خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 18؍دسمبر2020ء
حضرت علی بن ابی طالبؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پہلے دن یا دوسرے دن حضرت ابوبکر ؓکی بیعت کر لی تھی اور یہی سچ ہے کیونکہ حضرت علیؓ نے حضرت ابوبکر ؓکو کبھی نہیں چھوڑا اور نہ ہی انہوں نے حضرت ابوبکرؓ کے پیچھے نماز کی ادائیگی ترک کی
حضرت علی ؓکی اگر اَور تمام خوبیوں کو نظرانداز کر دیا جائے تو میرے نزدیک ایسی خطر ناک حالت میں ان کا خلافت کو منظور کر لینا ایسی جرأت اور دلیری کی بات تھی جو نہایت ہی قابل تعریف تھی کہ انہوں نے اپنی عزت اور اپنی ذات کی اسلام کے مقابلے میں کوئی پروا نہیں کی اور اتنا بڑا بوجھ اٹھا لیا۔ (المصلح الموعودؓ)
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفۂ راشد اور داماد ابو تراب، حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
میں پاکستان کے احمدیوں کو خاص طور پر یہ بھی کہوں گا کہ دعاؤں کی طرف جس طرح توجہ کی ضرورت ہے اس طرح توجہ کا ابھی بھی احساس نہیں ہے۔ پس پہلے سے بڑھ کر اور بہت بڑھ کر دعاؤں کی طرف توجہ دیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں جلد ان مشکلات سے نکالے اور آسانیاں پیدا فرمائے اور ہم حقیقی اسلام کا پیغام آزادی کے ساتھ پاکستان میں بھی اور دنیا کے ہر کونے میں بھی پہنچانے والے ہوں۔
الجزائر اور پاکستان میں احمدیوں کی شدید مخالفت کے پیش نظر خصوصی دعا کی مکرر تحریک
چار مرحومین ڈاکٹر طاہر احمد صاحب آف ربوہ ابن چودھری عبدالرزاق صاحب شہید سابق امیر ضلع نواب شاہ، مکرم حبیب اللہ مظہر صاحب ابن مکرم چودھری اللہ دتہ صاحب، مکرم خلیفہ بشیرالدین احمد صاحب ابن ڈاکٹر خلیفہ تقی الدین صاحب اور محترمہ امینہ احمد صاحبہ اہلیہ مکرم خلیفہ رفیع الدین احمد صاحب کا ذکرِ خیر اور نماز ِجنازہ غائب
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 18؍دسمبر2020ء بمطابق 18؍فتح1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾ اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر چل رہا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری بیماری میں آپؓ کی خدمت کا ذکر اس طرح ملتا ہے۔ بخاری میں روایت ہے کہ عبید اللہ بن عبداللہ نے بیان کیاکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی تھیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہو گئے اور آپؐ کی بیماری بڑھ گئی تو آپؐ نے اپنی ازواج سے اجازت لی کہ میرے گھر میں آپؐ کی تیمار داری کی جائے تو آپؐ کو انہوں نے اجازت دے دی۔ اس پر آپؐ دو آدمیوں کے درمیان نکلے۔ آپؐ کے پاؤں زمین پر لکیر ڈال رہے تھے اور آپؐ حضرت عباسؓ اور ایک دوسرے آدمی کے درمیان تھے یعنی حضرت عائشہؓ کے گھر میں ہی تھے اور وہیں سے آپؐ مسجد جانے کے لیے دوآدمیوں کا سہارا لے کر باہر آئے۔ عبیداللہ نے کہا کہ میں نے اس بات کا ذکر حضرت ابن عباسؓ سے کیا جو حضرت عائشہؓ نے کہی تھی تو انہوں نے کہا کیا تم جانتے ہو وہ کون آدمی تھے جس کا حضرت عائشہؓ نے نام لیا تھا ؟ میں نے کہا نہیں۔ ایک تو حضرت عباسؓ تھے جن کا حضرت عائشہؓ نے نام لیا تھا اور دوسرے آدمی جس کا نام نہیں لیا تھا انہوں نے کہا کہ وہ حضرت علی بن ابی طالبؓ تھے۔
(صحیح بخاری کتاب الاذان باب حد المریض ان یشھد الجماعۃ حدیث نمبر665)
حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی بن ابو طالبؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے آپؐ کی اس بیماری کے دوران جس میں آپؐ فوت ہوئے باہر نکلے۔ لوگوں نے پوچھا اے ابوالحسن! آج صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت کیسی ہے؟ انہوں نے کہا الحمد للہ۔ آج صبح آپ کی طبیعت اچھی ہے۔ اس پر حضرت عباس بن عبدالمطلبؓ نے حضرت علی ؓکا ہاتھ پکڑا اور کہا اللہ کی قسم ! تم تین دن کے بعد کسی اَور کے ماتحت ہو جاؤ گے کیونکہ بخدا میں دیکھ رہا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اس بیماری میں جلد فوت ہو جائیں گے کیونکہ موت کے وقت بنو عبدالمطلب کے چہروں کی مجھے خوب شناخت ہے۔ آؤ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلیں اور آپؐ سے پوچھیں کہ یہ معاملہ (یعنی خلافت) کن میں ہو گی؟ اگر ہمارے میں ہوئی تو ہمیں علم ہو جائے گا اور اگر یہ ہمارے علاوہ کسی اَور میں ہوئی تو بھی ہم یہ بات جان لیں گے اور آپؐ اس کے بارے میں ہمیں کوئی وصیت کر جائیں گے۔ حضرت علیؓ نے کہا: اللہ کی قسم! اگر ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات پوچھی اور آپؐ نے ہمیں یہ( اعزاز) نہ دیا تو آپؐ کے بعد لوگ ہمیں نہیں دیں گے۔ بخدا میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق نہیں پوچھوں گا۔
(صحیح البخاری ۔کتاب المغازی باب مرض النبیﷺ و وفاتہ حدیث 4447۔ترجمہ از حضرت سید زین العابدین ولی اللّٰہ شاہ صاحب جلد 9صفحہ 337-338)
یہ بھی بخاری کی روایت ہے۔ بخاری میں اس جگہ عربی الفاظ ہیں۔ أَنْتَ وَاللّٰهِ بَعْدَ ثَلَاثٍ عَبْدُالْعَصَا۔ اس کے متعلق حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب نے اپنی کتاب میں یہ نوٹ درج کیا ہے کہ یہ اس شخص کے لیے کنایہ کے طور پر استعمال ہوا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی اَور کے ماتحت ہو جائے گا اور مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تین دن کے بعد وفات ہو جائے گی۔
(صحیح بخاری مترجم از حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب جلد9صفحہ337 شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)
حضرت عامر سے روایت ہے کہ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت علیؓ، حضرت فضلؓ اور حضرت اسامہ بن زیدؓ نے غسل دیا اور انہی افراد نے آپؐ کو قبر میں اتارا اور ایک روایت میں یہ ہے کہ انہوں نے آپ کے ساتھ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓکو بھی داخل کیا۔
(سنن ابو دؤد کتاب الجنائز باب کم یدخل القبر حدیث3209)
حضرت علی ؓکی حضرت ابوبکر ؓکی بیعت کرنے کے بارے میں مختلف روایتیں آتی ہیں کیونکہ بعض روایات میں یہ ہے کہ حضرت علیؓ نے پوری رضا و رغبت کے ساتھ فوراً حضرت ابوبکر ؓکی بیعت کر لی تھی۔ بعض اس کے خلاف لکھتے ہیں۔ بہرحال حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت مروی ہے کہ مہاجرین و انصار نے حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کر لی تو حضرت ابوبکر ؓمنبر پر چڑھے تو انہوں نے لوگوں کی طرف دیکھا تو ان میں حضرت علی ؓکو نہ پایا۔ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت علیؓ کے بارے میں دریافت فرمایا۔ انصار میں سے کچھ لوگ گئے اور حضرت علیؓ کو لے آئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت علی ؓکو مخاطب کر کے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے بیٹے اور آپؐ کے داماد !کیاتم مسلمانوں کی طاقت کو توڑنا چاہتے ہو؟ حضرت علیؓ نے عرض کیا :اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ! گرفت نہ کیجیے۔ پھر انہوں نے حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کر لی۔
