سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم (قسط نمبر 5)
اخلاص باللہ۔خشیت الٰہی
آپؐ کی ایک دعا
آپؐ کی خشیت الٰہی کا ثبوت ایک دعا سے خوب ملتا ہے۔انسان جس وقت لوگوں سے جدا ہو کر دعا مانگتا ہے تو اس وقت اسے کسی بناوٹ کی ضرورت نہیں ہو تی اور اس وقت کےخیالات اگر کسی طرح معلوم ہو جا ئیں تو وہ اس کے سچے خیالات ہوں گے کیوںکہ وہ ان خیالات کا اظہار تخلیہ میںکرتا ہے۔حضرت عائشہؓ فر ما تی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نماز میں یہ دعا مانگاکرتے تھےاَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَ فِتْنَۃِ الْمَمَا تِ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ فَقَالَ لَہٗ قَائِلٌ مَااَکْثَرُ مَا تَسْتَعِیْذُ مِنَ الْمَغْرَمِ فَقَالَ اِنَّ الرَّجُلَ اِذَا غَرِمَ حَدَّثَ فَکَذَبَ وَعَدَ فَاَخْلَفَ (بخاری کتاب الصلوٰۃ باب الدعاء قبل السلام) اے میرے خدا میں تیری ہی پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے اور میں پناہ مانگتا ہوںمسیح الدجال کے فتنہ سے اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں زندگی اور موت کے فتنوں سے اے میرے رب میں پناہ مانگتا ہوں گناہوں سے اور قرضہ سے۔ اس دعا کو سن کر ایک شخص نے پو چھا کہ آپ ؐ قرضہ سے اس قدر کیوں پناہ مانگتے ہیں۔ فرمایا کہ جب انسان قرض دار ہو جا تا ہے تو بات کر تے وقت جھوٹ بول جا تا ہے اور وعدہ کرکے اس کےخلاف کر تا ہے ۔
کیسی پاک دعا ہے آپؐ کے اندر ونہ پر کیسی روشنی ڈالتی ہے اور اس سے کیسا کھلا کھلا ظاہر ہو جا تا ہے کہ آپؐ اللہ تعالیٰ سے کیسے خائف تھے۔کس طرح اس کے حضورگرتے اور گناہوں سے بچنے کی کو شش کر تے پھر اسی سے عرض کر تے کہ مجھ سے تو کچھ نہیں ہو سکتا تو خود ہی فضل کر۔
خدا تعالیٰ کے غنا ء سے خوف
بڑوں اور چھوٹوں میں کیا فرق ہو تا ہے جن کے پاس کچھ ہو تا ہے وہ کیسے منکسرالمزاج ہوتے ہیں۔ آنحضرتﷺ جیسے انسان اور ختم نبوت کا دعویٰ،قرآن شریف جیسی کتاب اتر رہی ہے۔ نصرت الٰہی کی وہ بھر مار ہے کہ دشمن و دوست حیران ہیں۔ہر گھڑی پیار ومحبت کے اظہار ہو رہے ہیں۔ حتّٰی کہ بارگاہ خداوندی سے قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ (آل عمران:32)کا حکم جا ری ہو تا ہے اور اللہ تعالیٰ آپؐ کی شا ن میں فر ما تا ہے کہ اَلَّذِیْنَ یُبَا یِعُوْنَکَ اِنَّمَایُبَا یِعُوْنَ اللّٰہَ (الفتح :11) اور اسی طرح ارشاد ہو تا ہے کہ دَنَا فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْاَدْنٰی (النجم :10)لیکن خشیت الٰہی کا یہ حال ہے کہ آپؐ فر ما تے ہیں وَاللّٰہِ مَا اَدْرِیْ وَاَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ مَا یُفْعَلُ بِیْ خدا کی قسم میں نہیں جانتا باوجود اس کے کہ میں خدا کا رسول ہوں کہ میرے سا تھ کیا معاملہ کیا جائے گا۔ سچ ہے کہ جسے جتنا قرب شاہی نصیب ہو تا ہے اسی طرح وہ خائف بھی زیادہ ہو تا ہے۔