یادِ رفتگاں

میرے والد محترم چودھری عبدالحق صاحب (قسط دوم۔ آخری)

(رانا مشہود احمد۔ مربی سلسلہ، یوکے)

فرقان فورس

’ایک بات اَور یاد آگئی جو قابل ِ ذکر ہے۔یہ 1949ء یا 1948ء کا زمانہ تھا جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے حکم پر کشمیر محاذ پر فرقان بٹالین کی تحریک ہوئی کہ نوجوان محاذ کشمیر پر جائیں تو میں نے اپنا نام پیش کر دیا۔محاذپر جانے والے پہلے رتن باغ لاہور جاتے تھے پھر وہاں سے آگے بھجوائے جاتے تھے۔چنانچہ خاکسار رتن باغ لاہور پہنچا تو دل میں خیال آیا کہ حضرت نبی کریم ﷺنے فرمایا ہے کہ جس کی بیوی گھر میں اکیلی ہو وہ نہ جائے۔چنانچہ وہیں ایک پٹھان بزرگ آدمی جس نے چائے کا کھوکھا لگایا ہوا تھا ان سے یہی مسئلہ پوچھا تو کہنے لگا ٹھیک ہے آپ واپس چلے جائیں میں واپس گھر آگیا۔رات کو بستر پر لیٹا تو میرے دل میں خیال آیا کہ حضورؐ کا یہ حکم تو نہیں کہ اس حالت والا نہ جائے۔چنانچہ پھر ڈر کر لاہور روانہ ہو گیا۔وہاں جا کر تین دن رتن باغ لاہور گزرے پھر وہاں سے روانہ ہو گئے۔ہماری جماعت کا کیمپ سرائے عالمگیر نہر کے کنارے پر تھا وہاں دس دن ٹھہرے۔رائفل سیدھی کرنی سکھائی گئی تو محاذکے لیے چل پڑے۔

راستے میں ایک مقام باغ سر جگہ تھی،جہاں تیسرے دن پہنچے۔یہاں جاتے ہوئے جماعت نے سوئی،دھاگہ بھی ساتھ دیا کہ جہاں کہیں وردیاں پھٹیں،انہیں سی لیں۔محاذ پر پہنچے تو چونکہ برسات کے دن تھے اور وہاں جو کھانا مسور کی دال،گڑ اور آٹا وغیرہ گدھوں پر لاد کر آتا تھا،نالوں سے گزرتے ہوئے بھیگ جاتا تھا اس لیے پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھا سکتے تھے،ایک ڈبہ چائے کمپنی کو ملتا تھا۔بارشوں کی کثرت کی وجہ سے مچھر بھی بہت کاٹتا تھا۔ادھر مولویوں نے حکومت کو گمراہ کیے رکھا کہ یہ لوگ آپ کا سب کچھ لے جائیں گے،خیر یہ حکومت کی لا پروائی تھی۔میں دو ماہ وہاں محاذ پر رہ کر واپس آگیا۔

جب حکومت کو ہمارے کام کا پتہ چلا تو وہاں پہ موجود مجاہدین کے لیے مکھن،گوشت اور کھلا راشن دیا۔ ہمارے بعد جانے والے دوست جب واپس آئے تو ان کے وزن دوگنا ہو چکے تھے۔اس محاذکی ایک نشانی تمغہ چاندی رہ گئی ہے جو اس وقت میرے بیٹے عزیزم مکرم رانا مشہود احمدصاحب مبلغ سلسلہ کے پاس ہے۔ جو آج کل (بوقت تحریر) گیمبیا میں میدان عمل میں جہاد میں مصروف ہیں بفضلہ تعالیٰ۔اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رضا کی راہوں پر چلائے اور حضور انور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا موجب بنائے۔آمین

