حضرت صاحبزادی امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
آج سے چودہ سو سال قبل رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کی دینی و مذہبی حالت بیان کرتے ہوئے ان کی اصلاح وہدایت کے لیے مسیح موعود و مہدی معہودعلیہ السلام کی آمد کی پیشگوئی فرمائی اوراس کی علامات بیان کرتے ہوئے ایک علامت یہ بھی بیان فرمائی کہ جب وہ آئے گاتو
فَيَتَزَوَّجُ وَيُولَدُ لَهُ
یعنی وہ شادی کرے گا اور اس کی اولاد ہوگی۔
(مشکوة کتاب الفتن باب نزول عیسیٰ الفصل الثالث)
دیکھاجائے تو دنیا میں تقریباً ہرانسان ہی شادی کرتا ہے اوران میں سے اکثر اللہ تعالیٰ کے فضل سےصاحب اولاد بھی ہوجاتے ہیں۔ پس اس علامت کے بیان کرنے میں لازماًکوئی غیر معمولی بات تھی۔ نیزاس شادی کی خبر اور اس سے پیداہونےوالی اولاد کی پیشگوئی سید الرسل و خاتم الانبیاءرسول اللہﷺ نے فرمائی جس سے صاف ظاہر ہے کہ مسیح و مہدیؑ کی ایک شادی ایسی ضرورہوگی جو عام شادیوں جیسی نہ ہوگی اور اس عظیم الشان شادی کے نتیجہ میں پیدا ہونےوالی اولاد بھی عام لوگوں کی اولاد کی طرح نہ ہوگی۔ بلکہ ایسی مبشر اولادہوگی جومسیح موعودؑ کی خوبو، شکل و شباہت اور اخلاق و صفات میں ان کے مماثل ہوگی اور ان کی ہی طرح مشن اور کام جاری رکھنے والی ہوگی۔
چنانچہ رسول اللہﷺ کی پیشگوئیوں کے عین مطابق حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام ہندوستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع گورداسپور کی تحصیل بٹالہ کے قصبہ قادیان میں 13؍فروری 1835ء کو پیدا ہوئے۔ پاکیزہ بچپن گزارنے کے بعدچودہ سال کی عمر میں ہی آپؑ کی شادی خاندان میں ہی حرمت بی بی صاحبہ سے ہو گئی اور ان سے دو بیٹے حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا فضل احمد صاحب تولد ہوئے۔ جس کے بعدبعض دینی معاملات کے پیش نظر حضورؑ کا اپنی پہلی زوجہ سے تعلقات میں انقطاع آگیا۔
1882ء میں ماموریت کے الہام سے ایک سال قبل 1881ء میں اللہ تعالیٰ نے حضرت بانیٔ جماعت احمدیہؑ کودوسری شادی کے متعلق بشارات سے نوازتے ہوئے فرمایا:
’’اشکر نعمتی رئیت خدیجتی‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلداوّل صفحہ666 حاشیہ در حاشیہ نمبر4، بحوالہ تذکرہ صفحہ29)
حضرت مسیح موعودؑ اس الہام کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ایک بشارت کئی سال پہلے اس نکاح کی طرف تھی جو سادات کے گھر میں دہلی میں ہوا … اور خدیجہ اس لئے میری بیوی کا نام رکھا کہ وہ ایک مبارک نسل کی ماں ہے جیسا کہ اس جگہ بھی مبارک نسل کا وعدہ تھا اور نیز یہ اس طرف اشارہ تھا کہ وہ بیوی سادات کی قوم میں سے ہو گی اسی کے مطابق دوسرا الہام ہے اور وہ یہ ہے الحمد للّٰہ الذی جعل لکم الصّھر والنسب یعنی وہ خدا جس نے باعتبار رشتہ دامادی اور باعتبار نسب تمہیں عزت بخشی۔ ‘‘
(نزول المسیح(سن تصنیف 1902ء) روحانی خزائن جلد18صفحہ524-525)
چنانچہ ان بشارات کے مطابق 1884ء میں دہلی کے سادات خاندان میں حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کی صاحبزادی حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ سے آپؑ کامبارک عقد ثانی ہوا اور یوں رسول اللہﷺ کی اس پیشگوئی کا پہلا حصہ پورا ہوا۔
