متفرق مضامین

صدسالہ جلسہ سالانہ قادیان 1991ء اور اس بابرکت سفر کا کچھ احوال

(ابو سدید)

اللہ تعالیٰ کے خاص فضل اور رحم کے ساتھ خاکسارکو صدسالہ جلسہ سالانہ قادیان1991ء میں شرکت کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اس یادگار جلسہ کی کئی لحاظ سے تاریخی اہمیت ہے۔ سب سے پہلی تو ظاہر ہے کہ یہ جلسہ ہائے سالانہ کی تاریخ کا صد سالہ جلسہ تھا۔ دوسری اہمیت یہ تھی کہ اس جلسہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے لندن سے تشریف لا کر بنفس نفیس شرکت فرمائی، اس طرح تقسیم پاک وہند کے بعدکسی خلیفۃ المسیح کا یہ قادیان کاپہلادورہ تھا اورجلسہ سالانہ میں تشریف آوری تھی۔ خاکسار جامعہ احمدیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد میدان عمل میں بطور مربی سلسلہ خدمات سر انجام دے رہا تھا۔ اس تاریخی جلسہ میں شرکت کا جوش و خروش اور ولولہ انگیز جذبات اپنی حدوں کو چھو رہے تھے۔ ویسے بھی اگر دیکھا جائے تو جلسہ سالانہ ایک احمدی کی زندگی میں بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہےاور ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر قادیان جاکر اس میں شامل ہونا ہو تو سارا سال ہی اس کی تیاریوں میں گزر جاتا ہے اس دوران چشم تصور میں قادیان ہی میں جا پہنچتے ہیں۔ خاکسار بھی اسی طرح ذوق وشوق سے قادیان کی طرف عازم سفر ہونے اور جلسہ کی برکات حاصل کرنے کی تیاریوں میں مگن ہو گیا۔ جب یہ خوشخبری کانوں نے سنی کہ ہمارے پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع قادیان تشریف لاکر اس جلسہ میں رونق افروز ہوں گے اور برکتیں تقسیم فرمائیں گے، تو خوشی اور مسرت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔ نہ صرف خاکسار بلکہ ہرشرکت کرنے والے احمدی کے اس سال کااختتام دسمبر کے آخری ہفتہ میں اس جلسہ میں شمولیت اور اس کے ساتھ وابستہ برکا ت اور فیوض کے حصول سے منسلک تھا۔

جس طرح خاکسار نے ذکر کیا ہے کہ یہ صد سالہ جلسہ سالانہ تھا تو جہاں دیگر تیاریوں میں مصروفیت بڑھ گئی وہاں یہ احساس بھی اپنے عروج پر پہنچ گیاکہ ہم اس سرزمین کو چھوئیں گے جہاں کے چپہ چپہ پر اس دور کے نبیؑ کے قدم مبارک لگے اور جس کی مٹی کا ذرہ ذرہ برکتیں حاصل کرکے اپنی خوش بختی پر نازاں ہے۔ یہی نہیں وہاں کی آب وہوا کے پیر بھی زمین پر نہیں لگتے کہ اس جگہ اسی پاک وجود کی بابرکت سانسوں کی خوشبو اور پاکیزگی رچی بسی ہے۔ خاکسار کو یہ بھی یاد آرہا تھا کہ جس جلسہ میں شرکت کرنے جارہے ہیں اس جلسہ کی ابتدا ٹھیک سو سال پہلےقادیان کی گمنام بستی میں 27؍دسمبر 1891ء کو بعد نماز ظہر مسجد اقصیٰ میں حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے ہاتھوں سے فرمائی تھی۔ یہ پہلا جلسہ سالانہ مستقبل میں اقوام عالم میں ایک حیرت انگیز انقلاب کا سنگ میل ثابت ہوا۔ اس جلسہ سالانہ کی بنیاد جن اغراض و مقاصد کے لیے حضرت بانی سلسلہ نے رکھی تھی اور اپنے روحانی فیوض کی برکت سے خود اپنے دور میں اس کو جاری و ساری فرمایا تھا، بابرکت وجود کی دعاؤں کے باعث اس جماعتی ادارے نے کتنی حیرت انگیز اور عظیم الشان ترقی کی ہے، اور یہ درخت وجود اور اس کی شاخیں اب کل عالم میں پھیل چکی ہیں۔

