حاصل مطالعہ

حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کے جلسہ سالانہ 1892ء میں شمولیت کے بعد تأثرات

(ذیشان محمود)

’’فمن تاب من بعد ظلمہ و اصلح فان اللّٰہ یتوب علیہ ان اللّٰہ غفور رحیم

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

کیفیت جلسہ سالانہ قادیان ضلع گورداسپورہ تاریخ ۲۷؍ دسمبر ۱۸۹۲ء بر مکان جناب مجدّدِ وقت مسیح الزمان مرزا غلام احمد صاحب سلمہ الرحمن اور اس پر بندہ کی رائےجو ملاقات مرزا صاحب موصوف اور معاینہ جلسہ اور اہل جلسہ کے بعد قائم ہوئی

مرزا صاحب نے مجھے بھی باوجودیکہ ان کو اچھی طرح معلوم تھا کہ میں ان کا مخالف ہوں نہ صرف مخالف بلکہ بدگو بھی اور یہ مکرّ ر سہ کرّ ر مجھ سے وقوع میں آ چکا ہے جلسہ پر بلایا اور چند خطوط جن میں ایک رجسٹری بھی تھا بھیجے۔ اگرچہ پیشتر بسبب جہالت اور مخالفت کے میرا ارادہ جانے کا نہ تھا لیکن مرزا صاحب کے بار بار لکھنے سے میرے دل میں ایک تحریک پیدا ہوئی۔ اگر مرزا صاحب اس قدر شفقت سے نہ لکھتے تو میں ہرگز نہ جاتا اور محروم رہتا۔ مگر یہ انہیں کا حوصلہ تھا۔ آج کل کے مولوی تو اپنے سگے باپ سے بھی اس شفقت اور عزت سے پیش نہیں آتے۔ میں ۲۷؍تاریخ کو دوپہر سے پہلے قادیان میں پہنچا۔ اس وقت مولوی حکیم نور الدین صاحب مرزا صاحب کی تائید میں بیان کر رہے تھے اور قریب ختم کے تھا۔ افسوس کہ میں نے پورا نہ سنا۔ لوگوں سے سنا کہ بہت عمدہ بیان تھا۔ پھر حامد شاہ صاحب نے اپنے اشعار مرزا صاحب کی صداقت اور تعریف میں پڑھے۔ لیکن چونکہ مجھے ہنوز رغبت نہیں تھی اور میرا دل غبار آلودہ تھا کچھ شوق اور محبت سے نہیں سنا۔ لیکن اشعار عمدہ تھے۔ اللہ تعالیٰ مصنّف کو جزائے خیر عنایت فرماوے۔

جب میں مرزا صاحب سے ملا اور وہ اخلاق سے پیش آئے تو میرا دل نرم ہوا گویا مرزا صاحب کی نظر سرمہ کی سلائی تھی جس سے غبار کدورت میرے دل کی آنکھوں سے دور ہوگیا اور غیظ و غضب کے نزلہ کا پانیؔ خشک ہونے لگا اور کچھ کچھ دھندلا سا مجھے حق نظر آنا شروع ہوا اور رفتہ رفتہ باطنی بینائی درست ہوئی۔ مرزا صاحب کے سوا اور کئی بھائی اس جلسہ میں ایسے تھے کہ جن کو میں حقارت اور عداوت سے دیکھتا تھا اب ان کو محبت اور الفت سے دیکھنے لگا اور یہ حال ہوا کہ کل اہل جلسہ میں جو مرزا صاحب کے زیادہ محب تھے وہ مجھے بھی زیادہ عزیز معلوم ہونے لگے۔ بعد عصر مرزا صاحب نے کچھ بیان فرمایا جس کے سننے سے میر ے تمام شبہات رفع ہوگئے اور آنکھیں کھل گئیں۔ دوسرے روز صبح کے وقت ایک امرتسری وکیل صاحب نے اپنا عجیب قصہ سنایا جس سے مرزا صاحب کی اعلیٰ درجہ کی کرامت ثابت ہوئی۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ وکیل صاحب پہلے سنت جماعت مسلمان تھے۔ جب جوان ہوئے رسمی علم پڑھا تو دل میں بسبب مذہبی علم سے ناواقفیّت اور علمائے وقت وپیرانِ زمانہ کے باعمل نہ ہونے کے شبہات پیدا ہوئے اور تسلی بخش جواب کہیں سے نہ ملنے کے باعث سے چند بار مذہب تبدیل کیا۔ سنّی سے شیعہ بنے وہاں بجز تبرّا بازی اور تعزیہ سازی کچھ نظر نہ آیا۔ آریہ ہوئے چند روز وہاں کا مزا بھی چکھا۔ مگر لطف نہ آیا۔ برہمو میں شامل ہوئے۔ ان کا طریق اختیار کیا۔ لیکن وہاں بھی مزا نہ پایا۔ نیچری بنے لیکن اندرونی صفائی یا خدا کی محبت۔ کچھ نورانیت کہیں بھی نظر نہ آئی۔ آخر مرزا صاحب سے ملے اور بہت بیباکانہ پیش آئے۔ مگر مرزا صاحب نے لطف سے مہربانی سے کلام کیا۔ اور ایسا اچھا نمونہ دکھایا کہ آخرکار اسلام پر پورے پورے جم گئے اور نمازی بھی ہوگئے۔ اللہ و رسولؐ کے تابعدار بن گئے۔ اب مرزا صاحب کے بڑے معتقد ہیں۔