وقف زندگی کے لیے خود کو پیش کرنا

جب شروع میں وقف زندگی کی تحریک چلی تومیں نے اپنا نام پیش کر دیا۔جب انٹر ویو کے لیے دفتر بلایا گیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کا حکم تھا کہ اپنی جماعت کے صدر صاحب کی تعارفی چٹھی ساتھ لائیں،وہ حضور کی خدمت میں بھیج دی اور دفتر والوں نے انٹر ویو لینا شروع کر دیا۔سوال ہوا کہ اگر آپ کو سندھ بھیج دیا جائے تو چلے جائو گے ؟میں نے عرض کی کہ میں نے خود کو وقف کر دیا ہے،تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ کس جگہ جانا ہے اور کس جگہ نہیں جانا۔بہر حال دفتر نے منظور کر لیا۔جب صدر صاحب کی چٹھی کا جواب حضرت صاحب کی طرف سے آیا تو حضور نے فرمایا ان کو واپس بھیج دیں۔میں نے کہا اب کیا ہوا ہے؟میں واپس جانے کے لیے نہیں آیا،لیکن چٹھی پر لکھا تھا کہ ان کے جانے سے یہاں جماعت کا کام نہیں چلے گا اس لیے جائو تم وقف ہی وقف ہو۔وہاں سے مایوس لوٹ آیالیکن درخواست کرتاہوں کہ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔آمین۔

وقف عارضی

تقریباًہر سال اللہ تعالیٰ وقف عارضی میں بھی حصہ لینے کی توفیق دیتا رہا ہے۔چھوٹی سی دکان رکھی ہوئی تھی جو کہ 1941ء میں احمدیت قبول کرنے کے بعد شروع کی تھی،بعد میں دکان بڑھانے کا موقع بھی ملا لیکن کام کو وسعت اس لیے بھی نہیں دی کہ دنیا کے کاموں میں پھنس گیا تو دین کا کام پیچھے رہ جائے گا۔

مرکزی مہمانوں کی خدمت کی توفیق اور اس کی برکات

مرکزسے مربیان اور انسپکٹران وغیرہ آتے رہتے تھے،وہ بفضلہ تعالیٰ میرے پاس ہی ٹھہرتے تھے اورچونکہ وہ بزرگ ہوتے تھے لہٰذا اکثران کو وقت دینا پڑتا تھا،ان کے ساتھ دوسرے گائوں جہاں ان کو جانا مقصود ہوتا تھا،جانا پڑتا۔ان مہمانوں کی برکات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا ایسا سلوک رہا ہے کہ ا س نے مجھے کسی چیز کی کمی نہیں آنے دی۔میرا خدا کے ساتھ معاملہ یوں ہی رہا جیسے ماں اپنے بچوں کو گود میں رکھ کر حفاظت کرتی ہے اور پیار کرتی ہے۔میں اپنے دل میں یہ خیال کرتا تھا کہ اب اللہ تعالیٰ سے کونسی چیز مانگوں کہ اس نے مجھے ہر چیز سے نوازا ہوا تھا۔دنیا کی کوئی چیز اکٹھی نہیں کی۔کوشش کی کہ جہاں تک ممکن ہو خلیفہ وقت کی ہر آواز پر لبیک کہوں۔کوئی زمینیں وغیرہ نہیں خریدیں اگر خریدا تو وہ بھی ربوہ میں صرف ڈیڑھ کنال کا پلاٹ خریدا اور غرض صرف یہی تھی کہ اولاد کی توجہ اور تعلق مرکز کے ساتھ قائم رہے۔

خدمتِ خلق کی توفیق

یہ 1947ء کی بات ہے ایک ہندو جسے لوگ پھلی کے نام سے پکارتے تھے اکیلا ہی تھا۔کچھ زمین وغیرہ کا مالک تھا۔ایک غیر احمدی زمین کے لالچ میں اپنے پاس لے آیا ہواتھا مگر اب وہ کمزور اور بوڑھا ہو چکا تھا اور کوئی پرسان حال نہ تھا۔کھانا وغیرہ ہمارے گھروالے دے جاتے تھے جس پر وہ بہت دعائیں دیاکرتا تھا ایک دن وہ فوت ہو گیا،اطلاع ملی تو اور احمدیوں کو ساتھ لے کر باہر نالے پر لے جا کراچھی طرح غسل دیا اور تدفین کی۔

