ایک نووارد اور حضرت اقدس علیہ السلام (حصہ چہارم)
نو وارد:۔ اس وقت آپ کے پاس کیا معجزہ ہے؟
حضرت اقدس: ایک ہو تو بیان کروں۔ ڈیڑھ سو کے قریب نشان میں نے اپنی کتاب میں لکھے ہیں جن کے ایک لاکھ کے قریب گواہ ہیں اور ایک نوع سے وہ نشانات ایک لاکھ کے قریب ہیں۔
نو وارد:۔ عربی میں آپ کا دعویٰ ہے کہ مجھ سے زیادہ فصیح کوئی نہیں لکھ سکتا۔
حضرت اقدس: ہاں۔
نو وارد: بے ادبی معاف۔ آپ کی زبان سے قاف ادا نہیں ہوسکتا۔
حضرت اقدس: یہ بیہودہ باتیں ہیں۔[ البدر میں ہے: ’’یہ ایک بیہودہ اعتراض ہے‘‘(البدر جلد2 نمبر 6مورخہ 27؍فروری 1903ء صفحہ 45)] میں لکھنؤ کا رہنے والا تو نہیں ہوں کہ میرا لہجہ لکھنوی ہو میں تو پنجابی ہوں۔ حضرت مو سیٰ پر بھی یہ اعتراض ہو اکہ
لَا يَكَادُ يُبِيْنُ(الزخرف:53)
اور احادیث میں مہدی کی نسبت بھی آیا ہے کہ اس کی زبان میں لکنت ہو گی۔
اس مقام پر ہمارے ایک مخلص مخدوم کو یہ اعتراض حسنِ ارادت اور غیرتِ عقیدہ کے سبب سے ناگوار گذرا۔ اور وہ سُوئِ ادبی کو برداشت نہ کرسکے۔ اور انہوں نے کہا کہ یہ حضرت اقدسؑ ہی کا حوصلہ ہے۔ اس پر نو وارد صاحب کو بھی طیش سا آگیا اور انہوں نے بخیال خویش یہ سمجھا کہ انہوں نے غصّہ سے کہا ہے اور کہا کہ میں اعتقاد نہیںرکھتا اور حضرت اقدس سے مخاطب ہو کر کہا کہ استہزاء اورگالیاں سننا انبیاء کا ورثہ ہے۔
حضرت اقدس: ہم ناراض نہیں ہوتے یہاں تو خاکساری ہے۔
نو وارد: میں تو
لٰكِنْ لِّيَطْمَىِٕنَّ قَلْبِيْ (البقرۃ:261)
کی تفسیر چاہتا ہوں۔
حضرت اقدس: میں آپ سے یہی توقع رکھتا ہوں مگر اللہ جلّشانہ نے اطمینان کا ایک ہی طریق نہیں رکھا۔ موسیٰ علیہ السلام کو اَور معجزات دیئے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اَور معجزات دیئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اَور قسم کے نشان بخشے۔ میرے نزدیک وہ شخص کذاب ہے جو یہ دعویٰ کرے کہ میں خدا کی طرف سے آیا ہوں اور کوئی معجزہ اور تائیدات اپنے ساتھ نہ رکھتا ہو۔ مگر یہ بھی میرا مذہب نہیں کہ معجزات ایک ہی قسم کے ہوتے ہیں اورمیں اس کا قائل نہیں کیونکہ قرآن شریف سے یہ امر ثابت نہیں کہ ہر ایک اقتراح کا جواب دیا جاتا ہے۔ مداری[ البدر میں ہے:’’معجزات مداری کا کھیل نہیں کہ جو کچھ اس سے مانگا اس نے جھٹ ٹوکرے یا تھیلے میں سے نکال کر دکھا دیا۔ ‘‘(البدر جلد2 نمبر7 مورخہ 6؍ مارچ 1903ء صفحہ 51)]کی طرح یہ بھی نہیں ہوسکتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیے گئے کہ آپ آسمان پر چڑھ جائیں اور وہاں سے کتاب لے آئیں یا یہ کہ تمہارا سونے کا گھر ہو یا یہ کہ مکہ میں نہر آجائے مگر ان کا جواب کیا ملا؟
هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا(بنیٓ اسـرائیل:94)۔
انسان کو مؤدب بادب انبیاء ہوناچاہیے۔ خداتعالیٰ جو کچھ دکھاتا ہے انسان اس کی مثل نہیں لاسکتا۔ میری تائید میں ایک نوع سے ڈیڑھ سو اور ایک نوع سے ایک لاکھ نشانات ظاہر ہوئے ہیں۔[البدر میں ہے:’’سو ایسے نشان ہم نے نزول المسیح میں لکھے ہیں اور ایک طریق سے دیکھا جاوے تو یہ نشان کئی لاکھ موجود ہیں۔ آپ ایک دو دن ٹھہریں اور دیکھ لیویں‘‘۔
محمد یو سف صاحب: اجی جناب ٹھہر کر کیا کروں گا۔ اکیلا آدمی ہوں اور یہاں یہ جوش و خروش۔ میں ڈرتا تو کسی سے نہیں مگر ایسا ہی لگتا ہے تو میں بھی تار دے کر اپنے دوستوں کو بُلالیتا ہوں۔
نا ظرین پر واضح ہو کہ اس اثناء میں جبکہ ہمارے جو شیلے احمدی بھائی نے ان نئے سائل کو غیرتمندانہ جواب دیا تھا تو حضرت اقدس نے ان کو چُپ کروادیا تھا۔ پھر محمد یوسف صاحب کے اس اعتراض پر فرمایا۔
حضرت اقدس: یہ تقاضائے محبت ہے کچھ اَور نہیں۔ محبت میں ایسا ہوا کرتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بھی اس کی نظیر دیکھی جاتی ہے کہ ابو بکر ؓجیسا شخص جو کہ غایت درجہ کا مؤدب تھا جب اس کے سامنے ایک عرب کے سر بر آوردہ شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی کو ہاتھ لگا کر کہا کہ تو نے ان مختلف لوگوں کا جتھا بناکر جو عرب کی قوم کا مقابلہ کرنا چاہا یہ غلطی ہے تو حضرت ابو بکرؓ نے اس وقت بڑے غصّہ میں آکر اُسے کہا
اُمْصُصْ بِبَظْرِ اللَّاتِ
(یہ عرب میں ایک گالی ہوتی ہے)آپ کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ یہ کس قدر نقصان برداشت کرکے یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ محبت ہے جس نے بٹھایا ہوا ہے۔ آپ نو وارد اور یہ قابلِ احترام۔ (البدر جلد 2نمبر 7مورخہ 6؍مارچ 1903ء صفحہ 51)]
(ملفوظات جلدنمبر 5صفحہ 89-91۔ ایڈیشن 1984ء)