دین کو دنیا پر مقدم رکھنا … قربانی کا اعلیٰ معیار (حصہ دوم)
شرائط بیعت اور ہماری ذمہ داریاں
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
دین کو دنیا پر مقدم رکھنا … قربانی کا اعلیٰ معیار
حضرت نوا ب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ اپنے بھائی کو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ ’’جن امور کے لئے مَیں نے قادیان میں سکونت اختیار کی ہے مَیں نہایت صفائی سے ظاہر کرتاہوں کہ مجھ کو حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی مسعود کی بیعت کئے ہوئے بار ہ سال ہوگئے اور مَیں اپنی شومئی طالع سے گیارہ سال گھر میں ہی رہتاتھا اور قادیان سے مہجور تھا صرف چند دنوں گاہ گاہ یہاں آتارہا اور دنیا کے دھندوں میں پھنس کر بہت سی اپنی عمر ضائع کی۔ آخر جب سوچا تو معلوم کیا کہ عمر تو ہوا کی طرح اڑ گئی اور ہم نے نہ کچھ دین کا بنایا اور نہ دنیا کا۔
یہا ں مَیں چھ ماہ کے ا رادہ سے آیا تھا (یعنی قادیان )مگر یہاں آ کر مَیں نے اپنے تمام معاملات پر غور کیا تو آخر یہی دل نے فتویٰ دیا کہ دنیا کے کام دین کے پیچھے لگ کر تو بن جاتے ہیں مگر جب دنیا کے پیچھے انسان لگتاہے تو دنیا بھی ہاتھ نہیں آتی اور دین بھی برباد ہوجاتاہے اور مَیں نے خوب غور کیا تو مَیں نے دیکھا کہ گیارہ سال میں نہ مَیں نے کچھ بنایا اور نہ میرے بھائی صاحبان نے کچھ بنایا۔ اور دن بدن ہم باوجود اس مایوسانہ حالت کے دین بھی برباد کر رہے ہیں۔ آخر یہ سمجھ کر کہ کار دنیا کسے تمام نہ کرد، کوٹلہ کو الوداع کہا اور مَیں نے مصمم ارادہ کر لیاکہ مَیں ہجرت کرلوں۔ سو الحمدللہ مَیں بڑی خوشی سے اس بات کو ظاہر کرتاہوں کہ مَیں نے کوٹلہ سے ہجرت کرلی ہے اور شرعاً مہاجر پھر اپنے وطن میں واپس اپنے ارادہ سے نہیں آسکتا۔ یعنی اس کو گھر نہیں بنا سکتا۔ ویسے مسافرانہ وہ آئے تو آئے۔ پس اس حالت میں میراآنامحال ہے۔ مَیں بڑی خوشی اور عمدہ حالت میں ہوں۔ ہم جس شمع کے پروانے ہیں اس سے الگ کس طرح ہو سکتے ہیں …۔
میرے پیارے بزرگ بھائی! مَیں یہاں خدا کے لئے آیاہوں اور میری دوستی اور محبت بھی خدا ہی کے لئے ہے۔ مَیں کوٹلہ سے الگ ہوں مگر کوٹلہ کی حالت زار سے مجھ کو سخت رنج ہوتاہے۔ خداوندتعالیٰ آپ کو ہماری ساری برادری اور تمام کوٹلہ والوں کو سمجھ عطا فرمائے کہ آپ سب صاحب اسلام کے پورے خادم بن جائیں اور ہم سب کا مرنا اور جینا محض اللہ ہی کے لئے ہو۔ ہم خداوند تعالیٰ کے پورے فرمانبردار مسلم بن جائیں۔ … ہماری شرائط بیعت میں ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم کریں اور اپنی مہربان گورنمنٹ کے شکرگزار ہوں، اس کی پوری اطاعت کریں۔ یہی چیز مجھ کو یہاں رکھ رہی ہے کہ جوں جوں مجھ میں ایمان بڑھتا جاتاہے اسی قدر دنیا ہیچ معلوم ہوتی جاتی ہے اوردین مقدم ہوتا جاتاہے۔ خداوند تعالیٰ اور انسان کے احسان کے شکر کا احساس بھی بڑھتا جاتاہے اسی طرح گورنمنٹ عالیہ کی فرمانبرداری اورشکرگزاری دل میں پوری طرح سے گھر کرتی جاتی ہے۔‘‘
(اصحاب احمد، جلد 2۔ صفحہ 126تا 129۔ مطبوعہ 1952ء)