اسی طرح غیر احمدیوں کا ایک مہمان ہمارے پاس پنڈی بھاگو آیا ہوا تھا۔اس کا بھی کوئی پرسان حال نہ تھا۔چند دن بیمار رہ کر وفات پا گیا۔صبح جا کر دیکھا تو اس کے ناک میں چیونٹیاں چڑھ گئی ہوئی تھیں،ہم احمدیوں نے اس کو غسل دیا اور کفن دفن کا انتظام کیا۔یہ محض خدا تعالیٰ کی رضا کے لیے کیا گیا ورنہ ان سے ہمارا کوئی ذاتی تعلق نہیں تھا۔

بارشوں کے ایام میں سارا پانی گائوں کے اندر آتا تھا،اس کی روک تھام کے لیے گائوں سے باہر خدام کی مدد سے کھائیاں اور نالیاں بنا کر پانی کا بہائو باہر کی طرف کیا گیا تا کہ آئندہ پانی سے بچائو رہے۔پھر وہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔

ایک دفعہ چودھری نواب محمد دین صاحب موضع تلونڈی نزد پسرور والے کے صاحبزادے مکرم چودھری محمد نقی صاحب ایڈوو کیٹ جو سیالکوٹ میں پریکٹس کرتے تھے۔ان کی رہائشی کوٹھی نزد مشن ہسپتال تھی۔وہ بہت نیک اور عاشق سلسلہ تھے۔الیکشن میں کھڑے ہوئے،ان کو لیگ کی طرف سے ٹکٹ نہ ملا تو آزاد امیدوار کے طور پر کھڑے ہو گئے۔ہمارے گائوں کی جماعت کے تقریباً ساٹھ کے قریب احمدیوں کے گھر تھے اور احمدی ہی گائوں میں با اثر افراد تھے،یہ سب چودھری محمد نقی صاحب کے خلاف تھے۔وجہ پوچھی گئی تو کہنے لگے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کا حکم ہے کہ مسلم لیگ کو ووٹ دیں۔میں نے کہا یہ کب ہو سکتا ہے کہ ایک طرف سلسلہ کا فدائی ہو اور دوسری طرف شدید مخالفِ احمدیت ہو اور ہم احمدی کی طرف سے چشم پوشی کریں،ہمارا ضمیر یہ بات گوارا نہیں کر سکتا۔جماعت کے احمدی کہنے لگے کہ ہم نے فیض باجڑیانوالے کے ساتھ قرآن رکھ کر وعدہ کیا ہوا ہے۔ان کو سمجھانے کے لیے چک نمبر 168سے ان کے رشتہ دار مکرم چودھری احمد خان صاحب اور مکرم چودھری فضل احمد صاحب بھی آئے ہوئے تھے لیکن لوگوں نے یہی ضد رکھی کہ ہم نے قرآن کو گواہ کر کے وعدہ کیا ہوا ہے۔مرکز میں ان کی بابت رپورٹ کی گئی۔ہمارے حلقہ کے امیر صاحب حضرت غلام رسول صاحبؓ صحابی بھی آئے،لیکن یہ اسی بات پر ڈٹے رہے۔اسی اثنا میں ہم تینوں یعنی چودھری احمد خان صاحب،چودھری فضل احمد صاحب اور خاکسار عبدالحق نے مشورہ کیاکہ مسئلہ حضورؓ کی خدمت میں پیش کیا جاوے۔ان دنوں ربوہ میں تمام مکانات کچی مٹی کے بنے ہوئے تھے۔ربوہ پہنچے،اس وقت ملاقات والے کمرے میںلوگ غیر احمدیوں کو ووٹ دینے کے متعلق اجازت کے لیے حضور انور کی خدمت میں آئے ہوئے تھے،کافی لوگ تھے ہمیں بھی وہیں بیٹھنے کا موقع مل گیا۔چونکہ خاکسار کے پہلے تین بچے وفات پا گئے تھے،اسی مقصد کے لیے دعائیہ خطوط حضور کی خدمت میں لکھتا رہتا تھا سو اس وقت بھی وہیں بیٹھے بیٹھے دعائیہ رقعہ لکھ دیا۔جب ہم تینو ں کو بلایا گیا تو حضور انور نے ازراہ ِ شفقت اُٹھ کر مصافحہ فرمایا پھر ہم کرسیوں پر بیٹھ گئے۔سب سے پہلے خاکسار نے اپنا رقعہ پیش کیا۔رقعہ پکڑ کر حضور فرمانے لگے کہ کس کا رقعہ ہے ؟میں نے عرض کی حضور میرا ہے، دیکھ کر فرمانے لگے کہ تم تو گھبرائے ہوئے ہو،تم تو ابھی جوان ہو یہ تو بوڑھوں کو فکر ہوتا ہے۔میں دعا کروں گا لیکن گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔جو خطوط میں پہلے لکھتا رہتا تھا ان کی وجہ سے حضرت اقدس نے محسوس کر لیا کہ یہ گھبرایا ہوا ہے،آپ نے ازراہِ شفقت تسلی دی۔