(سیرۃ امیر المؤمنین علی بن ابی طالب شخصیتہ و عصرہ ص 119۔ الفصل الثانی علی بن ابی طالب فی عھد الخلفاء الراشدین۔…الخ۔ دار المعرفۃ بیروت لبنان2006ء۔ السیرۃ النبویۃ لابن کثیر صفحہ 693 ۔ ذکر اعتراف سعد بن عبادۃ بصحۃ ما قالہ الصدیق یوم السقیفۃ۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2005ء)
تاریخ طبری میں ہے کہ حبیب بن ابوثابت سے یہ روایت ہے کہ حضرت علیؓ اپنے گھر میں تھے جب ان کے پاس ایک شخص آیا اور ان سے کہا گیا کہ حضرت ابوبکر ؓبیعت لینے کے لیے تشریف فرما ہیں۔ حضرت علی ؓقمیص پہنے ہوئے تھے۔ جلدی سے اس حالت میں باہر نکلے کہ نہ ہی ان پر ازار تھا اور نہ ہی کوئی چادر۔ آپ اس امر کو ناپسند کرتے ہوئے نکلے کہ کہیں اس سے دیر نہ ہو جائے یہاں تک کہ آپؓ نے حضرت ابوبکر ؓکی بیعت کی اور حضرت ابوبکرؓ کے پاس بیٹھ گئے۔ پھرآپؓ نے اپنے کپڑے منگوائے اور وہ کپڑے پہنے۔ پھر حضرت ابوبکرؓ کی مجلس میں ہی بیٹھے رہے۔
(تاریخ الطبری جزء 3 صفحہ 257۔حدیث السقیفۃ ۔ مطبوعہ دار الفکر لبنان2002ء)
علامہ ابن کثیر کہتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالبؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پہلے دن یا دوسرے دن حضرت ابوبکر ؓکی بیعت کر لی تھی۔ اور یہی سچ ہے کیونکہ حضرت علیؓ نے حضرت ابوبکر ؓکو کبھی نہیں چھوڑا ا ور نہ ہی انہوں نے حضرت ابوبکرؓ کے پیچھے نماز کی ادائیگی ترک کی۔
(السیرۃ النبویۃ لابن کثیر صفحہ 694، ذکر اعتراف سعد بن عبادۃ بصحۃ ما قالہ الصدیق یوم السقیفۃ۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2005ء)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام حضرت علیؓ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ نے اول اول حضرت ابوبکر ؓکی بیعت سے بھی تخلف کیا تھا مگر پھر گھر جا کر خدا جانے کیا خیال آیا کہ پگڑی بھی نہ باندھی اور فوراً ٹوپی سے ہی بیعت کرنے کو آ گئے اور پگڑی پیچھے منگوائی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دل میں خیال آ گیا ہو گا کہ یہ تو بڑی معصیت ہے۔ اس واسطے اتنی جلدی کی کہ پگڑی بھی نہ باندھی۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد10 صفحہ183 ایڈیشن 1984ء)
یعنی کپڑے بھی پورے نہیں پہنے اور جلدی جلدی آ گئے۔
دوسری قسم کی روایات میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہ ؓکی وفات کے بعد حضرت ابوبکر ؓکی بیعت کی تھی جیسا کہ بخاری میں ہے کہ حضرت علی ؓنے حضرت فاطمہؓ کی وفات تک بیعت نہیں کی تھی۔
(صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزوہ خیبرحدیث4240 )
جبکہ بہت سے علماء نے بخاری میں موجود اس روایت پر جرح کی ہے۔ چنانچہ امام بیہقی سنن الکبریٰ میں امام شہاب الدین زہری کی روایت کا ذکر کرتے ہوئے جس میں انہوں نے یہ ذکر کیا ہے کہ حضرت علیؓ نے حضرت ابوبکر ؓکی بیعت حضرت فاطمہ ؓکی وفات تک نہیں کی تھی،تحریر کرتے ہیں۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ امام زہری کی یہ بات کہ حضرت علیؓ حضرت ابوبکرؓ کی بیعت سے حضرت فاطمہ ؓکی وفات تک رکے رہے یہ منقطع قول ہے اور حضرت ابو سعید خدری ؓکی روایت زیادہ صحیح ہے جس میں یہ مذکور ہے کہ حضرت علیؓ نے سقیفہ کے بعد ہونے والی عام بیعت میں حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ پر بیعت کر لی تھی۔
(السنن الکبریٰ للبیہقی کتاب قسم الفیٔ و الغنیمۃ باب بیان مصرف اربعۃ اخماس الفیٔ بعد رسول اللّٰہ ﷺ … حدیث 12732)
اور بعض علماء نے بخاری میں موجود اس روایت کی تطبیق اس طرح سے کی ہے کہ اس دوسری بیعت کو تجدیدِ بیعت کا نام دیا ہے۔ شاید ان علماء کا یہ خیال ہو کہ آخر کوئی بات تو ہو گی اس لیے بخاری جیسی کتاب میں اس روایت کی اہمیت کے پیش نظر ضروری ہے کہ حضرت علی ؓکی اس دوسری بیعت کو کوئی نام دیا جائے۔ بہرحال یہ ضروری بھی نہیں ہے کہ بخاری کی سب روایات ٹھیک ہی ہوں۔ چنانچہ ڈاکٹر علی محمد صلابی اپنی کتاب سیرۃ امیر المومنین علی بن ابی طالب شخصیتہٗ وعَصْرُہٗ میں تحریر کرتے ہیں کہ علامہ ابن کثیر اور بہت سے اہل علم کے نزدیک حضرت علیؓ نے چھ ماہ بعد جب حضرت فاطمہ ؓکی وفات ہوئی اپنی بیعت کی تجدید کی ہے۔
( سیرۃ امیر المؤمنین علی بن ابی طالب شَخْصِیَّتُہٗ وَ عَصْرُہٗ صفحہ 121۔ المبحث الاول: علی بن ابی طالب فی عھد الصدیق …الخ۔ دار المعرفۃ بیروت 2006ء)
انہوں نے اس کا نام تجدیدِ بیعت رکھ دیا ہے کہ پہلے بیعت تو کر لی تھی اور حضرت فاطمہ ؓکی وفات کے بعد دوبارہ تجدید کی۔
علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ جب حضرت فاطمہ ؓکی وفات ہوئی تو حضرت علیؓ نے مناسب سمجھا کہ حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ اپنی بیعت کی تجدید کریں۔
(السیرۃ النبویۃ لابن کثیر صفحہ 694، ذکر اعتراف سعد بن عبادۃ بصحۃ ما قالہ الصدیق یوم السقیفۃ۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2005ء)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنی تصنیف ’سر الخلافۃ‘ میں بیان فرماتے ہیں یہ عربی کی کتاب ہے جس کا اردو ترجمہ یہ ہے کہ اگر ہم یہ فرض کر بھی لیں کہ صدیق اکبر ان لوگوں میں سے تھے (یہ ان کے بارے میں بیان فرما رہے ہیں جو حضرت ابوبکر صدیق ؓپر الزام لگاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس وقت حضرت علی ؓکو خلیفہ ہونا چاہیے تھا۔) اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ اگر ہم یہ فرض کر بھی لیں کہ صدیق اکبر ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے دنیا اور اس کی رعنائیوں کو مقدم کیا اور انہیں چاہا اور وہ غاصب تھے تو ایسی صورت میں ہم اس بات پر مجبور ہوں گے کہ پھر یہ بھی اقرار کریں کہ شیر خدا علی بھی منافقوں میں شامل تھے (نعوذ باللہ) اور جیسا کہ ہم ان کے متعلق خیال کرتے ہیں وہ دنیا کو تیاگ کر اللہ سے لَو لگانے والے نہ تھے بلکہ وہ دنیا اور اس کی دل فریبیوں پر گر پڑنے والے اور اس کی رعنائیوں کے فریفتہ تھے اور اسی وجہ سے آپ نے کافر مرتدوں کا ساتھ نہ چھوڑا (یعنی یہ کافر کہتے ہیں ناں۔ حضرت ابوبکرؓ کے بارے میں بہت سخت الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں) بلکہ مداہنت اختیار کرنے والوں کی طرح ان میں شامل رہے اور قریباً تیس سال کی مدت تک تقیہ اختیار کیے رکھا۔ پھر جب صدیق اکبر، علی رضی اللہ عنہ و اَرْضیٰ کی نگاہ میں کافر یا غاصب تھے تو پھر کیوں ان کی بیعت پر راضی ہوئے اور کیوں انہوں نے ظلم، فتنے اور ارتداد کی سرزمین سے دوسرے ممالک کی جانب ہجرت نہ کی؟ کیا اللہ کی زمین اتنی فراخ نہ تھی کہ وہ اس میں ہجرت کر جاتے جیسا کہ یہ تقویٰ شعاروں کی سنت ہے۔ وفا شعار ابراہیم کو دیکھو کہ وہ حق کی شہادت میں کیسے شدید القویٰ تھے، (بڑے باہمت نکلے) جب انہوں نے دیکھا کہ ان کا باپ گمراہ ہو گیا اور راہ حق سے بھٹک گیا ہے اور یہ دیکھا کہ ان کی قوم بتوں کو پوج رہی ہے اور وہ بزرگ و برتر رب کے تارک ہیں تو انہوں نے بلا کسی خوف کے اور ان کی پروا کیے بغیر ان سے منہ موڑ لیا۔ وہ آگ میں ڈالے گئے اور شریروں کے خوف سے تقیہ اختیار نہ کیا۔ یہ ہے نیکو کاروں کی سیرت کہ وہ شمشیروسناں سے نہیں ڈرتے اوروہ تقیہ کو گناہ کبیرہ اور بے حیائی اورتعدی تصور کرتے ہیں۔ اگر (بالفرض) ان سے اس قسم کی ذلیل حرکت ذرا سی بھی صادر ہو جائے تو وہ اللہ کی طرف استغفار کرتے ہوئے رجوع کرتے ہیں۔ ہمیں تعجب ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ صدیقؓ اور فاروقؓ کافر اور حقوق غصب کرنے والے ہیں، انہوں نے ان کی کیسے بیعت کر لی۔ وہ یعنی حضرت علیؓ ان دونوں کی معیت میں ایک لمبی عمر تک ساتھ رہے اور پورے اخلاص اور عقیدے سے ان دونوں کی اتباع کی اور اس میں نہ کبھی انہوں نے کمزوری دکھائی اور نہ ہی کسی کراہت کا اظہار فرمایا، نہ کوئی اور وجہ آڑے آئی اور نہ ہی آپؓ کے ایمانی تقویٰ نے آپؓ کو اس سے روکا۔ بایں ہمہ کہ آپؓ ان حضرات کے فساد ،کفر اور ارتداد سے آگاہ تھے۔ (علاوہ ازیں) آپ کے اور اقوام عرب کے درمیان نہ کوئی بند دروازہ تھا اور نہ ہی کوئی لمبا چوڑا پردہ اور نہ ہی آپ کوئی قیدی تھے۔ (ایسی صورت میں) آپ پر یہ واجب تھا کہ آپ کسی دوسرے عرب علاقے اور شرق اور غرب کے کسی حصہ کی جانب ہجرت فرما جاتے۔ (اگر ایسے حالات تھے، زبردستی تھی۔ کوئی زبردستی تو نہیںتھی۔ ہجرت کر سکتے تھے) اور لوگوں کو جنگ پر آمادہ کرتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ نہ صرف ہجرت کر جاتے بلکہ لوگوں کو جنگ پر آمادہ کرتے کہ یہ لوگ تو مرتد اور کافر ہیں ان کے خلاف جنگ کرو۔ اور بادیہ نشینوں کو لڑائی کی ترغیب دیتے اور اپنی فصاحت بیانی سے ان کو مسخر کرتے اور پھر مرتد ہونے والے لوگوں سے جنگ کرتے۔ پھر فرماتے ہیں کہ مسیلمہ کذاب کے گرد اندازاً ایک لاکھ بادیہ نشین جمع ہو گئے تھے جبکہ علی اس مدد کے زیادہ حقدار تھے اور اس مہم جوئی کے لیے زیادہ مناسب تھے۔ پھر کیوں آپ یعنی حضرت علی ؓ کافروں کے پیچھے لگ گئے، یعنی پہلے خلفاء کے جن کو تم کافر کہتے ہو۔ آپ برسر اقتدار ہوئے مگر سست لوگوں کی طرح بیٹھے رہے اور مجاہدوں کی طرح اٹھ کھڑے نہ ہوئے۔ وہ کون سی بات تھی جس نے آپ کو اقبال وعروج کی تمام علامات ہوتے ہوئے بھی اس خروج سے روکے رکھا، ان باتوں سے روکے رکھا۔ آپ جنگ و جدل اور حق کی تائید اور لوگوں کو دعوت دینے کے لیے کیوں نہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ کیا آپ قوم کے سب سے فصیح و بلیغ واعظ اور ان لوگوں میں سے نہ تھے جو کلام میں روح پھونک دیا کرتے ہیں۔ اپنی بلاغت اور حسن بیان کے زور سے اور سامعین کے لیے اپنی قوت تاثیر سے لوگوں کو اپنے گرد جمع کر لینا آپ کے لیے محض ایک گھنٹہ بلکہ اس سے بھی کم تر وقت کا کام تھا۔ اور جب لوگ ایک کاذب دجال کے گرد جمع ہو گئے تو شیر خدا کی کیفیت تو کچھ اور ہی ہونی چاہیے تھی جو بڑے بڑے کام کرنے والے رب کا تائید یافتہ اور رب العالمین کا محبوب تھا۔ پھر عجیب تر اور حیران کن بات یہ ہے کہ آپ نے صرف مبائعین میں سے ہونے پر اکتفا نہیں فرمایا۔یعنی یہی نہیں کیا کہ صرف بیعت کر لی، بلکہ ہر نماز شیخین (یعنی ابوبکرؓ اور عمرؓ )کے پیچھے ادا کی اور کسی وقت بھی اس میں تخلّف نہ فرمایا اور نہ ہی شکوہ کرنے والوں کی طرح اس سے گریز کیا۔ آپؓ ان کی شوریٰ میں شامل ہوئے اور ان کے دعویٰ کی تصدیق کی اور اپنی پوری ہمت اور پوری طاقت سے ان کی مدد کی اور کبھی پیچھے نہ ہٹے۔ اس لیے غور کرو اور بتاؤ کہ کیا ستم رسیدوں اور مکفروں کی یہی نشانیاں ہوتی ہیں؟ اور پھر اس بات پر بھی غور کرو کہ کذب و افترا کا علم ہونے کے باوجود وہ یعنی حضرت علی ؓکاذبوں کی اتباع کرتے رہے گویا کہ صدق و کذب ان کے نزدیک یکساں تھے۔ آپ حضرت علیؓ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ کیا حضرت علیؓ یہ نہیں جانتے تھے کہ جو لوگ قادر و توانا ذات پر توکل کرتے ہیں وہ ایک لحظہ کے لیے بھی مداہنت کی راہ کو اہمیت نہیں دیتے خواہ انہیں سچائی کی خاطر جلا دیا جائے، ہلاکت میں ڈال دیا جائے اور پارہ پارہ کر دیا جائے۔
( سر الخلافہ، روحانی خزائن جلد 8صفحہ349تا351۔ اردو ترجمہ ماخوذ از سرالخلافہ صفحہ 86تا 91۔ شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)
پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے واضح فرما دیا کہ حضرت علی ؓنے کبھی بھی اپنے سے پہلے خلفاء کی مخالفت نہیں کی تھی بلکہ ان کی بیعت کی ورنہ جو باتیں تم حضرت علیؓ کے بارے میں کہتے ہو کہ انہوں نے حضرت ابوبکر ؓکی بیعت نہیں کی یہ بات تو حضرت علیؓ کے مقام کو گراتی ہے نہ کہ بڑھاتی ہے۔
خلفائے ثلاثہ کے دور میں حضرت علی ؓکی کیا خدمات تھیں یعنی آپ سے پہلے جو تین خلفاء گزرے ہیں۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو عرب کے بہت سے قبائل مرتد ہو گئے اور مدینہ میں بھی منافقین نے سر اٹھایا اور بنو حَنِیفہاور یَمَامہکے بہت زیادہ لوگ مسیلمہ کذاب کے ساتھ مل گئے جبکہ قبیلہ بنو اسد اور طے اور دیگر بہت سے لوگ طُلَیْحَہ اَسَدِیکے گرد اکٹھے ہو گئے۔ اس نے بھی مسیلمہ کی طرح نبوت کا دعویٰ کر دیا تھا۔ مصیبت بہت بڑھ گئی اور صورتحال بشدت بگڑ گئی۔ ایسے میں جب حضرت ابوبکرؓ نے حضرت اسامہؓ کے لشکر کو روانہ کیا تو آپؓ کے پاس بہت کم لوگ رہ گئے تھے۔ اس پر بہت سے بدوؤں کا مدینہ پر قبضہ کے لیے دل للچایا اور انہوں نے مدینہ پر حملہ آور ہونے کا منصوبہ بنایا۔ اس پر حضرت ابوبکر صدیق ؓنے مدینہ میں داخل ہونے والے مختلف راستوں پر مدینہ کے ارد گرد پہرے دار مقرر کر دیے جو اپنے دستوں کے ساتھ مدینہ کے ارد گرد پہرہ دیتے ہوئے رات گزارتے تھے۔ ان پہرہ داروں کے نگرانوںمیں سے حضرت علی بن ابی طالبؓ، زبیر بن عوامؓ، طلحہ بن عبداللہؓ، سعد بن ابی وقاصؓ، عبدالرحمٰن بن عوفؓ اور عبداللہ بن مسعودؓ تھے۔
(البدایۃ والنہایۃ جزء7 صفحہ307-308 دارالکتب العلمیة بیروت 2001ء)
یعنی فوج کا جو ایک حصہ تھا، جو حفاظت کے لیے مقرر کیا گیا تھا حضرت علیؓ اس وقت بھی اس کے نگران تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی جب عام خبر پھیلی تو عرب کے اکثر قبائل مرتد ہو گئے اور ادائیگی زکوٰة سے پہلو تہی کرنے لگے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ان سے جنگ کرنے کا ارادہ کیا۔ عروہ کا بیان ہے کہ حضرت ابوبکرؓ مہاجرین و انصار کو ساتھ لے کر مدینہ سے روانہ ہوئے اور جب نجد کے بلند علاقے کے بالمقابل ایک تالاب پر پہنچے تو بدو وہاں سے اپنے بال بچوں سمیت بھاگ کھڑے ہوئے۔ اصل میں تو یہ ہے کہ ایک طرف مسلمان ہونے کا بھی دعویٰ تھا، پوری طرح مرتد بھی نہیں تھے اور دوسری طرف زکوٰة دینے سے بھی انکاری تھے اس لیے جنگ کی گئی تھی۔ یہ نہیں ہے کہ مرتد ہونے کی وجہ سے ان کو سزا مل رہی تھی۔ اس پر جب وہ بھاگ کھڑے ہوئے تو اس پر لوگوں نے حضرت ابوبکرؓ سے عرض کیا کہ اپنے بچوں اور عورتوں کے پاس واپس مدینہ لَوٹ چلیں اور لشکر پر کسی شخص کو امیر بنا دیں۔ لوگوں کے اصرار پر آپؓ نے حضرت خالد بن ولید ؓکو امیر لشکر مقرر کیا اور ان سے فرمایا کہ اگر وہ لوگ اسلام لے آئیں اور زکوٰة دیں تو تم میں سے جو واپس آنا چاہے یعنی بیعت میں آ جائیں اور زکوٰة دیں تو جو واپس آنا چاہے وہ آ جائے۔ اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ مدینہ لَوٹ آئے۔
