارث بن رفاعہ انصاریؓ اور حضرت خالد (ابو ایوب) انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

میری امت اس وقت تک خیر پر باقی رہے گی یا یہ فرمایا کہ فطرت پر قائم رہے گی جب تک وہ مغرب میں تاخیر نہ کریں یہاں تک کہ ستارے چمکنے لگیں

چار مرحومین مکرم عبدالحی منڈل صاحب معلم سلسلہ (بھارت)، مکرم سراج الاسلام صاحب معلم سلسلہ ضلع مرشد آباد بنگال(بھارت)، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نواسے مکرم شاہد احمد خان پاشا صاحب اور مکرم سید مسعود احمد شاہ صاحب شیفیلڈ (یوکے) کاذکر ِخیر اور نماز ِجنازہ غائب

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 20؍نومبر2020ء بمطابق 20؍نبوت1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

آج جن صحابی کا پہلے ذکر ہو گا ان کا نام ہے حضرت عوف بن حارث بن رِفَاعَہ انصاریؓ۔ روایات میں آپ کا نام عوف بن حارث اور عوف بن عفراء بیان ہوا ہے۔ عفراء آپ کی والدہ کا نام تھا۔ آپ کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو نَجَّار سے تھا۔ حضرت معاذؓ اور حضرت معوذؓ حضرت عوفؓ کے بھائی تھے۔ حضرت عوف انصار کے ان چھ افراد میں شامل تھے جنہوں نے سب سے پہلے مکہ آ کر بیعت کی۔ آپؓ بیعت عقبہ میں بھی شامل تھے۔ جب آپؓ نے اسلام قبول کیا تو حضرت اَسْعَدْ بن زُرَارَہؓ اور حضرت عُمَارَہ بن حَزْم ؓکے ساتھ مل کر بنو مالک بن نجار کے بت توڑے۔ غزوۂ بدر کے دن جب جنگ جاری تھی تو حضرت عوف بن عفراءؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی کس بات سے زیادہ خوش ہوتا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس بات سے کہ اس کا ہاتھ جنگ میں مصروف ہو اور زرہ کے بغیر بے خوف لڑ رہا ہو۔ یعنی اگر جنگ کے میدان میں ہے تو پھر بے خوف ہونا چاہیے۔اس پر حضرت عوف بن عفراءؓ نے اپنی زرہ اتار دی اور آگے بڑھ کر لڑنا شروع کر دیا یہاں تک کہ شہید ہو گئے۔ غزوۂ بدر میں ابو جہل نے عوف بن حارث اور آپؓ کے بھائی حضرت معوذ کو شہید کیا تھا۔ حدیث اور سیرت کی کتب میں غزوۂ بدر میں ابوجہل پر حملہ کرنے والے صحابہ کے مختلف نام ملتے ہیں ان میں حضرت عوف بن عفراء کا نام بھی آتا ہے۔ یہ پہلے بھی ایک دفعہ ذکر کر چکا ہوں۔ سنن ابی داؤد میں ہے کہ ان کا نام عوف بن حارث تھا ۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 373تا 375، 370 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
(الاصابہ جلد 04صفحہ614-615 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1995ء)
(الاستیعاب جلد 3 صفحہ 1225-1226 مطبوعہ دار الجیل بیروت1992ء)
(صحیح بخاری کتاب المغازی باب فضل من شھد بدرًا حدیث 3988 )
(صحیح بخاری کتاب فرض الخمس باب من لم یخمس الاسلاب… حدیث 3141)

(صحیح بخاری کتاب المغازی باب قتل ابی جہل حدیث 3963) (سنن ابی داؤد کتاب الجہاد باب فی الاسیر یوثق حدیث 2680 )

عام طور پہ یہ دونوں نام ان کے بولے جاتے ہیں۔ بہرحال یہ ابوجہل کے قتل میں بھی شریک تھے اور ان کی شہادت بدر میں ہوئی۔

اگلے صحابی جن کا ذکر ہے وہ ہیں حضرت ابوایوب انصاریؓ۔ حضرت ابوایوب انصاریؓ کا نام حضرت خالدؓ اور ان کے والد کا نام زید بن کُلَیب تھا۔

(اسد الغابہ جلد 6 صفحہ 22 حضرت اَبُوْ اَیُّوْب الاَنْصَارِی دارالکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)

آپؓ اپنے نام اور کنیت دونوں سے مشہور ہیں۔ حضرت ابوایوب انصاریؓ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو نجار سے تھا۔ حضرت ابو ایوب انصاری کو عقبہ ثانیہ کے موقعے پر ستّر انصار کے ہمراہ بیعت کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی والدہ کا نام ہِند بنت سعید تھا جبکہ ایک قول کے مطابق ان کا نام زَہْرا ء بنت سَعد تھا۔ حضرت ابوایوب انصاری کی بیوی کا نام حضرت ام حسن بنت زید تھا۔ ان کے بطن سے ایک لڑکا عبدالرحمٰن پیدا ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوایوب انصاریؓ اور حضرت مُصْعَب بن عمیرؓ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔

(الاصابہ جلد 2 صفحہ 200 حضرت خَالِد بِنْ زَیْد دار الکتب العلمیۃ بیروت 1995ء)
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 368-369 حضرت اَ بُوْ اَيُّوْب، دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1990ء)

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو آپؐ مسجد نبوی اور اپنے گھروں کی تعمیر تک حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے گھر میں قیام فرما رہے۔

(اسد الغابہ جلد 6 صفحہ 23 حضرت ابو ایوب دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 2003ء)

سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کے واقعے کو یوں بیان کیا ہے کہ ’’بنونجار میں پہنچ کرپھر یہ سوال درپیش تھا کہ آپؐ کس شخص کے ہاں مہمان ٹھہریں۔ قبیلہ کا ہر شخص خواہشمند تھا کہ اسی کو یہ فخر حاصل ہو، بلکہ بعض لوگ تو جوش محبت میں آپؐ کی اونٹنی کی باگوں پرہاتھ ڈال دیتے تھے۔ اس حالت کو دیکھ کر آپؐ نے فرمایا۔ ’’میری اونٹنی کوچھوڑ دو کہ یہ اس وقت مامور ہے۔‘‘ یعنی جہاں خدا کا منشا ہو گا وہاں یہ خود بیٹھ جائے گی اوریہ کہتے ہوئے آپؐ نے بھی اس کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دیں۔ اونٹنی آگے بڑھی اور تھوڑی دور خراماں خراماں چلتی ہوئی جب اس جگہ میں پہنچی جہاں بعد میں مسجد نبویؐ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرات تعمیرہوئے اورجو اس وقت مدینہ کے دو بچوں کی افتادہ زمین تھی تو بیٹھ گئی، لیکن فوراً ہی پھر اٹھی اورآگے کی طرف چلنے لگی۔ مگر چند قدم چل کر پھر لوٹ آئی اوراسی جگہ جہاں پہلے بیٹھی تھی دوبارہ بیٹھ گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

ھٰذَا اِنْ شَاءَ اللّٰہُ الْمَنْزِلُ

یعنی معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی منشا میں یہی ہماری مقام گاہ ہے اورپھر خدا سے دعا مانگتے ہوئے اونٹنی سے نیچے اتر آئے اور دریافت فرمایا کہ اپنے آدمیوں میں سے یہاں سے قریب ترین گھر کس کا ہے۔‘‘ یعنی مسلمانوں میں سے۔ ’’ابوایوب انصاری فوراً لپک کر آگے ہو گئے اور عرض کیا۔ یارسول اللہؐ! میرا گھر ہے اوریہ میرا دروازہ ہے۔ تشریف لے چلیے۔ آپؐ نے فرمایا: اچھا جاؤ اور ہمارے لیے کوئی ٹھہرنے کی جگہ تیار کرو۔