پھر دوسرا مقصد جس کے لیے ہم گئے تھے یہ مسئلہ پیش کیا کہ حضور اگر کسی سے کوئی ایسا وعدہ کر بیٹھے تو وہ کیا کرے؟حضور فرمانے لگے اگر انسان چوروں سے وعدہ کرے تو وہ بھی وعدہ ہوتا ہے ؟ایسا وعدہ قابلِ قبول نہیں ہوتا۔پھر ہم تینوں رات کو ایک کمرے میں سوئے جہاں حضرت مولوی رحمت علی خان صاحب بھی سوئے ہوئے تھے۔

جب ہم واپس گئے تو چودھری محمد نقی صاحب نے چونڈہ والے نصراللہ خان کے نام کا قرعہ ڈال کر فیصلہ کر لیا کہ جس کے نام پرچی نکلے،اس کی مدد کی جاوے۔قرعہ نصراللہ کے حق میں نکلا اور چودھری محمد نقی صاحب نے وہیں اپنا دعویٰ چھوڑ دیا۔

شرک سے اجتناب،توکل علیٰ اللہ اور صبر کا پھل

ہمارے بچے بچپن میں ہی فوت ہو جاتے تھے تو لوگوں نے یعنی عورتوں نے شرک کی طرف زیادہ مدعو کرنے کی کوشش کی لیکن میں نے حضرت چودھری ظفراللہ خان صاحبؓ کی ’’میری والدہ ‘‘ کے نام سے جو کتاب چھپی ہوئی ہے،اپنی بیوی کو سنائی ہوئی تھی۔یہی وجہ تھی کہ میری بیوی وہی سبق دہراتی چلی گئی اور حالات بھی تقریباً اسی طرح کے ہی سامنے آئے جیسے حضرت چودھری صاحب ؓکی والدہ کو پیش آئے تھے۔

ایک دفعہ خاکسار کی اہلیہ محترمہ صغریٰ بیگم صاحبہ میکے مالو پتیال پسرور تشریف لے گئیں تو گود میں جو بچہ تھااس کو وہی علامات شروع ہو گئیں جو پہلے فوت ہونے والے بچوں کی تھیں۔(اس سے پہلے دو بیٹے اور ایک بیٹی فوت ہو چکے تھے)اس حالت کو دیکھ کر عورتوں نے مشورہ دیا کہ فلاں خانقاہ پرجاکر چڑھاوا چڑھائو تو بچہ بچ جائے گا۔اس خانقاہ کا نام مورکھ شاہ تھا۔(مورکھ پنجابی میں بے وقوف کو کہتے ہیں )۔