اس بابرکت شادی کے دوسال بعد 20؍فروری1886ء کو اللہ تعالیٰ نے آپؑ کوالہاماً بتایا کہ
’’تیری نسل بہت ہوگی اور میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا مگر بعض ان میں سےکم عمری میں فوت بھی ہونگے اور تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی…تیری ذریّت منقطع نہیں ہوگی اور آخری دنوں تک سرسبز رہے گی۔ ‘‘
(اشتہار 20؍فروری 1886ء، مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ125-126)
حضرت بانیٔ جماعت احمدیہؑ نے 1890ء میں مسیح موعود و مہدی معہود ہونے کا دعویٰ فرمایااور رسول اللہﷺ کی پیشگوئی اور الٰہی بشارات کی بنا پراللہ تعالیٰ نے آپؑ کوحضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ کے بطن سے 1886ءسے1904ء تک دس مبشر بچوں، پانچ بیٹوں اور پانچ بیٹیوں سے نوازا اوراس طرح پیشگوئی رسولؐ کے دوسرے حصے کاظہوربھی الٰہی بشارات کی بنا پراپنی پوری شان کے ساتھ پورا ہوا۔
ان بچوں میں سے دو بیٹے اور تین بیٹیاں الہام کے مطابق کم سنی میں ہی خالق حقیقی سے جاملے۔ باقی پانچ مبشربچوں نے عمردرازپائی اور صاحب اولاد ہوکر
’’تَرٰی نَسْلاً بَعِیْداً ‘‘
کے مصداق اورمسیح موعودؑ کے نقش قدم پر چلتے ہوئےدین کی عظیم الشان خدمت بجالانے والےبنے۔ اس مبشر اولاد میں سب سے آخر میں پیدا ہونے والی حضرت صاحبزادی امة الحفیظ بیگم صاحبہؓ تھیں۔
ولادت باسعادت
حضرت مسیح موعودؑ کودیگر بچوں کی طرح حضرت صاحبزادی امة الحفیظ بیگم صاحبہؓ کی ولادت کے بارے میں بھی خاص طور پر الہاماً خبر دی گئی۔ چنانچہ10؍مئی 1904ء کو الہام ہوا :
’’دخت کرام‘‘
اس پیشگوئی کے پینتالیس دن بعد 25؍جون 1904ء کو حضرت صاحبزادی امة الحفیظ بیگم صاحبہؓ کی ولادت ہوئی۔ حضرت مسیح موعودؑ نے آپ کی تاریخ ولادت کو اپنی ڈائری میں یوں تحریر فرمایا:
’’آج 25 جون 1904ء روز شنبہ کو یعنی اس رات کو جو جمعہ کا دن گزرنے کے بعد آتی ہے مطابق 10ربیع الثانی 1322 ہجری اور دہم ہاڑ سمت 1906 میرے گھر میں لڑکی پیدا ہوئی اور اس کا نام امة الحفیظ رکھا گیا۔ یہی وہ لڑکی ہے جس کی نسبت الہام ہوا تھا واللّٰہ مخرج ما کنتم تکتمون‘‘
(کاپی الہامات حضرت مسیح موعودؑ، بحوالہ دخت کرام صفحہ31)
’’دختِ کرام‘‘کی مصداق
جب حضرت صاحبزادی امة الحفیظ بیگم صاحبہؓ کی ولادت ہوئی توحضرت مسیح موعودؑ نے اپنی تصنیف ’’حقیقة الوحی‘‘ میں اسےاپنی صداقت کے نشان کے طور پر پیش کرتے ہوئے تحریر فرمایا:
’’چالیسواں نشان یہ ہے کہ اس لڑکی کے بعد ایک اور لڑکی کی بشارت دی گئی جس کے الفاظ یہ تھے کہ دُخت کرام چنانچہ وہ الہام الحکم اور البدر اخباروں میں اورشاید ان دونوں میں سے ایک میں شائع کیا گیا اور پھر اس کے بعد لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام امۃ الحفیظ رکھا گیا اور وہ اب تک زندہ ہے۔‘‘
(حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد22صفحہ228)
پاکیزہ بچپن