ابوایوب انصاریؓ فوراً اپنے مکان کو ٹھیک ٹھاک کر کے آ گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ اندر تشریف لے گئے۔ یہ مکان دومنزلہ تھا۔ ابوایوبؓ چاہتے تھے کہ آپؐ اوپر کی منزل میں قیام فرمائیں لیکن آپؐ نے اس خیال سے کہ ملاقات کے لیے آنے جانے والے لوگوں کو آسانی رہے نچلی منزل کو پسند فرمایا اور وہاں فروکش ہو گئے۔ رات ہوئی تو ابوایوب اوران کی بیوی کوساری رات اس خیال سے نیند نہیں آئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیچے ہیں اور ہم آپؐ کے اوپر ہیں اور مزید اتفاق یہ ہو گیا کہ رات کو چھت پر ایک پانی کا برتن ٹوٹ گیا اور ابوایوب نے اس ڈر سے کہ پانی کاکوئی قطرہ نیچے نہ ٹپک جاوے جلدی سے اپنا لحاف پانی پر گرا کر اسے خشک کر دیا۔ صبح ہوئی تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بکمال اصرار آپؐ کی خدمت میں اوپر کی منزل میں تشریف لے چلنے کی درخواست کی۔ آپؐ نے پہلے توتامل کیا، لیکن بالآخر ابوایوب کے اصرار کودیکھ کررضامند ہو گئے۔ اس مکان میں آپؐ نے سات ماہ تک یاابن اسحاق کی روایت کی رو سے ماہ صفر سن 2ہجری تک قیام فرمایا۔ گویا جب تک مسجد نبوی اوراس کے ساتھ والے حجرے تیار نہیں ہو گئے آپؐ اسی جگہ‘‘ یعنی حضرت ابو ایوب انصاری کے مقام میں مکان میں ہی ’’مقیم رہے۔ ابوایوب آپؐ کی خدمت میں کھانابھجواتے تھے اور پھر جو کھانا بچ کر آتا تھا وہ خود کھاتے تھے اور محبت واخلاص کی وجہ سے اسی جگہ انگلیاں ڈالتے تھے جہاں سے آپؐ نے کھایا ہوتا تھا۔ دوسرے اصحاب بھی عموماً آپؐ کی خدمت میں کھانا بھیجا کرتے تھے۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینؓ صفحہ 267، 268)

اس واقعے کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی بیان فرمایا ہے۔ بعض فقرے، بعض باتیں نئی ہوتی ہیں اس لیے میں یہ بھی سارا پڑھ دیتا ہوں۔ عموماً تو وہی واقعہ بیان ہواہے لیکن حضرت مصلح موعود ؓکا اپنا ایک انداز ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ

’’جب آپؐ مدینہ میں داخل ہوئے ہر شخص کی یہ خواہش تھی کہ آپؐ اس کے گھر میں ٹھہریں۔ جس جس گلی میں سے آپؐ کی اونٹنی گزری تھی اس گلی کے مختلف خاندان اپنے گھروں کے آگے کھڑے ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کرتے تھے اور کہتے تھے یا رسول اللہؐ! یہ ہمارا گھر ہے اور یہ ہمارا مال ہے اور یہ ہماری جانیں ہیں جو آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہیں۔ یا رسول اللہؐ! اور ہم آپ کی حفاظت کرنے کے قابل ہیں۔ آپ ہمارے ہی پاس ٹھہریں۔ بعض لوگ جوش میں آگے بڑھتے اور آپ کی اونٹنی کی باگ پکڑ لیتے تا کہ آپ کو اپنے گھر میں اتروا لیں مگر آپؐ ہر ایک شخص کو یہی جواب دیتے تھے کہ میری اونٹنی کو چھوڑ دو یہ آج خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہے۔ یہ وہیں کھڑی ہو گی جہاں خداتعالیٰ کا منشا ہو گا۔ آخر مدینہ کے ایک سرے پر بنو نجار کے یتیموں کی ایک زمین کے پاس جا کر اونٹنی ٹھہر گئی۔ آپؐ نے فرمایا خدا تعالیٰ کا یہی منشا معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہاں ٹھہریں۔ پھر فرمایا یہ زمین کس کی ہے؟ زمین کچھ یتیموں کی تھی۔ ان کا ولی آگے بڑھا اور اس نے کہا یا رسول اللہ! یہ فلاں فلاں یتیم کی زمین ہے اور آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ہم کسی کا مال مفت نہیں لے سکتے۔ آخر اس کی قیمت مقرر کی گئی اور آپؐ نے اس جگہ پر مسجد اور اپنے مکانات بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: سب سے قریب گھر کس کا ہے؟ ابوایوب انصاری آگے بڑھے اور کہا یا رسول اللہ! میرا گھر سب سے قریب ہے اور آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہے۔ آپؐ نے فرمایا: گھر جاؤ اور ہمارے لیے کوئی کمرہ تیار کرو۔ ابوایوبؓ کا مکان دو منزلہ تھا۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اوپر کی منزل تجویز کی مگر آپؐ نے اس خیال سے کہ ملنے والوں کو تکلیف ہو گی نچلی منزل پسند فرمائی۔‘‘ حضرت مصلح موعود ؓلکھتے ہیں کہ انصار کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے جو شدید محبت پیدا ہو گئی تھی اس کا مظاہرہ اس موقع پر بھی ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصرار پر حضرت ابوایوبؓ مان تو گئے کہ آپؐ نچلی منزل میں ٹھہریں لیکن ساری رات میاں بیوی اس خیال سے جاگتے رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے نیچے سو رہے ہیں پھر وہ کس طرح اس بے ادبی کے مرتکب ہو سکتے ہیں کہ وہ چھت کے اوپر سوئیں۔‘‘ یہ محبت کا ایک اظہار تھا۔ ’’رات کو ایک برتن پانی کا گر گیا تو اس خیال سے کہ چھت کے نیچے پانی نہ ٹپک پڑے حضرت ابوایوبؓ نے دوڑ کر اپنا لحاف اس پانی پر ڈال کر پانی کی رطوبت کو خشک کیا۔ صبح کے وقت پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارے حالات عرض کیے۔ جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اوپر جانا منظور فرما لیا۔ حضرت ابوایوبؓ روزانہ کھانا تیار کرتے اور آپ کے پاس بھجواتے۔ پھر جو آپؐ کا بچا ہوا کھانا آتا وہ سارا گھر کھاتا۔ کچھ دنوں کے بعد اصرار کے ساتھ باقی انصار نے بھی مہمان نوازی میں اپنا حصہ طلب کیا اور جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے گھر کا انتظام نہ ہو گیا باری باری مدینہ کے مسلمان آپ کے گھر میں کھانا پہنچاتے رہے۔‘‘

(دیباچہ تفسیر القرآن انوار العلوم جلد 20 صفحہ 228، 229)

یہ حضرت مصلح موعود ؓکا دیباچے سے جو بیان تھا وہ ختم ہوا۔ آگے یہ حدیث کی روایت ہے۔

حضرت ابوایوبؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں اترے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نچلی منزل میں اور حضرت ابوایوب اوپر والی منزل میں تھے۔ راوی کہتے ہیں کہ ایک رات حضرت ابوایوب بیدار ہوئے اور کہا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے اوپر چلتے ہیں پس وہ ایک طرف ہٹ گئے اور ایک کونے میں رات گزاری۔ پھر انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نچلے حصہ میں زیادہ سہولت ہے۔ انہوں نے کہا مَیں اس چھت پر نہیں رہ سکتا جس کے نیچے آپ ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اوپر منتقل ہو گئے اور حضرت ابوایوب نیچے۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھانا بناتے تھے اور جب وہ کھانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ان کے پاس واپس لایا جاتا تو وہ لانے والے سے پوچھتے کہ کس جگہ آپ کی انگلیاں لگی تھیں۔ پھر وہ آپ کی انگلیوں کی جگہ کا تتبع کرتے یعنی وہیں سے کھاتے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کھایا تھا۔ انہوں نے ایک دفعہ آپ کے لیے کھانا تیار کیا جس میں لہسن تھا۔ جب وہ ان کی طرف واپس لایا گیا تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کی جگہ کے متعلق پوچھا اور ان سے کہا کہ کیا آپ نے نہیں کھایا؟ جب ان کو بتایا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آج کھانا نہیں کھایا تو گھبرا گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اوپر گئے اور پوچھا کہ کیا یہ لہسن حرام ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں لیکن مَیں اسے ناپسند کرتا ہوں۔ اس پر ابوایوب انصاری نے کہا جس کو آپ ناپسند کرتے ہیں مَیں اس کو ناپسند کرتا ہوں یا انہوں نے کہا کہ جس کو آپ نے ناپسند کیا مَیں نے بھی ناپسند کیا۔ راوی کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فرشتے آتے تھے۔ یہ روایت مسلم کی ہے۔ اسی طرح لکھی ہے یعنی وحی ہوتی تھی اور فرشتے آتے تھے اور اس وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بو والی چیز پسند نہیں کرتے تھے لیکن یہ حرام نہیں ہے۔

