الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
محترم حافظ احمد جبرئیل سعید صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13؍فروری 2013ء میں مکرم قریشی دائود احمد صاحب مربی سلسلہ کے قلم سے محترم حافظ احمد جبرئیل سعید صاحب مربی سلسلہ آف گھانا کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ خاکسار کو گھانا میں مکرم حافظ صاحب کے ساتھ کام کرنے کا موقع بھی ملا۔ لیکن اس سے قبل خاکسار نے 1974ء میں جامعہ احمدیہ ربوہ میں داخلہ لیا اور مکرم حافظ صاحب1975ء میں جامعہ احمدیہ میں داخل ہوئے لیکن تربیتی گروپ شجاعت میں ہم دونوں اکٹھے ہوگئے۔ حافظ صاحب فٹ بال کے بہت اچھے کھلاڑی تھے۔ تلاوتِ قرآن مجید کے علاوہ انگریزی تقریر میں بھی پوزیشن لیا کرتے تھے۔ آپ کو ہوسٹل میں نقیب کے علاوہ کچن ٹیم میں مختلف پوزیشنوں پر کام کرنے کا موقع بھی ملا اسی طرح فارن سٹوڈنٹس یونین اور مجلس خدام الاحمدیہ میں بھی خدمت کی توفیق ملی ہے۔ شجاعت گروپ کے ایک سال کے لیے سیکرٹری بھی رہے۔ الغرض جامعہ میں تعلیم کے دوران ہی آئندہ ذمہ داریوں کا بوجھ اُٹھانے کے لیے اُن کی تربیت کا آغاز ہو گیا تھا۔
مکرم حافظ صاحب میں ایک خوبی بہت نمایاں تھی کہ وہ بڑی دھیمی طبیعت کے مالک تھے اور ہر وقت مسکراتے رہتے تھے۔ وہ ہوسٹل میں نقیب کے عہدہ پر فائز تھے لیکن کبھی کسی طالب علم کی شکایت وغیرہ نہ کرتے بلکہ اگر کوئی طالب علم غلطی کرتا تومحبت سے سمجھاتے تھے۔
خاکسار کی تقرری 1991ء میں گھانا میں ہوئی اور مکرم حافظ صاحب 1994ء میں جزائر فجی میں خدمت کے بعد واپس گھانا تشریف لائے اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے آپ کو نائب امیر سوئم برائے دعوت الی اللہ مقرر فرمایا۔ جس کے بعد گھانا میں دعوت الی اللہ کے میدان میں نیا جوش پیدا ہوا۔ ایک اہم بات جو مکرم حافظ صاحب میں دعوت الی اللہ میں دلچسپی کے بارہ میں پائی جاتی تھی وہ یہ تھی کہ جب کسی علاقہ سے دعوت الی اللہ کے لیے درخواست آتی تو نہ صرف یہ کہ دعوت الی اللہ ٹیم کو اس علاقے میں فوراً بھجواتے بلکہ خود بھی اس علاقے میں ڈیراڈال لیتے اور ہفتوں اپنے گھر سے دُور خدمت میں مصروف رہتے۔ بعض علاقوں میں تو عام سہولیات بھی مہیا نہیں تھیں۔
دعوت الی اللہ کے علاوہ ایک بہت بڑا اور عظیم الشان کام جو مکرم حافظ صاحب کو کرنے کی توفیق ملی وہ نومبائعین اور اماموں کی تربیت تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو کبھی اپنے علاقوں سے باہر نہیں نکلے تھے اور گو اپنے علاقوں میں وہ امام تھے لیکن اُن کا مذہب کا علم نہ ہونے کے برابر تھا بلکہ اکثر کو تو سورہ فاتحہ بھی صحیح طرح پڑھنی نہیں آتی تھی۔ مگر حافظ صاحب نے بڑی محنت اور شفقت سے ان لوگوں کی تربیت کا انتظام کیا۔ پھر ان علاقوں میں مساجد کی تعمیر ایک اَور بڑا مرحلہ تھاجسے آپ نے بڑی کامیابی سے طے کیا۔