(تاریخ الخلفاء از جَلَالُ الدِّیْن عَبْدُالرَّحْمٰن بنِ اَبِی بَکر السُّیُوطِی صفحہ 61 الخلیفۃ الاول ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ، فصل فی ما وقع فی خلافتہ)
حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’تاریخ سے ثابت ہے کہ حضرت عمرؓ نے اپنے زمانہ خلافت میں بعض سفروں کے پیش آنے پر حضرت علیؓ کو اپنی جگہ مدینہ کا امیر مقرر فرمایا تھا۔ چنانچہ تاریخ طبری میں لکھا ہے کہ واقعہ جِسر کے موقع پر جو مسلمانوں کو ایرانی فوجوں کے مقابلہ پر ایک قسم کی زک اٹھانی پڑی تو حضرت عمرؓ نے لوگوں کے مشورہ سے ارادہ کیا کہ آپ خود اسلامی فوج کے ساتھ ایران کی سرحد پر تشریف لے جائیں تو آپ نے اپنے پیچھے حضرت علیؓ کو مدینہ کا گورنر مقرر کیا۔‘‘
(حق الیقین ، انوار العلوم جلد 9 صفحہ 383-384)
حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’سب سے بڑی اور ہولناک شکست جو اسلام کو پیش آئی وہ جنگ جسر تھی۔ ایرانیوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کا زبردست لشکر گیا۔ ایرانی سپہ سالار نے دریا پار اپنے مورچے بنائے اور ان کا انتظار کیا۔ اسلامی لشکر نے جوش میں بڑھ کر ان پر حملہ کیا اور دھکیلتے ہوئے آگے نکل گئے مگر یہ ایرانی کمانڈر کی چال تھی۔ اس نے ایک فوج بازو سے بھیج کر‘‘ یعنی ایک سائیڈ سے بھیج کر ’’پل پر قبضہ کر لیا اور تازہ حملہ مسلمانوں پر کر دیا۔ مسلمان مصلحتاً پیچھے لوٹے مگر دیکھا کہ پل پر دشمن کا قبضہ ہے۔ گھبرا کر دوسری طرف ہوئے تو دشمن نے شدید حملہ کر دیا اور مسلمانوں کی بڑی تعداد دریا میں کودنے پر مجبور ہو گئی اور ہلاک بھی ہو گئی۔ مسلمانوں کا یہ نقصان ایسا خطر ناک تھا کہ مدینہ تک اس سے ہل گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مدینہ والوں کو جمع کیا اور فرمایا اب مدینہ اور ایران کے درمیان کوئی روک باقی نہیں۔ مدینہ بالکل ننگا ہے اور ممکن ہے کہ دشمن چند دنوں تک یہاں پہنچ جائے اس لئے میں خود کمانڈر بن کر جانا چاہتا ہوں۔ باقی لوگوں نے تو اس تجویز کو پسندکیا مگر حضرت علیؓ نے کہا کہ اگر خدانخواستہ آپؓ کام آ گئے‘‘ شہید ہو گئے ’’تو مسلمان تتر بتر ہو جائیں گے اور ان کا شیرازہ بالکل منتشر ہو جائے گا۔ اس لئے کسی اور کو بھیجنا چاہئے آپ خود تشریف نہ لے جائیں۔ اس پر حضرت عمرؓ نے حضرت سعدؓ کو جو شام میں رومیوں سے جنگ میں مصروف تھے لکھا کہ تم جتنا لشکر بھیج سکتے ہو بھیج دو کیونکہ اس وقت مدینہ بالکل ننگا ہو چکا ہے اور اگر دشمن کو فوری طور پر نہ روکا گیا تو وہ مدینہ پر قابض ہو جائے گا۔‘‘
(مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع .. میں بعض اہم ہدایت ، انوار العلوم جلد 22 صفحہ56-57 )
حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت میں فتنہ و فساد ہوا تو حضرت علیؓ نے ان کا رفع کرنے کے لیے ان کو مخلصانہ مشورے دیے۔ ایک دفعہ حضرت عثمانؓ نے ان سے پوچھا کہ ملک میں موجود شورش اور ہنگامے کی حقیقی وجہ اور اس کے رفع کرنے کی صورت کیا ہے؟ انہوں نے (حضرت علیؓ نے)نہایت خلوص اور آزادی سے ظاہر کر دیا کہ موجودہ بے چینی تمام تر آپؓ کے عمال کی بے اعتدالیوں کا نتیجہ ہے۔ حضرت عثمانؓ نے فرمایا کہ میں نے عُمَّالکے انتخاب میں انہی صفات کو ملحوظ رکھا ہے جو حضرت عمر ؓکے پیش نظر تھے پھر ان سے عام بیزاری کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ حضرت علی ؓنے فرمایا ہاں یہ صحیح ہے لیکن حضرت عمرؓ نے سب کی تکمیل اپنے ہاتھ میں دے رکھی تھی اور گرفت ایسی سخت تھی کہ عرب کا سرکش سے سرکش اونٹ بھی بلبلا اٹھتا۔ بڑی سختی سےنگرانی رکھی ہوئی تھی ۔ برخلاف اس کے آپؓ ضرورت سے زیادہ نرم ہیں۔ آپ کے عُمَّالاس نرمی سے فائدہ اٹھا کر من مانی کارروائیاں کرتے ہیں اور آپ کو اس کی خبر بھی نہیں ہونے پاتی۔ رعایا سمجھتی ہے کہ عُمَّالجو کچھ کرتے ہیں وہ سب دربار خلافت کے احکام کی تکمیل ہے۔ اس طرح تمام بے اعتدالیوں کا ہدف آپ کو بننا پڑتا ہے۔
جب مصریوں نے حضرت عثمانؓ کے گھر کا محاصرہ کر لیا اور اس قدر شدت اختیار کی کہ کھانے پینے سے بھی محروم کر دیا۔ حضرت علی ؓکو معلوم ہوا تو محاصرہ کرنے والوں کے پاس گئے اور فرمایا تم لوگوں نے جس قسم کا محاصرہ قائم کیا ہے وہ نہ صرف اسلام بلکہ انسانیت کے بھی خلاف ہے۔ کفار بھی مسلمانوں کو قید کر لیتے ہیں تو کھانے پینے سے محروم نہیں کرتے۔ حضرت عثمانؓ کے بارے میں فرمایا کہ اس شخص نے تمہارا کیا نقصان کیا ہے جو ایسی سختی روا رکھتے ہو۔ محاصرین نے حضرت علی ؓکی سفارش کی کچھ پروا نہیں کی اور محاصرے میں سہولت پیدا کرنے سے قطعی انکار کر دیا۔ حضرت علیؓ غصہ میں اپنا عمامہ پھینک کر واپس چلے گئے۔
(ماخوذ ازسیر الصحابہ جلد 1صفحہ207-208 امیرالمومنین حضرت علی مرتضیٰ ؓ اسلامی کتب خانہ اردو بازار لاہور)
لوگوں نے حضرت عثمانؓ کے گھر کا محاصرہ کر لیا۔ ان کا پانی بند کر دیا۔ اس پر آپؓ نے (حضرت عثمانؓ نے) اوپر سے جھانک کر دیکھا۔ انہوں نے کہا کیا تم لوگوں میں علیؓ ہے؟ لوگوں نے کہا نہیں۔ پھر پوچھا سعدؓ ہیں؟ جواب ملا نہیں۔ پھر کچھ دیر خاموش رہ کر حضرت عثمانؓ نے کہا کیا تم میں سے کوئی ہے جو علیؓ سے جا کر کہے کہ وہ ہمیں پانی پلائیں۔ حضرت علی ؓکو یہ اطلاع ہوئی تو انہوں نے پانی کی بھری ہوئی تین مشکیں آپ کے گھر روانہ کیں مگر باغیوں کی مزاحمت کی وجہ سے یہ مشکیں حضرت عثمانؓ کے گھر نہیں پہنچ رہی تھیں، ان کو لے جانے نہیں دے رہے تھے۔ ان مشکوں کو پہنچانے کی کوشش میں بَنُوہَاشِم اور بَنُو اُمَیَّہکے کئی غلام زخمی ہوئے تاہم پانی آخر کار حضرت عثمانؓ کے گھر پہنچ گیا۔
حضرت علی ؓکو جب معلوم ہوا کہ حضرت عثمانؓ کے قتل کا منصوبہ ہے تو آپؓ نے اپنے صاحبزادوں امام حسنؓ اور امام حسینؓ سے فرمایا: اپنی تلواریں لے کر جاؤ اور حضرت عثمانؓ کے دروازے پر کھڑے ہو جاؤ اور خبردار کوئی بلوائی آپؓ تک پہنچنے نہ پائے۔ یہ دیکھ کر باغیوں نے حضرت عثمانؓ کے گھر کے دروازے پر تیر اندازی شروع کر دی جس سے حضرت حسنؓ اور محمد بن طلحہ لہولہان ہو گئے۔ اسی اثنا میں محمد بن ابوبکر دو ساتھیوں سمیت ایک انصاری کے گھر کی طرف سے چھپ کر حضرت عثمانؓ کے گھر میں کودے اور آپؓ کو شہید کر دیا۔ جب یہ خبر حضرت علی ؓکو پہنچی تو آپؓ نے آ کر دیکھا کہ حضرت عثمانؓ واقعی شہید کر دیے گئے ہیں۔ اس پر آپؓ نے اپنے بیٹوں سے پوچھا۔ تم دونوں کے دروازے پر پہرہ دار ہونے کے باوجود حضرت عثمان ؓکس طرح شہید کر دیے گئے؟ یہ کہہ کر آپؓ نے حضرت حسن ؓکو تھپڑ مارا اور حضرت حسینؓ کے سینے پر ہاتھ مارا اور محمد بن طلحہ اور عبداللہ بن زبیر کو برا بھلا کہا اور غصہ کی حالت میں وہاں سے آپ گھر لَوٹ آئے۔
