جلسہ سالانہ ربوہ کی ایمان افروز یادوں کے چند نظارے
خاکسار نے جیسے ہوش سنبھالی ربوہ میں جلسہ سالانہ کی رونقیں دیکھیں۔ ایک ایسا روح پرور سماں اور دلگداز نظارہ جس کو الفاظ میں سمونا ناممکن ہے۔ سارا سال اس کا انتظار رہتا۔ جلسہ کے دنوں میں ہر گھر مہمان خانہ میں تبدیل ہو جاتا۔ چھوٹے چھوٹے سادہ گھروں میں بڑ ے جذبہ اورفراخ دلی سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کے ٹھہرنے کا انتظام کیا جاتا۔ فرش پر پرالی بچھائی جاتی جس کے اوپر چادر ڈال دی جاتی اور جلسہ پر آنے والے عشاق امیر ہوں یا غریب ایسے بستروں میں سونے میں خوشی محسوس کرتے۔ نیچے فرش پر سونے کے باوجود بعض اوقات مہمانوں کی تعداد اس حد تک زیادہ ہوتی کہ اگر کسی کام کے لیے کوئی اٹھتا تو بڑی احتیاط سے قدم رکھنا پڑتا مبادا کسی کو تکلیف نہ پہنچ جائے۔ مجھے یاد ہے ہمارے گھر میں ایسے مہمان بھی آتے جن کو اللہ تعالیٰ نے دنیاوی نعمتوں سے نوازا ہوا تھا اور بہترین قسم کے بستر اور دیگر سہولیات زندگی میسر تھیں لیکن اپنا سب آرام چھوڑ کر بعض اوقات انتہائی تنگی اور تکلیف میں وقت گزارتے اور اس کو اپنے لیے فخر کا موجب سمجھتے۔ کوئی بچہ کم فہمی میں کسی تنگی کا ذکر کرتا بھی تو اسے یہی سمجھاتے کہ ان دنوں میں آرام کی خاطر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے آئے ہیں۔ چنانچہ ہر کوئی دوسرے کے آرام کا خیال کرتا اور پھر یہ بھی دیکھنے میں آتا کہ یہی مہمان میزبان بن جاتے اور فرق کرنا مشکل ہو جاتا کہ مہمان کون ہے اور میزبان کون۔ آج بھی ان نظاروں کو چشم تصور میں دیکھتا ہوں تو ایمان کی شمعیں روشن ہو جاتی ہیں۔
دوسرا عجیب اور ایمان افروز نظارہ جلسہ گاہ کا ہوتا۔ دسمبر کی سخت سردی میں کھلے آسمان تلے بیٹھ کر جلسہ سننا جس کا آج کل یورپ اور امریکہ میں رہنے والے شاید تصور بھی نہیں کر سکتے۔ بلکہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کئی مرتبہ بارش بھی ہو جاتی لیکن جلسہ کی شان میں فرق نہ آتا۔ اس کا اندازہ اس دلچسپ واقعہ سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ جلسہ والے دن صبح سے بارش ہو رہی تھی۔ جب جلسہ کے شروع ہونے کا وقت قریب آیا تو ڈیوٹی پر موجود ایک پولیس والے نے اپنے افسر سے جا کر کہا ’’سر آج تو اب چھٹی کیونکہ بارش ہو رہی ہے اور ایسی صورت میں جلسہ تو ہو نہیں سکتا۔ ‘‘ اس پر اس افسر نے جواب دیا کہ ’’غالباً تم پہلی مرتبہ یہاں ڈیوٹی دے رہے ہواورتم ان لوگوں کو نہیں جانتے۔ حقیقت یہ ہے اگر بارش سے ان کی جلدیں بھی گل جائیں تب بھی یہ جلسہ ضرور کریں گے۔ ‘‘ یہ ہے وہ ایمانی کیفیت جس کی گواہی غیر بھی دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
ایک اَور نظارہ بھی کبھی نہیں بھولتا اور وہ ہے بسوں کے اڈہ اور ریلوے سٹیشن پر آنےوالے مہمانوں کا پرجوش استقبال۔ خاص طور پر ٹرینوں کی آمد کا نظارہ بڑا ہی دلفریب ہوتا ۔جونہی ٹرین ربوہ کی حدود میں داخل ہوتی لوگ کھڑکیوں اوردروازوں کے سامنے آجاتے ہاتھ ہلاہلا کراپنے دلی جذبات کا اظہار کرتے۔ فضا فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھتی یوں محسوس ہوتا جیسے ایمان کی نہریں ہیں جس میں سب نہا رہے ہیں۔ آنےوالے مہمان لمبی مسافت کی کوفت اور گھنٹوں گھنٹوں ڈیوٹیاں دینے والے اپنی تھکان بھول جاتے۔ پھر ڈیوٹی پر موجود مستعد مرد و زن آنےوالے مہمانوں کا استقبال کرتے ان کا سامان اٹھاتے اور ان کو قیام گاہوں تک پہنچانے کا انتظام کرتے۔
پھر یہ نظارہ بھی کم نہ ہوتا جب ربوہ جیسی چھوٹی سی بستی کی گلیوں اور بازاروں میں (اب تو ربوہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی پھیل گیا ہے ) ہزاروں افراد کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر چلتا نظر آتا مگرکوئی لڑائی جھگڑا اور دھکم پیل نہیں۔ چوری اور ڈاکہ کا بھی خطرہ نہیں پھر پردہ کی بھی پابندی ہے۔ زیادہ رش ہوتا تو ڈیوٹی پر موجود بچے اور نوجوان مردوں کو ایک طرف اور عورتوں کو دوسری طرف چلنے کے لیے کہتے اورسب ان کی ہدایات کے مطابق عمل کرتے دکھائی دیتے۔ جب حضور کا قافلہ گزرتا تو اور ہی عجب سماں پیدا ہو جاتا ۔تنگ سڑکوں پر جم غفیر راستہ بھی کلیئر کر دیتا اورمرد و زن دونوں اطراف انتہائی جذبہ، شوق اور عقیدت سے اپنے محبوب خلیفہ کا دیدار کرتے۔ اور جب حضور ہاتھ ہلا کر جواب دیتے تو فلک شگاف نعروں سے سب کی خوشی دیدنی اور جذبہ عروج پر دکھائی دیتا۔ پولیس والے بھی اطاعت ونظام اور عقیدت و وفا کے یہ نظار ے دیکھتے تو حیرت میں ڈوب جاتے ۔آخر ایسا کیوں نہ ہوتا کہ روئے زمین پر اخلاص و وفا کے ایسے نمونے الٰہی جماعتوں کے سوا اور مل ہی کہاں سکتے ہیں؟
سچ کہا حضرت مصلح موعودؓ نے اور سچ کر دکھایا خدا کے خلیفہ کے دیوانوں نے ؎
تعریف کے قابل ہیں یا رب تیرے دیوانے
آباد ہوئے جن سے دنیا کے ہیں ویرانے
فرزانوں نے دنیا کے شہروں کو اجاڑا ہے
آباد کریں گے اب دیوانے یہ ویرانے
ہوتی نہ اگر روشن وہ شمع رخ انور
کیوں جمع یہاں ہوتے سب دنیا کے پروانے
٭…٭…٭