مسلم میں یہ روایت یوں بھی درج ہے ۔حضرت ابوایوب انصاریؓ سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھانا پیش کیا جاتا آپ اس میں سے تناول فرماتے اور اپنا بچا ہوا کھانا میری طرف بھیج دیتے۔ ایک دن آپ نے بچاہوا کھانا بھیجا جس میں سے آپ نے نہیں کھایا تھا کیونکہ اس میں لہسن تھا مَیں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ کیا یہ حرام ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں لیکن مَیں اس کی بُو کی وجہ سے اسے ناپسند کرتا ہوں تو ابوایوب نے عرض کیا کہ مَیں بھی ناپسند کرتا ہوں جو آپ ناپسند فرماتے ہیں۔

(صحیح مسلم کتاب الأشربة بَابُ اباحۃ اکل الثوم … حدیث 5356 تا 5358)

ایک دوسری روایت میں جو مسند احمد بن حنبل کی ہے، یہ واقعہ یوں بیان ہوا ہے۔ ابوایوب انصاری سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر کی نچلی منزل میں فروکش ہوئے اور مَیں بالا خانے میں تھا۔ ایک مرتبہ بالا خانے میں پانی گر گیا تو مَیں اور اُمّ ایوب ایک چادر لے کر پانی خشک کرنے لگے اس ڈر سے کہ وہ پانی ٹپک کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پرنہ گرنے لگے۔ پھر مَیں ڈرتا ڈرتا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یار سول اللہؐ! ہمارے لیے مناسب نہیں کہ ہم آپ کے اوپر رہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بالا خانے میں منتقل ہو جائیں۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر آپ کا سامان بالا خانے میں منتقل کر دیا گیا اور آپ کا سامان بہت ہی مختصر تھا۔ پھر مَیں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! جب آپؐ مجھے کھانا بھیجتے تو مَیں جائزہ لیتا اور جہاں آپ کی انگلیوں کے نشان دیکھتا مَیں اپنا ہاتھ وہیں رکھتا لیکن آج جو کھانا آپ نے مجھے بھیجا ہے اسے جب مَیں نے دیکھا تو مجھے آپ کی انگلیوں کے نشان اس میں نظر نہیں آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ بات صحیح ہے۔ دراصل اس میں پیاز تھا۔ یہاں لہسن کی بجائے پیاز کا بیان ہوا ہے۔ مَیں نے ناپسند کیا کہ اسے کھاؤں اس فرشتےکی وجہ سے جو میرے پاس آتا ہے۔ البتہ تم لوگ اسے کھاؤ۔

(مسند احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 781 حدیث 23966 مسند ابو ایوب انصاری مطبوعہ عالم الکتب بیروت لبنان1998ء)

حضرت ابوایوب انصاری ؓکو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوۂ بدر، غزوۂ احد اور غزوۂ خندق سمیت تمام غزوات میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 369دارالکتب العلمیة بیروت 1990ء)

حضرت ابوایوب انصاریؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے بدر کے روز صفیں بنائیں تو ہم میں سے بعض لوگ صف سے آگے نکل گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کی طرف دیکھ کر فرمایا ’میرے ساتھ، میرے ساتھ۔‘ (مسند احمد بن حنبل جلد 7صفحہ780مسند ابو ایوب الانصاری، حدیث نمبر 23963عالم الکتب بیروت 1998ء) یعنی میرے پیچھے رہو۔ میرے سے آگے نہ نکلو۔

حضرت صفیہؓ کے رخصتانےکی رات کا ذکر ہے۔گو یہ پہلے ایک ذکر میں مختصر بیان کر چکا ہوں لیکن دوبارہ بیان کر دیتا ہوں۔ جب حضرت صفیہؓ کا رخصتانہ ہوا تو اس رات حضرت ابوایوب انصاری ؓآنحضرتؐ کے خیمے کے باہر ننگی تلوار لیے تمام رات پہرہ دیتے رہے اور خیمے کے چاروں طرف گھومتے رہے۔ جب صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوایوب کو خیمہ کے باہر دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: اے ابوایوب کیا بات ہے؟ انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ ؐ! مَیں اس عورت سے آپ کے متعلق خوفزدہ ہوا کیونکہ اس کا باپ اور اس کا شوہر اور اس کی قوم کے لوگ قتل ہوئے ہیں اور یہ کفر سے نئی نئی نکلی ہے۔ اس لیے مَیں رات بھر آپؐ کی حفاظت کے خیال سے پہرہ دیتا رہا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوایوب انصاری کے حق میں دعا فرمائی کہ

اَللّٰهُمَّ احْفَظْ اَبَا اَيُّوْبَ كَمَا بَاتَ يَحْفَظُنِيْ

کہ اے اللہ! ابوایوب کی حفاظت فرما جس طرح اس نے پوری رات میری حفاظت کرتے ہوئے گزاری۔ امام سُہَیلی کہتے ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کے مطابق حضرت ابوایوبؓ کی حفاظت فرمائی یہاں تک کہ رومی آپ کی قبر کی حفاظت کرتے اور وہ آپ کے وسیلے سے پانی مانگتے تو بارش ہوتی۔

(السیرۃ الحلبیة جلد 3صفحہ 65 غزوہ خیبر، دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان)