ادھر تو اس بادشاہ دو جہاں کا اللہ تعالیٰ کی خشیت میں یہ کمال تھا ادھر ہم آج کل فقراءکو دیکھتے ہیں کہ ذرا کوئی بات ہو ئی اور کہتے ہیں کہ الٹا دوں طبقہ ٔزمین و آسمان ۔ایک ہا تھ میں سوٹا اور ایک ہا تھ میں کشکول گدائی لیے پھر تے ہیں۔ بدن پر ہندو فقیروں کی طرح راکھ ملی ہو ئی ہوتی ہے ۔ معرفت الٰہی سے بالکل بے بہرہ ہوتے ہیں۔قرآن شریف پر عمل تو الگ رہا ایک آیت بھی پڑھ نہیں سکتے۔ دعا وی دیکھو تو کہو کہ نعوذباللہ اللہ تعالیٰ سب کاروبار خدا ئی انہیں سپرد کرکےآپ علیحدہ ہو گیا ہے یہ تو جہلا ء کا گروہ ہے ۔ پیروں کی بھی ایسی ہی حالت ہے ۔ بعض تو فقط اپنی بہشت تو الگ رہی اپنے دستخطی رقعوں پر دوسروں کو بھی بہشت دلا تے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی ان کی حالت پر رحم کرے اور ہمیں اس پا ک رسول ؐکی اطاعت کی توفیق دے کہ اس کے بغیر نجات نہیں۔
بدر کا واقعہ
بدر کے موقع پر آنحضرت ﷺ سے جو ظہور میں آیا وہ بھی چشم بصیرت رکھنے والوں کی آنکھوں کو خیرہ کر نے کے لیے کا فی ہے اور اس سے معلوم ہو تا ہے کہ آپ ؐکے دل میں اللہ تعالیٰ کا کس قدرخوف تھا۔جنگ بدر کے موقع پر جبکہ دشمن کےمقابلہ میں آپؐ اپنے جاں نثار بہادروں کو لے کر پڑے ہوئے تھے تائید الٰہی کے آثار ظاہر تھے۔ کفار نے اپنے قدم جمانے کے لیے پختہ زمین پر ڈیرے لگا ئے تھے اور مسلمانوں کے لیے ریت کی جگہ چھوڑی تھی لیکن خدا نے بارش بھیج کرکفارکے خیمہ گاہ میں کیچڑہی کیچڑکردیا اور مسلمانوں کی جائے قیام مضبوط ہوگئی۔ اس طرح اَور بھی تائیدات سماوی ظاہر ہورہی تھیں لیکن باوجود اس کے اللہ تعالیٰ کاخوف آنحضرت ﷺ کے دل پر ایسا غالب تھا کہ سب وعدوں اور نشانات کے باوجود اس کے غناء کو دیکھ کر گھبراتے تھے اوربے تاب ہو کر اس کے حضور میں دعا فر ما تے تھے کہ مسلمانوں کو فتح دے۔چنانچہ حضرت ابن عباسؓ فر ما تے ہیں کہ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَھُوَ فِیْ قُبَّۃٍ اَللَّھُمَ اِنّیْ اَنْشُدُکَ عَھَدَکَ وَوَعْدَکَ اللّٰھُمَّ اِنْ شِئْتَ لَمْ تُعْبَدُ بَعْدَ الْیَوْمِ فَاَخَذَا اَبُوْ بَکْرٍ بِیَدِہٖ فَقَالَ حَسْبُکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ فَقَدْ اَلْحَحْتَ عَلٰی رَبِّکَ وَھُوَ فِی الدِّرْعِ فَخَرَجَ وَھُوَ یَقُوْلُ سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَ لُّوْنَ الدُّبُرَ بَلِ السَّاعَۃُ مَوْعِدُ ھُمْ وَالسَّاعَۃُ اَدھٰی وَاَمَرُّ(بخاری کتاب الجھاد باب ما قیل فی درع النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم )نبی کریم ؐ جنگ بدر میں ایک گو ل خیمہ میں تھے اور فرماتے تھے کہ اے میرے خدا ! میں تجھے تیرے عہد اور وعدے یاد دلا تا ہوں اور ان کے ایفا ء کا طالب ہوں۔ اے میرے رب اگر تو ہی (مسلمانوں کی تباہی)چاہتا ہے تو آج کے بعد تیری عبادت کر نے والا کو ئی نہ رہے گا۔