اِک گلِ خوبی کا چھیڑیں تذکرہ
خاکسار کا تعلق ضلع بہاولپور کے گاؤں 84 فتح سے ہے بچپن میں پانچویں کلاس تک ہم وہاں رہے اور 1978ء میں ربوہ شفٹ ہو گے ہمارے گاؤں سے کئی افراد جلسہ سالانہ ربوہ میں شامل ہوتے تھے بعض فیملیوں کے افراد نے باریاں مقرر کی تھیں کہ اس سال جلسہ پر کون جائےگا اور گھر پر کون رہے گا تب مجھے یاد ہے کہ چند بار امی کے ساتھ سفر کیا۔ فیصل آباد بس سٹاپ پر بس بدلی جاتی تھی اور وہاں خدام جلسہ کے مہمانوں کی مدد کرتے سامان اٹھا کر دوسری بسوں میں شفٹ کرتے نیز ربوہ میں بھی اسی طرح خدام استقبال کرتے اور سامان اٹھانے میں مہمانوں کی مدد کرتے۔ جلسہ کے دوران بزرگ بتاتے کہ اسٹیج پر کون رونق افروز ہے حضور یا حضرت چودھری ظفراللہ خاں صاحبؓ کا یاد ہے کہ بتایا جاتا کہ غور سے دیکھو وہ اس وقت اسٹیج پر ہیں۔ جلسہ گاہ کافی بڑا ہوتا اور اسٹیج تو دور ہوتا تھا۔ یہ باتیں تو یادوں کی دھند میں کھو گئی ہیں۔
فیملی کے افراد کی جلسہ سالانہ میں شمولیت
خاکسار کے نانا چودھری اللہ رکھا سروعہ مرحوم پہلی بار جلسہ سالانہ قادیان 1928ء میں نوجوانی کی عمر میں شامل ہوئے اور بیعت کی سعادت حاصل کی اور عمر بھر ذوق وشوق سے جلسہ میں شامل ہوتے رہے حالانکہ بعد کے سالوں میں ان کو نظر بھی نہیںآتا تھا۔ ان کی وفات 1986ء میں ہوئی اور بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں جبکہ دیگر افراد بھی جلسوں میں شامل ہوتے۔ خاکسار کے ماموں جان اور سسر چودھری محمد اسماعیل سروعہ مقیم 84 فتح جو اب نوے سال کے ہو رہے ہیں فرقان فورس میں شامل ہوئے اور ربوہ کے ابتدائی جلسوں میں شامل ہوتے رہے اوربعد میں آخری جلسہ تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ نوبت خانوں والی تقریر انہوں نے سنی اور وہ باتیں انہیں یاد ہیں کہ کس طرح حضور تشریف لاتے تھے ۔پھر خلافت ثالثہ میں جب ایم ایم عالم صاحب جلسہ میں شامل ہوئے وہ انہیں یاد ہے نیز جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ جلسہ گاہ آئے تو گلاب کے پھول گاڑی پر برسائے گئے نیز حضرت چودھری ظفراللہ خان صاحبؓ سے 1954ء میں جلسہ سالانہ کے دوران ملے ان کو یہ ساری باتیں کل کی ہی لگتی ہیں۔
خاکسار کی والدہ مکرمہ رابعہ رشید صاحبہ خلافت ثانیہ کے وقت سے گاؤں سے جلسوں میں شمولیت کے لیے سفر کرتیں۔ وہ کپاس چن کر کرایہ اکٹھا کرتیں۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ جلسہ کے دوران ان کا قیام بیرکوں میں ہوتا اور لجنہ رات کے وقت مل کر نظمیں پڑھتیں۔ خوب دل لگتا۔ نیز جلسہ کے دوران حضرت خلیفۃ المسیح سے ملاقات کی سعادت بھی حاصل کرتیں وہ اس طرح کہ قصر خلافت میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ اوپروالی منزل پر ہوتے اور نیچے صحن میں لجنہ انتظار کرتیں اور حضور تشریف لا کر سلام کرتے۔آخری بار ملاقات اس طرح ہوئی کہ حضورؓ بیماری کی وجہ سے لیٹے تھے اور لجنہ پاس سے گزرتی جاتیں اور سلام کہتی جاتیں۔
ربوہ میں رہائش اور جلسہ کی ڈیوٹیاں
