حضرت مصلح موعود ؓ

احمدیت دنیا میں اسلامی تعلیم و تمدن کا صحیح نمونہ پیش کرنے کے لیے قائم کی گئی ہے (قسط دوم)

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

میں جماعت کے نوجوانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ سلسلہ احمدیہ کے سپرد ایسے کام کئے گئے ہیں جو دنیامیں عظیم الشّان روحانی انقلاب پیدا کرنے والے ہیں۔ موجودہ دنیا کی کایا پلٹنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرمایا ہے ۔ دنیا کی تہذیب اور دنیا کے تمدن کی وہ عمارت جو تمہیں اِس وقت دکھائی دے رہی ہے اِس کی صفائی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نہیں بھیجے گئے، اس کی لپائی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نہیں بھیجے گئے، اس کے پوچنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نہیں بھیجے گئے، اس پر رنگ اور روغن کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نہیں بھیجے گئے، اس کا پلستر بدلنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نہیں بھیجے گئے، اس کی چھت پر مٹی ڈالنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نہیں بھیجے گئے، اس کی کانسوں(انگریزی لفظ’’کارنس‘‘کا بگڑا ہوا۔ کنگھی ۔ چھجا) کو درست کرنے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نہیں بھیجے گئے، اس کے ٹُوٹے ہوئے فرش کو بدلنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نہیں بھیجے گئے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ا س لئے بھیجا ہے کہ اپنی زندگیوں میں اسلامی تعلیم کا کامل نمونہ پیش کر کے توڑ دو اُس تہذیب اور تمدن کی عمارت کو جواِس وقت دنیا میںاسلام کے خلاف کھڑی ہے ۔ ٹکڑے ٹکڑے کر دو اُس قلعہ کو جو شیطان نے اِس میںبنا لیا ہے، اُسے زمین کے ساتھ لگا دو بلکہ اس کی بنیادیں تک اُکھیڑ کر پھینک دو اور اس کی جگہ وہ عمارت کھڑی کرو جس کا نقشہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو دیا ہے۔ یہ کام ہے جوحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا تھا اور اس کام کی اہمیت بیان کرنے کے لئے کسی لمبی چوڑی تقریرکی ضرورت نہیں۔ ہر انسان سمجھ سکتا ہے کہ دنیا کے جس گوشہ میں ہم جائیں، دنیا کی جس گلی میں سے ہم گزریں، دنیا کے جس گائوں میں ہم اپنا قدم رکھیں وہاں ہمیں جو کچھ اسلام کے خلاف نظر آتا ہے اپنے نیک نمونہ سے اسے مٹا کر اس کی جگہ ایک ایسی عمارت بنانا جو قرآن کریم کے بتائے ہوئے نقشہ کے مطابق ہو ہمار اکام ہے پس تم سمجھ سکتے ہو کہ تمہارا چلن اور تمہارا طَور اور تمہارا طریق اُسی وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے منشاء کو پورا کرنے والا ہو سکتا ہے، اُسی وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے منشاء کو پور اکرنے والا ہو سکتا ہے، اُسی وقت زمین وآسمان کے پیدا کرنے والے خدا کے منشاء کو پورا کرنے والا ہو سکتا ہے جب کہ تم دنیا میں ایک خدا نما وجود بنو اور اسلام کی اشاعت کے لئے کفر کی ہر طاقت سے ٹکر لینے کے لئے تیار رہو۔ یہ نہیں کہ دنیا تم کو اپنا سمجھتی ہو اور تم اس کو اپنا سمجھتے ہو، بے شک انسان بحیثیت انسان ہونے کے تمہارا محبوب ہونا چاہئے کیونکہ اس کی اصلاح کے لئے تمہیں کھڑا کیاگیا ہے لیکن جہاں انسان بحیثیت انسان ہونے کے تمہارا محبوب ہونا چاہئے کیونکہ اسی کی درستی اور اصلاح کے لئے تم کھڑے کئے گئے ہو وہاں اس کے خلاف ِاسلام کردار سے تمہاراکوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے کیونکہ تم اس کے پیچھے چلنے کے لئے نہیں اسے اپنے پیچھے چلانے کے لئے کھڑے کئے گئے ہو۔ اگر تم ایسا نہیں کرتے، اگر تم اس کی ہاں میں ہاں ملا دیتے ہو، اگر تم اس کے ناجائز افعال کی اصلاح سے غافل رہتے ہو تو اس کے معنے یہ ہیں کہ تمہارے اندر منافقت کی رگ پائی جاتی ہے اور تم اپنے فرائض کی بجا آوری سے غافل ہو۔