اس پر حضرت ابوبکرؓ نے آپؐ کا ہاتھ پکڑ لیا اور عرض کیا کہ یا رسولؐ اللہ! بس کیجئے آپؐ نے تو اپنے رب سے دعا کرنے میں حد کر دی۔ رسول کریم ﷺ نے اس وقت زرہ پہنی ہوئی تھی آپؐ خیمہ سے با ہر نکل آئے اور فر ما یاکہ ابھی ان لشکروں کو شکست ہو جا ئے گی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جا ئیں گے بلکہ یہ وقت ان کے انجام کا وقت ہے اور یہ وقت ان لوگوں کے لیے نہایت سخت اور کڑوا ہے۔اللہ اللہ ! خوف خد اکا ایسا تھا کہ باوجود وعدوں کے اس کے غنا ء کا خیال تھا لیکن یقین بھی ایسا تھا کہ جب حضرت ابوبکر ؓنے عرض کی تو بآواز بلند سنادیا کہ میں ڈرتا نہیں بلکہ خدا کی طرف سے مجھے علم ہو چکا ہے کہ دشمن شکست کھا کر ذلیل و خوار ہو گا اور ائمۃ الکفر یہیں مارے جا ئیں گے چنانچہ ایسا ہی ہؤا۔
جس جگہ پر عذاب آچکا ہو وہاں آپؐ نہ ٹھہرتے
رسول کریم ﷺ اللہ تعالیٰ سے اس قدر خائف تھے اور اس کا تقویٰ آپؐ کے دل میں ایسا مستولی تھا کہ نہ صرف آپؐ ایسے افعال سے محفوظ تھے کہ جن سے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا خوف ہو اور نہ صرف لوگوں کو ایسے افعال میں مبتلا ہو نے سے رو کتے تھے بلکہ آپؐ ان مقامات میں ٹھہرنا برداشت نہ کر تے تھے جس جگہ کسی قوم پر عذاب آچکا ہو۔اور ان واقعات کو یاد کرکے ان افعال کو آنکھوں کے سامنے لا کر جن کی وجہ سے وہ عذاب نازل ہو ئے آپؐ اس قدر غضب الٰہی سے خوف کر تے کہ اس جگہ کا پانی تک استعمال کر نا آپؐ مکروہ جا نتے ۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں لَمَّا نَزَلَ الْحِجْرَ فِیْ غَزْوَۃِ تَبُوْکَ اَمَرَ ھُمْ اَنْ لَّا یَشْرَبُوْامِنْ بِئْرِ ھَا وَلَا یَسْتَقُوْامِنْھَا فَقَالُوْ اقَدْعَجَنَّا مِنْھَا وَاسْتَقَیْنَا فَاَمَرَ ھُمْ اَنْ یَّطْرَحُوْ اذٰلِکَ الْعَجِیْنَ وَیُھْرِیْقُوْاذٰلِکَ الْمَآء۔(بخاری کتا ب بدء الخلق باب قول اللہ تعالی عز وجل والی ثمو دا خاھم صالحا) جب آنحضرت ﷺ غزوۂ تبوک کے موقع پر مقام حجر پر اترے آپؐ نے صحابہ کو حکم دیا کہ اس کنویں سے پانی نہ پیئیںاور نہ پا نی بھریں۔ یہ حکم سن کر صحابہ ؓنے جواب دیا کہ ہم نے اس پا نی سے آٹا گوند ھ لیا ہے اور پا نی بھر لیا ہے۔ آپؐ نے حکم دیا کہ اس آٹے کو پھینک دو اور اس پا نی کو بہادو۔اس خوف الٰہی کو دیکھو اور دنیا کے سب راستبازوں کی زندگیوں کا اس پا ک نبی ؐ کی زندگی سے مقابلہ کرو کہ اس میں خوف الٰہی کس قدر زیادہ تھا۔
آپﷺ اپنے اعمال پر بھرو سہ نہ کر تے