رات کو مرزا صاحب نے نواب صاحب [حاشیہ:نواب صاحب مالیر کوٹلہ جو اُس وقت مع چنداپنے ہمراہیان کے شریک جلسہ تھے۔] کے مقام پر بہت عمدہ تقریر کی اور چند اپنے خواب اور الہام بیان فرمائے۔ چند لوگوں نے صداقت الہام کی گواہیاں دیں جنکے روبرو وہ الہام پورے ہوئے۔ ایک صاحب نے صبح کو بعد نماز صبح عبداللہ صاحب غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک خواب سنایا۔ جبکہ عبداللہ صاحب خَیردی گاؤں میں تشریف رکھتےؔ تھے۔ عبداللہ صاحب نے فرمایا ہم نے محمد حسین بٹالوی کو ایک لمبا کرتہ پہنے دیکھا اور وہ کرتہ پارہ پارہ ہوگیا۔ یہ بھی عبداللہ صاحب نے فرمایا تھا کہ کُرتے سے مراد علم ہے۔ آگے پارہ پارہ ہونے سے عقلمند خود سمجھ سکتا ہے کہ گویا علم کی پردہ دری مراد ہے جو آجکل ہو رہی ہے اور معلوم نہیں کہ کہاں تک ہوگی۔ جو اللہ کے ولی کو ستاتا ہے گویا اللہ تعالیٰ سے لڑتا ہے۔ آخر پچھڑے گا۔ اب مجھے بخوبی ثابت ہوا کہ وہ لوگ بڑے بے انصاف ہیں جو بغیر ملاقات اور گفتگو کے مرزا صاحب کو دور سے بیٹھے دجال کذاب بنا رہے ہیں اور ان کے کلام کے غلط معنے گھڑ رہے ہیں یا کسی دوسرے کی تعلیم کو بغیر تفتیش مان لیتے ہیں اور مرزا صاحب سے اس کی بابت تحقیق نہیں کرتے۔ مرزا صاحب جو آسمانی شہد اُگل رہے ہیں اس کو وہ شیطانی زہر بتاتے ہیں اور بسبب سخت قلبی اور حجاب عداوت کے دور ہی سے گلاب کو پیشاب کہتے ہیں اور عوام اپنے خواص کے تابع ہو کر اس کے کھانے پینے سے باز رہتے ہیں اور اپنا سراسر نقصان کرتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر اس عاجز کے قدیمی دوست یا پرانے مقتدا مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی لوگوں کو مرزا صاحب سے ہٹانے اور نفرت دلانے میں مصروف ہیں جن کو پہلے پہل مرزا صاحب سے بندہ نے بدظن کیا تھا جس کے عوض میں اس دفعہ انہوں نے مجھے بہکایا اور صراط مستقیم سے جدا کر دیا۔ چلو برابر ہوگئے۔ مگر مولوی صاحب ہنوز درپے ہیں۔ اب جو جلسہ پر مرزا صاحب نے مجھے طلب کیا تو مولوی صاحب کو بھی ایک مخبر نے خبر دی۔ انہوں نے اپنے وکیل کی معرفت مجھے ایک خط لکھا جس میں ناصح مشفق نے مرزا صاحب کو اس قدر بُرا بھلا لکھا اور ایسے ناشائستہ الفاظ قلم سے نکالے کہ جن کا اعادہ کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔ مولوی صاحب نے یہ بھی لحاظ نہ کیا کہ علاوہ بزرگ ہونے کے مرزا صاحب میرے کس قدر قریبی رشتہ دار ہیں پھر دعویٰ محبت ہے۔ افسوس۔