میری اہلیہ نے عورتوں سے کہا کہ مورکھ کا کیا مطلب ہے ؟اس پر وہ عورتیں ناراض ہو کر کہنے لگیں کہ اگر وہاں بچے کو لے کر نہیں جائو گی تو یہ بچہ زندہ نہیں بچے گا۔تو اہلیہ نے بڑی دلیری سے جواب دیاکہ وہ شرک نہیں کرے گی اور خانقاہ پر چڑھاوا چڑھانے نہیں جائے گی مگر اپنے قادر خدا سے دعا کرے گی۔چنانچہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی کہ یا اللہ یہ عورتیں شرک کی دعوت دے رہی ہیں جبکہ تو میرا قادر خدا ہے،اگر اس کی وفات ہی تقدیر مبرم ہے تو کم از کم اتنی مہلت دے اور صحت عطا فرمادے کہ ان سب عورتوں کے گھروں میں چل کر جائے اور میں انہیں بتا سکوں کہ میرا خدا زندہ اور قادر خدا ہے اور ان کا پیر مردہ ہے۔پھر جب چاہے تو اسے اپنے پاس بلا لینا۔

چنانچہ خدا تعالیٰ نے ان کی تضرعات کو سنااور بچے کو بہت اچھی صحت اور تندرستی عطا فرمائی۔اڑھائی سال زندہ رہنے کے بعد ایک دن دوپہر کو سویا اور اسی حالت میں اپنے خالق حقیقی کو جا ملا۔

مگر اپنے وعدے کو یاد کر کے جو اپنے اللہ سے کیا تھاوہ صبر کی دعا کرتی رہیں کہ یا اللہ تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے شرک سے بچایا،یہ تو تیری امانت تھی جو وعدہ کے مطابق تو نے واپس لے لی ہے۔میں نے تو اسے خدا کی راہ میں وقف کیا تھاکہ یہ مبلغ بن کر افریقہ کے لوگوں کو جا کر تبلیغ اسلام کرے گا،مگر میں تیری رضا پر راضی ہوں۔اب تو ہی مجھے یہ صدمہ صبر اور ہمت سے برداشت کرنے کی توفیق دے اور نعم البدل عطافرما۔وہ صبر پر صبر کرتی گئیں۔عورتوں نے بہت طعنے بھی دیے کہ بڑی نمازیں پڑھتے ہیں۔روزانہ جب میری اہلیہ نماز پڑھتیں اور خدا کے آگے گریہ و زاری کرتیں،تب خدا نے بھی ان کی عاجزانہ دعائوں کو قبول فرمایا۔

رؤیا کے ذریعے ایک بیٹی اور پانچ بیٹوں کی بشارت

ایک رات میری اہلیہ نے خواب دیکھا کہ ہمارے کمرے میں روشنی ہو رہی ہے،ہم باہر بر آمدے میں سوئے ہوئے تھے۔میں نے سمجھا کہ شاید کوئی چور نہ ہو۔جب میں آہستہ آہستہ اندر کمرے میں جاتی ہوں تو کیا دیکھتی ہوں کہ ہمارے پلنگ پر چار بزرگ آدمی بیٹھے ہوئے ہیں،مغرب کی طرف نبی کریم ﷺ،مشرق کی طرف حضرت مسیح موعود ؑ،ایک طرف حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ اور ایک طرف حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ ہیں۔حضرت نبی کریم ﷺ اور حضرت مسیح موعودؑ کا چہرہ ایک جیسا تھا اور ان چار بزرگوں نے درمیان میں قرآن کریم رکھا ہوا ہے،وہ پڑھ رہے ہیں۔پھر ایک کھڑکی سے ایک سفید ہاتھ دکھائی دیا جس نے پہلے ایک اور پھر پانچ انگلیاں،پھر ہاتھ ہلا کر تسلی دی۔میری آنکھ کھل گئی۔