حضرت محمود کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عِتْبَان بن مالِک انصاری رضی اللہ عنہ سے سنا اور وہ ان لوگوں میں سے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ بدر میں موجود تھے۔ کہتے تھے کہ مَیں اپنی قوم بنوسالم کو نماز پڑھایا کرتا تھا اور میرے اور ان کے درمیان نالہ تھا۔ جب بارشیں ہوتیں تو ان کی مسجد کی طرف عبور کر کے جانا میرے لیے مشکل ہوتا۔ اس لیے مَیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور مَیں نے آپؐ سے عرض کیا کہ مَیں اپنی بینائی کمزور پاتا ہوں اور وہ نالہ جو میرے اور میری قوم کے درمیان ہے جب بارشیں آتی ہیں بہنے لگتا ہے اور وہ میرے لیے عبور کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لیے میری خواہش ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئیں اور میرے گھر میں ایسی جگہ نماز پڑھیں جسے مَیں نماز کی جگہ بنا لوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مَیں آؤں گا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دن چڑھے میرے پاس آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ مَیں نے اجازت دی ۔آپؐ بیٹھے نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے گھر میں سے آپ کون سی جگہ پسند کرتے ہیں کہ مَیں وہاں نماز پڑھوں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تم نے نماز پڑھنے کے لیے بلایا تھا تو کونسی جگہ ہے جہاں تم چاہتے ہو کہ مَیں نماز پڑھوں؟ مَیں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس جگہ کی طرف اشارہ کیا جہاں مَیں چاہتا تھا کہ آپ نماز پڑھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور اللہ اکبر کہا اور ہم نے آپؐ کے پیچھے صف باندھی۔ آپؐ نے دو رکعتیں پڑھائیں۔ پھر سلام پھیرا اور جس وقت آپؐ نے سلام پھیرا ہم نے بھی سلام پھیرا اور مَیں نے آپؐ کو خَزِیْرَہ یعنی گوشت اور آٹے کا ایک کھانا ہے وہ کھانے کے لیے روک لیا جو آپؐ کے لیے تیار ہو رہا تھا۔ محلے والوں نے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں ہیں تو ان میں سے کچھ لوگ بھاگے آئے یہاں تک کہ گھر میں بہت سے آدمی ہو گئے۔ ان میں سے ایک آدمی نے کہا مالک کہاں ہے مَیں اسے نہیں دیکھتا۔ تو کسی نے کہا وہ منافق ہے۔ ایک اَور صحابی کے بارے میں پوچھا کہ وہ کہاں ہے؟ انہوں نے کہا کہ وہ تو منافق ہے۔ اللہ اور اس کے رسولؐ سے اس کو محبت نہیں ہے اس لیے وہ نہیں آیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسا مت کہو۔ کیا تمہیں علم نہیں کہ اس نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا اقرار کیا ہے۔ وہ اس اقرار سے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی چاہتا ہے۔ اس نے کہا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ ہم تو بخدا اس کی دوستی اور اس کی باتیں منافقوں ہی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آگ اس شخص پر حرام کر دی ہے جس نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا اقرار کیا جس سے وہ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی چاہتا ہو۔ حضرت محمود بن ربیع کہتے تھے کہ مَیں نے یہ بات کچھ اَور لوگوں سے بیان کی جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی حضرت ابوایوب انصاری ؓبھی تھے۔ وہ اس جنگ میں تھے جس میں وہ ملکِ روم میں فوت ہوئے اور یزید بن معاویہ ان کے سردار تھے۔ توحضرت ابوایوب نے میری بات کا انکار کیا اور کہا کہ بخدا مَیں نہیں سمجھتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایسا کہا ہو جو تم نے بیان کیا ہے۔ یعنی کہ آگ اس پہ حرام ہوئی جو صرف لَا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہ کہے۔ بہرحال کہتے ہیں کہ یہ بات مجھ پر بہت گراں گزری۔ مَیں اس بات سے بڑا پریشان تھا۔ مَیں نے اللہ تعالیٰ کے لیے اپنے اوپر ایک منت مانی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے سلامت رکھا اور اس جنگ سے واپس لوٹا تو یہ بات مَیں حضرت عِتبان بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھوں گا بشرطیکہ مَیں نے ان کی قوم کی مسجد میں ان کو زندہ پایا۔ چنانچہ مَیں لوٹا اور حج یا عمرہ کا احرام باندھا۔ پھر مَیں چل پڑا یہاں تک کہ مدینہ آیا اور بنو سالم کے محلے میں گیا تو مَیں کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت عتبانؓ بوڑھے ہو گئے ہیں ا ور آپ کی بینائی جاتی رہی ہے۔ آپ اپنی قوم کو نماز پڑھا رہے تھے۔ جب نماز سے فارغ ہو کر انہوں نے سلام پھیرا تومَیں نے انہیں سلام کیا اور انہیں بتایا کہ مَیں کون ہوں۔ پھر مَیں نے ان سے وہ بات پوچھی تو انہوں نے اس کو اسی طرح بیان کیا جس طرح کہ پہلی دفعہ مجھ سے بیان کیا تھا۔

(صحیح بخاری کتاب التہجد بَابُ صَلاَةِ النَّوَافِلِ جَمَاعَةً روایت نمبر 1186)

(لغات الحدیث جلد اول صفحہ 580)

کہ ہاں یہ ٹھیک ہے۔ مَیں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جس نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰهُ پڑھا اس پہ آگ حرام ہو گئی لیکن حضرت ابوایوب اس کو نہیں مانتے تھے ۔ اس پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی اپنی رائے لکھی ہے کہ حدیث میں یہی آتا ہے کہ

مَنْ قَالَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰهُ یَبْتَغِیْ بِذٰلِکَ وَجْہَ اللّٰهِ۔

اس پوری حدیث کا ترجمہ پڑھ دیتا ہوں۔ اس میں یہ بھی وضاحت آ جائے گی۔ یعنی محمود بن ربیع روایت کرتے ہیں کہ مَیں نے عتبان بن مالک سے یہ سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر اس شخص پر دوزخ کی آگ حرام کر دی ہوئی ہے جو سچی نیت سے خدا کی رضا کی خاطر

لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰهُ

کااقرار کرتا ہے لیکن جب میں نے یہ روایت ایک ایسی مجلس میں بیان کی جس میں ابو ایو ب انصاریؓ صحابی بھی موجود تھے تو ابوایوبؓ نے اس روایت سے انکار کیا اور کہا خدا کی قسم! مَیں ہر گز نہیں خیال کر سکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات فرمائی ہو۔پھر آگے مرزا بشیر احمد صاحب یہ لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں حضرت ابو ایوب انصاریؓ نے ایک ایسی حدیث کو جو اصولِ روایت کے لحاظ سے صحیح تھی۔جو حدیث بیان کرنے کے روایت کے اصول ہیں اس لحاظ سے صحیح تھی۔ لیکن حضرت ابوایوب انصاریؓ نے اپنی درایت کی بنیاد پر یعنی اپنی سمجھ اور اپنے لحاظ سے جس کو وہ صحیح سمجھتے تھے اس کو بنیاد رکھ کر قبول کرنے سے انکار کر دیا اور پھر میاں بشیر احمد صاحب یہ فرماتے ہیں کہ گویہ ممکن ہے کہ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا استدلال درست نہ ہو مگر بہرحال یہ حدیث اس بات کو ثابت کرتی ہے۔ اب یہ بات حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ صحابہ یونہی ہر حدیث کو، بات کو نہیں مان لیا کرتے تھے بلکہ وہ بھی غور کرتے تھے ،تحقیق کرتے تھے۔ تو وہ لکھتے ہیں کہ ’’بہرحال یہ حدیث اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ صحابہ یونہی کو رانہ طور پر ہر روایت کو قبول نہیں کر لیتے تھے‘‘ بلکہ درایت و روایت ہر دو کے اصول کے ماتحت پوری تحقیق کر لینے کے بعد قبول کرتے تھے۔

(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ 16)

بخاری کی اس حدیث کی شرح میں حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحبؓ نے لکھا ہے کہ حضرت محمود بن ربیعؓ سے جب انہوں نے یعنی ابوایوب انصاری نے یہ روایت سنی تو انہوں نے انکار کیا۔ بعض کا خیال ہے کہ ان کے انکار کی وجہ یہ تھی کہ خالی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰهُ کا اقرار آگ سے محفوظ نہیں رکھ سکتا جب تک اعمال صالحہ اس کے ساتھ نہ ہوں۔ یہ ثابت شدہ اسلامی مسئلہ ہے۔ ٹھیک ہے۔ بالکل اسی طرح ہوتا ہے پھر آگے شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ مگر

یَبْتَغِیْ بِذٰلِکَ وَجْہَ اللّٰهِ

کا جملہ بتا رہا ہے کہ یہ اقرار توحید کس قسم کا ہے۔ یعنی جو دل سے چاہتے ہوئے خدا کی رضا کی خاطر کلمہ پڑھتا ہے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰهُ کہتا ہے اس کے لیے آگ حرام ہے۔ تو پھر شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ حضرت محمود نے دوبارہ تحقیق اس خیال سے کی کہ شاید وہ بعض الفاظ ضبط نہ کر سکے ہوں اور پھر جو دوبارہ تحقیق کی تو دوبارہ یہی ثابت ہوا کہ وہ الفاظ درست تھے جو روایت تھی۔ پھر آگے لکھتے ہیں کہ کسی کے ایمان یا نفاق سے متعلق لوگوں کے سامنے اظہارِ رائے نامناسب ہے۔ کسی کو یہ کہہ دینا کہ منافق ہے یا اس کا ایمان کمزور ہے یہ غلط چیز ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقعے پر ابن دُخْشُنْ کی نسبت نکتہ چینی ناپسند فرمائی تھی۔ آپ نے ناپسند فرمایا کہ اس طرح پبلک میں کہا جائے۔ اس قسم کی نکتہ چینی بجائے اصلاح کے فتنہ وفساد کا موجب ہو جاتی ہے۔

(ماخوذ از صحیح البخاری کتاب التھجد باب الصلاۃ النوافل جماعۃ حدیث 1186 جلد 2 صفحہ 565 از نظارت اشاعت ربوہ)