اس جلسہ پر تین سو سے زیادہ شریف اور نیک لوگ جمع تھے جن کے چہروں سے مسلمانی نور ٹپک رہا تھا امیر، غریب، نواب، انجینئر، تھانہ دار، تحصیلدار، زمیندار، سوداگر، حکیم،غرض ہر قسم کے لوگ تھے۔ ہاں چند مولوی بھی تھے مگر مسکین مولوی۔ مولوی کے ساتھ مسکین اور منکسر کا لفظ یہ مرزا صاحب کی کرامت ہے کہ مرزا صاحب سے مل کر مولوی بھی مسکین بن جاتے ہیں ورنہ آجکل مسکین مولوی اور بدعات سے بچنے والا صوفی کبریت احمر اور کیمیائے سعادت کا حکم رکھتا ہے۔ مولوی محمد حسین صاحب اپنے دل میں غور فرما کر دیکھیں کہ وہ کہاں تک مسکینی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہرگز نہیں۔ ان میں اگر مسکینی ہوتی تو اس قدر فساد ہی کیوں ہوتا۔ یہ نوبت بھی کیوں گذرتی۔ اس قدر ان کے متبعین کو ان سے عداوت اور نفرت کیوں ہوتی۔ اہلحدیث اکثر ان سے بیزار کیوں ہو جاتے۔ اگر مولوی صاحب اس میرے بیان کو غلط خیال فرماویں تو میں انہیں پر حوالہ کرتا ہوں۔ انصافًا و ایمانًا اپنے احباب کی ایک فہرست تو لکھ کر چھپوا دیں کہ جو اُن سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسا کہ مرزا صاحب کے مرید مرزا صاحب سے محبت رکھتے ہیں۔ مجھے قیافہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ وقت عنقریب ہے کہ جناب مرزا صاحب کی خاکِ پا کو اہل بصیرت آنکھوں میں جگہ دیں اور اکسیر سے بہتر سمجھیں اور تبرک خیال کریں۔ مرزا صاحب کے سینکڑوں ایسے صادق دوست ہیں جو مرزا صاحب پر دل و جان سے قربان ہیں۔ اختلاف کا تو کیا ذکر ہے۔ روبرو اُف تک نہیں کرتے ؂ سرتسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے۔ مولوی محمد حسین صاحب زیادہ نہیں چار پانچ آدمی تو ایسے اپنے شاگرد یا دوست بتا ویں جو پوری پوری (خدا کے واسطے) مولوی صاحب سے محبت رکھتے ہوں اور دل و جان سے فدا ہوں اور اپنے مال کو مولوی صاحب پر قربان کر دیں اور اپنی عزت کو مولوی صاحب کی عزت پر نثار کرنے کیلئے مستعد ہوں۔ اگر مولوی صاحب یہ فرماویں کہ سچوں اور نیکوں سے لوگوں کو محبت نہیں ہوتی بلکہ جھوٹے اور مکاروں سے لوگوں کو اُلفت ہوتی ہے تو میں پوچھتا ہوں کہ اصحاب و اہل بیت کو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت تھی یا نہیں۔ وہ حضرت کے پورے پورے تابع تھے یا ان کو اختلاف تھا۔ بہت نزدیک کی ایک بات یاد دلاتا ہوں کہ مولوی عبداللہ صاحب غزنوی جو میرے اور نیز محمد حسین صاحب کے پیر و مرشد تھے۔ اُن کے مرید اُن سے کس قدر محبت رکھتے تھے اور کس قدر اُن کے تابع فرمان تھے۔ سنا ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے اپنے ایک خاص مرید کو کہا کہ تم نجد واقعہ ملک عرب میں جاکر رسائل توحید مصنّفہ محمد بن عبدالوہاب نقل کر لاؤ۔وہ مرید فوراً رخصت ہوا۔ ایک دم کا بھی توقف نہ کیا۔ حالانکہ خرچ راہ و سواری بھی اس کے پاس نہ تھا۔ مولوی محمد حسین صاحب اگر اپنے کسی دوست کو بازار سے پیسہ دے کر دہی لانے کو فرماویں تو شاید منظوؔ ر نہ کرے۔ اور اگر منظور کرے تو ناراض ہو کر اور شاید غیبت میں لوگوں سے گلہ بھی کرے۔ ع۔ ببیں تفاوتِ رہ از کجا است تا بکجا۔ یہ نمونہ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ ہر صدی میں ہزاروں اولیاء (جن پر ان کے زمانہ میں کفر کے فتوے بھی ہوتے رہے ہیں) گذرے ہیں۔ اور کم و بیش ان کے مرید ان کے فرمانبردار اور جان نثار ہوئے ہیں۔ یہ نتیجہ ہے نیکوں کی خدا کے ساتھ دلی محبت کا۔ مرزا صاحب کو چونکہ سچی محبت اپنے مولا سے ہے اس لئے آسمان سے قبولیّت اتری ہے اور رفتہ رفتہ باوجود مولویوں کی سخت مخالفت کے سعید لوگوں کے دلوں میں مرزا صاحب کی الفت ترقی کرتی جا رہی ہے (اگرچہ ابو سعید صاحب خفا ہی کیوں نہ ہوں) اب اس کے مقابل میں مولوی صاحب جو آج ماشاء اللہ آفتاب پنجاب بنے ہوئے ہیں اپنے حال میں غور فرماویں کہ کس قدر سچے محب ان کے ہیں اور ان کے سچے دوستوں کا اندرونی کیا حال ہے۔ شروع شروع میں کہتے ہیں مولوی صاحب کبھی اچھے شخص تھے مگر اب تو انہیں حُبِّ جَاہ اور علم و فضل کے فخر نے عرشِ عزت سے خاکِ مذلت پر گرا دیا۔

