احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
1860ء تا 1867ء
سیالکوٹ کا زمانہ
ملازمت اور پس منظر
[پہلے بیان ہوچکاکہ آپ کاملازمت کرناکوئی قابل اعتراض ان معنوں میں نہیں کہ نبی ملازمت نہیں کیاکرتااوریہ کہ کیاکیاخدائی حکمتیں اور مصالح تھے]
حضرت اقدس علیہ السلام کی سوانح کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں بخوبی احساس ہوتاہے کہ ہرباپ کو جیساکہ اپنے بچوں سے محبت ہوتی ہے اوراسی محبت کے تابع وہ اپنی اولاد کی اعلیٰ تعلیم وتربیت کا خواہاں ہوتاہے یہی جذبہ یہاں کارفرما تھا بلکہ حضرت اقدسؑ کے والدبزرگوار حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحبؒ اپنے اس بیٹے کے ساتھ بطورخاص محبت کا اظہار فرماتے۔ دینی اورروحانی اٹھان سے تو وہ واقف تھے ہی اس کے ساتھ ساتھ ان کایہ بھی خیال تھا کہ دنیاوی جاہ وحشمت کے بھی وارث ہو جائیں توباپ کے لئے یوں زیادہ تسکین کا باعث ہوسکے گا۔ وہ اپنے اس بیٹے کو بھی اپنی ریاست کے اموراورنظم ونسق کے سنبھالنے میں شریک کارکرناچاہتے تھے اور اسی جذبہ مودّت وترحّم کے طورپر اپنے بیٹے کے ’’مستقبل‘‘کے لئے تگ ودَو فرماتے رہتے۔ لیکن حضرت اقدسؑ ان کاموں کے لئے تو پیدا ہی نہیں کئے گئے تھے۔ جس کام کے لئے پیداکئے گئے اس کے لیے پیداکرنے والا رب العالمین خود اپنے رنگ اورطریق سے ان کی تعلیم وتربیت کروارہاتھا۔ باپ بیٹے کی سوچ میں کبھی کبھی ایک کشمکش کی سی کیفیت بھی ہمیں نظر آتی ہے۔ لیکن یہ تناؤصرف ایک وقتی طورپر ہوتا وگرنہ وہ بزرگ باپ بھی اپنے نورفراست او ر بعض اشارات کی بنا پر سمجھتاتھا کہ میرابیٹا اس دنیا میں ہوتاہوابھی اس دنیا کا نہیں ہے اور اسی لئے باپ کی نظروں میں اس بیٹے کا ایک خاص مقام اور محبت کی جگہ بھی ہم جان لیتے ہیں۔ وہ تواپنے اس بچے کی پیدائش پر ہی یہ کہاکرتے تھے کہ ’’ہمارے گھرمیں ولی پیداہواہے‘‘۔
(مکتوب رائے کنورسین پسرلالہ بھیم سین وزیرانصاف و چیف جسٹس کشمیر بحوالہ سیرت المہدی جلد 2تتمہ ص343)
اسی محبت اورمہربانی کا ذکر کرتے ہوئے خودحضرت اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’ان کی ہمدردی اور مہربانی میرے پر نہایت درجہ پر تھی مگروہ چاہتے تھے کہ… میں دنیوی امور میں ہر دم غرق رہوں جو مجھ سے نہیں ہو سکتا تھا۔ مگر تاہم میں خیال کرتا ہوں کہ میں نے نیک نیتی سے نہ دنیا کے لئے بلکہ محض ثواب اطاعت حاصل کرنے کے لئے اپنے والد صاحب کی خدمت میں اپنے تئیں محو کر دیا تھا اور ان کے لئے دعا میں بھی مشغول رہتا تھا اور وہ مجھے دلی یقین سے برّ بالوالدین جانتے تھے اور بسا اوقات کہا کرتے تھے کہ میں صرف ترحّم کے طور پر اپنے اس بیٹے کو دنیا کے امور کی طرف توجہ دلاتا ہوں ورنہ میں جانتا ہوں کہ جس طرف اس کی توجہ ہے یعنی دین کی طرف صحیح اور سچ بات یہی ہے ہم تو اپنی عمر ضائع کر رہے ہیں۔ ‘‘
(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد13 صفحہ 182-184حاشیہ)
یہ تھا وہ پس منظر جس میں حضرت اقدسؑ کی عمرکا کچھ حصہ ملازمت میں بسرہوا۔ اورآپؑ کی ملازمت کا سب سے لمبا اورایک معین زمانہ بھی یہی ہے جس کاذکرہم اپنے اس باب میں کچھ تفصیل سے کرناچاہتے ہیں یعنی سیالکوٹ میں ملازمت۔
ملازمت کہاں کہاں کی!