ایک اور بڑی خوبی مکرم حافظ صاحب میں خدمت خلق کی تھی۔ بہت دفعہ ایسا ہوتا کہ اکرا (Accra)کے کسی دُور کے محلہ سے اگر کوئی فیملی نماز عشاء کے لیے مشن ہائوس آئی ہوتی تو ان کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر ان کے گھر چھوڑنے چلے جاتے۔ اگرچہ آپ کا گھر اس کی بالکل مخالف سمت پر ہوتا لیکن کبھی محسوس نہ کیا کہ میں نائب امیر ہوں اور ان کا گھر بھی میرے راستہ میں نہیں پڑتا۔
اسی طرح جہاں بھی دیکھتے کہ کسی فیملی میں گھریلومسائل ہیں تو ان کے حل کرنے کی طرف خاص توجہ دیتے اور معاملہ بگڑنے کا انتظار نہ کرتے۔ خاکسار نے کئی دفعہ دیکھا کہ وقت بچانے کی خاطر ایسے میاں بیوی کو اپنے ہمراہ گاڑی میں بٹھالیتے جن میں ناچاقی ہوتی اور پھر اپنے دیگر کاموں کی انجام دہی کے علاوہ سفر کے دوران جتنا وقت بھی ملتا وہ اُن دونوں کو سمجھانے میں صرف کرتے۔ آپ میں یہ خوبی بھی تھی، جب بھی ایسی کسی فیملی کے مسائل حل کرتے تو متعلقہ مشنری سے مل کر اُسے حالات سے آگاہ کرتے تاکہ اُس فیملی سے مسلسل رابطہ رکھا جاسکے۔
غالباً 1996ء میں مکرم حافظ صاحب کے ساتھ فضائی سفر کا غیرمعمولی واقعہ پیش آیا۔ آپ نے بیان کیا کہ ایک سال جلسہ سالانہ یوکے میں شمولیت کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے ارشاد پر خاکسار جزائر فجی کے دورہ کے لیے روانہ ہوا۔ اُسی دوران امریکہ کی ایک جماعت میں خدام الاحمدیہ کا سالانہ اجتماع بھی تھا چنانچہ حضوؒ رکی اجازت سے پہلے امریکہ اور پھر جزائر فجی جانے کا پروگرام بنایا۔ لندن سے خاکسار نے نیو یارک کے لیے فلائٹ لی اور پھرنیو یارک سے اگلے شہر کی فلائٹ لینی تھی۔ نیویارک پہنچ کر خاکسار ٹرانزٹ ہال میں چلا گیا جہاں ہزاروں لوگ اپنی اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھے۔ خاکسار بھی بورڈنگ پاس حاصل کر کے اگلی منزل کے لیے روانگی کا اعلان ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ جب اعلان ہوا کہ جہاز روانگی کے لیے تیار ہے تو خاکسار بھی لائن میں لگ کر باری آنے پرجہاز میں سوار ہو گیا۔ چونکہ لندن سے نیو یارک کا لمبا سفر کیا تھا اس لیے تھکاوٹ اور نیند کے غلبے کی وجہ سے سیٹ پر بیٹھتے ہی گہری نیند آگئی۔ تقریباً تین چار گھنٹے آرام کے بعد خاکسار کی آنکھ کھلی تو خوشی ہوئی کہ تھوڑی دیر میں منزل پر پہنچ جائوں گا۔ کیونکہ نیو یارک سے دوسرے شہر کا سفر پانچ گھنٹے کا تھا۔ لیکن جب پانچ گھنٹے گزر گئے تو خاکسار کو تشویش لاحق ہوئی کہ اب تک تو جہاز کو منزل تک پہنچ جانا چاہیے تھا چنانچہ خاکسار نے ایئر ہوسٹس سے اُس شہر کا نام لے کر کہا کہ ہم کتنی دیر میں وہاں اتریں گے؟ تو خاکسار کو اپنی سماعت پر یقین نہ ہوا جب ایئرہوسٹس نے جواب دیا کہ : Sorry Sir! We are flying to London (معاف فرمایے جناب ہم تو لندن کی طرف پرواز کررہے ہیں )۔