جس کے بچے فوت ہو جاتے رہے اور لوگوں نے اس کو طعنے دیے اور شرک کی طرف بھی مائل کرنے کی کوشش کی۔اس کے بعد ایک بیٹی اور پانچ بیٹے اپنے فضل سے عطا فرمائے جو بہت تابعدار اور بفضلہ تعالیٰ حیات ہیں۔الحمدللہ۔ رؤیا کے بعدخاکسار کی جو اولاد ہوئی اُن کے نام یہ ہیں:

1۔مقبول بیگم 2۔رانا مسعود احمد شاہد 3۔رانا مقصود احمد 4۔رانا منصور احمد 5۔رانا مشہود احمد 6۔رانا مودود احمد ۔

یہ سب اللہ تعالیٰ کی عطا ہے۔

خواب میں اپنے بیٹے کو ذبح کرنا

ایک مرتبہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں نے اپنے بیٹے عزیزم رانا مسعود احمد کو ذبح کر دیا ہے اور جس طرح قصائی گوشت بناتے ہیں اسی طرح کیا۔دُور سے ایک دوست چودھری شہباز احمد کوآتا دیکھ کر ذبح کیے گوشت کو پھٹے کے نیچے چھپانے کی کوشش کی کہ یہ دیکھ کر پوچھے گا کہ یہ آپ نے کیا کیا ہے ؟اتنے میں وہ نزدیک آگیا اور واقعی پوچھ لیا کہ یہ آپ نے کیا کیا ہے ؟میں نے ان کو کہا کہ یہ غریبوں میں تقسیم کرنا ہے۔میرے دل میں ذرہ بھر بھی ملال نہیں آیا بلکہ محسوس ہو رہا تھا جیسے خوشی سے کیا ہے۔

اس خواب کی بنا پر میں نے اپنے اس صاحبزادے کو وقف کر دیا تو دفتر والے دس سال تک اس کی تعلیمی حالت کی بابت پوچھتے رہے،آخر مقرر شدہ نمبروں پر پاس نہیں ہوا تو پھر دفتر والوں نے لکھنا بند کر دیا۔اب بفضل ِتعالیٰ طبیہ کالج سے ڈگری حاصل کر کے اپنے کلینک میں مخلوق ِ خدا کی خدمت کر رہا ہے۔غرباء کا مفت علاج کرتاہے،بعض اوقات اگر دوا دودھ کے ساتھ لینی درکار ہو تو اس کے لیے رقم بھی فراہم کر تا ہے۔چند بیوہ خواتین کی مدد اور ان کے بچوں کی پڑ ھائی کے لیے کپڑے اور کتب مہیا کیں اور اللہ کے فضل سے کرتا رہا ہے۔یہ سب اللہ کی عطا ہے اپنا تو کچھ بھی نہیں۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ وہ خواب اللہ نے اس رنگ میں پوری فرمائی ہے الحمد للہ۔ الحمد للہ۔یہ سب اس کی عطا ہے۔

بہت سی مشکلات میں قبولیت دعا کے نظارے دیکھے، 1953ءاور 1974ء کے واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ وہی خدا ہے جس نے ہر مشکل وقت میں مجھ پر احسان کیا اور کرتا چلا آیا ہے۔اب بھی وہی فضل فرما رہا ہے۔اسی طرح میرے محسن خدا سے میرا معاملہ چل رہا ہے۔

اگر غور کیا جائے تو انسان کی زندگی میں جو تکالیف اور پریشانیوں کے حالات آتے ہیںان سے تو خدا تعالیٰ کے انبیاء بھی مستثنیٰ نہیں،لیکن وہ سب خدا کی رضا کے ماتحت ہوتے ہیں اور وہ اس میں خوش ہوتے ہیں،وہ تکلیف کو تکلیف نہیں سمجھتے اور میرے جیسے دنیا دار لوگ ان کو برداشت نہیں کر سکتے۔لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فضل ِخاص اور خاکسار کی دعائوں کو قبول کرتے ہوئے ہر مشکل کو آسانی میں بدل دیا کرتا تھا۔