خاکسار کے لیے قادیان کی طرف سفر اور جلسہ میں شمولیت ایک روحانی کیفیت کی حیثیت رکھتا تھا۔ ربوہ سے بسوں میں سوار ہوکر لاہور پہنچے تو دیکھا کہ ریلوے سٹیشن کا پلیٹ فارم نمبر1 احمدیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ کیونکہ یہاں سے ہی سمجھوتہ ایکسپریس نے چلنا تھا۔ اور یقینی بات تھی کہ ٹرین بھی احمدیوں سے بھرگئی۔ مرد، عورتیں اور بچے چہروں پر عقیدت کے پھول سجائے، دلوں میں شوق دیدارِ کوچہ یار اور آنکھوں میں امید کی شمعیں روشن کیےامیگریشن کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد ٹرین میں سوار ہو رہے تھے۔ مکرم عبدالحلیم طیب صاحب قائد ضلع کی قیادت میں بیسیوں خدام پلیٹ فارم پر قائم مختلف شعبہ جات میں ڈیوٹیوں پر مستعد کھڑے تھے۔ خدام کا ایک گروپ قائد صاحب کے ساتھ پلیٹ فارم پر راؤنڈ کر کے یہ دیکھ رہا تھا کہ احمدی مردوزن میں کسی کو کوئی ضرورت تو نہیں ہے؟ آخر تھوڑے انتظار کے بعد ٹرین آہستہ آہستہ رینگنا شروع ہوئی اور لاہور ریلوے سٹیشن سے باہر نکل کر واہگہ سے ہوتی ہوئی پاکستان اور انڈیا کے بارڈر تک پہنچ گئی جو آہنی پائپوں اور تاروں سےبنا ہوا تھا۔ جونہی ٹرین بارڈر کراس کرکے انڈین حدود میں داخل ہوئی تو متعدد بوگیوں پر مشتمل ٹرین جس میں 95فیصد احمدی سوار تھے۔ نعرہ ہائے تکبیراور احمدیت زندہ بادکےفلک شگاف نعروں سے گونجنا شروع ہوگئی۔ ہزاروں احمدیوں نے جوش ایمانی سے لبریز ہوکر دل کھول کر نعرے لگا ئے۔ ہندوستان کی سرزمین پر احمدیوں کے خدائے واحدویگانہ کی شان میں لگائے جانے والے ان نعروں نے ایک سماں باندھ دیا۔ ٹرین کی کھڑکیوں سے جب ہم نےباہر دیکھا تو ہندواور سکھ کھڑے ہوکر ٹرین کو حیرت سے دیکھ رہے تھے جس میں سے اللہ تعالیٰ کی تکبیر کے نعرے بلند ہو رہے تھے جو مجسم اعلان تھا کہ احمدی اللہ تعالیٰ کی بڑائی کا اعلان کر رہے ہیں۔ اسی طرح ان نعروں میں مرزا غلام احمد کی جے اور احمدیت زندہ باد بھی شامل تھے۔ کچھ ہی دیر میں ہم اٹاری ریلوے سٹیشن پہنچ گئے، جو انڈیا کا سرحدی قصبہ ہے۔ وہاں امیگریشن کی کارروائی مکمل ہوئی۔ اٹاری سٹیشن سے باہر نکلے تو قادیان سے تشریف لانے والے وفد نے استقبال کیا اور اسی طرح قادیان اور گردونواح کی مجالس کے خدام نے بسوں میں سامان رکھنے اور مہمانوں کو سوار کرنے کے سلسلے میں خدمات پیش کیں۔ کئی بسوں پر مشتمل ہمارا قافلہ امرتسراور بٹالہ سے ہوتا ہوا قادیان کی طرف روانہ ہوا۔