مجھے ہمیشہ حیرت آتی ہے ان لوگوں پر جو میرے پاس شکایتیں لے کر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ لوگ ہماری مخالفت کرتے ہیں ہم کیاکریں ۔ میں انہیں کہتا ہوں تم اس بات پر کیوں غور نہیں کرتے کہ لوگ تمہاری کیوںمخالفت کرتے ہیں۔اگر وہ اس لئے مخالفت کرتے ہیں کہ وہ تمہارے متعلق غلط فہمی کا شکار ہیں اور سمجھتے ہیں کہ تم اسلام کے دشمن ہو تو اس مخالفت کو دور کرنے اور ان کو اپنا دوست بنانے کے دو ہی طریق ہو سکتے ہیں۔ یا تو تمہیں اپنے دعویٰ احمدیت کو چھوڑنا پڑے گا اور تمہیں بھی ویسا ہی بننا پڑے گا جیسے تمہارا مخالف ہے پھر بے شک وہ تمہاری طرف محبت کاہاتھ بڑھا کر کہے گا کہ ہم دونوں ایک جیسے ہیں او ریا پھر تمہیں کوشش کر کے اس کو بھی اپنے جیسا بنانا پڑے گا اور درست طریق یہی ہے کہ تم اسے بھی اپنے اندر شامل کرنے کی کوشش کرو۔ اس صورت میں بھی وہ تمہاری طرف اپنا ہاتھ بڑھا کر کہے گا کہ یہ میرا محسن ہے اور تمہاری آپس کی مخالفت ختم ہوجائے گی لیکن اگر تم اس طریق کو اختیار نہیں کرتے اور یہ شور مچاتے چلے جاتے ہو کہ لوگ ہمارے دشمن ہیں تو اس سے زیادہ بے وقوفی کی علامت اور کیا ہو سکتی ہے۔ اگر تم نے احمدیت کو سمجھا ہے اور اگر تم نے احمدیت کے مغز کو حاصل کیا ہے تو تمہیں اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ سوائے اس کے کہ کوئی شخص سچائی کی تحقیق کر رہا ہو اور اُس پر ایک حد تک سچائی کُھل چکی ہو۔ یا سوائے ان کے جو مادرپِدر آزاد ہوتے ہیں وہ مسلمان کہلاتے ہیں مگر مسلمان نہیں ہوتے، عیسائی کہلاتے ہیں مگر عیسائی نہیں ہوتے، یہودی کہلاتے ہیں مگر یہودی نہیں ہوتے، ہندو کہلاتے ہیں مگر ہندو نہیں ہوتے، باقی کسی انسان سے تمہارا یہ امید کرنا کہ جس عظیم الشان کام کے لئے تم کھڑے ہوئے ہو اُس میں تمہاری کوئی مخالفت نہ کرے ایک بالکل احمقانہ اور مجنونانہ خیال ہے۔ یہ مخالفت اسی صورت میں ختم ہو سکتی ہے جب تم ان کو اپنا دوست بنائو اور وہ دوست اسی صورت میں بن سکتے ہیں جب تم ان کی غلط فہمیوں کو دور کردو اور انہیں اسلام اور احمدیت کی برکات سے روشناس کرو۔ پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے زندگی بسر کرو اور اس خیال میںمت رہو۔ (خصوصاً مَیں زمینداروں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں) کہ فلاں مشکل پیدا ہو گئی ہے کسی آدمی کو قادیان بھیجا جائے جو کسی ناظر سے ملے ناظر خدا نہیں، میں خدا نہیں، جب خدا نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ جو لوگ اس کے دین کی خدمت کے لئے کھڑے ہوں گے انہیں ابتلائوں اور امتحانوں کی بھٹی میں سے گزرنا پڑے گا تو کوئی انسان تمہاری کیا مدد کر سکتا ہے۔ اگر تم آرام کی زندگی بسر کرنا چاہتے ہو تو یا درکھو کہ آرام سے زندگی بسر کرنے والوں کے لئے احمدیت میں کوئی جگہ نہیںکیونکہ احمدیت اس لئے نہیں آئی کہ اپنے عقائد کو ترک کر کے اور مداہنت سے کام لے کر دنیا سے صلح کر لے، احمدیت اس لئے نہیں آئی کہ گائوں کے چند نمبردار اس کا اقرار کر لیں اور وہ تمہیں دُکھ نہ دیں، احمدیت اس لئے نہیں آئی کہ چند بڑے بڑے چوہدری اس کی صداقت کا اقرار کر لیں، بلکہ احمدیت اس لئے آئی ہے کہ سارے گائوں، سارے شہر، سارے صوبے، سارے مُلک اور سارے برِّاعظم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈال دئیے جائیں۔ پس یہ چیزیں حقیقت ہی کیا رکھتی ہیں کہ ان کی طرف توجہ کی جائے جس دن یہ آگ تم میںپیدا ہو گئی تم اپنے آپ کو مضبوطی میں ایک پہاڑ محسوس کرو گے لیکن جب تک یہ آگ تم میں پیدا نہیں ہو گی تم چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش رہو گے جیسے بیمار مر رہا ہوتا ہے تو وہ افیون کی گولی کھا لیتا ہے۔ افیون کی گولی سے اس کا درد بے شک کم ہو جائے مگر اسے آرام نہیں آئے گا۔ اس کے مقابلہ میںعقلمند انسان افیون نہیں کھائے گا بلکہ وہ کہے گا میں درد برداشت کرلوں گا مگر صحیح رنگ میں اپنا علاج کرائونگا اس صورت میں وہ بچ بھی جائے گا پس ان چھوٹے چھوٹے جھگڑوں کی پروا مت کرو۔ تم کو خدا نے عظیم الشان کام کے لئے پیدا کیا ہے مگر تمہاری مثال بعض دفعہ ویسی ہی ہو جاتی ہے جیسے مشہور ہے کہ کشمیر کے مہاراجہ نے ڈوگروں کی فوج کے علاوہ ایک دفعہ کشمیریوں کی بھی فوج بنائی مگر اس سے وہ کشمیری مراد نہیں جو پنجاب میں رہتے ہیں اور جو ہر لڑائی میںڈنڈا لے کر آگے آ جاتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ پنجاب میں کشمیری آ کر بہادر ہو جاتا ہے اور کشمیر میں پنجابی جا کر بُزدل ہو جاتا ہے بہرحال مہاراجہ نے کشمیر یوں کی بھی ایک فوج تیار کی۔ ایک دفعہ سرحد پر لڑائی ہوئی اور گورنمنٹ برطانیہ کو مختلف راجوں مہاراجوں نے اپنی اپنی ریاستوں کی طرف سے فوجی امداد دی۔ کشمیر کے مہاراجوں نے بھی اِس فوج کو سرحد پر جانے کا حکم دیا او رکہا ہم امید کرتے ہیں کہ تم اچھی طرح لڑو گے سالہاسال تو ہم سے تنخواہ لیتے رہے ہو اب حق نمک اد ا کرنے کا وقت آیا ہے اس لئے تم سے امید کی جاتی ہے کہ تم اس نازک موقع پر اپنے فرائض کو عمدگی سے سرانجام دو گے۔ کشمیریوں نے جواب دیا کہ سرکار!ہم نمک حرام نہیں ہم خدمت کے لئے ہروقت حاضر ہیںمگر حضور کے یہ خادم سپاہی ایک بات عرض کرنا چاہتے ہیں۔ لڑائی کا موقع تھا اورمہاراجہ ان کو خوش کرنے کے لئے تیار تھا اُس نے سمجھا اگر یہ راشن بڑھانے کا مطالبہ کریں گے تو راشن بڑھا دوںگا، تنخواہ میں زیادہ کامطالبہ کرینگے تو تنخواہ زیادہ کردوں گا چنانچہ اس نے کہا بتائو کیا چاہتے ہو ؟کشمیری کہنے لگے حضور! ہم نے سنا ہے پٹھان ذرا سخت ہوتے ہیں ہمارے ساتھ پہرہ ہونا چاہئے۔ گویا وہ جان دینے کو تیار ہیں، لڑائی پرجانے کے لئے آمادہ ہیں مگر کہتے ہیں پٹھان ذرا سخت ہوتے ہیں ساتھ پہرہ ہونا چاہئے۔ وہ لوگ جو احمدیت میںداخل ہیں مگر پھر خیال کرتے ہیں کہ فلاں نے چونکہ ہمیں مارا پیٹا ہے اس لئے دَوڑو اور قادیان چل کر شکایت کرو وہ بھی درحقیقت ایسے ہی ہیں وہ بھی کہتے ہیں ہمارے ساتھ کسی ناظر کا پہرہ ہونا چاہئے ایسا شخص سپاہی کہلانے کا مستحق نہیں ہو سکتا ۔سپاہی وہی کہلاسکتا ہے جو بہاد ر ہو اور ہرمصیبت کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہو۔ درحقیقت احمدیت قبول کرنا اوکھلی میںسر دینے والی بات ہے۔ کسی نے کہا ہے ’’اوکھلی میں سر دینا تو موہلوں کاکیا ڈر‘‘ یعنی جب اوکھلی میں سر دے دیا تو ا ُس ڈنڈے کا جس سے چاول کوٹے جاتے ہیں کیا ڈر ہو سکتا ہے۔ اسی طرح جب کوئی شخص احمدیت میں داخل ہو تو اسے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت مجھ پرمصائب بھی آئے تو میں ان تمام مصائب کو برداشت کروں گا اور کسی موقع پر بھی اپنا قدم پیچھے نہیں ہٹائوںگا۔

(جاری ہے )

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button