حضرت صاحبزادی امة الحفیظ بیگم صاحبہؓ شکل و شباہت میں حضرت مسیح موعودؑ سے کافی مشابہت رکھتی تھیں۔ آپ پاک صورت اورپاکیزہ سیرت و اخلاق کی حامل تھیں۔ آپ عام بچوں کی نسبت غیرمعمولی طور پر ذہین اورچھوٹی سی عمر میں ہی کافی باتیں کیاکرتی تھیں۔ حضرت مسیح موعودؑ اپنے دوسرے بچوں کی طرح آپ پر بھی اپنی خاص توجہ فرماتے تھے۔ جس کا اندازہ حضرت مسیح موعودؑ کی سورۂ آل عمران کی تفسیر میں بیان فرمودہ درج ذیل نکتہ سے بھی ہوتا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ
’’حضرت عیسیٰؑ کی نسبت لکھا ہے کہ وہ مھد میں بولنے لگے۔ اس سے یہ مطلب نہیں کہ پیدا ہوتے ہی یا دو چار مہینہ کے بولنےلگے۔ اس سے یہ مطلب ہے کہ جب وہ چار برس کے ہوئے کیونکہ یہ وقت تو بچوں کے پنگھوڑے میں کھیلنے کا ہوتا ہے اور یسے بچے کےلیے باتیں کرنا کوئی تعجب انگیز امر نہیں۔ ہماری لڑکی امة الحفیظ بھی بڑی باتیں کرتی ہے۔ ‘‘
(الحکم جلد11مورخہ 31؍مارچ1907ء، صفحہ 11 تفسیرسورۃ آل عمران صفحہ35)
حضرت مسیح موعودؑ کی شفقت پدرانہ
حضرت مسیح موعودؑ کی حیات مبارکہ کے آخری چارسالوں میں حضرت صاحبزادی صاحبہؓ کو آپؑ کی دعاؤں اور محبت و شفقت کا وافر حصہ نصیب ہوا۔ باوجودپیرانہ سالی کے حضرت مسیح موعودؑ آپؓ کی تمام معصومانہ خواہشات کاخیال رکھتے اورسارےناز اٹھاتے تھے۔ ایک دفعہ آپؑ سیر کو جارہے تھے کہ حضرت اماں جانؓ نے کہلا بھیجا کہ امة الحفیظ رورہی ہیں اور ساتھ جانے کی ضد کررہی ہیں۔ آپؑ نے ملازمہ کے ہاتھ ان کو بلوایا اور گود میں اٹھا کے لے چلے۔
(دخت کرام از فوزیہ شمیم صاحبہ صفحہ6)
حضرت مسیح موعودؑ اپنی اولاد کی تربیت کا بہت زیادہ خیال فرماتے تھے۔ حضرت صاحبزادی صاحبہؓ کی تربیت پر بھی آپؑ کی گہری نظر تھی۔ چنانچہ حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ بیان کرتی ہیں :
’’میری ہمشیرہ امة الحفیظ بالکل چھوٹی سی تھیں کسی جاہل خادم سے ایک گالی سیکھ لی اور توتلی زبان میں حضرت مسیح موعودؑ کے سامنے کسی کو دی۔ آپ نے بہت خفگی کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ اس چھوٹی عمر میں جو الفاظ زبان پر چڑھ جاتے ہیں وہ دماغ میں محفوظ بھی رہ جاتے ہیں اور بعض دفعہ انسان کی زبان پر مرتے وقت جاری ہوجاتے ہیں۔ بچے کو فضول بات ہرگز نہیں سکھانی چاہیے۔‘‘
(تقریر ذکر حبیب جلسہ سالانہ مستورات از حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ۔ الفضل 3؍جنوری1974ءصفحہ3بحوالہ دخت کرام)
حضرت اماں جانؓ کی محبت
اولاد میں سےسب سےچھوٹی ہونے کی وجہ سے حضرت اماں جانؓ کو آپ سے بہت زیادہ محبت تھی اور آپ اپنی والدہ کی لاڈلی تھیں۔ حضرت اماں جانؓ نے اپنی اس بیٹی کے لیے حصول برکت کی خاطرایک دونّی پر حضرت مسیح موعودؑ سے دعا کراکے رکھ لی تاوصال حضرت مسیح موعودؑ کے بعد بھی تاحیات یہ برکت آپ کے ساتھ رہے۔
(دخت کرام صفحہ 6)
حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد حضرت اماں جانؓ نے آپ کو والد محترم کی کمی کا احساس نہ ہونے دیا اور آپ کے آرام و آسائش کا ہر طرح سے خیال رکھا۔ چنانچہ حضرت صاحبزادی صاحبہؓ خود بیان فرماتی ہیں کہ حضرت اماں جانؓ مجھے کبھی سوتے میں نہ اٹھاتیں۔ ایک دفعہ بچپن میں آپ نے سکول جانے سے انکار کردیا تو سارا سکول اپنے گھر یعنی دارالمسیح کے صحن میں منگوالیا۔