جلسہ سالانہ میں شرکت کے لیے قادیان تک کا یہ سفر ایک روحانی لذت اور سرور کا اچھوتا تجربہ تھا۔ دل و دماغ اس سفر کے لیے تیار ہو گئے۔ دل کی دھڑکنیں تیز تر ہوتی جاتی تھیں۔ قادیان کی طرف روانگی ایک روحانی سفر کا رنگ اختیار کرتی جارہی تھی، جوں جوں قادیان دارالامان کا قرب منز ل بہ منزل نصیب ہورہا تھا اندر کی کیفیت بدلتی جارہی تھی، بٹالہ پہنچ کر تو جذبہ شوق اپنی حدوں کو چھونے لگا۔ ایک عجیب سا اضطراب تھا جو دل کو گھیرے ہوئے تھا۔ قادیان سے بٹالہ کے درمیان حضرت مسیح موعودؑ کا کئی مرتبہ آنا جانادماغ کے تصوراتی محل میں گھوم رہا تھا۔ جسم میں ایک خاص قسم کی ٹھنڈک اور تراوت عود کر آتی تھی اور یہ محسوس ہو رہا تھا کہ جسم اور روح کا رشتہ کیا ہے اور وہ اس طرح کے سفروں میں کس طرح ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔ قادیان کی طرف سفر کرنا ایک پرکیف روحانی و وجدانی کیفیت کی طرح تھا۔ خاص طور پر جب ہماری بس قادیان کے قرب و جوار میں پہنچی اور معلوم ہوگیا کہ ہم قادیان کی حدود میں داخل ہوگئے ہیں تو جیسے گم گشتہ مسافر کومنزل یا پیاسے انسان کو بیچ صحرا میں پانی کا مشکیزہ مل جانے کا احساس ہوا۔ شام کے ملگجے میں جب ہم ایک موڑ کے بعد اس مقام پر پہنچے جہاں سے مینارۃالمسیح روشنیوں میں نہایا ہوا بقعہ نور بنا ایستادہ تھا گویا مسیح کی آمد کا اعلان کر رہا تھا اور زبان حال سے بتا رہا تھا کہ یہ اس دور کے نبی اور مسیح موعود کی بستی ہے جس کی آمد کی خبریں ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے عطا فرمائی تھیں۔ جیسے ہی بسوں کے قافلے میں سوار ہماری اور جملہ احمدیوں کی اس چمکتے دمکتے مینار پر پڑی تو سب کے منہ سے اللہ کی حمد کے ترانے اور نعرہ ہائے تکبیر اپنی پوری قوت سے نکلنا شروع ہوگئے۔ مینارۃ المسیح کے دیدار سے پورے دن کی تھکن دور ہوگئی اور دعا کے لیے دوسروں کی طرح خاکسار کے ہاتھ بھی بے ساختہ اٹھ گئے۔ اس خوبصورت، دیدہ زیب اور پرکیف منظر کی یاد آج بھی باعث تسکین و راحت ہے۔ اس وقت خاکسار کے ذہن میں حضرت مسیح موعودؑ کی ایک دعائیہ نظم کا یہ مصرعہ آرہا تھا۔

اک سے ہزار ہوویں، مولا کے یار ہوویں

حضرت مسیح موعودؑ کی اس دعا کی قبولیت نہ صرف حضرت مسیح موعودؑ کے خاندان میں بلکہ جماعت احمدیہ کے دیگر خاندانوں میں ہم نے اجمالی طور پر ہوتے دیکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک سے ہزار فرمائے اور فرماتا چلا جا رہاہے۔ جلسہ سالانہ بھی تو اپنی ذات میں ایک سے ہزار ہونے کاہی نظارہ ہے۔

قادیان میں خاکسار کی رہائش کا انتظام اپنے ساتھیوں کے ساتھ بہشتی مقبرہ میں لگائے گئے خیموں میں تھا، جہاں خاکسار کی ڈیوٹی مہمانوں کی خدمت میں صبح اور رات کے وقت کھانا پیش کرنا تھا۔ ساتھ ساتھ ڈائیننگ ٹیبلز کی صفائی، ترتیب اور ہر کھانے سے پہلے ان پر برتن رکھنا اور مہمانوں کے تشریف لانے پر ان کی لنگر حضرت مسیح موعودؑ کے بابرکت، لذیذ اور گرماگرم کھانے سے تواضع کرنا تھی۔ جلسہ سالانہ کے دنوں میں قادیان میں قیام کی نایاب یادیں ابھی بھی خاکسار کو اپنے جلو میں لیے ہوئے ہیں۔ اس جلسہ میں ہماری ڈیوٹی کے لیے کیے جانے والے اقدامات بھی ہمارے لیے اپنے اندر ایک خاص قسم کی تربیت اور تعلیم کا پہلو رکھتے تھے۔