(تاریخ الخلفاء از جَلَالُ الدِّیْن عَبْدُالرَّحْمٰن بنِ اَبِی بَکر السُّیُوطِی صفحہ 123-124دارالکتاب العربی بیروت لبنان 1999ء)
شدّاد بن اوس بیان کرتے ہیں کہ یَوْمُ الدَّارکو جب حضرت عثمانؓ کے محاصرے نے شدت اختیار کر لی۔ (یوم الدار اس دن کو کہاجاتا ہے جس دن حضرت عثمان ؓکو باغیوں نے اپنے گھر میں محصور کر کے انتہائی بے دردی سے شہید کر دیا تھا) تو حضرت عثمانؓ نے لوگوں کو جھانک کر دیکھا اور فرمایا اے اللہ کے بندو! راوی کہتے ہیں اس پر میں نے دیکھا کہ حضرت علیؓ اپنے گھر سے باہر نکل رہے ہیں اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمامہ باندھا ہوا ہے اور اپنی تلوار لٹکائی ہوئی ہے۔ ان کے آگے مہاجرین و انصار کا گروہ تھا جس میں حضرت حسنؓ اور حضرت عبداللہ بن عمر ؓبھی تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے باغیوں پر حملہ کر کے انہیں وہاں سے ہٹا دیا۔ پھر یہ لوگ حضرت عثمانؓ کے گھر میں داخل ہوئے اور حضرت علیؓ نے عرض کی کہ اے امیر المومنین آپ پر سلامتی ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دین کی بلندی اور مضبوطی اس وقت حاصل ہوئی جب آپ نے ماننے والوں کو ساتھ لے کر منکرین سے جنگ کی۔ بخدا میں دیکھتا ہوں کہ یہ لوگ آپ کو ضرور قتل کرنے والے ہیں۔ پس آپ ہمیں ان سے لڑائی کرنے کا حکم دیں۔ اس پر حضرت عثمانؓ نے فرمایا ہر اس شخص کو جو اللہ کو حق سمجھتا ہے اور اقرار کرتا ہے کہ میرا اس پر حق ہے میں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ وہ میری خاطر نہ کسی کا سینگی برابر خون بہائے اور نہ میری خاطر اپنا خون بہائے۔ حضرت علیؓ نے دوبارہ وہی درخواست کی جس پر حضرت عثمانؓ نے وہی جواب دیا۔ راوی کہتے ہیں اس پر میں نے حضرت علی ؓکو حضرت عثمانؓ کے گھر سے نکلتے ہوئے دیکھا جبکہ وہ کہہ رہے تھے کہ اے اللہ! تُو جانتا ہے کہ ہم نے اپنی تمام کوششیں صرف کر ڈالی ہیں۔ پھر آپ مسجد نبویؐ میں تشریف لائے نماز کا وقت ہو چکا تھا۔ لوگوں نے آپ سے کہا اے ابوالحسن !آگے بڑھیں اور لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ میں تم لوگوں کو نماز نہیں پڑھا سکتا جبکہ امام محصور ہے، میں اکیلے نماز پڑھ لوں گا۔ پھر آپؓ تنہا نماز پڑھ کر واپس چلے گئے۔ حضرت علی ؓکا بیٹا آیا اور اس نے آپ سے کہا اے میرے باپ! بخدا مخالفین نے حضرت عثمانؓ کے گھر پر حملہ کر دیاہے۔ حضرت علیؓ نے کہا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ خدا کی قسم! وہ انہیں قتل کر دیں گے۔ لوگوں نے حضرت علیؓ سے پوچھا حضرت عثمانؓ کہاں ہوں گے یعنی شہادت کے بعد۔ فرمایا اللہ کی قسم! جنت میں۔ لوگوں نے پوچھا اور یہ لوگ کہاں ہوں گے جنہوں نے قتل کیا ہے اے ابوالحسن! یہ لوگ کہاں ہوں گے؟ حضرت علیؓ نے فرمایا: خدا کی قسم! آگ میں۔ آپؓ نے تین بار یہ کہا۔
( ریاض النضرہ فی مناقب العشرہ جلد 3صفحہ 68-69 الباب الثالث: في مناقب أمير المومنين عثمان بن عفان رضي اللّٰه عنه۔ الفصل الحادي عشر: في مقتله وما يتعلق به۔ دار الكتب العلمية1984ء)
باغیوں نے جب مدینے کا محاصرہ کر لیا تو ان حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مصلح موعوؓد بیان فرماتے ہیں کہ ’’اہل مصر حضرت علیؓ کے پاس گئے ۔وہ اس وقت مدینہ سے باہر ایک حصہ لشکر کی کمان کر رہے تھے اور اس کا سر کچلنے پر آمادہ کھڑے تھے۔ ان لوگوں نے آپؓ کے پاس پہنچ کر عرض کیا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بدانتظامی کے باعث اب خلافت کے قابل نہیں ہم ان کو علیحدہ کرنے کے لئے آئے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ آپؓ ان کے بعد اس عہدے کو قبول کریں گے۔ انہوں نے ان کی بات سن کر اس غیرت دینی سے‘‘ یعنی حضرت علی نے منافقین کی بات سن کر ’’اس غیرت دینی سے کام لے کر جو آپؓ کے رتبہ کے آدمی کا حق تھاان لوگوں کو دھتکار دیا اور بہت سختی سے پیش آئے اور فرمایا کہ سب نیک لوگ جانتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی کے طور پر ذُوْالْمَرْوَہ اور ذُو خُشُب (جہاں ان لوگوں کا ڈیرہ تھا) پر ڈیرہ لگانے والے لشکروں کا ذکر فرما کر ان پر لعنت فرمائی تھی۔ (البدایۃ والنہایۃ جزء 7 صفحہ 174 مطبوعہ بیروت 1966ء) پس خدا تمہارا برا کرے تم واپس چلے جاؤ۔ اس پر ان لوگوں نے کہا بہت اچھا۔ ہم واپس چلے جائیں گے اور یہ کہہ کر واپس چلے گئے۔‘‘
(اسلام میں اختلافات کا آغاز ، انوار العلوم جلد 4صفحہ 299)
حضرت عثمان ؓکی شہادت اور اس کے بعد حضرت علی ؓکی جو بیعت خلافت ہے اس کے بارے میں ذکر کہیں پہلے بھی میں ایک دفعہ مختصر بیان کر چکا ہوں ۔ بہرحال پہلے تفصیل سے کیا تھا۔ اب یہاں تھوڑا سا واقعہ مختصر بتا دیتا ہوں۔ جب حضرت عثمانؓ شہید ہوئے تو تمام لوگ حضرت علی ؓکی طرف دوڑتے ہوئے آئے جن میں صحابہ اور دیگر لوگ بھی شامل تھے۔ وہ سب یہی کہہ رہے تھے کہ علی امیرالمومنین ہیں۔ وہ آپ کے پاس آپ کے گھر حاضر ہوئے اور کہا کہ ہم آپ کی بیعت کرتے ہیں آپ اپنا ہاتھ بڑھائیں کیونکہ آپ اس بات کے سب سے زیادہ حقدار ہیں۔ اس پر حضرت علیؓ نے فرمایا یہ تمہارا کام نہیں ہے بلکہ یہ اصحابِ بدر کا کام ہے۔ پس جس کے بارے میں اصحاب بدر راضی ہوں گے وہی خلیفہ ہو گا۔ اس پر سبھی لوگ حضرت علی ؓکی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ ہم کسی کو آپ سے زیادہ اس بات کا حقدار نہیں سمجھتے۔ پس اپنا ہاتھ بڑھائیں کہ ہم آپ کی بیعت کریں۔ آپؓ نے فرمایا طلحہؓ اور زبیر کہاں ہیں۔پھر سب سے پہلے حضرت طلحہؓ نے آپؓ کی زبانی بیعت کی اور سب سے پہلے حضرت سعدؓ نے آپؓ کی دستی بیعت کی۔ جب حضرت علیؓ نے یہ دیکھا تو آپؓ مسجد کی طرف نکلے اور منبر پر چڑھے۔ حضرت طلحہ ؓسب سے پہلے شخص تھے جو حضرت علی ؓکی طرف منبر پر چڑھے اور آپؓ کی بیعت کی ان کے بعد حضرت زبیرؓ نے بیعت کی اور پھر باقی صحابہؓ نے بیعت کی۔
(اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ لابن اثیر جلد 04 صفحہ107 ذکر علی بن ابی طالب، دارالکتب العلمیۃ لبنان 2008ء)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد کے واقعات کا جو تذکرہ کیا ہے اس میں جس طرح آپؓ نے بیان فرمایا وہ یوں ہے کہ جب حضرت عثمان ؓکو شہید کردیا گیا تو مفسدوں نے بیت المال کو لوٹا اور اعلان کر دیا کہ جو مقابلہ کرے گا قتل کر دیا جائے گا۔ لوگوں کو جمع نہیں ہونے دیا جاتا تھا، کوئی اکٹھا نہیں ہو سکتا تھا۔ جس طرح آج کل دفعہ 144لگتی ہے اس طرح لگا دی تھی اور مدینہ کا انہوں نے سخت محاصرہ کر رکھا تھا اور کسی کو باہر نہیں نکلنے دیا جاتا تھا یا کہنا چاہیے کرفیو جس طرح لگتا ہے اس طرح لگا دیا تھا حتی کہ حضرت علیؓ جن کی محبت کا وہ لوگ دعویٰ کرتے تھے ان کو بھی روک دیا گیا تھا اور مدینہ میں خوب لوٹ مچائی۔ ادھر تو یہ حالت تھی اور ادھر انہوں نے اپنی قساوتِ قلبی کا یہاں تک ثبوت دیا کہ حضرت عثمانؓ جیسے مقدس انسان کو جن کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی تعریف کی ہے قتل کرنے کے بعد بھی نہ چھوڑا اور لاش کو تین چار دن تک دفن نہ کرنے دیا۔ آخر چند صحابہؓ نے مل کر رات کو پوشیدہ طور پر دفن کیا۔ حضرت عثمانؓ کے ساتھ ہی کچھ غلام بھی شہید ہوئے تھے۔ ان کی لاشوں کو دفن کرنے سے روک دیا اور کتوں کے آگے ڈال دیا۔ حضرت عثمانؓ اور غلاموں کے ساتھ یہ سلوک کرنے کے بعد مفسدوں نے مدینہ کے لوگوں کو جن کے ساتھ ان کی کوئی مخالفت نہ تھی چھٹی دے دی اور صحابہؓ نے وہاں سے بھاگنا شروع کر دیا۔ پانچ دن اسی طرح گزر گئے کہ مدینہ کا کوئی حاکم نہ تھا۔ مفسد اس کوشش میں لگے ہوئے تھے کہ کسی کو خود خلیفہ بنائیں اور جس طرح چاہیں اس سے کرائیں لیکن صحابہ میں سے کسی نے یہ برداشت نہ کیا کہ وہ لوگ جنہوں نے حضرت عثمان ؓکو قتل کیا ہے ان کا خلیفہ بنے۔ مفسد حضرت علیؓ، طلحہؓ اور زبیرؓ کے پاس باری باری گئے اور انہیں خلیفہ بننے کے لیے کہا مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ جب انہوں نے انکار کر دیا اور مسلمان ان کی موجودگی میں اَور کسی کو خلیفہ نہیں مان سکتے تھے تو مفسدوں نے ان کے متعلق بھی جبر سے کام لینا شروع کر دیا کیونکہ انہوں نے خیال کیا کہ اگر کوئی خلیفہ نہ بنا تو تمام عالم اسلامی میں ہمارے خلاف ایک طوفان برپا ہو جائے گا۔ انہوں نے اعلان کر دیا کہ اگر دو دن کے اندر اندر کوئی خلیفہ بنا لیا جائے تو بہتر ورنہ ہم علیؓ، طلحہؓ اور زبیرؓ اور سب بڑے بڑے لوگوں کو قتل کردیں گے۔ اس پر مدینہ والوں کو خطرہ پیدا ہوا کہ وہ لوگ جنہوں نے حضرت عثمان ؓکو قتل کر دیا وہ ہم سے اور ہمارے بچوں اور عورتوں سے کیا کچھ نہ کریں گے۔ وہ حضرت علیؓ کے پاس گئے اور انہیں خلیفہ بننے کے لیے کہا مگر انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ اگر میں خلیفہ ہوا تو تمام لوگ یہی کہیں گے کہ میں نے عثمانؓ کو قتل کرایا ہے اور یہ بوجھ مجھ سے نہیں اٹھ سکتا۔ یہی بات حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ نے کہی اور صحابہ نے بھی جن کو خلیفہ بننے کے لیے کہا گیا انکار کر دیا۔ آخر سب لوگ پھر علیؓ کے پاس گئے اور کہا جس طرح بھی ہو آپؓ یہ بوجھ اٹھائیں۔ آخر انہوں نے کہا کہ میں اس شرط پر یہ بوجھ اٹھاتا ہوں کہ سب لوگ مسجد میں جمع ہوں اور مجھے قبول کریں۔ چنانچہ لوگ جمع ہوئے اور انہوں نے قبول کیا مگر بعض نے اس پر انکار کر دیا کہ جب تک حضرت عثمانؓ کے قاتلوں کو سزا نہ دی جائے اس وقت تک ہم کسی کو خلیفہ نہیں مانیں گے اور بعض نے کہا جب تک باہر کے لوگوں کی رائے نہ معلوم ہو جائے کوئی خلیفہ نہیں ہونا چاہیے مگر ایسے لوگوں کی تعداد بہت قلیل تھی۔ اس طرح حضرت علیؓ نے خلیفہ بننا تو منظور کر لیا مگر وہی نتیجہ ہوا جس کا انہیں خطرہ تھا۔ تمام عالم اسلامی نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ علیؓ نے عثمانؓ کو قتل کرایا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت علی ؓکی اگر اَور تمام خوبیوں کو نظرانداز کر دیا جائے تو میرے نزدیک ایسی خطر ناک حالت میں ان کا خلافت کو منظور کر لینا ایسی جرأت اور دلیری کی بات تھی جو نہایت ہی قابل تعریف تھی کہ انہوں نے اپنی عزت اور اپنی ذات کی اسلام کے مقابلے میں کوئی پروا نہیں کی اور اتنا بڑا بوجھ اٹھا لیا۔
(ماخوذ از واقعات خلافت علوی ، انوار العلوم جلد 4صفحہ 635-637)
پھر حضرت مصلح موعوؓد حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد کے واقعات میں ایک اَور جگہ ذکر کرتے ہوئے اس طرح فرماتے ہیں کہ ’’ایک دو دن تو خوب لوٹ مار کا بازار گرم رہا لیکن جب جوش ٹھنڈا ہوا تو ان باغیوں کو اپنے انجام کا فکر ہوا اور ڈرے کہ اب کیا ہو گا۔ چنانچہ بعض تو یہ سمجھ کر کہ حضرت معاویہؓ ایک زبردست آدمی ہیں اور ضرور اس قتل کا بدلہ لیں گے شام کا رخ کیا اور وہاں جا کر خود ہی واویلا کرنا شروع کر دیا کہ حضرت عثمانؓ شہید ہو گئے اور کوئی ان کا قصاص نہیں لیتا۔ کچھ بھاگ کر مکہ کے راستے میں حضرت زبیرؓ اور حضرت عائشہؓ سے جا ملے اور کہا کہ کس قدر ظلم ہے کہ خلیفہ اسلام شہید کیا جائے اور مسلمان خاموش رہیں۔ کچھ بھاگ کر حضرت علیؓ کے پاس پہنچے اور کہا کہ اس وقت مصیبت کا وقت ہے اسلامی حکومت کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہے آپؓ بیعت لیں تا لوگوں کا خوف دور ہو اور امن و امان قائم ہو۔ جو صحابہ مدینہ میں موجود تھے انہوں نے بھی بالاتفاق یہی مشورہ دیا کہ اس وقت یہی مناسب ہے کہ آپؓ اس بوجھ کو اپنے سر پر رکھیں کہ آپؓ کا یہ کام موجب ثواب و رضائے الٰہی ہو گا۔ جب چاروں طرف سے آپؓ کو مجبور کیا گیا تو کئی دفعہ انکار کرنے کے بعد آپؓ نے مجبوراً اس کام کو اپنے ذمہ لیا اور بیعت لی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت علیؓ کا یہ فعل بڑی حکمت پر مشتمل تھا۔ اگر آپؓ اس وقت بیعت نہ لیتے تو اسلام کو اس سے بھی زیادہ نقصان پہنچتا جو آپ کی اور حضرت معاویہ کی جنگ سے پہنچا۔‘‘
(انوار خلافت ، انوار العلوم جلد3صفحہ 197-198)
یہ حضرت مصلح موعودؓ نے نتیجہ نکالا ہے۔ پھر حضرت مصلح موعود ؓ بیان فرماتے ہیں کہ یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کے متعلق جو یہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کو توڑا یہ غلط مثال ہے۔ یہ جو تھا ناںکہ بیعت کر لی اور آرام سے بیعت کر لی تو وہ اتنی آرام سے نہیں ہوئی تھی۔ اس کی تفصیل حضرت مصلح موعودؓ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ پھر بیعت کو توڑ کر حضرت عائشہؓ کے ساتھ چلے گئے یا ان کے خلاف جنگ کی۔ اس کے بارے میں حضرت مصلح موعوؓد لکھتے ہیں۔ یہ غلط مثال اور تاریخ سے ناواقفیت کا ثبوت ہے۔ اس طرح نہیں ہوا۔ تاریخیں اس بات پر متفقہ طور پر شاہد ہیں کہ حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ نے حضرت علیؓ کی جو بیعت کی تھی وہ بیعت طوعی نہیں تھی بلکہ جبراً ان سے بیعت لی گئی تھی۔ چنانچہ محمد اور طلحہ دو راویوں سے طبری میں یہ روایت آتی ہے کہ حضرت عثمانؓ جب شہید ہو گئے تو لوگوں نے آپس میں مشورہ کر کے فیصلہ کیا کہ جلد کسی کو خلیفہ مقرر کیا جائے تا امن قائم ہو اور فساد مٹے۔ آخر لوگ حضرت علیؓ کے پاس گئے اور ان سے عرض کیا کہ آپ ہماری بیعت لیں۔ حضرت علی ؓنے کہا کہ اگر تم نے میری بیعت کرنی ہے تو تمہیں ہمیشہ میری فرمانبرداری کرنی پڑے گی۔ اگر یہ بات تمہیں منظور ہے تو میں تمہاری بیعت لینے کے لئے تیار ہوں ورنہ کسی اور کو اپنا خلیفہ مقرر کر لو میں اس کا ہمیشہ فرمانبردار رہوں گا اور تم سے زیادہ اس کی اطاعت کروں گا جو بھی خلیفہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں آپؓ کی اطاعت منظور ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ پھر سوچ لو اور آپس میں مشورہ کر لو۔ چنانچہ انہوں نے مشورے سے یہ طے کیا کہ حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیر ؓ اگر حضرت علی ؓکی بیعت کر لیں تو سب لوگ حضرت علی ؓکی بیعت کر لیں گے ورنہ جب تک وہ حضرت علی ؓکی بیعت نہیں کریں گے اس وقت تک پورے طور پر امن قائم نہیں ہو گا۔ اس پر حکیم بن جَبَلَہکو چند آدمیوں کے ساتھ حضرت زبیرؓ کی طرف اور مالک اَشْتَرکو چند آدمیوں کے ساتھ حضرت طلحہ ؓکی طرف روانہ کیا گیا جنہوں نے تلواروں کا نشانہ کر کے انہیں بیعت پر آمادہ کیا یعنی وہ تلواریں سونت کر ان کے سامنے کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ حضرت علی ؓکی بیعت کرنی ہے تو کرو ورنہ ابھی ہم تم کو مار ڈالیں گے۔ چنانچہ انہوں نے مجبور ہو کر رضا مندی کا اظہار کر دیا اور یہ واپس آ گئے۔ دوسرے دن حضرت علی ؓمنبر پر چڑھے اور فرمایا: اے لوگو ! تم نے کل مجھے ایک پیغام دیا تھا اور میں نے کہا تھا کہ تم اس پر غور کر لو۔ کیا تم نے غور کر لیا ہے اور کیا تم میری کل والی بات پر قائم ہو؟ اگر قائم ہو تو یاد رکھو کہ تمہیں میری کامل فرمانبرداری کرنی پڑے گی۔ اس پر وہ پھر حضرت طلحہ ؓاور حضرت زبیرؓ کے پاس گئے اور ان کو زبردستی کھینچ کر لائے اور روایت میں صاف لکھا ہے کہ جب وہ حضرت طلحہؓ کے پاس پہنچے اور ان سے بیعت کرنے کے لئے کہا تو انہوں نے جواب دیا۔ اِنِّیْ اِنَّمَا اُبَایِعُ کَرْھًا ۔ دیکھو میں زبردستی بیعت کر رہاہوں۔ خوشی سے بیعت نہیں کر رہا۔ اسی طرح حضرت زبیرؓ کے پاس جب لوگ گئے اور بیعت کے لئے کہا تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا کہ اِنِّیْ اِنَّمَا اُبَایِعُ کَرْھًا۔ کہ تم مجھ کو مجبور کر کے بیعت کروا رہے ہو، دل سے میں یہ بیعت نہیں کر رہا۔ اس طرح عبدالرحمٰن بن جُنْدُبْ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ کے قتل کے بعد اَشْتَر طلحہ کے پاس گئے اور بیعت کے لئے کہا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے مہلت دو۔ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ لوگ کیا فیصلہ کرتے ہیں ۔مگر انہوں نے نہ چھوڑا اور جَاءَ بِہٖ یَتُلُّہٗ تَلًّا عَنِیْفًا۔ ان کو زمین پر نہایت سختی سے گھسیٹتے ہوئے لے آئے جیسے بکرے کو گھسیٹا جاتا ہے۔
(ماخوذ از خطبات محمود جلد 18صفحہ300-302)
حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ایک صحابی حضرت طلحہؓ جس وقت ایک باہمی اختلاف کے موقع پر حضرت علیؓ کے مقابل پر کھڑے ہو ئے اور پھر جب ان کی سمجھ میں یہ بات آ گئی کہ اس میں میری غلطی تھی تو وہ میدان جنگ سے چلے گئے۔‘‘ یہاں یہ قصہ اب شروع ہوتاہے کہ حضرت طلحہؓ مقابلے پر آئے اور بیعت نہیں کی لیکن اس کی تفصیل بھی بیان فرماتے ہیں، آپؓ مقابلہ پر بیشک آئے، پہلے بیعت زبردستی کی۔ پھر مقابلے پر بھی آئے۔ مطلب زبردستی کروائی گئی پھر بعد میں جب موقع ملا تو اختلاف بھی ہوا، پھر جنگ بھی ہوئی لیکن جب بات ان کی سمجھ میں آ گئی تو پھر وہ چھوڑ کے میدان جنگ سے چلے گئے کہ حضرت علیؓ ٹھیک ہیں۔ اس بارے میں حضرت مصلح موعودؓلکھتے ہیں۔ ’’آپ واپس گھر جا رہے تھے تو کسی وحشی انسان نے جو حضرت علیؓ کی فوج میں سے کہلاتا تھا راستے میں جاتے ہوئے ان کو قتل کر دیا اور پھر حضرت علیؓ کے پاس انعام کی خواہش میں آکر کہا کہ میں آپؓ کو بشارت دیتا ہوں کہ آپؓ کا دشمن طلحہؓ میرے ہاتھوں مارا گیا۔ حضرت علیؓ نے کہا کہ میں تم کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف سے جہنم کی بشارت دیتا ہوں۔ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے سنا تھا کہ طلحہؓ کو ایک جہنمی قتل کرے گا۔‘‘ (خطبات محمود جلد 26صفحہ 385)
پھر ایک اور جگہ اسی واقعےکو بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعوؓد فرماتے ہیں: ’’حاکم نے روایت کی ہے کہ ثَوْر بن مَجْزَاہنے مجھ سے ذکر کیا کہ میں واقعہ جمل کے دن حضرت طلحہؓ کے پاس سے گزرا۔ اس وقت ان کی نزع کی حالت قریب تھی۔‘‘ جب اس نے زخمی کیا اس وقت نزع کی حالت تھی ’’مجھ سے پوچھنے لگے کہ تم کون سے گروہ سے ہو؟ میں نے کہا کہ حضرت امیر المومنین علیؓ کی جماعت میں سے ہوں تو کہنے لگے اچھا اپنا ہاتھ بڑھاؤ تا کہ میں تمہارے ہاتھ پر بیعت کر لوں۔ چنانچہ انہوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی اور پھر جان بحق تسلیم کر گئے۔ میں نے آ کر حضرت علیؓ سے تمام واقعہ عرض کر دیا۔ آپؓ سن کر کہنے لگے اللہ اکبر! خدا کے رسول کی بات کیا سچی ثابت ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ نے یہی چاہا کہ طلحہؓ میری بیعت کے بغیر جنت میں نہ جائے۔ (آپؓ عشرہ مبشرہ میں سے تھے)۔‘‘
(القول الفصل ، انوار العلوم جلد 2صفحہ 318-319)
پہلے گو مجبوری کی بیعت تھی لیکن جیسا کہ میں نے کہا وفات سے قبل کامل شرح صدر سے بیعت کر لی۔ نیکی تھی، سعادت تھی۔ اللہ تعالیٰ کا جنت میں لے جانے کا وعدہ بھی تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے نہ چاہا کہ ایسا انجام ہو کہ جب آپ خلافت کی بیعت سے باہر ہوں اور اس وقت ان کو موقع ملا اور خلافت کی بیعت کر لی۔ یہ قصہ، یہ واقعات ابھی چل رہے ہیں۔ ان شاء اللہ آئندہ بیان کروں گا۔
آج پھر میں دوبارہ الجزائر کے احمدیوں کے لیے بھی اور پاکستان کے احمدیوں کے لیے بھی دعا کی تحریک کرنا چاہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کو محفوظ رکھے۔ الجزائر میں بھی حالات سخت کیے جا رہے ہیں۔ وہاں بھی ایک سرکاری وکیل ہے وہ بار بار ہمارے احمدیوں پر مقدمے بنا رہا ہے۔ پاکستان میں بھی اسی طرح مشکلات میں ڈالا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب لوگوں کو جو مشکلات کھڑی کر رہے ہیں یا کسی قسم کی مخالفت کر رہے ہیں عبرت کا نشان بنائے اور جلد ان احمدیوں کے حالات ٹھیک فرمائے ۔جو جہاں سختیوں میں سے گزر رہے ہیں ان کے لیے آسانیاں اور سہولتیں پیدا کرے۔ لیکن ساتھ ہی میں پاکستان کے احمدیوں کو خاص طور پر یہ بھی کہوں گا کہ دعاؤں کی طرف جس طرح توجہ کی ضرورت ہے اس طرح توجہ کا ابھی بھی احساس نہیں ہے۔ پس پہلے سے بڑھ کر اور بہت بڑھ کر دعاؤں کی طرف توجہ دیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں جلد ان مشکلات سے نکالے اور آسانیاں پیدا فرمائے اور ہم حقیقی اسلام کا پیغام آزادی کے ساتھ پاکستان میں بھی اور دنیا کے ہر کونے میں بھی پہنچانے والے ہوں۔
نمازوں کے بعد میں کچھ جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔ پہلا جنازہ ڈاکٹر طاہر احمد صاحب ربوہ کا ہے۔ یہ چودھری عبدالرزاق صاحب شہید کے بیٹے تھے جو سابق امیر ضلع نوابشاہ تھے۔ 4؍ دسمبر کو ساٹھ سال کی عمر میں ہارٹ اٹیک کی وجہ سے وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
