دین کو دنیا پر مقدم رکھنا … قربانی کا اعلیٰ معیار (حصہ چہارم۔ آخری)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
دین کو دنیا پر مقدم رکھنا … قربانی کا اعلیٰ معیار
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کے بارہ میں کہ ’’اس بزرگ مرحوم میں نہایت قابل رشک یہ صفت تھی کہ درحقیقت وہ دین کو دنیا پرمقدم رکھتاتھا۔ اور درحقیقت ان راستبازوں میں سے تھا جو خدا سے ڈرکر اپنے تقویٰ اور اطاعت الٰہی کو انتہا تک پہنچاتے ہیں۔ اور خدا کے خوش کرنے کے لئے اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنی جان اور عزت اور مال کو ایک ناکارہ خس و خاشاک کی طرح اپنے ہاتھ سے چھوڑ دینے کو تیار ہوتے ہیں۔ اس کی ایمانی قوت اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ اگر مَیں اس کو ایک بڑے سے بڑے پہاڑ سے تشبیہ دوں تو مَیں ڈرتاہوں کہ میری تشبیہ ناقص نہ ہو۔ اکثر لوگ باوجود …بیعت کے اور باوجود میرے دعوے کی تصدیق کے پھر بھی دنیا کو دین پر مقدم رکھنے کے زہریلے تخم سے بکلی نجات نہیں پاتے بلکہ کچھ ملونی ان میں باقی رہ جاتی ہے۔ اور ایک پوشیدہ بخل خواہ وہ جان کے متعلق ہو خواہ آبرو کے متعلق اور خواہ مال کے اور خواہ اخلاقی حالتوں کے متعلق ان کے نامکمل نفسوں میں پایا جاتاہے۔ اسی وجہ سے ان کی نسبت ہمیشہ میری یہ حالت رہتی ہے کہ مَیں ہمیشہ کسی خدمت دینی کے پیش کرنے کے وقت ڈرتارہتاہوں کہ ان کو ابتلا پیش نہ آوے۔ اور اس خدمت کو اپنے پر ایک بوجھ سمجھ کراپنی بیعت کو الوداع نہ کہہ دیں۔ لیکن مَیں کن ا لفاظ سے اس بزرگ مرحوم کی تعریف کروں جس نے اپنے مال اور آبرو اور جان کو میری پیروی میں یوں پھینک دیا کہ جس طرح کوئی ردّی چیز پھینک دی جاتی ہے۔ اکثر لوگوں کو مَیں دیکھتاہوں کہ ان کا اوّل اور آخر برابر نہیں ہوتا اور ادنیٰ سی ٹھوکر یا شیطانی وسوسہ یا بدصحبت سے وہ گر جاتے ہیں۔ مگر اس جوانمرد مرحوم کی استقامت کی تفصیل مَیں کن الفاظ میں بیان کروں کہ وہ نور یقین میں دم بدم ترقی کرتا گیا‘‘۔
(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن۔ جلد20۔ صفحہ10)
پھر آپ نے فرمایا:’’ شہید مرحوم نے مر کر میری جماعت کو ایک نمونہ دیا ہے اور در حقیقت میری جماعت ایک بڑے نمونہ کی محتاج تھی۔ اب تک ان میں ایسے بھی پائے جاتے ہیں کہ جو شخص ان میں سے ادنیٰ خدمت بجا لاتا ہے وہ خیال کرتا ہے کہ اس نے بڑا کام کیا ہے۔ اور قریب ہے کہ وہ میرے پر احسان رکھے۔ حالانکہ خدا کا اس پر احسان ہے کہ اس خدمت کے لئے اس نے اس کو توفیق دی- بعض ایسے ہیں کہ پورے زور اور پورے صدق سے اس طرف نہیں آئے۔ اور جس قوت ایمان اور انتہا درجہ کے صدق و صفا کا وہ دعویٰ کرتے ہیں آخر تک اس پر قائم نہیں رہ سکتے۔ اور دنیا کی محبت کے لئے دین کو کھو دیتے ہیں اور کسی ادنیٰ امتحان کی بھی برداشت نہیں کر سکتے۔ خدا کے سلسلے میں بھی داخل ہو کر ان کی دنیا داری کم نہیں ہوتی۔ لیکن خدا تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ ایسے بھی ہیں کہ وہ سچے دل سے ایمان لائے اور سچے دل سے اس طرف کو اختیار کیا۔ اور اس راہ کے لئے ہر ایک دکھ اٹھانے کے لئے طیار ہیں۔ لیکن جس نمونہ کو اس جواں مرد نے ظاہر کر دیا، اب تک وہ قوتیں اس جماعت کی مخفی ہیں۔ خدا سب کو وہ ایمان سکھاوے اور وہ استقامت بخشے جس کا اس شہید مرحوم نے نمونہ پیش کیا ہے۔ یہ دنیوی زندگی جو شیطانی حملوں کیساتھ ملی ہوئی ہے کامل انسان بننے سے روکتی ہے۔ اور اس سلسلہ میں بہت داخل ہوں گے مگر افسوس کہ تھوڑے ہیں کہ یہ نمونہ دکھائیں گے۔ ‘‘