خاکسار کے قادیان پہنچتے پہنچتے شام اپنے پَر پھیلا چکی تھی۔ جلدی سے قیام گاہ میں سامان رکھا، حضرت مسیح موعودؑ کے مزار مبارک پر دعاکی۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ ان دنوں میں مزارمبارک والی چاردیواری میں مزار تک جانے پر کوئی پابندی نہ تھی اور نہ کوئی جنگلہ وغیرہ نصب تھا۔ آرام سے مزار کے بالکل سامنے کھڑے ہوکر دعا کی اور وضو کرکے مسجد اقصیٰ کی طرف چل دیے، ابھی دارالضیافت کے گیٹ تک ہی پہنچے تھے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی تلاوت کی خوبصورت آواز کانوں سے ٹکرائی، اس وقت لمحے جیسے ٹھہر گئے ہوں فضا مشکبار اورہوائیں خوبصورت محسوس ہونا شروع ہوگئیں۔ دل پر ایک وجد کی سی کیفیت طاری ہوگئی، اپنے محبوب امام کی مسحورکن تلاوت کی آواز نے گویا ایک روحانی سماں باندھ دیا تھا۔ ایسا منظرہماری سوچوں کے کسی کونے میں بھی نہ تھا کہ نماز کے لیے جاتے ہوئے حضور کی دل موہ لینے والی آواز کانوں میں رس گھولے گی۔ یہ انوکھا اور دلفریب تجربہ خاکسار کی نہ مٹنے والی یادوں کا ایک اہم حصہ ہے۔ حضور  نماز مغرب کی امامت کرارہے تھے۔ خاکسار لائبریری اور دفاتر صدر انجمن کی بلڈنگ کے سامنے سے ہوتا ہوامسجد اقصیٰ کے بیرونی دروازہ کی سیڑھیاں عبور کرکے صحن میں مینارۃالمسیح کے بالکل ساتھ کھڑا ہوکےنماز میں شامل ہوگیا۔ اور حضور کی اقتدا میں پہلے نماز مغرب اور پھر نماز عشاء ادا کی۔ اس زمانہ میں مسجد اقصیٰ کی قدیم تعمیر ہی موجود تھی۔ اب تو اس کے ساتھ بہت وسیع ہال منسلک کردیے گئے ہیں۔ جہاں ہزاروں نمازی آسانی کے ساتھ نماز ادا کرسکتے ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع  قادیان میں قیام کے دوران صبح کی سیر لازمی فرمایا کرتے تھے۔ حضورؒ کے ساتھ جن خوش قسمت احباب کو رفاقت کا شرف حاصل ہوتا ان میں خاکسار بھی شامل تھا۔ سیر کے دوران حضورؒ حسب معمول تیز تیز قدم اٹھاتےجاتے اور ہم سب دوڑ دوڑ کر ساتھ ملنے کی کوشش کرتے۔ بعض جگہوں پر رک کر حضور اپنے بچپن اور جوانی کی یادوں کی روشنی میں کوئی نہ کوئی بات یا واقعہ بھی بیان فرما دیتے تھے۔ ایک صبح حضور تعلیم الاسلام کالج اور مسجد نور کی طرف سیر کے لیے تشریف لے جارہے تھے، خاکسار بھی پیچھے خدام کے ساتھ ڈیوٹی پر تھا کہ اتنے میں ایک سفید داڑھی والے بزرگ سکھ نے بازو پکڑ کر روک لیا اور خاکسار سے پوچھا، یہ آپ کے گرو میاں طاری ہیں نا؟ میں نےکہا جی ہاں۔ میرے اثبات میں جواب دینے پر ان کی آنکھوں میں نمی آگئی اور گلا صاف کرتے ہوئے کہنے لگے کہ مجھے اس عظیم شخصیت کے ساتھ سکول میں پڑھنے کا شرف حاصل ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع قادیان کے چپے چپے سے اس طرح واقف تھے جیسے ابھی کل ہی کی بات ہو۔ ہر گلی کے موڑ اور ہر جگہ رک کراپنی یادوں میں سے کوئی نہ کوئی بات ضرور بیان فرماتے اورہم حضورکے واقعات سے علم میں اضافے کے ساتھ ساتھ محظوظ طبی بھی ہوتے۔

خاکسارکو اس وقت کئی واقعات یاد آرہے ہیں اگر سارے بیان کردیے جائیں تو اس مضمون کی طوالت زیادہ ہو جائےگی، سردست قارئین کے علم میں اضافے کے لیے جلسہ کی کارروائی کے بارے میں کچھ معلومات عرض کردیتا ہے۔