(دخت کرام صفحہ 6)
درس القرآن میں شمولیت
محترمہ فوزیہ شمیم صاحبہ آپؓ کے بچپن کے واقعات بیان کرتے ہوئے تحریر کرتی ہیں کہ
’’بعض اوقات آپ کھیلتے کودتے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے درس میں بھی شامل ہوجاتیں اور حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ آپ کو اپنی گود میں بٹھاکر درس دیتے۔ ایک دفعہ حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ نے آپ کو سمجھایا تھا کہ اپنی نیک قسمت کے لیے ابھی سے دعا کرنا چاہیے۔‘‘
(دخت کرام صفحہ 10)
تعلیم وتربیت
حضرت صاحبزادی صاحبہؓ کی زندگی کے ابتدائی چار سال تو حضرت مسیح موعودؑ کی روحانی تربیت میں گزرے اور مسیح پاک کی بے شماردعاؤں کی وارث ہوئیں۔ پھر حضرت مسیح موعودؑ کے وصال کےبعد آپ اپنے برادر اکبر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ کے زیرتربیت اور سرپرستی میں آگئیں۔
جہاں تک تعلیم کا تعلق ہے تو بچپن میں ابتدائی جماعتوں کی پڑھائی اور لکھائی محترمہ سکینة النساء اہلیہ حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل سے سیکھی۔ آپ نے سات سال کی عمر میں قرآن کریم ناظرہ پڑھ لیا جس پر3؍جولائی 1911ء کو تقریب آمین ہوئی جس میں حضرت مسیح موعودؑ کی منشاء کے مطابق حضرت مصلح موعودؓ کی لکھی ہوئی نظم پڑھی گئی جس میں اس مصرعہ کی تکرارہے:
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَوْفَی الْاَمَانِیْ
(تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ 103)
حضرت صاحبزادی صاحبہؓ نے 1931ء میں احمدیہ گرلز ہائی سکول قادیان سےادیب کے امتحان کے بعدمیٹرک کا امتحان بھی پاس کرلیا۔ (الفضل 12؍مئی1931ء)اس کے بعد آپ نے ایف اے بھی کرلیا۔
اعلان نکاح و تقریب رخصتانہ
حضرت صاحبزادی امة الحفیظ بیگم صاحبہؓ کا نکاح حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحبؓ فرزند حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کے ساتھ 7؍جون 1915ء بمطابق 23؍رجب المرجب1333ھ بروز دوشنبہ کو مبلغ پندرہ ہزار وپے حق مہر پر حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ نے پڑھایا۔
تقریب رخصتانہ22؍فروری1917ءمطابق 29؍ربیع الثانی 1335ھ کو عمل میں آئی۔
(الفضل 24؍جنوری1917ء بحوالہ اصحاب احمد جلد12صفحہ65)
پانچوں نسل سیدہ
حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ نے نکاح کے موقع پرخطبہ نکاح میں فرمایا:
’’آج کا دن خدا تعالیٰ کے نشانوں میں سے ایک نشان، حضرت مسیح موعودؑ کی صداقتوں میں سے ایک عظیم الشان صداقت اور آیات اللہ میں سے ایک آیت اللہ ہے۔ آپ کی پیدائش کے متعلق حضرت صاحب کا الہام ہے:’’دخت کرام‘‘ اور اللہ تعالیٰ کے فضل نے اس دخت کرام کو ایک اور رنگ میں مبارک احمد کا رنگ بھی دیا ہے۔ کِرام کریم کی جمع ہے اور اس کو جمع میں خدا تعالیٰ نے اس لیے رکھا کہ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام…جری اللہ فی حلل الانبیاءکے مطابق تمام انبیاء علیہم السلام کی شان کے حامل تھے۔ جیساکہ حضرت مسیح موعودؑ کے الہام