ا نَّا للّٰہ و ا نَّا الیہ راجعون۔

اب مولوی صاحب غور فرماویں کہ یہ کیا پتھر پڑ گئے کہ مولوی اور خصوصاً مولوی محمد حسین صاحب سرآمد علماء پنجاب (بزعم خود) سے لوگوں کو اس قدر نفرت کہ جس کے باعث مولوی صاحب کو لاہور چھوڑنا پڑا۔ موحدین کی جامع مسجد میں اگر اتفاقاً لاہور میں تشریف لے جاویں تو مارے ضد اور شرم کے داخل نہیں ہو سکتے۔ اور مرزا صاحب کے پاس (جو بزعم مولوی صاحب کافر بلکہ اکفر اور دجّال ہیں)۔ گھر بیٹھے لاہور، امرتسر، پشاور، کشمیر، جموں، سیالکوٹ، کپورتھلہ، لدھیانہ، بمبئی، ممالک شمال و مغرب، اودھ، مکہ معظمہ وغیرہ بلاد سے لوگ گھر سے بوریا بدھنا باندھے چلے آتے ہیں۔ پھر آنے والے بدعتی نہیں۔ مشرک نہیں۔ جاہل نہیں۔ کنگال نہیں۔ بلکہ موحد۔ اہلحدیث۔ مولوی۔ مفتی۔ پیرزادے۔ شریف۔ امیر۔ نواب۔ وکیل۔ اب ذرا سوچنے کا مقام ہے کہ باوجود مولوی محمد حسین کے گرانے کے اور اکثر مولویوں سے کفر کے فتوے پر مہریں لگوانے کے اللہ جلّ شانہٗ نے مرزا صاحب کو کس قدر چڑھایا اور کس قدر خلق خدا کے دلوں کو متوجہ کر دیا کہ اپنا آرام چھوڑ کر۔ وطن سے جدا ہو کر۔ روپیہ خرچ کر کے قادیان میں آکر زمین پر سوتے بلکہ ریل میں ایک دو رات جاگے بھی ضرور ہوں گے اور کئی پیادہ چل کر بھی حاضر ہوئے۔ میں نے ایک شخص کے بھی منہ سے کسی قسم کی شکایت نہیں سنی۔ مرزا صاحب کے گرد ایسے جمع ہوتے تھے جیسے شمع کے گرد پروانے۔ جب مرزا صاحب کچھ فرماتے تھے تو ہمہ تن گوش ہو جاتے تھے۔ قریباً چالیس پچاس شخص اس جلسہ پر مرید ہوئے۔ مرزا احمد بیگ کے انتقال کی پیشگوئی کے پورے ہونے کا ذکر بھی مرزا صاحب نے ساری خلقت کے روبرو سنایا جس کے بارے میں نور افشاں نے مرزا صاحب کو بہت کچھ برا بھلا کہا تھا۔ اب نور افشاں خیال کرے کہ پیشگوئیاں اس طرح پوری ہوتی ہیں۔ یہ بات بجز اہل اسلام کے کسی دین والے کو آجکل حاصل نہیں اور مسلمان خصوصاً مخالفین سوچیں کہ یہ خوب بات ہے کہ کافر اکفر۔ دجال۔ مکار کی پیشگوئیاں باوجودیکہ اللہ تعالیٰ پر افتراؤں کی طومار باندھ رہا ہے اللہ تعالیٰ پوری کر دے اور رسول اللہ صلعم کے (بزعمِ خود) نائبین کی باتوں میں خاک بھی اثر نہ دے اور ان کو ایسا ذلیل کرے کہ لاہور چھوڑ کر بٹالہ میں آنا پڑے۔افسوس صد افسوس آجکل کے ان مولویوں کی نابینائی پر جو العلم حجاب الاکبرکے نیچے دبے پڑے ہیں اور بایں وجہ ایک ایسے برگزیدہ بندہ کا نام دجال و کافر رکھتے ہیں جس کی اللہ تعالیٰ کو ایسی محبت ہے کہ دین کی خدمت پر مقرر کر رکھا ہے اور وہ بندۂ خدا آریہؔ ، برہموؔ ، عیسائیوںؔ ، نیچریوںؔ سے لڑ رہا ہے۔ کوئی کافر تاب مقابلہ نہیں لا سکتا۔ نہ کوئی مولوی باوجود کافرؔ ، ملعونؔ ، دجالؔ بنانے کے خلقت کے دلوں کو ان کی طرف سے ہٹا سکتا ہے۔ معاذاللہ، عصاء موسیٰ و ید بیضا کو بزعم خود مولویان پسپا اور رسوا کر رہا ہے۔ نائبین رسول مقبول میں کوئی برکت کچھ نورانیت نہیں رہی۔ اتنا بھی سلیقہ نہیں کہ اپنے چند شاگردوں کو بھی قابو میں رکھ سکیں اور خلق محمدی کا نمونہ دکھا کر اپنا شیفتہ بنالیں۔ کسی ملک میں ہدایت پھیلانا اور مخالفین اسلام کو زیر کرنا تو درکنار ایک شہر بلکہ ایک محلہ کو بھی درست نہیں کر سکتے۔ برخلاف اس کے مرزا صاحب نے شرقًا غربًا مخالفین اسلام کو دعوت اسلام کی اور ایسا نیچا کر دکھایا کہ کوئی مقابل آنے جوگا نہیں رہا۔ اکثر نیچریوں کو جو مولوی صاحبان سے ہرگز اصلاح پر نہیں آ سکے توبہ کرائی اور پنجاب سے نیچریت کا اثر بہت کم کر دیا۔ اب وہی نیچری ہیں جو مسلمان صورت بھی نہیں تھے مرزا صاحب کے ملنے سے مومن سیرت ہوگئے۔ اہلکاروں، تھانہ داروں نے رشوتیں لینی چھوڑ دیں۔ نشہ بازوں نے نشے ترک کر دئیے۔ کئی لوگوں نے حقہ ترک کر دیا۔ مرزا صاحب کے شیعہ [حاشیہ:یعنی چند مرید مرزا صاحب کے ایسے بھی ہیں جو پہلے شیعہ مذہب رکھتے تھے] مریدوں نے تبرّا ترک کر دیا۔ صحابہ سے محبت کرنے لگے۔ تعزیہ داری، مرثیہ خوانی موقوف کر دی۔ بعض پیر زادے جو مولوی محمد حسین بٹالوی بلکہ محمد اسماعیل شہید کو بھی کافر سمجھتے تھے مرزا صاحب کے معتقد ہونے کے بعد مولانا اسماعیل شہید کو اپنا پیشوا اور بزرگ سمجھنے لگے۔ اگر یہ تاثیریں دجّالین۔ کذّابین میں ہوتی ہیں اور نائبین رسول مقبول نیک تاثیروں سے محروم ہیں تو بصد خوشی ہمیں دجالی ہونا منظور ہے۔ پھلوں ہی سے تو درخت پہچانا جاتا ہے اللہ تعالیٰ کو بھی لوگوں نے صفات سے پہچانا۔ ورنہ اس کی ذات کسی کو نظر نہیں آتی۔ کسی تندرست ہٹے کٹے کا نام اگر بیمار رکھ دیں تو واقعی وہ بیمار نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مومن پاکباز ہے اور جس کے دل میں اللہ اور رسولؐ کی محبت ہے اس کو کوئی منافق، کافر، دجال وغیرہ لقب دے تو کیا حرج ہے۔ سفید کسی کے کالا کہنے سے کالا نہیں ہو سکتا۔ اور چمگادڑ کی دشمنی سے آفتاب لائق مذمت نہیں۔ یزیدی عملداری سے حسینی گروہ اگرچہ تکالیف تو پا سکتا ہے مگر نابود نہیں ہو سکتا۔ رفتہ رفتہ تکالیف برداشت کر کے ترقی کرے گا اور کرتا جاتا ہے۔ یعنی مولویوں کے سدّ راہ ہونے سے مرزا صاحب کا گروہ مٹ نہیں سکتا بلکہ ایسا حال ہے جیسا دریا میں بندھ باندھنے سے دریا رک نہیں سکتا لیکن چند روز رُکا معلوم ہوتا ہے آخر بند ٹوٹے گا اور نہایت زور سے دریا بہہ نکلے گا۔ اور آس پاس کے مخالفین کی بستیوں کو بہا لے جاوے گا۔ آندھی اور ابر سورج کو چھپا نہیں سکتے ۔خود ہی چند روز میں گم ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح چند روز میں یہ غل غپاڑہ فرو ہو جائے گا اور مرزا صاحب کی صداقت کا سورج چمکتا ہوا نکل آوے گا۔ پھر نیک بخت تو افسوس کر کے مرزا صاحب سےموا فق ہو جاویں گے اور پچھلی غلطی پر پچھتاویں گے اور مرزا صاحب کی کشتی میں جو مثل سفینہ نوح علیہ السلام کے ہے سوار ہو جائیں گے۔ لیکن بدنصیب اپنے مولویوں کے مکر اور غلط بیانی کے پہاڑوں پر چڑھ کر جان بچانا چاہیں گے۔ مگر ایک ہی موج میں غرق بحر ضلالت ہو کر فنا ہو جاویں گے۔ یا الٰہی ہمیں اپنی پناہ میں رکھ اور فہم کامل عنایت فرما۔ امت محمدیؐ کا تو ہی نگہبان ہے۔ حجابوں کو اٹھا دے۔ صداقت کو ظاہر فرما دے۔ مسلمانوں کو اختلاف سے راہ راست پر لگا دے۔ آمین یا ربّ العالمین۔