البتہ کچھ اور ایسے مواقع بھی پیش آئے جن میں آپؑ کو ملازمت کی پیشکش ہوئی یا آپؑ نے ملازمت کا ارادہ فرمایا۔ مناسب معلوم ہوتاہے کہ ان کا ذکربھی یہیں اس باب میں کردیاجائے۔ ان کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔
I: کشمیر میں ملازمت
آپؑ کے والد ماجد ایک زمانے میں کشمیر میں ’صوبہ‘ کے وقیع عہدہ پرفائز رہ چکے تھے جو کہ ڈپٹی کمشنر/کمشنرکے برابرتھا۔ حضرت اقدسؑ کے بعض اکابررشتہ داروں کی تحریک کی بنا پر حضرت مرزاصاحب اپنے ایک ساتھی سید محمد علی شاہ صاحب کے ساتھ تلاش روزگارکے سلسلہ میں عازم کشمیرہوئے۔ براستہ کلانور جموں پہنچے۔ وہاں بھی آپ کا معمول قرآن شریف کی تلاوت اور نمازوں کے التزام کے سواکچھ نہ تھا۔ اور ظاہر ہے کہ باقاعدہ ملازمت کا کوئی موقع نہیں ملاہوگا۔ جیساکہ تاریخ وسیرت کی ابتدائی کتب سے ظاہرہوتاہے۔
(ماخوذازحیات احمدؑ ازعرفانی صاحبؓ جلداول ص89، مجدداعظم جلداول ص41، تاریخ احمدیت جلداول صفحہ 80)
II: دینانگر میں ملازمت
شہنشاہ اکبرکے ایک وفادار جرنیل دینہ بیگ کو اکبر نے وسیع وعریض جاگیرعطاکی اسی دینہ بیگ کے نام پریہ شہرآبادہوا۔ آموں کے وسیع وعریض باغات کی وجہ سے بھی مشہورہوااوراس کی ایک تاریخی اہمیت یہ بھی ہے کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کا گرمیوں میں یہ دارالحکومت ہوا کرتا تھا۔ پنجاب پر جب سکھوں کی حکومت کے خاتمہ کے بعد انگریزی حکومت کی عملداری کا آغاز ہواتو ابتدائی طورپر دینانگر کو ہی ضلعی ہیڈکوارٹر کادرجہ دیاگیا۔ اس وقت وہاں ملازمت کے کچھ مواقع سامنے آنے پر حضرت اقدسؑ کے والدماجدنے آپؑ کو وہاں ملازم کروادیا چنانچہ ہم پڑھتے ہیں کہ
’’1852ء میں جب بندوبست شروع ہوا تو اس کا ہیڈ آفس اس ضلع میں بمقام دینانگر تھا۔ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم کی تحریک پر یہ تجویز ہوئی کہ آپؑ بندوبست میں ملازم ہو جائیں۔ تا کہ ابتدائی کا م سیکھ کر جلد ترقی حاصل کر سکیں۔ چنانچہ اس مقصد کے لئے آپؑ کو دینانگر بھیجا گیا۔ اور آپؑ ملازم بھی ہو گئےمگر ایک دن سے زیادہ عہدملازمت نہ رہا۔ ‘‘(حیات احمدؑ ازعرفانی صاحبؓ جلداول ص432)
III: ریاست کپورتھلہ کے سررشتہ تعلیم کی افسری کی پیشکش