پہلے میں ذکر کر چکا ہوںکہ آنحضرت ﷺاپنی نسبت فرما تےتھے کہ وَمَا اَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ میںنہیں جانتا کہ میرے سا تھ کیا کیا جا ئے گا۔اس سے بھی بڑھ کر یہ بات ہے کہ آپؐ کبھی اس بات کا دعویٰ نہ کر تے کہ اپنے اعمال کے زور سے جنت کے وارث بن جائیں گےبلکہ ہمیشہ یہی تعلیم دیتے کہ خدا کے فضل سے جو کچھ ملے گا ملے گا اور اپنی نسبت بھی یہی فرما تے کہ میری نجات بھی خدا کے ہی فضل سے ہو گی۔حضرت ابوہریرہؓ سےروایت ہے کہ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ لَنْ یُّدْخِلَ اَحَدًا عَمَلُہُ الْجَنَّۃَ قَالُوْا وَلَا اَنْتَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ وَلَا اَنَا اِلَّا اَنْ یَّتَغَمَّدَنِیَ اللّٰہُ بِفَضْلِہٖ وَرَحْمَتِہٖ فَسَدِّدُوْاوَقَارِبُوْاوَلَا یَتَمَنَّیَنَّ اَحَدُ کُمُ الْمَوْتَ اِمَّا مُحْسِنًا فَلَعَلَّہٗ اَنْ یَّزْدَادَ خَیْرًا وَّا اِمَّا مُسِیْئًا فَلَعَلَّہٗ اَنْ یَسْتَعْتِبَ (بخا ری کتاب المرضیٰ باب نھی تمنی المریض الموت)فرما تے ہیں میںنے رسول کریم ﷺ کو ایک دفعہ یہ فرما تے ہو ئےسنا کہ کسی کو اس کا عمل جنت میں نہیں دا خل کرے گا۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ؐ! کیا آپؐ بھی اپنےاعمال کے زور سے جنت میں داخل نہ ہوں گے؟آنحضرتﷺنے جواب دیا کہ میں بھی اپنے اعمال کے زورسے جنت میں داخل نہ ہوںگا بلکہ خدا کا فضل اور اس کی رحمت مجھے ڈھانپ لیں گے تو میں جنت میں داخل ہوں گا اس لیے تم نیکی کرو اور سچا ئی سے کام لو اور خدا کی نزدیکی کو تلاش کرو اور تم میں سے کو ئی موت کی آرزو نہ کرے کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو شاید وہ نیکی میں اَور تر قی کرے اور اگر بد ہے تو شاید اس کی تو بہ قبول ہو جا ئے اور اسے خدا کی رضا کے حاصل کر نے کا موقع مل جائے۔
اس حدیث سے رسول کریم ﷺ کی خشیت کا پتہ چلتا ہے کہ آپؐ نے خدا تعالیٰ کی قدرت ،بڑا ئی اور جلال کا کیسا صحیح اندازہ لگا یا تھا اور کس طرح آپ ؐ کے دل پر حقیقت منکشف تھی کہ آپؐ ان اعمال کے ہو تے ہو ئے بھی اس بادشاہ کی غناء سے ایسے خائف تھے کہ فر ما تے کہ خدا کا فضل ہی ہو تو نجات ہو ورنہ اس کے فضل کے بغیر نجات کیونکر ہو سکتی ہے۔علاوہ ازیں اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی حل ہو جا تا ہے کہ اسلام نجات کو اعمال کا نتیجہ نہیں بلکہ خدا کے فضل کا نتیجہ قرار دیتا ہے ہاں اعمال صالحہ خدا کے فضل کے جاذب ہو تے ہیں اس لیے رسول کریم ﷺ نے فرما یا کہ نجات خدا کے فضل سے ہے اس لیے تم نیکی اور تقویٰ سے کام لو۔ معلوم ہوا کہ نیکی اور اعمال صالحہ فضل کے جاذب ہیں چنانچہ ایک دوسری حدیث میں اس کی اَور تشریح ہو جا تی ہے۔حضرت ابوہریرہ ؓ ہی اس حدیث کے بھی راوی ہیں اور اس میں انہوں نے پہلی حدیث سے اتنا زیا دہ بیان فر ما یا ہے وَاغْدُوْاوَرُوْحُوْا وَشَیْءٌ مِّنَ الدُّلْجَۃِ وَالْقَصْدَا الْقَصْدَتَبْلُغُوْا(بخاری کتاب الرقاق باب القصد والمد اومۃ علی العمل)یعنی خدا کے فضل کے سوا نجات نہیں اسی لیے صبح کے وقت عبادت کرو اور شام کے وقت بھی اور کچھ رات کے وقت بھی او رخوب قصد کرو۔پو ری طرح سے قصد کرو۔جنت میں پہنچ جاؤ گے۔اس حدیث سے صاف کھل جا تا ہے کہ اپنے اعمال کو فضل کا جا ذب قرار دیا ہے۔
(باقی آئندہ)