العلم حجاب الاکبر

جو مشہور قول ہے اس کی صداقت آج کل بخوبی ظاہر ہو رہی ہے۔ پہلے اس قول سے مجھے اتفاق نہ تھا۔ لیکن اب اس پر پورا یقین ہوگیا۔ جس قدر مرزا صاحب کے مخالف مولوی ہیں اس قدر اور کوئی نہیں۔ بلکہ اوروں کو عالموں ہی نے بہکایا ہے ورنہ آج تک ہزاروں بیعت کرلیتے۔ اور ایک جم غفیر مرزا صاحب کے ساتھ ہو جاتا لیکن مخالفت کا ہونا کچھ تعجب نہیں کیونکہ اگر ایسا زمانہ جس میں اس قسم کے فساد ہیں جس کی نظیر پچھلی صدیوں میں نامعلوم ہے نہ آتا تو ایسا مصلح بھی کیوں پیدا ہوتا۔ دجّال ہی کے قتل کو عیسیٰ تشریف لائے ہیں۔ اگر دجّال نہ ہوتا تو عیسیٰ کا آنا محال تھا۔ اور دنیا گمراہ نہ ہو جاتی تو مہدی کی کیا ضرورت تھی۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کام کو اس کے وقت پر کرتا ہے۔ یا اللہ تو ہمیں اپنے رسولؐ کی اپنے اولیاء کی محبت عنایت کر اور بے یقینی اور تردّدات سے امان بخش۔ صادقین کے ساتھ ہمیں الفت دے۔ کاذبوں سے پناہ میں رکھ۔ ہماری انانیت دور کر دے اور حرص و ہوا سے نجات بخش۔ آمین یا رب العالمین۔

راقم ۔ناصر نواب تاریخ ۲؍ جنوری ۱۸۹۳ء‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5صفحہ637تا644)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button