ایک روایت میں بیان ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور حضرت مِسْوَر بن مَخْرَمَہؓ نےاَبْوَاءْ مقام پر مسئلہ غسل میں اختلاف کیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس نے کہا مُحرَم اپنا سر دھو سکتا ہے اور حضرت مسور نے کہا کہ مُحرَم اپنا سر نہیں دھو سکتا۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس نے مجھے حضرت ابوایوب انصاری کے پاس بھیجا۔ مَیں نے انہیں دو لکڑیوں کے درمیان نہاتے ہوئے پایا۔ ان پر کپڑے سے پردہ کیا گیا تھا۔ مَیں نے ان کو السلام علیکم کہا تو انہوں نے فرمایا کون ہے؟ مَیں نے کہا عبداللہ بن حُنَیْن۔ حضرت عبداللہ بن عباس نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ مَیں آپ سے پوچھوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر کس طرح دھوتے تھے جبکہ آپ احرام کی حالت میں ہوتے تھے کیونکہ کہتے ہیں کہ احرام باندھا ہو تو سر نہیں دھونا چاہیے۔ تو حضرت ابوایوب نے اپنا ہاتھ کپڑے پر رکھا، اسے نیچے جھکایا یہاں تک کہ ان کا سر مجھے نظر آیایعنی وہ سکرین جو بنائی ہوئی تھی جس کے آپ پیچھے تھے اس کو نیچے کر کے آپ نے مجھے اپنا سر دکھایا۔ پھر انہوں نے ایک آدمی سے کہا جو اُن پر پانی ڈال رہا تھا کہ پانی ڈالو تو اس نے ان کے سر پر پانی ڈالا۔ پھر انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے سرکو مَلا، ہاتھوں کو آگے لائے اور پیچھے لے گئے اور کہا کہ اس طرح مَیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے دیکھا ہے۔

(صحیح بخاری کتاب جزاء الصید بَابُ الِاغْتِسَالِ لِلْمُحْرِمِ حدیث نمبر 1840)

ایک دفعہ آگے پھر پیچھے لے گئے سر دھوتے ہوئے۔

حضرت سعید بن مُسَیِّب ؓبیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت ابوایوب نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ریش مبارک میں کوئی چیز تنکا وغیرہ دیکھا تو انہوں نے ا سے الگ کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھایا۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوایوب سے اللہ وہ چیز دور کرے جسے وہ ناپسند کرتا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا اے ابوایوب تمہیں تکلیف نہ پہنچے۔

(کنزالعمال جلد 13 صفحہ 614 حضرت ابو ايوب انصاری رضي اللّٰه عنہ حدیث نمبر37568، 37569 مکتبہ مؤسسة الرسالہ 1985ء)

حضرت ابوایوب انصاریؓ جنگِ جمل اور جنگِ صفین اور جنگِ نہروان میں حضرت علیؓ کے لشکر کے آگے والے حصہ میں شامل تھے۔

(اسد الغابہ جلد 6 صفحہ 22 ’’حضرت اَبُوْ اَیُّوْب الاَنْصَارِی‘‘ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 2003ء)

حضرت علی ؓکو حضرت ابو ایوب انصاری ؓکی ذات پر جو اعتماد تھا وہ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب حضرت علیؓ نے کوفہ کو اپنا دارالخلافہ قرار دیا اور وہاں منتقل ہو گئے تو حضرت ابوایوب انصاری کو مدینہ کا گورنر بنا دیا اور وہ چالیس ہجری تک مدینہ کے گورنر رہے یہاں تک کہ بُسْر بن اَبُوْاَرْطَاة کی قیادت میں امیر معاویہ کی شامی فوج نے مدینہ پر حملہ کیا تو اس وقت حضرت ابوایوب انصاری ؓمدینہ چھوڑکر حضرت علیؓ کے پاس کوفہ چلے گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام ؓکو دربارِ خلافت سے ماہانہ وظائف ملتے تھے۔ حضرت ابوایوبؓ کا وظیفہ پہلے چار ہزار تھا۔ حضرت علیؓ نے اپنے زمانہ خلافت میں بیس ہزار کر دیا۔ پہلے آٹھ غلام ان کی زمین کی کاشت کے لیے مقرر تھے حضرت علیؓ نے چالیس غلام کر دیے۔

(تاریخ الطبری جلد 3صفحہ153 ثم دخلت سنة اربعین… دار الکتب العلمیۃ بیروت 1987ء)

(ماخوذ از سیر الصحابہ جلد 3صفحہ 112دارالاشاعت کراچی 2004ء)

حضرت حَبِیب بن ابو ثَابِتؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابوایوبؓ امیر معاویہؓ کے پاس آئے اور ان سے اپنے اوپر قرض کی شکایت کی تو انہوں نے وہ نہ دیکھا جو وہ پسند کرتے تھے اور انہوں نے وہ دیکھا جسے وہ ناپسند کرتے تھے۔ یعنی حضرت ابوایوب کی بات کو نہیں دیکھا بلکہ ان کی ناپسندیدگی والی بات کو دیکھا۔ پسند والی بات کو نہیں دیکھا ۔ اس پر حضرت ابوایوب انصاریؓ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ تم بعد میں ضرور ترجیح دیکھو گے یعنی تمہاری ترجیحات بدل جائیں گی۔ امیر معاویہ نے کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم لوگوں کو کس چیز کا ارشاد فرمایا تھا۔ جب رسول پاک نے یہ کہا تو پھر آپؐ نے کیا فرمایا تھا؟ حضرت ابوایوبؓ نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تم لوگ صبر کرنا جب ایسی ترجیحات بدل جائیں جہاں تم لوگوں کی بات نہ مانی جائے۔ جو پسندیدہ بات نہ سنی جائے تو پھر صبر کرنا۔ اس پر امیر معاویہ نے کہا پھر تم لوگ صبر کرو۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صبر کرنا تو پھر صبر کرو۔ حضرت ابوایوبؓ نے کہا اللہ کی قسم ! مَیں تم سے کبھی کسی چیز کا سوال نہیں کروں گا۔ پھر حضرت ابو ایوب بصرہ چلے گئے اور حضرت ابن عباسؓ کے ہاں قیام کیا۔ حضرت ابن عباس نے ان کے لیے اپنا گھر خالی کیا اور کہا میں آپ کے ساتھ ضرور ویسا ہی سلوک کروں گا جیسا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا تھا۔ جب آپ نے رسول اللہ کی مہمان نوازی کی تھی ویسی مہمان نوازی میں آپ کی کروں گا۔ حضرت ابن عباسؓ نے اپنے اہل خانہ کو حکم دیا تو وہ باہر چلے گئے اور حضرت ابن عباسؓ نے کہا گھر میں جو کچھ ہے وہ سب آپ کا ہے اور انہوں نے حضرت ابوایوب کو چالیس ہزار درہم اور بیس غلام دیے۔ انہوں نے اپنا اَور انتظام کر لیا اور ان کو نہ صرف گھر دیا بلکہ چالیس ہزار درہم بھی دیے اور بیس غلام بھی دیے۔

(کنزالعمال جلد 13 صفحہ 614-615 حضرت ابو ايوب انصاری رضی اللّٰه عنہ حدیث نمبر 37570 مؤسسة الرسالۃ 1985ء)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ

وَاَنْفِقُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ وَاَحْسِنُوْا اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ (البقرة:196)

کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ ’’اس آیت کا مفہوم سمجھنے میں لوگوں کو بڑی غلط فہمی ہوئی ہے۔‘‘

وَاَنْفِقُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ وَاَحْسِنُوْا اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ ۔

’’انہیں خدا تعالیٰ کی راہ میں جہاں کوئی تکلیف پیش آتی ہے وہ فوراً کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے والی بات ہے۔‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے

وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ

کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ ’’ہم اس میں کس طرح حصہ لے سکتے ہیں حالانکہ اس کے ہرگز یہ معنی نہیں کہ جہاں موت کا ڈر ہو وہاں سے مسلمان کو بھاگ جانا چاہیے اور اسے بزدلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ جب دشمن سے لڑائیاں ہو رہی ہوں تو اس وقت اپنے مالوں کو خوب خرچ کرو۔ اگر تم اپنے اموال کو روک لو گے تو اپنے ہاتھوں اپنی موت کا سامان پیدا کرو گے۔ چنانچہ احادیث میں حضرت ابوایوب انصاریؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے اس وقت جبکہ وہ قسطنطنیہ فتح کرنے کے لیے گئے ہوئے تھے کہا کہ یہ آیت ہم انصار کے بارے میں نازل ہوئی تھی اور پھر انہوں نے بتایا کہ پہلے تو ہم خدا تعالیٰ کے رستہ میں اپنے اموال خرچ کیا کرتے تھے لیکن جب خدا تعالیٰ نے اپنے دین کو تقویت اور عزت دی اور مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہوا تو