یہ سن کر کچھ دیر کے لیے تو میرے اوسان خطا ہوگئے۔ پھر ہوش سنبھلنے پر میں نے اپنا بورڈنگ پاس اُسے دکھا یاجسے دیکھ کر وہ بھی ششدر رہ گئی اور جہاز کے کپتان کو بلا لائی۔ جہاز کے کپتان نے مجھے تسلّی دینے کی کوشش کی اور کہا کہ لندن پہنچ کر دیکھیں گے۔ اُس کے بعد تین یا ساڑھے تین گھنٹوں کا سفر جس طرح کٹا وہ ایک علیحدہ داستان ہے۔ ایک اَن جانے خوف اور سینکڑوں سوالات نے میرا احاطہ کیے رکھا۔ سب سے زیادہ خوف حضور کی ناراضگی کا سوچ کر آتا تھا کہ واپس جا کر کیا بتائوں گا۔ پھر خدام الاحمدیہ کا اجتماع چھوٹنے کا افسوس تھا۔ اسی کیفیت میں باقی سفر کٹا۔ایک ایک منٹ گھنٹوں میں گزرتا معلوم ہوتا تھا ۔جہاز کے عملے کے ارکان تھوڑی تھوڑی دیر بعد میرے پاس آکر تسلی دیتے۔ لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جب ہم لندن ایئرپورٹ پر اترے تو سیڑھیوں کے سامنے اُس ایئرلائن کا مینیجر میرے استقبال کے لیے کھڑا تھا۔ اُس نے عملے کی نا اہلی اور میرا وقت ضائع ہونے پر بہت معذرت کی۔ اور اسی وقت نہ صرف یہ کہ مجھے واپسی فلائٹ پر فرسٹ کلاس کا ٹکٹ ایشو کیا بلکہ نیو یارک سے اگلی منزل کے لیے فلائٹ کا انتظام بھی کیا اور تحائف بھی دیے اور بار بار معذرت کی۔
خاکسار نے صدر صاحب خدام الاحمدیہ امریکہ کو بھی اس واقعہ سے آگاہ کر دیا تھا۔ پھر خاکسار اگلی فلائٹ پر دوبارہ امریکہ کے لیے روانہ ہوا اور اگلے روز خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں شمولیت کی توفیق مل گئی۔
مکرم حافظ صاحب کے خلافت سے محبت اور اطاعت کے بہت سے واقعات حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 16؍نومبر 2012ء میں ارشاد فرمائے ہیں۔ حضورانور نے جس پیار اور محبت کے ساتھ آپ کی خوبیوں، قربانیوں اور خلوص کا ذکر فرمایا ہے بےشک یہ سعادت، بقول مکرم عبید اللہ علیم صاحب
’’یہ محبت تو نصیبوں سے مِلا کرتی ہے‘‘
جب کبھی آپ جلسہ سالانہ یوکے میں شرکت کے لیے تشریف لاتے تو حضورانور کی منظوری سے آپ کا نام نمازتہجد کی امامت یا مدرس کے طور پر رکھا جاتا۔ گو آپ ایک قریبی شہر Guildfordکے ہوٹل میں مقیم ہوتے تھے لیکن خود ہی سواری کا انتظام کر کے تہجد کی نماز پڑھانے ہمیشہ بروقت تشریف لاتے اور کبھی بھی کوئی عذر پیش نہ کیا۔ دراصل یہ ان کی خلافت سے محبت اور اطاعت تھی کہ جب حضور نے منظوری دی ہے تو اب یہ کام ایک فرض کی حیثیت رکھتا ہے۔ 2011ء کے جلسہ یوکے میں بھی آپ کو تہجد پڑھانے کی توفیق ملی۔