خاکسار کو آج بھی اس بہت ہی اہم جلسہ کی کارروائی ایک فلم کی طرح یاد ہے۔26دسمبر کو صبح 10بجے جماعت احمدیہ کا 100واں جلسہ سالانہ دعاؤں اور ذکرالہٰی کے بابرکت ماحول میں شروع ہوا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعنے اپنے روح پرور خطاب سے جلسہ کا افتتاح فرمایا۔ اس جلسہ میں دنیا بھر سے آئے ہوئے 25 ہزار احمدی و غیراز جماعت مردوزن نے شرکت کی۔ تاریخی جلسہ سالانہ قادیان 1991ء کا افتتاح فرمانے کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع صبح دس بجکر پانچ منٹ پر خدام کے ساتھ اپنی رہائش گاہ سرائے حضرت ام طاہرسے جلسہ گاہ کی طرف پیدل روانہ ہوئے۔ حضور حسب معمول تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے جونہی جلسہ گاہ پہنچے تو فضا فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی۔10بجکر 20منٹ پر لوائے احمدیت لہرانے کی تقریب عمل میں آئی۔ حضورکے ساتھ ناظر اعلیٰ صاحب قادیان، ناظر اعلیٰ صاحب ربوہ، وکیل اعلیٰ صاحب ربوہ، جلسہ میں شامل ہونے والے مختلف ملکوں کے امراء اور صدران مجالس خدام الاحمدیہ و انصاراللہ لوائے احمدیت لہرانے کی تقریب میں شامل ہوئے۔ حضورنے لوائے احمدیت لہرانے کے بعد اجتماعی دعا کروائی، سٹیج پر تشریف لائے اور کرسی صدارت پر رونق افروز ہوئے۔

جلسہ کی کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو محتر قاری محمد عاشق صاحب نے کی، تلاوت کے بعد برادرم ناصر علی عثمان صاحب آف قادیان نے حضرت مسیح موعودؑ کا خوبصورت اور پاکیزہ منظوم کلام ؎

ہے شکر رب عزوجل خارج از بیاں

کے چند منتخب اشعار خوش الحانی سے سنائے، مایہ نازکلام اور پھر میٹھی اور مسحورکن آواز کی وجہ سے جلسہ گاہ اور اس میں موجود شرکاءجوش جذبات میں بہ گئے اور دوران نظم مسلسل نعرے قادیان کی فضاؤں میں بلند ہوتے اور گونجتے رہے۔ خاکسار جلسہ گاہ کے جنوبی طرف پرالی پر چادر بچھائے براجمان تھا اور نظریں مستقل حضور کے روشن چہرے پر مرکوز تھیں، نظم کے دوران حضورنعرےلگواتے اور جواب دیتے رہے۔حضرت مسیح موعودؑ نے اس نظم میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے قادیان کے مرجع خاص وعام ہونے، رجوع جہاں ہونے اور خزاں کے دور کا بہارسے بدلنےکی خوشخبریوں کا ذکر فرمایا ہے۔ان کو پورا ہوتے دیکھ کر اور اس سریلی آواز کی وجہ سے حاضرین پر وجد کی سی کیفیت طاری ہوگئی۔اس کے بعد مکرم داؤد احمد ناصر صاحب آف جرمنی نے حضرت مصلح موعورضی اللہ عنہ کی پرشوکت نظم

ہے رضائے ذات باری اب رضائے قادیاں

ترنم کے ساتھ پُردرد آواز میں پڑھی۔ بعد ازاں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعنے پُر معارف اورپُرتاثیر افتتاحی خطاب فرمایا۔یہ خطاب تقریباً دو گھنٹے پر مشتمل تھا۔حضورکے خطاب کے بعد دومہمانوں برطانوی پارلیمنٹ کے ممبر ٹام کاکس اور گھانا کے منسٹر جسٹس ایکن نے مختصر تقریریں کیں اور حضورسے معانقے کا شرف بھی حاصل کیا۔دعا کےبعد افتتاحی اجلاس کی کارروائی ختم ہوگئی اور حضورپیدل ہی اپنی قیام گاہ تشریف لے گئے۔دو بجے دوبارہ تشریف لا کر جلسہ گاہ میں ظہروعصر کی امامت کرائی۔