قُلْنَا هَلْ نُقِيْمُ فِيْ اَمْوَالِنَا وَ نُصْلِحُهَا……

ہم نے کہا کہ اگر اب ہم اپنے مالوں کی حفاظت کریں اور اسے جمع کریں تو یہ اچھا ہو گا۔ اس وقت یہ آیت اتری کہ اللہ تعالیٰ کے رستہ میں اپنے اموال خرچ کرنے سے دریغ نہ کرو کیونکہ اگر تم ایسا کرو گے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ تم اپنی جانوں کو ہلاکت میں ڈالنا چاہتے ہو۔ پس اپنے مالوں کو جمع نہ کرو بلکہ انہیں اللہ تعالیٰ کے رستہ میں خوب خرچ کرو ورنہ تمہاری جانیں ضائع چلی جائیں گی۔ دشمن تم پر چڑھ آئیں گے اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم ہلاک ہو جاؤ گے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 429)

حضرت علی ؓکے بعد امیر معاویہ کی حکومت کا زمانہ آیا۔ عُقْبَہ بن عَامِر جُہَنِیان کی طرف سے مصر کے گورنر تھے۔ حضرت عقبہؓ کے عہد امارت میں حضرت ابوایوب کو دو مرتبہ سفرِ مصر کا اتفاق ہوا۔ پہلا سفر طلبِ حدیث کے لیے تھا، انہیں معلوم ہوا تھا کہ حضرت عقبہ کسی خاص حدیث کی روایت کرتے ہیں۔ صرف ایک حدیث کے لیے حضرت ابوایوب نے بڑھاپے میں سفر کی زحمت گوارا کی۔ دوسری مرتبہ غزوۂ روم میں شرکت کے ارادے سے مصر تشریف لے گئے۔

(ماخوذ ازسیرالصحابہ جلد 3 حصہ اول صفحہ 113 دار الاشاعت کراچی 2004ء)

مروان جب مدینہ کا گورنر تھا۔ وہ ایک روز آیا تو اس نے ایک شخص کو دیکھا جس نے اپنا چہرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر لگایا ہوا تھا۔ مروان نے کہا کیا تم جانتے ہو کہ تم کیا کر رہے ہو؟ یہ شرک ہے۔ جھکے ہوئے سجدہ کر رہے ہو۔ پھر مروان اس شخص کے پاس آیا تو کیا دیکھا کہ وہ حضرت ابوایوب انصاریؓ ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ہوں۔ ان پتھروں کے پاس نہیں آیا۔

(مسند احمد بن حنبل جلد 7صفحہ 785 مسند ابو ایوب الانصاری، حدیث نمبر 23983 عالم الکتب بیروت 1998ء)

(ماخوذ از سیرالصحابہ جلد 3 حصہ اول صفحہ116 دار الاشاعت کراچی 2004ء)

یہاں مطلب یہ تھا کہ میں اس محبت و عشق کی وجہ سے جھکا ہوا ہوں۔ پتھروں کو سجدہ نہیں کر رہا۔ نہ مَیں کوئی شرک کر رہا ہوں بلکہ یہ محبت کا اظہار ہے اور اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت میرے دل میں ہے۔ شرک نہیں ہے۔

ابوعبدالرحمٰن حُبُلِی سے مروی ہے کہ ہم سمندر میں تھے اور ہم پر عبداللہ بن قیس فزاری امیر تھا اور ہمارے ساتھ حضرت ابو ایوب انصاریؓ بھی تھے۔ وہ اموالِ غنیمت تقسیم کرنے والے کے پاس سے گزرے جو قیدیوں کی نگرانی کر رہا تھا۔ حضرت ابوایوب انصاری ؓکیا دیکھتے ہیں کہ ایک عورت رو رہی ہے۔ انہوں نے پوچھا اس عورت کو کیا ہوا؟ لوگوں نے بتایا کہ اس عورت کو اور اس کے بیٹے کو الگ کر دیا گیا ہے۔ راوی کہتے ہیں اس پر انہوں نے بچے کا ہاتھ پکڑا اور اسے اس کی ماں کے ہاتھ میں دے دیا۔ اس کے بعد اموال غنیمت تقسیم کرنے والا عبداللہ بن قیس کے پاس گیا اور انہیں یہ سب بتایا تو انہوں نے حضرت ابوایوب کو بلا بھیجا اور پوچھا آپ نے ایسا کیوں کیا؟ تو انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے ماں اور اس کے بیٹے کے درمیان جدائی ڈالی تو اللہ تعالیٰ اس کے اور اس کے پیاروں کے درمیان قیامت کے دن جدائی ڈال دے گا۔

(مسند احمد بن حنبل جلد 7صفحہ 764مسند ابو ایوب الانصاری، حدیث نمبر 23895 عالم الکتب بیروت 1998ء)

پس یہ جو بعض لوگ ماؤں سے بچے چھین لیتے ہیں ان کے لیے بھی اس میں سبق ہے۔ پھر یہ اسلام پر اعتراض کرنے والے دیکھیں کہ وہ خود کیا کرتے ہیں۔ اسلام تو اس حد تک خیال رکھتا ہے۔ اب گذشتہ دنوں امریکہ کی ہی خبریں تھیں کہ وہاں بھی جو امیگرینٹس (immigrants)آئے ہوئے تھے ان مہاجرین کو علیحدہ علیحدہ انہوں نے رکھ دیا۔ ماؤں کو علیحدہ، بچوں کو علیحدہ کیا اور بعض بچے کچھ عرصے کے بعد ماؤں کو پہچان بھی نہیں سکے۔ بہرحال اسلام اس حد تک تلقین کرتا ہے کہ ماؤں کو بچوں سے جدا نہ کرو۔ ایک دوسرے کو اس وجہ سے تکلیف نہ دو۔

حضرت مَرْثَدْبن عبداللّٰہؓ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت ابوایوب انصاریؓ ہمارے پاس جہاد کی غرض سے آئے تو ان دنوں حضرت عقبہ بن عامرؓ مصر کے والی تھے۔ انہوں نے مغرب کی نماز میں تاخیر کی۔ حضرت ابوایوب ان کے پاس گئے اور کہا اے عقبہ یہ کیسی نماز ہے؟ حضرت عقبہ نے جواب دیا ہم مصروف تھے۔ حضرت ابوایوب نے کہا اللہ کی قسم ! میری صرف یہ غرض ہے کہ لوگ یہ نہ گمان کریں کہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ میری امّت اس وقت تک خیر پر باقی رہے گی یا یہ فرمایا کہ فطرت پر قائم رہے گی جب تک وہ مغرب میں تاخیر نہ کریں یہاں تک کہ ستارے چمکنے لگیں۔

(مسند احمد بن حنبل جلد 7صفحہ 773مسند ابو ایوب الانصاری، حدیث نمبر 23931 عالم الکتب بیروت 1998ء)

یعنی پہلے وقت میں مغرب کی نماز پڑھنی چاہیے۔

ابو واصل سے مروی ہے کہ میں حضرت ابو ایوب انصاریؓ سے ملا۔ انہوں نے مجھ سے مصافحہ کیا اور دیکھا کہ میرے ناخن بہت لمبے ہیں تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی آسمان کی خبروں کے متعلق سوال کرتا ہے اور وہ اپنے ناخن اس طرح لمبے رکھتا ہے جیسے پرندوں کے ناخن ہوتے ہیں۔ ان میں جنابت اور گندگی اور میل کچیل اکٹھی ہو جاتی ہے۔

(مسند احمد بن حنبل جلد 7صفحہ 775مسند ابو ایوب الانصاری، حدیث نمبر 23938 عالم الکتب بیروت 1998ء)