سیالکوٹ سے ترک ملازمت کرکےجب آپؑ قادیان واپس تشریف لے آئے تو کچھ عرصہ کے بعد ریاست کپور تھلہ کی طرف سے وہاں کے صیغہ تعلیم کی افسری کے لئے آپؑ کو بلایا گیا۔ قادیان کے باب میں یہ ذکرہو اہے۔ کہ جن ایام میں حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحبؒ بیگو وال میں تھے۔ تو مہاراجہ کپور تھلہ کی خواہش تھی کہ آپ مستقل طور پر وہاں رہ جائیں۔ اور وہ ایک معقول جاگیر آپ کو دینا چاہتا تھا مگر جناب مرزا غلام مرتضیٰ صاحبؒ نے انکارکر دیا تھا۔ ریاست کے اعلیٰ عہدہ داروں کے ساتھ آپ کی راہ ورسم تھی۔ اور وہ چاہتے تھے کہ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحبؒ کے صاحبزادوں میں سے ہی کوئی وہاں رہے۔ مرزا غلام قادر صاحب چونکہ سرکاری ملازم ہو چکے تھے۔ اس لئے ریاست کپور تھلہ نے حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب علیہ الصلوٰة والسلام کو بلانا چاہا۔ مگر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اس عزت و حکومت کی نوکری سے انکار کر دیا اور حضرت والد صاحب قبلہ کی خدمت میں عرض کیا کہ
’’میں کوئی نوکری کرنی نہیں چاہتا ہوں۔ دو جوڑے کھدر کے کپڑوں کے بنادیا کرو۔ اور روٹی جیسی بھی ہو بھیج دیا کرو۔‘‘
اس سے آپ کی سیر چشم اور قانع طبیعت کاپتہ صاف ملتا ہے کہ دنیاکی حرص و آز ہوتی (نعوذبالله)یا آپ شہرت اور حکومت کے دلدادہ ہوتے تو بہتر سے بہتر مواقع آپ کے سامنے پیش آئے۔ مگر آپ کو کبھی ان باتوں نے تحریک نہیں کی۔ آپ کی ضروریات اور خواہشات کا دائرہ بہت ہی محدود تھا۔ اس وقت بھی جبکہ آپؑ کے سامنے دو اڑھائی سو روپیہ ماہوار کی ملازمت پیش ہوتی ہے۔ اور حضرت مرزا غلام احمد صاحب جیسی خوبی اور قابلیت کا انسان جو بڑی ترقی کرنے کی استعداد رکھتا تھا۔ اگر دنیا کا دلدادہ ہوتا تو بڑی خوشی سے منظور کرتا۔ مگر وہ برخلاف اس کے انکار کرتے ہیں۔ اور اپنی ضروریات کو کپڑے کے دو جوڑوں اور معمولی روٹی میں محدود کر دیتے ہیں۔ حضرت والد صاحب قبلہ نے جب آپؑ کا یہ فیصلہ سنا تو نہایت رقت قلب کے ساتھ ایک شخص میاں غلام نبی کو مخاطب کر کے فرمایا کہ میاں غلام نبی میں خوش تو اسی پر ہوں۔ سچی راہ تو یہی ہے۔ جس پر یہ چل رہا ہے۔
(ماخوذ از حیات احمدؑ جلداول ص:294)
IV: سیشن ججی کی اسیسری سے دست بردار ہو گئے
حضرت اقدسؑ نے ایک جگہ خودذکرفرمایاہے کہ
’’میں خودایک مرتبہ اسیسرہوکر گیاتھا۔ ایک شخص نے بارہ آنے یا…(سواروپیہ) میں ایک بچہ کاخون کیاتھا۔ ‘‘
(ملفوظات جلد2 صفحہ 78/الحکم ج4ش25 مورخہ 9جولائی 1900ء ص4 کالم 1)
البتہ معلوم ہوتاہے کہ مستقل طورپراس کوبھی اختیار نہیں فرمایاجیساکہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ بیان کرتے ہیں :