كَتَبَ اللّٰهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي
سے ظاہر ہے چنانچہ اس کی تشریح میں حضرت مسیح موعودؑ تحریرفرماتے ہیں کہ…خدا تعالیٰ نے مجھے تمام انبیاء کا مظہر ٹھہرایا ہے اور تمام نبیوں کے نام میری طرف منسوب کیے ہیں …
(حاشیہ حقیقة الوحی صفحہ72)
اس لیے دخت کرام کے دوسرے لفظوں میں یہ معنی ہوئے کہ چونکہ حضرت مسیح موعودؑ پر تمام انبیاء کا مفہوم صادق آتا ہے اس لیے گویا عزیزہ امة الحفیظ سارے انبیاء کی بیٹی ہیں۔ دوسرے پہلو کے لحاظ سے صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے رنگ میں اس طرح سے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ
یہ پانچوں جوکہ نسل سیدہ ہیں
یہی ہیں پنجتن جن پر بنا ہے
حضورؑ نے جب یہ فرمایا صاحبزادہ مرزا مبارک احمد اس وقت زندہ تھے اور مبارک کے سمیت پنجتن تھے لیکن جب مبارک احمد فوت ہوگئے تو اب یہ جو پنجتن کا لفظ تھا۔ اگرمبارک احمد کے فوت ہوجانے پر عزیزہ امة الحفیظ ہوئی نہ ہوتی تو ایک مخالف کہہ سکتا تھا کہ بتاؤ اب پنجتن کون ہیں۔ سو خدا کے فضل سے پنجتن کے عدد کی صداقت کو بحال رکھنے کےلیے خدا کی طرف سے عزیزہ مکرمہ کا وجود مبارک کے قائمقام ظہور میں لایا گیا۔ پس عزیزہ امة الحفیظ کا وجود حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے…۔ ‘‘
(اخبار الفضل قادیان دار الامان 21؍جون 1915ء صفحہ5 نمبر155)
مثالی ازدواجی زندگی
حضرت مسیح موعودؑ کی دعاؤں کی وارث اور حضرت اماں جانؓ کی تربیت یافتہ ہونے کی وجہ سے حضرت صاحبزادی صاحبہؓ نے اپنی عائلی زندگی خوب بسر کی۔ اپنے خاوند سے محبت و وفا کا تعلق نبھایا اور عسر و یسر میں پورا ساتھ دیا۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحبؓ دل کی بیماری میں مبتلا ہوئے تو حضرت سیدہ صاحبہؓ نے اپنی خاوند کی خدمت کا صحیح معنوں میں پورا حق ادا کیا اور دن رات اپنے خاوند اور بچوں کی دیکھ بھال میں لگی رہتیں۔ اسی خدمت میں اپنی صحت کی بھی پروا نہ کی۔ چنانچہ حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحبؓ اپنی صاحبزادی کو شادی کے موقع پر نصائح پر مشتمل خط میں اپنی اہلیہ کی وفاداری کی شہادت دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’تمہاری امی اس معاملہ میں بہترین نمونہ ہیں تم نے خود دیکھا ہے کہ کس قدر تنگی انہوں نے میرے ساتھ اٹھائی لیکن اس وقت کو نہایت وفا اور محبت کے ساتھ گزار دیاایک طرف تویہ تسلیم و رضا تھی اور دوسری طرف مجھے کام کرنے اور باہر نکل جانے کی ترغیب دیتی تھیں۔ آخر اس صابر و شاکر ہستی کی دعاؤں سے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحم اور فضل کے دروازے میرے پر کھول دئیے۔ اللہ تعالیٰ تم کو اپنی امی کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ گھر میں مختلف قسم کی تکالیف بھی آئیں لیکن اس خدا کی بندی نے اپنے میکے میں ان تکالیف کا کبھی بھی ذکر نہ کیا۔ خود اپنے نفس پر سب کچھ برداشت کیا، لیکن دوسروں کو اپنی تکلیف میں شامل کرنا گوارا نہ کیا۔ وقت تھا گزر گیا، میری بچی۔ مجھے بڑی خوشی ہوگی۔ تم بھی اپنی امی کی طرز ہی اختیار کرو وہ تمہارے لیے ایک بہترین نمونہ ہیں۔ ‘‘