غالباً 2002ء جبکہ خاکسار ایسٹ لندن ریجن (یوکے) میں ریجنل مشنری کے طور پرمتعین تھا مکرم حافظ صاحب جلسہ سالانہ یوکے میں شمولیت کے لیے تشریف لائے تو خاکسار کی درخواست پر ہمارے ایک پروگرام میں شرکت کے لیے بھی تشریف لائے جس میں صرف افریقن احباب مدعو کیے گئے تھے۔ یہ پروگرام بہت کامیاب رہا اور50 سے زائدافریقن دوستوں نے پروگرام میں شرکت کی۔ آپ کے دورے کا بڑا فائدہ یہ بھی ہوا کہ بعض کمزور افریقن احمدی بھی فعّال ہوگئے۔
2010ء کے جلسہ سالانہ میں شمولیت کے بعد مکرم حافظ صاحب چند مہمانوں کے ہمراہ گلاسگو تشریف لائے اور مہمانوں کے اعزاز میں منعقدہ مشاعرے میں تلاوت کے علاوہ چند اردو اشعار بھی سنائے جن سے حاضرین بہت محظوظ ہوئے۔
………٭………٭………٭………
مریخ (Mars)
نظام شمسی کا چوتھا سیارہ مریخ ہے جس کے بارے میں ایک مختصر معلوماتی مضمون عزیزم شیخ مدثر احمد کے قلم سے ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ ربوہ جولائی 2012ء میں شائع ہوا ہے۔
کرۂ ارض سے 55 ملین کلومیٹر دور اور سورج سے قریباً 228 ملین کلومیٹر کے فاصلے پر سرخ رنگ کا ایک ویران چٹانی سیارہ ہے جو مریخ کہلاتا ہے۔ اس کا رنگ خون جیسا سرخ ہے جو دراصل آئرن آکسائیڈ (یعنی زنگ)کی بکثرت موجودگی کی علامت ہے۔ رنگ کی وجہ سے ہی اس کا نام جنگ کے رومن دیوتا کے نام پر رکھا گیا ہے۔
مریخ کی سطح کا درجہ حرارت عموماً نقطہ انجماد سے نیچے رہتا ہے یعنی -143 ڈگری سے +35 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان۔ لیکن اس کی کئی خصوصیات ہماری زمین جیسی ہیں مثلاً برف کی قطبی ٹوپیاں اور پانی کی تراشی ہوئی وادیاں وغیرہ۔ تاہم گرد کے بڑےغبار اس کی سطح پر چھائے رہتے ہیں۔ شمالی قطبی خطے کے اوپر ہلکے نیلے رنگ کے بادل دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہاں کا موسمی نظام کرۂ ارض جیسا ہی ہے تاہم سال کا دورانیہ قریباً دو گنا ہے کیونکہ سورج کے گرد یہ اپنا ایک چکر زمین کے 687؍ایام میں مکمل کرتا ہے۔ جبکہ یہ سیارہ اپنے گرد 24.62 گھنٹے میں گھوم جاتا ہے یعنی مریخ پر ایک دن ہمارے ایک دن سے قریباً39 منٹ لمبا ہے۔ مریخ کے دو چھوٹے چاند ہیں جو ’فوبوس‘ اور ’دیموس‘ کہلاتے ہیں۔ ان کے یونانی ناموں کے معنی بالترتیب ’خوف‘ اور ’دہشت‘ ہیں۔ ان کی شکل سیارچوں کی مانند بےقاعدہ ہے۔
مریخ کی وسیع ترین وادی Valles Marineris کی لمبائی قریباً ساڑھے چار ہزار کلومیٹر اور زیادہ سے زیادہ گہرائی 7کلومیٹر ہے۔ مریخ کا تقریباً چالیس فیصد حصہ پتھریلا صحرائی منظر پیش کرتا ہے۔ اس کی بلند ترین چوٹی کی اونچائی 25کلومیٹر ہے اور یہ Olympus Monsکہلاتی ہے۔
………٭………٭………٭………