پھر حکیم فضل دین صاحب کانمونہ ہمدردی ٔاسلام کے بارہ میں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’حبی فی اللہ حکیم فضل دین صاحب بھیروی۔ حکیم صاحب اخویم مولوی حکیم نور دین صاحب کے دوستوں میں سے اور ا ن کے رنگ اخلاق سے رنگین اور بہت بااخلاص آدمی ہیں۔ مَیں جانتاہوں کہ ان کو اللہ اور رسول سے سچی محبت ہے اور اسی وجہ سے وہ اس عاجز کو خادم دین دیکھ کر حُبّ لِلّٰہ کی شرط کو بجا لارہے ہیں۔ معلوم ہوتاہے کہ انہیں دین اسلام کی حقانیت کے پھیلانے میں اُسی عشق کا وافر حصہ ملاہے جو تقسیم ازلی سے میرے پیارے بھائی مولوی حکیم نور دین صاحب کو دیا گیاہے۔ وہ اس سلسلہ کے دینی اخراجات کو بنظر غور دیکھ کر ہمیشہ اس فکر میں رہتے ہیں کہ چندہ کی صورت پرکوئی ان کا احسن انتظام ہو جائے‘‘۔
(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3۔ صفحہ 522)
جب1923ء میں کارزار شدھی گرم کیا گیا تو احمدی ’’مربیان‘‘ کا یہ حال تھا کہ وہ تیز چلچلاتی دھوپ میں کئی کئی میل روزانہ پیدل سفر کرتے۔ بعض اوقات کھانا توکیاپانی بھی نہیں ملتا تھا۔ اکثر اوقات کچا پکا باسی کھانا کھاتے یا بھنے ہوئے چنے کھا لیتے اور پانی پی کر گزارہ کرتے۔ بعض اوقات ستو رکھے ہوئے ہوتے تھے۔ اور انہیں پر گزارہ کرتے۔ صوفی عبدالقدیر صاحب نیازبی اے نے ضلع مین پوری اور متھرا کا دورہ کر کے قریباً چالیس دیہات کا چکر لگایا اور سولہ میل روزانہ کی اوسط سے پیدل سفر کرتے رہے۔
(تاریخ احمدیت جلد نمبر 4 صفحہ343۔ مطبوعہ 1964ء)
امریکہ میں ایک صاحب احمدی ہوئے جو بہت بڑے موسیقار تھے اور اپنے وقت میں اس تیزی کے ساتھ میوزک میں ترقی کر رہے تھے کہ بہت جلد انہوں نے امریکہ کی سطح پر شہرت حاصل کرلی اور ان کے متعلق ماہرین کا خیال تھا کہ یہ ایسے عظیم الشان میوزیشن بنیں گے کہ گویا ان کو یاد کیا جائے گا کہ یہ اپنے زمانے کے بہت بڑے میوزیشن تھے۔ احمدی ہوئے تو نہ میوزک کی پرواہ کی۔ نہ میوزک کے ذریعے آنے والی دولت کی طرف لالچ کی نظر سے دیکھا۔ سب کچھ یک قلم منقطع کردیا۔ اور اب وہ درویشانہ زندگی گزارتے ہیں اور با قاعدگی کے ساتھ نماز تہجد ادا کرتے ہیں۔ آنحضرتﷺ کا نام لیتے ہی ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں۔
(ماہنامہ خالد، جنوری 1988ء۔ صفحہ40)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں (اپنی خلافت سے پہلے کاواقعہ لکھتے ہیں کہ): ’’مَیں یہاں کس لئے آیاہوں۔ دیکھو بھیرہ میں میرا مکان پختہ ہے اور یہاں مَیں نے کچے مکان بنوالئے اور ہر طرح کی آسائش مجھے یہاں سے زیادہ وہاں مل سکتی تھی مگر مَیں نے دیکھا کہ مَیں بیمار ہوں اور بہت بیمار ہوں، محتاج ہوں اور بہت محتاج ہوں، لاچار ہوں اور بہت ہی لاچار ہوں۔ پس مَیں اپنے ان دکھوں کے دورہونے کے لئے یہاں ہوں۔ اگر کوئی شخص قادیان اس لئے آتاہے کہ وہ میرا نمونہ دیکھے یا یہاں آ کر یا کچھ عرصہ رہ کر یہاں کے لوگوں کی شکایتیں کرے تو یہ اس کی غلطی ہے اور اس کی نظر دھوکہ کھاتی ہے کہ وہ بیماروں کو تندرست خیال کر کے ان کا امتحان لیتاہے۔ یہاں کی دوستی اور تعلقات، یہاں کا آنا اور یہاں سے جانا اور یہاں کی بودوباش سب کچھ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کے ماتحت ہونی چاہئے۔ ورنہ اگر روٹیوں اور چارپائیوں وغیرہ کے لئے آتے ہو تو بابا تم میں سے اکثر کے گھر میں یہاں سے اچھی روٹیاں وغیرہ موجود ہیں پھر یہاں آنے کی ضرورت کیا ؟تم اس اقرار کے قائل ٹھیک ٹھیک اسی وقت ہو سکتے ہو جب تمہارے سب کام خدا کے لئے ہوں‘‘۔
(خطبہ جمعہ، فرمودہ 22؍جنوری 1904ء۔ خطبات نور صفحہ 160۔ طبع جدید)
(باقی آئندہ)