جب 1978ء میں ہم ربوہ میں شفٹ ہوئے تو تب سے آخری جلسہ سالانہ 1983ء تک ڈیوٹی کی توفیق ملتی رہی۔ کبھی لنگر خانہ میں اور کبھی مہمانوں کی قیام گاہوں میں۔ ربوہ کا ماحول اتنا روحانیت سے معمور ہوتا کہ اس کے کیا کہنے۔ ہمارے گھروں میں رشتہ دار دور نزدیک سے کافی تعداد میں آتے۔ جگہ کی کمی کمروں میں پرالی ڈال کر پوری کی جاتی تا زیادہ مہمان سما سکیں۔ اب ان کمروں کو دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ اتنی تعداد میں مہمان کیسے سما جاتے تھے۔ تب نہ کسی کو مشکل لگتا تھا نہ جگہ کی تنگی کا احساس ہوتا۔ جلسہ سے قبل محلوں میں وقار عمل کرکے صفائی کا اہتمام کیا جاتا آرائشی گیٹ لگائے جاتے اور صفائی کا خاص خیال رکھا جاتا۔ جلسہ کے ایام میں جماعت نے ربوہ کے مختلف محلوں میں لنگر خانوں میں کھانا پکانے کا اہتمام کیا ہوتا اور مہمانوں کو ان کی قیام گاہوں پر گرم گرم کھانا مل جاتا۔ مٹی کے برتنوں میں کھانا کھلایا جاتا جبکہ ربوہ کے باسی اپنے لیے اور گھروں میں مقیم مہمانوں کے لیے دو وقت کا کھانالنگر خانوں سے حاصل کرتے جس کے لیے باقاعدہ کارڈ بنے ہوتے اور تصدیق کے بعد کھانا ملتا۔ ربوہ کے بازار بھرے ہوتے۔ ارد گرد سے بہت سے دکاندار سڑکوں پر دکانیں سجا لیتے غرضیکہ ربوہ میں ہر طرف لوگ ہی لوگ نظر آ رہے ہوتے۔
جلسہ گاہ کا ماحول
مردوں کا جلسہ گاہ مسجد اقصیٰ کے سامنے وسیع گراؤنڈ میں ہوتا اور جلسہ گاہ کے چاروں طرف اسٹیڈیم بنا دیا جاتا اور بعض لوگ ان سیڑھیوں پر بیٹھتے۔ مجھے یاد ہے جب جلسہ سالانہ 1983ء کا حضورؒ نے افتتاحی خطاب فرمایا تو جامعہ احمدیہ میں ڈیوٹی دیتے ہوئے اس کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ آخری سالوں میں حضرت خلیفۃ المسیح کی تقاریر کی کیسٹیں فوراً بازار سے دستیاب ہوتیں جبکہ کئی لوگ اپنے ٹیپ ریکارڈ رجلسہ گاہ میں ساتھ لاتے اور ریکارڈنگ کرتے۔ بعضوں کو دیکھا کہ پروگرام کے اختتام پر راستے میں ٹیپ ریکارڈ رپر نظمیں سن رہے ہوتے۔ اگر آج کی نسل نے اس جلسہ کا کچھ نظارہ کرنا ہے تو جلسہ سالانہ 1982ءاور 1983ء کے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے خطابات سن کے کر سکتی ہے جو انٹرنیٹ پر مہیا ہیں۔ ان جلسوں میں چودھری شبیر صاحب اور مکرم ثاقب زیر وی صاحب کی نظم پروگرام کا حصہ ہوتی تھی۔ تب بھی خلیفہ وقت کے اتنے ہی خطابات ہوتے تھے جتنے اب ہوتے ہیں۔
ہمارا گھر محلہ فیکٹری ایریا میں تھا۔ کئی بار حضورؒ کے قافلے کو اس راستے سے مسجد اقصیٰ کی طرف جلسہ گاہ جاتے دیکھنا بھی یاد ہے۔ ان دنوں حضورؒ نماز پڑھانے کے لیے بھی جلسہ گاہ تشریف لے جاتے تھے۔
جلسہ کے دوران خلیفۃ المسیح سے ملاقات
ان دنوں مختلف جماعتوں کی حضورؒ سے ملاقات ہوتی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ سے ملاقات یاد ہے جب اپنے والد چودھری رشید احمد سروعہ صاحب کے ساتھ ملاقات کی حضورؒ تشریف فرما تھے اور احباب قطار میں مصافحہ کا شرف حاصل کرتے دعا کی درخواست کرتے اور گزر تے جاتے۔ میرے پاس کچھ قلم تھے جو حضورؒ کو پیش کیے۔ آپؒ نے پکڑ کر کچھ دیر دعا کی اور ہمیں زیادہ وقت مل گیا کہ آپ کا قرب حاصل کر لیا۔ ایسا ہی حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے دو جلسوں کے دوران ہوتا تھا۔
اب تو جلسہ سالانہ کی برکات ملک ملک پھیل چکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ پاکستان کے احمدی اور ربوہ کے باسی بھی دوبارہ وہ دن جلد دیکھیں جب پرانی رونقیں بحال ہوں اور ربوہ کی گلی گلی اور چپہ چپہ دوبارہ ذکر الٰہی سے معمور ہوں جلسہ کی رونقیں بحال ہوں۔ حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے وطن میں بھی جلسہ سالانہ میں شامل ہوسکیں۔ اللہ وہ دن جلد لائے۔ آمین۔