(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن۔ جلد20۔ صفحہ 57-58)
پھر آپ فرماتے ہیں : ’’شاہزادہ عبداللطیف کے لئے جو شہادت مقدر تھی وہ ہوچکی۔ اب ظالم کا پاداش باقی ہے۔
اِنَّہٗ مَنْ یَّاْتِ رَبَّہٗ مُجْرِمًا فَاِنَّ لَہٗ جَھَنَّمَ لَایَمُوْتُ فِیْھَا وَلَایَحْي (طٰحٰی:75)
افسوس کہ یہ امیر زیر آیت
مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا (النساء:94)
داخل ہوگیا۔ اور ایک ذرہ خداتعالیٰ کا خوف نہ کیا۔ اور مومن بھی ایسا مومن کہ اگر کابل کی تمام سرزمین میں اُس کی نظیر تلاش کی جائے تو تلاش کرنالاحاصل ہے۔ ایسے لوگ اکسیر احمر کے حکم میں ہیں۔ جو صدق دل سے ایمان اور حق کے لئے جان بھی فدا کرتے ہیں اور زن و فرزند کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتے۔ اے عبداللطیف تیرے پرہزاروں رحمتیں کہ تو نے میری زندگی میں ہی اپنے صدق کا نمونہ دکھایا۔ اور جو لوگ میری جماعت میں سے میری موت کے بعد رہیں گے۔ مَیں نہیں جانتا کہ وہ کیا کام کریں گے۔ ‘‘
(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن۔ جلد نمبر20۔ صفحہ60)
پھر فرماتے ہیں :’’جب میں اس استقامت اور جانفشانی کو دیکھتا ہوں جو صاحبزادہ مولوی محمد عبداللطیف مرحوم سے ظہور میں آئی تو مجھے اپنی جماعت کی نسبت بہت امید بڑھ جاتی ہے۔ کیونکہ جس خدا نے بعض افراد اس جماعت کو یہ توفیق دی کہ نہ صرف مال بلکہ جان بھی اس راہ میں قربان کرگئے اس خدا کا صریح یہ منشاء معلوم ہوتاہے کہ وہ بہت سے ایسے افراد اس جماعت میں پیدا کرے جو صاحبزادہ مولوی عبداللطیف کی روح رکھتے ہوں اور ان کی روحانیت کا ایک نیا پودا ہوں۔‘‘(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن۔ جلد20۔ صفحہ75)
آج سے ٹھیک سو سال پہلے حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کو شہید کیا گیاتھا۔
اے مسیح آخرالزمان ! آپ کومبارک ہو کہ آپ کی پیاری جماعت نے آپ کی اپنی جماعت سے امیدوں کو پورا کیا۔ آپ کو جو امیدیں اپنی جماعت سے تھیں ان کو پورا کیا۔ اور مال، وقت اور جان کی قربانی میں کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔ اور اس کے نظارے ہمیں آج بھی نظر آرہے ہیں۔ آپ کے بعد بھی جماعت میں ایسے لوگ پیدا ہوئے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو فکر تھی کہ پتہ نہیں میرے بعد کیاہو۔ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ کے بعد بھی ایسے لوگ پیدا ہوئے اور ہو رہے ہیں جنہوں نے دنیاوی لالچوں کی پروا نہیں کی اور اپنی جانیں بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا۔ باپ نے بیٹے کو اپنے سامنے شہید ہوتے دیکھا اور بیٹے نے باپ کو اپنے سامنے شہید ہوتے دیکھا لیکن پائے ثبات میں لغزش نہیں آئی۔ اور پھر خود بھی جان قربان کردی۔
اے مسیح پاک آپ کو مبارک ہو کہ آپ کی نسل میں سے بھی، آپ کے خون نے بھی جان کی قربانی دیتے ہوئے جماعت کو بہت بڑے فتنہ سے بچا لیا۔ اللہ تعالیٰ ان سب شہداء کے درجات کو بلند کرتا چلاجائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی توفیق دے کہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں اور ہر قربانی کے لئے ہر وقت تیار ہوں اوراپنی نسلوں میں بھی یہ جذبہ زندہ رکھیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں یہ توفیق دیتا رہے۔
(از خطبہ جمعہ، 10؍اکتوبر 2003ء)