یہ سرکاری ڈاکٹر تھے۔ 1995ء میں ان کو پہلا ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ خرابی صحت کے باوجود مٹھی میں اپنا تبادلہ کروایا تاکہ وقف جدید کے زیر انتظام المہدی ہسپتال میں بھی خدمت کر سکیں۔ ڈاکٹر صاحب آئی سپیشلسٹ تھے اور روزانہ شام کو اور ہر اتوار کو المہدی ہسپتال میں آنکھوں کے مریضوں کا علاج معالجہ کرتے رہتے تھے جو چھٹی کا دن ہوتا تھا وہ مہدی ہسپتال میں آ جاتے تھے۔ باقاعدگی کے ساتھ میڈیکل کیمپوںمیں شرکت کرتے اور بعض اوقات سارا دن آپریشنز میں مصروف رہتے۔ تھر پارکر میں نہ صرف احباب جماعت بلکہ غیر از جماعت لوگوں میں بھی ان کو بہت پسند کیا جاتا تھا۔ بڑے ہر دلعزیز تھے۔ دل کا بائی پاس آپریشن بھی ہوا تھا اور آخری سالوں میں دو تین دفعہ شدید تکلیف میں بھی مبتلا ہوئے لیکن تھر پارکر میں کام جاری رکھا۔ مٹھی میں تقریباً پندرہ سال انہوں نے خدمت انسانیت میں گزارے۔ انتہائی غریب پرور اور مہمان نواز انسان تھے۔ خلافت اور نظام جماعت کا ازحد احترام کرنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے نوجوانی میں ہی نظام وصیت میں شامل ہوئے۔ ہر مالی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے، درجات بلند کرے اور ان کے بچوں کو بھی ان کی نیکیوں پر چلنے اور ان کو قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
دوسرا جنازہ حبیب اللہ مظہر صاحب ابن چودھری اللہ دتہ صاحب کا ہے۔ حبیب اللہ مظہر صاحب اسیر راہ مولیٰ بھی رہ چکے تھے۔ 24؍اکتوبر کو 75سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
ان کے والد حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر کے احمدیت میں شامل ہوئے تھے۔ چودھری حبیب اللہ مظہر صاحب سرکاری محکموں میں مختلف پوزیشنوں میں کام کرتے رہے اورحکومت کے ایک محکمے سے بطور ڈائریکٹر ریٹائرڈ ہوئے تھے ۔ جماعتی خدمات آپ کی پچاس سال سے زائد عرصے پر محیط ہیں جن میںآپ کوقائد مجلس سے لے کر زعیم انصار اللہ اور مختلف جماعتی عہدوں اور صدر جماعت وغیرہ کی خدمات کی بھی توفیق ملی۔ توہین رسالت کے قانون 295 کے تحت سزائے موت کا پہلا مقدمہ جو کسی بھی احمدی پر درج ہوا وہ مکرم چودھری حبیب اللہ مظہر صاحب پر تھا جو 29؍اکتوبر 1991ء کو تھانہ شاہدرہ میں درج ہوا۔ اس طرح آپ تاریخی لحاظ سے پہلے احمدی تھے جن کو اس قانون کے تحت اسیر راہ مولیٰ رہ کر صعوبتیں برداشت کرنے کی توفیق حاصل ہوئی۔ گو سیشن کورٹ نے آپ کے حق میں فیصلہ کیا لیکن مخالفین کی ہائی کورٹ میں اپیل پر ہائی کورٹ کے جسٹس عبدالمجید نے توہین رسالت کے اس مقدمے میں آپ کی ضمانت منسوخ کر دی اور آپ کو سزا دلوانے کے لیے اس وقت مخالفین کی جو بھی کوشش ہو سکتی تھی انہوں نے بڑے وسیع پیمانے پر کوشش کی۔ انگریزی میں اور اردو میں پمفلٹ تقسیم کیے اور بڑے غلط قسم کے الفاظ آپ کے بارے میں استعمال کیے۔ بہرحال چودھری حبیب اللہ صاحب نہایت شجاعت اور بہادری سے اس عرصے میں راضی برضا رہتے ہوئے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے اور پھر اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا فرمائے کہ چند ہی ماہ میں آپ کی رہائی کے سامان بھی پیدا کر دیے۔ آپ بلا ناغہ تہجد اور پنجوقتہ نمازوں کے پابند تھے۔ آخر دم تک بچوں کو نماز پر قائم رہنے کی تلقین کرتے رہتے تھے۔ نہایت ملنسار، غمگسار، عاجز، خلافت کے شیدائی اور عاشق صادق تھے۔ خطبات اور خطابات بڑی باقاعدگی سے سنتے تھے بلکہ تمام گھر والوں کو اکٹھا کر کے کہتے تھے سب کام چھوڑ دو اور یہاں بیٹھ کر خطبہ کے وقت میں خطبہ سنو اور اپنی موجودگی میں سب کو سنواتے تھے۔ اللہ کے فضل سے موصی تھے اور 9/1 حصے کی وصیت کی ہوئی تھی۔ ان کے پسماندگان میں اہلیہ رقیہ بیگم صاحبہ کے علاوہ پانچ بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں۔ ان کے ایک بیٹے حسیب احمد صاحب مربی سلسلہ ہیں اور انگریزی ڈیسک فضل عمر فاؤنڈیشن میں کام کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اگلا جنازہ مکرم بشیر الدین احمد صاحب کا ہے۔ خلیفہ بشیر الدین احمد 30؍نومبر کو 86سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
ہندوستان کے شہر فیروز پور میں یہ پیدا ہوئے تھے۔ آپ ڈاکٹر خلیفہ تقی الدین صاحب کے بیٹے تھے اور حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کے پوتے تھے۔ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب حضرت ام ناصر جو حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓکی پہلی اہلیہ تھیں ان کے والد تھے۔ حضرت خلیفہ رشید الدین صاحب کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ان کی مالی قربانیوں کے بارے میں بڑے تعریفی کلمات کہے ہیں۔ بہرحال یہ ان کی نسل میں سے تھے۔ جماعتی کاموں میں بھی حصہ لیتے تھے۔ غیر احمدیوں کو اپنے گھر بلا کر تبلیغ کرتے تھے۔ مختلف جگہوں پہ رہتے رہے پھر 1998ء میں سویڈن واپس چلے گئے جہاں 1999ء میں ان کو دل کا دورہ ہوا۔ صحت یاب ہوئے تو پھر مسجد کی سرگرمیوں میں مشغول رہے۔ تبلیغ کے سیکرٹری بھی رہے۔ ہر سال یہاں جلسے پر یوکے میں اپنی اہلیہ کے ساتھ بچوںکے ساتھ آتے تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ تین بیٹیاں اور دو بیٹے شامل ہیں۔ آپ کی اہلیہ ایک انگریز تھیں۔ عیسائی سے احمدی ہوئی تھیں لیکن بہت حیا دار لباس پہننے والی اور پردے کی پابند ہیں۔ نہایت سادگی سے زندگی گزارنے والی ہیں۔ ان کو دین کا علم حاصل کرنے کا شوق بھی ہے اور اس پر عمل کرنے کی پوری پوری کوشش بھی کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے ایمان اور ایقان کو بھی ترقی دے اور ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے۔
اگلا جنازہ محترمہ امینہ احمد صاحبہ کا ہے جو خلیفہ رفیع الدین احمد صاحب کی بیوی تھیں۔ 19؍ اکتوبر کو وفات پا گئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
گیانا سے ان کا تعلق تھا۔ 1940ء میں ان کی پیدائش گیانا کے مشہور مسلم کاروباری گھرانے میں ہوئی تھی۔ لندن میں اپنے طالب علمی کے زمانے میں انہوں نے احمدیت قبول کی اور اسی دوران پھر آپ کی شادی آرڈی احمد صاحب مرحوم سے ہوئی جو ڈاکٹر خلیفہ تقی الدین کے بیٹے تھے۔ حضرت خلیفہ رشید الدین صاحب کی نسل میں سے تھے۔ مرحومہ ایک ہمدرد اور لوگوں کی دیکھ بھال کرنے والی اور مہمان نواز خاتون تھیں۔ نمازوں کی پابند تھیں۔ آپ کو ہمیشہ اپنی نمازوں کی فکر رہتی تھی۔ طبیعت ناساز ہونے کے باوجود تہجد ادا کیا کرتی تھیں۔ قرآن کریم کی تلاوت باقاعدگی سے کرتی تھیں۔ خرابی صحت اور کینسر کے باوجود برطانیہ میں تقریباً ہر جلسے میں شریک ہوئیں۔ دعاؤں پر قوی یقین تھا۔ خلافت سے اخلاص اور وفا کا تعلق تھا۔ ہمیشہ جب بھی مجھے ملتی تھیں خاص طور پر بڑی عاجزی سے ملتی تھیں ،دعا کے لیےکہتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کی اولاد کو بھی جماعت سے مضبوط تعلق قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
(الفضل انٹرنیشنل 8؍جنوری 2021ء صفحہ 5تا10)