اگلا دن جمعہ کا بابرکت دن تھا ۔ 27دسمبر کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے خطبہ جمعہ ارشاد فرمایاجس میں آپ نے ہندوستان میں وقف جدید کے تحت نئی سکیم کا اعلان فرمایا اور بھارت کو مالی قربانیوں میں آگے بڑھنے کی تلقین فرمائی۔28؍ دسمبر کا دن جلسہ کا اختتامی دن تھا۔ حضورنے اختتامی خطاب فرمایا۔خطاب سے پہلے حضور نے تعلیم کے میدان میں اعلیٰ پوزیشنز لینے والے طلباء کو سرٹیفکیٹس اور اسناد عطا فرمائیں۔بعدہ ایک کینیڈین نمائندہ نے وزیراعظم کینیڈا کا نیک خواہشات پر مبنی پیغام پڑھ کر سنایا۔حضورنے حضرت مسیح موعودؑ کے صحابی حضرت مولوی محمد حسین (سبز پگڑی والے )کا تعارف کرایااور حاضرین کو فرمایا کہ ان کی زیارت کریں۔ حضرت مولوی صاحب کو حضورنے سٹیج پر نمایاں جگہ پر بٹھایا اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو اس لیے زندہ رکھا ہے تاکہ یہ حضرت مسیح موعودؑ کو ملنے والی پیشگوئیوں کو پورا ہوتے ہوئے دیکھ سکیں۔حضورنے اپنے خطاب میں مزید فرمایا کہ یہ ایک تاریخی جلسہ ہےجو آج اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ یہ اس سو سال کا آخری جلسہ ہے اور سو سال کے بعد جو جلسہ ہوتا ہے وہ آئندہ آنے والے سوسال کے لیے نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔آخر پر حضورنے فرمایا مجھے قادیان کی بستی سے بے حد محبت ہے۔ ہر احمدی کو بھی قادیان سے لازوال محبت ہے۔مزید فرمایا ہمارے یہ جلسے انسانیت کی احیاء کے لیے ہیں، خدا کی قسم یہ جلسہ وہ جلسہ ہے جس پر آئندہ اقوام متحدہ کی بنیاد رکھی جائے گی۔ حضورکا یہ خطاب تین گھنٹے پر مشتمل تھا۔

اس جلسہ کی کارروائی کے دوران حضورکے پرمعارف خطابات اور خطبات جمعہ کے علاوہ مختلف علمائے سلسلہ کی تقاریر، نمائندگان کے تاثرات سے استفادہ کا موقع ملا اور خوب برکات سمیٹیں۔ حضورکی اقتدامیں نمازوں کی ادائیگی، روزانہ مغرب وعشاء کے بعد مجالس عرفان میں شرکت، صبح کی سیر کے دوران حضور کے ساتھ ڈیوٹی اور اس جیسی بے شمار خوش بختیوں میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ یادیں ہیں کہ امڈی چلی آرہی ہیں، کیا لکھا جائے اور کیا چھوڑا جائے۔ تاریخی معلومات کے لیے یہاں یہ بتادینا بھی ضروری ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع16دسمبر کو دہلی تشریف لائےاور تین دن قیام کےبعد 19دسمبر کو بذریعہ شانِ پنجاب ایکسپریس امرتسر پہنچےجہاں سے ایک خصوصی ٹرین کے ذریعہ اسی روز شام کے بعد قادیان دارالامان میں ورود فرمایا۔اگلے دن 20دسمبر کو حضور نے قادیان کی تاریخی مسجد اقصیٰ میں پہلا خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔

اس صد سالہ جلسہ کی مناسبت سے قادیان کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔ دنیا کے کونے کونے سےآئے ہوئے مہمانوں کے انتظام و انصرام کے لیے بڑی وسعت کے ساتھ انتظامات کیے گئے تھے۔خاکسار کی طرح ہزاروں احمدی ایسے تھے جو اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ قادیان آئے تھے۔ ان میں بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی تھی جو 1947ءکے بعد پہلی بار دوبارہ قادیان آئے تھے۔اس موقع پر قادیان کی رونق اور چہل پہل قابل دید تھی۔ ہماری خوشی اور مسرت کا ٹھکانہ نہیں تھا۔ہمارے دن اور رات عبادات اور دعاؤں میں صرف ہوتے رہے۔ ہزاروں احمدی ہر روز بہشتی مقبرہ حاضر ہوتے اور حضرت مسیح موعودؑ کے مقدس مزار پر دعائیں کرنے کی توفیق پاتے۔ ہمارے لیے قادیان کے گلی کوچوں میں پھرنا ہی زندگی کی بہت بڑی سعادت تھی۔ جلسہ میں شامل ہونے والے مردوزن اسے اپنی زندگی کی بہت بڑی سعادت اور خوش بختی تصور کرتے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ہندوستان میں ایک ماہ قیام کے بعد بفضلہ تعالیٰ بخیر و عافیت مورخہ 16جنوری 1992ء بروز جمعرات بمع قافلہ واپس لندن پہنچ گئے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button