یعنی باتیں توتم لوگ بڑی اونچی اونچی پوچھتے ہو، معرفت کی کرتے ہو لیکن تمہاری اپنی حالت یہ ہے کہ ناخن تمہارے لمبے ہیں اور ان میں گند اکٹھا ہو جاتا ہے اس لیے ناخن کاٹ کے رکھا کرو۔ مسند احمد بن حنبل کی یہ حدیث ہے۔

حضرت ابوایوب کا فضل و کمال اس قدر مسلّم تھا کہ خود صحابہ ان سے مسائل دریافت کرتے تھے۔ حضرت ابن عباس، ابن عمر ، بَرَاء بن عَازِب، انس بن مالک ، ابو اُمَامَہ، زید بن خالد جُہَنی، مِقْدَامْ بن مَعْدِیْ کَرِبْ، جابر بن سَمُرَہ، عبداللہ بن یزید خَطْمِی وغیرہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ تھے۔ حضرت ابوایوب کے فیض سے بے نیاز نہیں تھے۔ تابعین میں سعید بن مُسَیِّب، عُرْوَہ بن زُبیر، سالم بن عبداللہ، عَطَاء بن یَسَار، عطاء بن یزید لَیْثِی، اَبُوْسَلَمَہ، عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ بڑے پائے کے لوگ ہیں تاہم وہ حضرت ابوایوب کے ارادت مندوں میں داخل تھے۔

( ماخوذ از سیرالصحابہ جلد 3حصہ اول صفحہ 115 دار الاشاعت کراچی 2004ء)

حضرت ابوایوب انصاریؓ سے مروی ہے کہ وہ معاویہ کے زمانے میں جہاد کے لیے نکلے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں بیمار ہو گیا۔ مرض میں شدت ہو گئی تو اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اگر میں مر جاؤں تو مجھے اٹھا لینا اور جب تم لوگ دشمن کے مقابلے میں صف بستہ ہو جاؤ تو مجھے اپنے قدموں کے پاس دفن کر دینا۔ میں تم سے ایک حدیث بیان کروں گا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔ اگر میری وفات قریب نہ ہوتی تو میں اسے بیان نہ کرتا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ جو اس حالت میں مرا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرایا ہو تو وہ جنت میں داخل ہو گیا۔

ایک روایت میں مذکور ہے کہ جب حضرت ابوایوب انصاری ؓکی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے کہا میں نے تم لوگوں سے ایک ایسی چیز چھپائی ہوئی تھی جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی۔ آپؐ نے فرمایا اگر تم لوگ گناہ نہ کرتے تو اللہ تبارک و تعالیٰ ایسی قوم کو پیدا کرتا جو گناہ کرتی اور پھر اللہ اسے بخش دیتا ۔یعنی اللہ تعالیٰ اپنی رحمانیت اور بخشش کی صفت کا اس حد تک پاس کرتا ہے۔

راوی محمد بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوایوب انصاریؓ غزوۂ بدر میں شریک ہوئے۔ آپ مسلمانوں کی کسی لڑائی میں پیچھے نہیں رہے سوائے اس کے کہ آپ کسی دوسری لڑائی میں شامل ہوتے۔ یعنی اگر ایک وقت میں دو مختلف جنگ ہو رہی ہوتیں تو کسی نہ کسی جنگ میں لازمی شامل ہوتے تھے۔ صرف ایک سال وہ لڑائی میں شامل نہیں ہوئے کیونکہ لشکر پر ایک نوجوان سپہ سالار بنا دیا گیا تھا وہ اس سال بیٹھے رہے۔ اس سال کے بعد وہ افسوس کرتے اور کہتے کہ مجھے اس بات سے کیا غرض کہ مجھ پر کون عامل مقرر کیا گیا۔ مجھے اس بات سے کیا غرض کہ مجھ پر کون عامل مقرر کیا گیا۔مجھے اس بات سے کیا غرض کہ مجھ پر کون عامل مقرر کیا گیا۔ تین دفعہ انہوں نے یہ بات کہی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ جس جَوَان کی امارت کا اس روایت میں ذکر کیا گیا ہے وہ عبدالملک بن مروان تھا۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر حضرت ابوایوب بیمار ہو گئے۔ لشکر پر یزید بن معاویہ امیر تھا۔ وہ ان کے پاس ان کی عیادت کو آیا اور پوچھا کہ آپ کی کوئی ضرورت ہو تو بیان کریں۔ انہوں نے کہا کہ میری ضرورت یہ ہے کہ جب میں مر جاؤں تو مجھے سوار کرنا۔ پھر جہاں تک گنجائش ملے دشمن کے ملک میں لے جانا ۔پھر جب گنجائش نہ پاؤ تو وہیں دفن کر دینا اور واپس آ جانا۔ جب حضرت ابوایوب کی وفات ہو گئی تو اس نے انہیں سوار کیا اور جہاں تک گنجائش ملی وہ دشمن کے ملک میں لے گیا اور انہیں دفن کیا۔ پھر واپس آ گیا۔

راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابوایوب انصاری ؓکہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ

اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا (التوبۃ:41)

یعنی نکل کھڑے ہو ہلکے بھی اور بھاری بھی۔

اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا

اور میں اپنے آپ کو ہلکا بھی پاتا ہوں اور بھاری بھی۔ ایک روایت میں مذکور ہے کہ اہل ِمکہ میں سے کسی شخص سے مروی ہے کہ یزید بن معاویہ جس وقت حضرت ابوایوب انصاریؓ کے پاس آیا تو انہوں نے اس سے کہا کہ لوگوں سے میرا سلام کہنا۔ وہ مجھے لے کر چلیں اور جتنا دور وہ مجھے لے جا سکتے ہیں لے جائیں تو یزید نے لوگوں کو وہ سب بتایا جو حضرت ابوایوب نے ان سے کہا تھا۔ لوگوں نے مانا اور ان کے جنازے کو جس حد تک وہ لے جا سکتے تھے لے گئے۔

حضرت ابوایوب انصاریؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اپنی وفات تک جہاد سے چمٹے رہے یہاں تک کہ ان کی وفات قسطنطنیہ میں ہوئی۔ ایک روایت میں مذکور ہے کہ باون ہجری میں یزید بن معاویہ نے اپنے والد امیر معاویہ کی خلافت میں قسطنطنیہ کی جنگ لڑی۔ اسی سال حضرت ابوایوب انصاریؓ کی وفات ہوئی۔ یزید بن معاویہ نے ان کا نماز جنازہ پڑھایا۔ ان کی قبر روم میں قلعہ قسطنطنیہ کے پاس ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ مجھے معلوم ہوا کہ اہل روم ان کی قبر کی حفاظت اور مرمت کرتے ہیں اور قحط کے ایام میں وہ آپؓ کے ذریعے پانی طلب کرتے ہیں۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 369۔ 370 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)

(الاصابہ جلد 2 صفحہ 201 حضرت خَالِد بِنْ زَیْد دار الکتب العلمیۃ بیروت 1995ء)
(مسند احمد بن حنبل جلد 7صفحہ 768مسند ابو ایوب الانصاری، حدیث نمبر 23912 عالم الکتب بیروت 1998ء)

ایک روایت کے مطابق حضرت ابوایوب انصاریؓ نے امیر معاویہ کے عہد میں یزید کی کمان میں رومی حکومت کے خلاف جنگ میں حصہ لیااور قسطنطنیہ کے شہر کے پاس پچاس یا اکاون ہجری میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔ ایک روایت کے مطابق یزید نے گھڑسواروں کو حکم دیا جو حضرت ابوایوب انصاری ؓکی قبر پر آگے پیچھے دوڑتے رہے یہاں تک کہ ان کی قبر کا نشان مٹ گیا۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ جس رات حضرت ابوایوبؓ کو دفن کیا گیا اس کی صبح رومیوں نے مسلمانوں سے پوچھا تم لوگ رات کو کیا کرتے رہے۔ مسلمانوں نے بتایا کہ یہ حضرت ابوایوب انصاریؓ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کبار صحابہ میں سے تھے اور اسلام قبول کرنے کے لحاظ سے ان سب سے قدیم تھے۔ ہم نے انہیں دفن کیا جیسا کہ تم دیکھ چکے ہو اور اللہ کی قسم! اگر قبر کھودی گئی تو جب تک ہمارے پاس حکومت ہے، عرب کی سرزمین میں تمہارا یہ ناقوس نہیں بجے گا۔ مجاہد کہتے ہیں کہ جب ان کے ہاں قحط پڑتا تو ان کی قبر سے تھوڑی سی مٹی ہٹاتے تو بارش ہو جاتی۔