(دخت کرام از سید سجاد احمد صفحہ68-69)
اولاد
اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین صاحبزادوں اور چھ صاحبزادیوں سے نوازا۔ جن کے نام یہ ہیں :
1۔ صاحبزادی آمنہ طیّبہ بیگم صاحبہ زوجہ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب
2۔ صاحبزاد ہ میاں عباس احمد خان صاحب
3۔ صاحبزادی طاہرہ بیگم صاحبہ زوجہ صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب
4۔ صاحبزادی زکیہ بیگم صاحبہ زوجہ صاحبزادہ مرزا داؤد احمد صاحب
5۔ صاحبزادی قدسیہ بیگم صاحبہ زوجہ صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب
6۔ صاحبزادی شاہدہ بیگم صاحبہ
7۔ صاحبزادہ شاہد احمد خان پاشا صاحب
8۔ صاحبزادی فوزیہ بیگم صاحبہ
9۔ صاحبزادہ میاں مصطفیٰ احمد خان صاحب
دینی خدمات
حضرت سیدہ صاحبہؓ نے دینی خدمات میں بھی حتی الوسع حصہ لیا۔ مجلس مشاورت1929ء میں جب خلافت جوبلی کے موقع پر لوائے احمدیت کی تیاری کی تجویز منظور ہوئی تو حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی تحریک پر سوت کاتنے والی رفیقات میں تیسرے نمبر پر آپ کا نام درج ہے۔
(تاریخ احمدیت جلد ہشتم صفحہ585)
جلسہ سالانہ خواتین 1940ء کے دوسرے دن کی صدارت کی۔
(الفضل13 جنوری 1941ء)
جلسہ سالانہ27؍دسمبر1944ءکےاجلاس کی صدارت فرمائی۔
(تاریخ لجنہ جلد اول صفحہ 585)
اسی طرح دیگر کئی مواقع پر مختلف پروگرام آپ کی زیر صدارت ہوئے۔ جب آپ نے ربوہ میں مستقل رہائش اختیار کرلی تو حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے آپ کو لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کا اعزازی ممبربنادیا۔ آپ لجنہ اما ء اللہ کے تمام اجلاسات میں شامل ہوتیں اور اپنے مفید مشوروں سے نوازتیں اور اجتماعات میں نمایاں پوزیشن لینے والی ناصرات و لجنہ میں انعامات تقسیم فرماتیں۔
سفریورپ اور سنگ بنیاد بیت محمود زیورک سوئٹزرلینڈ
حضرت سیدہ صاحبہؓ نے 25؍جولائی1962ء کو انگلستان کا سفر کیا اور لندن میں قیام کیا۔ 5؍اگست کو لجنہ اماء اللہ لندن نے آپ کے اعزاز میں تقریب کا اہتمام کرکے آپ کو خوش آمدید کہا۔ مکرم چوہدری مشتاق احمد باجوہ صاحب مبلغ سوئٹزرلینڈ کو حضرت سیدہ صاحبہؓ کی تشریف آوری کی خبر بذریعہ مکرم چوہدری رحمت خان صاحب امام مسجد الفضل لندن ملی۔ چنانچہ باجوہ صاحب نے حضرت سیدہ صاحبہؓ کی خدمت میں بیت محمود زیورک کے سنگ بنیاد کے لیے درخواست کی۔ جسے آپ نے سعادت سمجھتے ہوئے منظور فرمایا۔
24؍اگست بروز جمعة المبارک آپ محترمہ صاحبزادی فوزیہ بیگم صاحبہ کے ساتھ ڈنمارک پہنچیں۔ وہاں ایک نیوز رپورٹر نے آپ کا انٹرویو کیا جو زیورک کے ایک اخبار میں شائع ہوا۔ 25؍اگست 1962ء کو حضرت سیدہ صاحبہؓ نے مسجد مبارک کی اس اینٹ کو جو حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے دعا کے بعد ربوہ سے بھجوائی تھی، دعا کے بعد بنیاد میں رکھ دی۔ یوں حضرت مسیح موعودؑ کی مبشر صاحبزادی کے دست مبارک سے مسجد محمود زیورک کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔
اس سفر یورپ میں حضرت سیدہ صاحبہؓ ہالینڈ اور جرمنی وغیرہ بھی تشریف لے گئیں۔ تین ماہ قیام کے بعد 28؍اکتوبر1962ء کو آپ واپس پاکستان تشریف لے آئیں۔
ایک متبرک انگوٹھی پہنانے کی سعادت
آپؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کی ’’اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ‘‘ والی انگوٹھی حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کو خلیفة المسیح الرابع منتخب ہونے پر عام بیعت لینے سے قبل پہنائی تھی۔
وفات
حضرت صاحبزادی سیدہ امة الحفیظ بیگم صاحبہؓ اپنی حیات مبارکہ کی 83 بہاریں دیکھ کر6؍مئی1987ء کوپونے تین بجے سہ پہر بیت الکرام ربوہ میں وفات پاگئیں۔
آپ کی نماز جنازہ مورخہ7؍مئی کوحضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کی ہدایت پر حضرت مولوی محمد حسین صاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعودؑ نے مسجداقصیٰ ربوہ میں پڑھائی اور تدفین احاطہ خاص بہشتی مقبرہ دارالفضل میں ہوئی۔
انفاق فی سبیل اللہ
حضرت سیدہ امة الحفیظ بیگم صاحبہؓ کا ایک نمایاں وصف انفاق فی سبیل اللہ تھا۔ آپ مالی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں۔ اگرچہ آپ ارشاد حضرت مسیح موعودؑ کے تحت نظام وصیت سے مستثنیٰ تھیں لیکن آپ چندہ عام کے ساتھ حصہ جائیداد بھی ادا فرما دیا کرتی تھیں۔ تحریک جدید کے مالی سال کا آغاز ہوتے ہی وعدہ لکھوانے کے ساتھ ہی ادائیگی کردیتی تھیں۔
اسی طرح حضرت سیدہ صاحبہ
سِرًّا و عَلَانِیَۃً
مختلف مدات میں بھی چندہ دیا کرتی تھیں۔ جیسے چندہ برائے زنانہ وارڈ نور ہسپتال، چندہ برائے انسداد ارتداد علاقہ ملکانہ، چندہ برائے مسجد لندن، چندہ برائے توسیع بہشتی مقبرہ قادیان، ریزروفنڈ تحریک، چندہ برائے توسیع اشاعت رسالہ ریویو آف ریلیجنز، تعمیرعمارت دفاتر مجلس خدام الاحمدیہ قادیان وغیرہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
اسی طرح تعمیر مساجدجرمنی، تعمیرمسجد زیورک، تعمیرمسجد فرینکفرٹ کےلیے بھی مالی اعانت کی۔ پھرلجنہ اماء اللہ کی گولڈن جوبلی پر1972ء میں اشاعت قرآن کریم کے لیے تحریک چندہ میں دو ہزار روپے دے کر حصہ لیا۔
(تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد4 صفحہ539)
حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ
’’میری بیوی کی قادیان میں اراضیات کافی ہیں وہ فروخت ہوتی ہیں اور انکا روپیہ آتا ہے اور اسی روپیہ سے ہمارا گذارا کئی سال سے ہوتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ دراصل سندھ کی اراضیات کا لین دین میری بیوی کے روپیہ سے ہی ہوا ہے میں نے صرف اس غرض سے اپنے نام پر اراضیات کو کیا ہے کہ وصیت کا روپیہ میرے نام سے نکلتا رہے…میں چاہتا ہوں کہ جس قدر بھی زیادہ سے زیادہ رقم اللہ تعالیٰ کے نام پر ہمارے گھر سے نکل جائے اسی قدر بہتر ہے…اللہ تعالیٰ کے فضل سے دوسرے چندوں کو ملا کر آمد کا کم ازکم 3/1 حصہ خدا تعالیٰ کی راہ میں جارہا ہے۔ ‘‘
