اداریہ

حقیقی عید

(مدیر)

رمضان المبارک کا اختتام ہے۔ تمام عالمِ اسلام عید کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ عید الفطر جسے چھوٹی عید یا میٹھی عید بھی کہا جاتا ہے تمام امتِ مسلمہ میں بڑے اہتمام کے ساتھ منائی جاتی ہے۔مسلمان ممالک میں عید کے ایام میں عام تعطیل کا اعلان کیا جاتا ہے۔ جبکہ دیگر ممالک میں مقیم مسلمانوں کو اگر اس روز چھٹی نہیں بھی ہوتی تو بھی وہ اپنے کاموں سے رخصت لے کر اپنے بزرگوں، گھر والوں، عزیزوں اور رشتہ داروں کے ساتھ عید کا دن گزارتے ہیں۔ گھروں کو سجایا جاتا ہے۔ اپنی اپنی بساط کے مطابق مرد و زَن اور بچے اس روز کی مناسبت سے عمدہ لباس کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ نمازِ عید پڑھی جاتی ہے۔ گھر کے سربراہ صدقۃ الفطر جسے فطرانہ بھی کہا جاتا ہے عید سے پہلے ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بچے بڑوں سے پیار اور محبت کے ساتھ ساتھ عیدی اور تحائف بھی پاتے ہیں۔ الغرض لوگ اپنے دکھوں کو بھلا کر، اپنی رنجشوں کو پسِ پشت ڈال کر اعزّہ و اقربا کے ساتھ عید کی خوشیاں بانٹتے ہیں۔ بعض خوش نصیب اس روز اپنے معاشی لحاظ سے کمزور بھائیوں اور بہنوں کو بھی عید کی خوشیوں میں شامل کرکے سکون حاصل کرتے ہیں۔لیکن انسان تو پھر انسان ہے، اس بات کا امکان بھی رہتا ہے کہ عید کے گزرنے کے ساتھ رمضان المبارک میں سیکھے گئے سبق بھلا کر اپنی پرانی زندگی کی طرف لَوٹ جایا جائےگا۔

عید الفطر مسلمانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کا ایک تحفہ ہےجسے ہر مسلمان اپنے انداز سے مناتا ہے۔ جب تک یہ خوشیاں احکامِ خداوندی کے دائرے میں رہیں انہیں منانا ہی آج کے دن کا مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو عید کی خوشیاں مبارک فرمائے۔

اکثر عالمِ اسلام پر تو رمضان آیا اور گیا۔ عید آئے گی، گزر جائے گی۔ لیکن ہمارے پیارے امام حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نہایت دل نشین انداز میں ہمیں نصیحت فرماتے ہیں کہ اس وقتی عید کی خوشیوں کو دائمی بنایا جائے،حقیقی عید منائی جائے اور دنیاوی ظاہری جشن اور میلوں پر مشتمل اس تہوار کو ‘دنیا و عاقبت سنوارنے والا’بنایا جائے۔ اور اس کا طریق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

‘‘جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنی زندگیاں گزارنے والے ہیں وہی حقیقی عید منانے والے ہیں۔ جس دن خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے اپنی برائیوں کو دور کرنے کا عہد کیا، جس دن انسان نے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کا عہد کیا اور اس پر عمل بھی شروع کر دیا تو حقیقی عید وہی ہو گی۔ پس آج اگر ہم اپنے رمضان کو بھولنے کا نہیں بلکہ یاد رکھنے کا عہد کریں تو ہماری عید مبارک عید ہے اور ہمارا رمضان بھی بڑا مبارک رمضان ہے۔ ہماری دنیاوعاقبت بھی اس سے سنور جائے گی اور یہ عید ہماری دنیاوعاقبت سنوارنے والی عید بن جائے گی۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ‘‘وہ دن کونسا دن ہے جو جمعہ اور عیدین سے بھی بہتر ہے اور مبارک دن ہے؟ مَیں تمہیں بتاتا ہوں کہ وہ دن انسان کی توبہ کا دن ہے جو اِن سب سے بہتر ہے اور ہر عید سے بڑھ کر ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اس دن وہ بد اعمال نامہ جو انسان کو جہنم کے قریب کرتا جاتا ہے اور اندر ہی اندر غضب الٰہی کے نیچے اسے لارہا تھا دھو دیا جاتا ہے اور اس کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ حقیقت میں اس سے بڑھ کر انسان کے لیے اور کونسا خوشی اور عید کا دن ہوگاجو اسے ابدی جہنم اور ابدی غضب الٰہی سے نجات دے دے۔ توبہ کرنے والا گنہگار جو پہلے خدا تعالیٰ سے دُور اور اس کے غضب کا نشانہ بنا ہوا تھا اب اس کے فضل سے اس کے قریب ہوتا اور جہنم اور عذاب سے دُور کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ(البقرۃ: 223)بیشک اﷲ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور ان لوگوں سے جو پاکیزگی کے خواہاں ہیں پیار کرتا ہے۔ اس آیت سے نہ صرف یہی پایا جاتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی توبہ کے ساتھ حقیقی پاکیزگی اور طہارت شرط ہے۔ ہر قسم کی نجاست اور گندگی سے الگ ہونا ضروری ہے ورنہ نری توبہ اور لفظ کے تکرار سے تو کچھ فائدہ نہیں ہے۔ پس جو دن ایسا مبارک دن ہو کہ انسان اپنی بد کر توتوں سے توبہ کر کے اﷲ تعالیٰ کے ساتھ سچا عہد صلح باندھ لے اور اس کے احکام کے لئے اپنا سر خم کر دے تو کیا شک ہے کہ وہ اس عذاب سے جو پوشیدہ طور پر اس کے بدعملوں کی پاداش میں تیار ہو رہا تھا بچایا جاوے گا اور اس طرح پر وہ وہ چیز پالیتا ہے جس کی گویا اسے توقع اور امید ہی نہ رہی تھی۔’’

(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ 148-149۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان)

پس حقیقی عید یہی ہے کہ جوپاک تبدیلیاں ہیں وہ پیدا کی جائیں، اپنی حالتوں کو بدلا جائے۔ پس اگر ہم نے یہ رمضان اس کوشش میں گزارا ہے کہ سچی توبہ کریں اور اپنی پوری کوشش بھی کی ہے تو ہمارے لئے ہر دن جو رمضان میں پاک تبدیلی پیدا کرتے ہوئے چڑھا تھا عید کا دن تھا لیکن اس کا اظہار ہم اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق آج کر رہے ہیں۔’’

(خطبہ عید الفطر فرمودہ 21؍ ستمبر 2009ء)

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے شفیق اور پیارے امام کی نصائح پر عمل کرتے ہوئے دائمی، حقیقی اوردنیا و عاقبت سنوارنے والی عید نصیب فرمائے۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button