(اسد الغابہ جلد 6 صفحہ 23 ’’حضرت اَبُوْ اَیُّوْب الاَنْصَارِی‘‘ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 2003ء)

یہ وہاں اب بھی ایک روایت قائم ہے۔کہاں تک صحیح ہے اللہ بہتر جانتا ہے۔ حضرت ابوایوب انصاریؓ پچاس یا اکاون ہجری یا باون ہجری میں غزوۂ قسطنطنیہ میں فوت ہوئے۔ آخری قول اکثر لوگوں کا ہے یعنی باون ہجری کا۔

(الاصابہ جلد 2 صفحہ 201 ’’حضرت خَالِد بِنْ زَیْد‘‘ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1995ء)

حضرت ابوایوب انصاریؓ کا مزار ترکی کے شہر استنبول میں ہے۔ مزار ایک چبوترے میں ہے جسے پیتل کے جالی دار دروازے سے بند کیا ہوا ہے۔ ترکی کے اکثر لوگ سکون قلب کے لیے یہاں حاضر ہوتے ہیں۔

(تبرکات صحابہ کا تصویری البم از ارسلان بن اختر 35و 50مکتبہ ارسلان کراچی 2011ء)

اب بدری صحابہ کا یہ ذکر تو ختم ہو گیا لیکن چاروں خلفاء کا ذکر ان شاء اللہ بیان کروں گا۔ پہلے بعض کا مختصر بیان ہوا تھا۔ اب تفصیلی بیان کروں گا۔ اسی طرح شروع میں بعض صحابہ کا مختصر ذکر ہوا تھا اگر ان کے بارے میں کچھ اَور مواد میسر آیا تو وہ بھی بیان کر دوں گا۔ جب یہ سب لکھا جائے گا تو وہ ان صحابہ کی سیرت میں ان کے اس حصے میں چلا جائے گا اور وہ لوگ چند ایک ہی ہوں گے۔

اب بعض مرحومین کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں جن کی گذشتہ دنوں وفات ہوئی اور نمازوں کے بعد ان کی نماز جنازہ بھی پڑھاؤں گا۔ پہلا مکرم عبدالحی منڈل صاحب کا ہے جو انڈیا کےمعلم سلسلہ ہیں۔ 25؍ستمبر 2020ء کو ہارٹ اٹیک کی وجہ سے 53 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

مرحوم نے سال 1999ء میں تحقیق کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کی۔ 2003ء میں جامعةالمبشرین سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد وفات تک محنت اور اخلاص اور لگن سے خدمت سلسلہ کرتے رہے۔ اس لحاظ سے مرحوم کا عرصہ خدمت سترہ سال بنتا ہے۔ مرحوم انتہائی مخلص، دین دار، اطاعت گزار، نمازوں کے پابند اور سلسلہ سے محبت رکھنے والے معلم تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کے بیوی بچوں کو بھی سکون قلب عطا فرمائے۔

اگلا جنازہ مکرم سراج الاسلام صاحب معلم سلسلہ ضلع مرشد آباد بنگال کا ہے جو 14؍اکتوبر 2020ء کو 60 سال کی عمر میںبقضائے الٰہی وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

معلم صاحب مرحوم نے 2002ء میں جامعة المبشرین قادیان میں چھ ماہ کی معلمین کی ٹریننگ حاصل کی اور 2020ء تک بطور عارضی بالمقطع معلم خدمت کرتے رہے۔ اس لحاظ سے معلم صاحب مرحوم کا عرصہ خدمت اٹھارہ سال بنتا ہے۔ مرحوم انتہائی مخلص، دین دار، اطاعت گزار، صوم و صلوٰۃ کے پابند، سلسلہ سے محبت رکھنے والے محنتی معلم تھے۔ مرحوم نے اپنی اہلیہ کے علاوہ تین بیٹیاں یادگار چھوڑی ہیں۔ بڑی دو بیٹیوں کی شادی ہو چکی ہے۔ تیسری بیٹی زیر تعلیم ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کے لواحقین کو بھی صبر عطا فرمائے۔نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے۔

تیسرا جنازہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نواسے اور حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے پوتے، حضرت نواب امة الحفیظ بیگم صاحبہ اور حضرت نواب عبداللہ خان صاحب کے بیٹے مکرم شاہد احمد خان پاشا صاحب کا ہے جو 26؍ اکتوبر کو 85 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ ہسپتال میں تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ موصی تھے۔ مکرم شاہد احمد خان صاحب کی دو شادیاں ہوئی تھیں۔ پہلی شادی مکرمہ امة الشکور صاحبہ کے ساتھ، جو حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کی بیٹی تھیں۔ ان سے 1962ء میں ہوئی اور ان کا نکاح حضرت مصلح موعود ؓکی بیماری کی وجہ سے مولانا جلال الدین صاحب شمس نے پڑھا تھا۔ پہلی شادی سے ان کے پانچ بچے ہیں، دو بیٹے اور تین بیٹیاں۔ دوسری شادی ان کی ثمینہ سعید صاحبہ بنت سعید صاحب مرحوم سے 1977ء میں ہوئی جن سے ان کا ایک بیٹاہے۔ وہ آج کل امریکہ میں ہے۔

باقاعدہ ان کی کوئی جماعتی خدمات تو نہیں ہیں لیکن حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کے ساتھ بعض بیرونی دوروں میں ان کو جانے کی توفیق ملی اور وہاں خدمت کا ان کو موقع ملا۔ اور اسی طرح دوسری خوبی ان کی یہ بھی ہے، ان کی اہلیہ نے لکھا تھا کہ بڑے غریب پرور تھے۔ بہت سے غریبوں کا خرچ دیا کرتے تھے بلکہ ایک مکان بھی بنا کے دیا اور باقاعدگی سے غریبوں کی امداد کرنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کے بچوں کو بھی جماعت اور خلافت سے وابستہ رکھے۔

اگلا جنازہ مکرم سید مسعود احمد شاہ صاحب شیفیلڈ یوکے کا ہے جو 8؍ستمبر کو حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے وفات پا گئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

آپ کے خاندان میں احمدیت آپ کے والد حضرت سید ناظم حسین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعے سے آئی تھی جنہوں نے 1902ء میں بیس سال کی عمر میں قادیان جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ سید مسعود احمد شاہ صاحب 1962ء میں یوکے آنے کے بعد مستقل طور پر شیفیلڈ میں رہائش پذیر تھے۔ شیفیلڈ میں جماعت قائم ہونے پر آپ کی رہائش گاہ کو پہلا نماز سینٹر بنایا گیا اور 1970ء تک آپ ہی صدر جماعت کی ذمہ داریاں سرانجام دیتے رہے۔ بعد ازاں 1997ء سے لے کر آخر دم تک سیکرٹری ضیافت کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ مرحوم خوش مزاج، مہمان نواز، شریف النفس، خدمت کے جذبے سے سرشار، غریبوں کے ہمدرد، ایک نیک مخلص اور باوفا انسان تھے۔ خلافت کے ساتھ بے پناہ عقیدت کا تعلق تھا۔ آپ کی بیٹی ڈاکٹر عائشہ صاحبہ کہتی ہیں کہ ہمیں جماعت اور خصوصاً خلافت کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتے رہتے اور ہر چھ ماہ بعد خلیفة المسیح سے ملاقات کی تلقین کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی بیٹی اور اہلیہ کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔ شاہ صاحب سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور اللہ تعالیٰ ان کی اولاد کو، ایک بیٹی کو،اہلیہ کو ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

٭…٭…٭

(الفضل انٹرنیشنل 11؍دسمبر 2020ء صفحہ 5تا10)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button