(اصحاب احمد جلد12 صفحہ76)
مطالعہ کتب کا شوق
آپ کو مطالعہ کتب کا بہت شوق تھا۔ لائبریری سے کتب منگوا کر پڑھا کرتی تھیں۔ اردو، انگریزی ادب کی بہت سی کتب کا مطالعہ کررکھا تھا۔ ہروقت کوئی نہ کوئی کتاب ضرور زیر مطالعہ رہتی۔ یہی شوق آپ اپنے بچوں کو بھی دلاتیں اور ان کی اس سلسلہ میں رہ نمائی فرماتیں۔
حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں :
’’حضرت چھوٹی پھوپھی جان(حضرت سیدہ نواب امة الحفیظ بیگم صاحبہؓ ) اور حضرت بڑی پھوپھی جان کی دنیا کے لحاظ سے بہت معمولی تعلیم تھی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں پرورش کا ایک یہ فیض بھی تھا کہ علم سے بڑی دلچسپی تھی اور ظاہری تعلیم نہ ہونے کے باوجود ایسی روشن دماغ تھیں ایسا وسیع مطالعہ تھا کہ اکثر مجھے یاد ہے جب بھی گئے ان کے ہاتھوں میں کتابیں ہی دیکھیں۔ بات کرنے لگے ہیں تو کتاب دہری کرکے رکھ دی تاکہ جب باتیں ختم ہوں تو پھر کتاب اٹھالیں اور اس کے نتیجہ میں ان کی زبان میں جِلا تھی۔‘‘
(دخت کرام از سید سجاد احمد صفحہ196)
دیگراوصاف حمیدہ
حضرت مسیح موعودؑ کی مبشر اولاد میں سے ہونے کی وجہ سے حضرت سیدہ صاحبہؓ تمام اوصاف حمیدہ سے متصف تھیں۔ حقوق اللہ اورحقوق العباد کی ادائیگی میں ہمیشہ مصروف رہتیں۔ قال اللہ اور قال الرسول پر تاحیات کاربند رہیں۔ تربیت اولاد کاخاص خیال رکھتیں۔ کام کرنے والی خادماؤں سے نہایت شفقت سے پیش آتیں اور ان سے عفو کا سلوک فرماتیں۔ انتظامی صلاحیت بدرجۂ اتم موجود تھی۔ صبروضبط کا پیکر تھیں۔
حضرت سیدہ صاحبہؓ کی منجھلی صاحبزادی مکرمہ طاہرہ بیگم صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ
’’میری امی بہت تقویٰ شعار اور خدا سے بے حد پیار کرنےوالی، بے حد صابر و شاکر کبھی کسی کا برا نہ چاہتی تھیں ہر ایک سے بے حد محبت کرنے والی اور جس سے ایک دفعہ تعلق ہوجائے اس کو ہمیشہ نبھاتی تھیں۔ میری امی کو بخل، حسد اور ریس سے دُور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ معاملہ کی بہت صاف تھیں اور اس بات سے بہت متنفر تھیں کہ کوئی قرض لے کر واپس نہ کرے…جھوٹ بولنے سے بھی بے حد متنفر تھیں، ہمیشہ صاف اور کھری بات کرنے کو پسند کرتی تھیں۔ بوجود اپنی اتنی کمزوری اور بیماری کے قرآن مجید کی تلاوت روزانہ کرتی تھیں …ایک خاص وصف خدا تعالیٰ پر توکل تھا۔ ایک دفعہ امی کو شہد کی ضرورت پڑی۔ اتفاق سے اس وقت شہد موجود نہیں تھا۔ میں نے کہا امی ابھی جاکر سیدی حضرت بھائی جان(حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ ) سے لے آتی ہوں۔ ان کے پاس بہت سا شہد آیا ہے…امی نے فوراً کہا:نہیں۔ میں نے کسی سے نہیں مانگنا۔ جب اللہ تعالیٰ خود میری تمام ضرورتیں پوری کرتا ہے تو میں کسی کو کیوں کہوں اور پھر میں نے دیکھا اسی دن یا دوسرے دن ہی کسی نے امی کو بہت اچھا خالص شہدتحفةً بھجوادیا۔ غرضیکہ میری امی میں بہت ہی خودداری تھی۔ وہ ایمان اور ایقان میں غیر متزلزل ہستی تھیں۔ وہ حضرت مسیح موعودؑ کے الہام’’دُخت کرام‘‘ کی حقیقی تصویر تھیں۔ ‘‘
(دخت کرام صفحہ 277-278)
٭…٭…٭