’’دنیا کے گرفتاران شہرت کو ناموری کی ہمیشہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ حکام رس ہوں اور جس طرح ممکن ہو وہ سرکار دربار میں عزت وامتیاز حاصل کریں۔ مگر ان کی طبیعت ایسی باتوں سے بے نیاز اور بے پروا تھی۔ ایک مرتبہ وہ عدالت سیشن کے لئے اسیسر منتخب ہوئے۔ اگرحضرت مسیح موعودؑ کی جگہ کوئی دوسرا آدمی ہوتا تو اس انتخاب پر بہت خوش ہوتا۔ اور اپنی ترقیات کے لئے اس کو ایک زینہ قرار دیتا۔ مگر حضرت مسیح موعودؑ نے اس کے متعلق کیا کیا؟صاف انکار کر دیااور درخواست کر دی کہ میں نہیں ہونا چاہتا۔ ‘‘
(حیات احمدؑ جلداول ص222، 221وماخوذ از مجدداعظم جلداول ص55)
V: پنجاب یونیورسٹی میں مدرسی کی تجویزپر ناپسندیدگی کا اظہار
شمس العلماء سیدمیرحسن صاحب جوکہ، حضرت مسیح موعودؑ کے صحابی حضرت سید میر حامد شاہ صاحبؓ کے چچا ہیں اور علامہ موصوف سیالکوٹ کے معروف عالم دین مولوی اور مشہورشاعر علامہ اقبال کے استاد بھی تھے اور سیالکوٹ میں قیام کے زمانہ میں انہوں نے حضرت اقدسؑ کو قریب سے دیکھا تھا ان کی خدمت میں حضرت مسیح موعودؑ کے اولین سوانح نگاروں میں سے ایک حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے درخواست کی کہ تب کے حالات وواقعات کے متعلق کچھ بتایا جائے جس پرانہوں نے دومرتبہ تفصیلی خط لکھے۔ [ایک خط توانہوں نے حضرت شیخ صاحبؓ کو لکھاجوانہوں نے حیات احمدؑ جلداول صفحات91-97 میں درج فرمایا پھربعد میں ایک بار حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحبؓ نے مولوی صاحب سے تحریری روایت لے کر اپنی تصنیف سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 150کے طورپر درج فرمائی اور کچھ مزیدجو مولوی صاحب نے 26؍نومبر1922ء کو لکھا وہ اسی سیرت المہدی حصہ اول میں روایت نمبر280کے تحت لکھا۔]بہرحال اس خط میں انہوں نے حضرت اقدسؑ کی ملازمت کے متعلق ایک اور موقعہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
’’ان دنوں میں پنجاب یونیورسٹی نئی نئی قائم ہوئی تھی۔ اس میں عربی استاد کی ضرورت تھی۔ جس کی تنخواہ ایک سو روپیہ ماہوار تھی میں نےان کی خدمت میں عرض کی(مولوی سید میرحسن صاحب نے) آپ درخواست بھیج دیں۔ چونکہ آپ کی لیاقت عربی زبان دانی کی نہایت کامل ہے۔ آپ ضرور اس عہدہ پر مقرر ہو جائیں گے۔ فرمایا:
میں مدرسی کو پسند نہیں کرتا کیونکہ اکثر لوگ پڑھ کر بعد ازاں بہت شرارت کے کام کرتے ہیں اور علم کو ذریعہ اور آلہ ناجائز کاموں کا کرتے ہیں میں اس آیت کے وعید سے بہت ڈرتا ہوں
اُحْشُرُوا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَھُمْ۔ (الصّٰفّٰت:23)
اس جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیسے نیک باطن تھے۔‘‘
(حیات احمدؑ جلداول ص96، 95، سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر150)
(باقی آئندہ)