مرکز اور خلافت کی ہر آواز پرلبیک کہنے کی کوشش کی۔جب سے نظامِ وصیت کا پتہ چلاتب سے اس نظام کا حصہ ہوں اور اللہ تعالیٰ نے نوویں حصہ کی وصیت کرنے اور تمام حصہ کی ادائیگی کی بھی توفیق عطافرمائی۔ تحریک جدید،وقف جدید اور جو بھی تحریک ہو،تمام افراد خانہ مع بچگان ان میں شامل ہیں۔خداتعالیٰ ہمیشہ ہمیش آئندہ نسلوں کو اس رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کی توفیق دیتا چلا جائے اور دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی توفیق بھی عطا کرے۔میرے لیے بھی دعا کریں کہ اللہ میری ہر نیک خواہش کو پورا فرمائے۔گذشتہ گناہ معاف فرمائے اور آئندہ بھی ان سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔سب سے بڑھ کر اسلام احمدیت کی طرف جگ کی مہار موڑدے۔آمین ثم آمین۔

خلیفۂ وقت کی شفقت اور بے تکلفی

ربوہ کی نئی نئی آباد کاری ہو رہی تھی،انہی دنوں مجلس شوریٰ میں شرکت کے لیے ربوہ جانے کا موقع ملا۔حضور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ مسجد میں صف پر ہی سر مبارک سے پگڑی اتار کر نہایت بے تکلفی سے بیٹھے ہوئے کارکنان سے باتیں کرتے رہے اور ہدایات فرماتے رہے۔اس عاجز کو پیارے آقا کے بالکل قریب بیٹھنے کی سعادت ملی اور حضور اقدس کی ٹانگیں دبانے کا بھی کچھ موقع ملا لیکن حضور نے ازراہ شفقت منع فرما دیا۔یہ اس ذاتِ باری کا احسان ہے کہ میرے جیسے نالائق کو بھی ان مقدس ہستیوں کے قریب بیٹھنے اور باتیں کرنے کا موقع ملا۔

ایک دفعہ خاکسار نے تحریک جدید کے چندہ میں آمدنی کا تیسرا حصہ لکھ دیا،جب حضرت میاں بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے (حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکے بھائی ) سے مشورہ کیا تو آپ نے واپسی جواب میں فرمایاکہ آپ آہستگی سے قدم اٹھائیں۔اس متبرک مشورہ نے ہمیں بہت سی پریشانیوں سے بچایا،ورنہ خدا جانے میرا کیا حال ہوتا۔

سچ کی برکت کا ایک واقعہ

خاکسار نے کریانہ کی ایک دکان اپنے گائوں میں بنائی ہوئی تھی،چونکہ غریب لوگوں کے پاس اپنی ضرورت کی اشیاء خریدنے کے لیے رقم نہیں ہوتی تھی اس لیے وہ تمباکو لے کر آتے اور اس کے بدلے میری دکان سے سودا خرید کر لے جاتے۔ اسی صورت میں میرے پاس دو بوریاں تمباکو جمع ہو گئیں۔ان دنوں تمباکو پر ٹیکس لگتا تھا اور مجھے معلوم نہیں تھا کہ دکان پر رکھنے کی اتنی پابندی ہے۔کسی نے شکایت کر دی کہ ان کے پاس تمباکو ہے۔انسپکٹر صاحب میرے پاس دکان پر پہنچ گئے وہ میرے کچھ واقف بھی تھے،اس نے پوچھا آپ کے پاس تمباکو ہے ؟میں نے کہا کہ ہاں ہے۔اور ساتھ ہی وہ بوری نکال کر باہر رکھ دی۔وہ پھر پوچھنے لگا کہ اَور بھی ہے ؟ میں نے جواب دیا ہاں ایک اَور بوری بھی ہے۔وہ میرے ہی پاس تمباکو کی دونوں بوریاں رکھ کر کہنے لگاکہ انہیں یہاں رکھو میںساتھ کے گائوں سے ہو کر آتا ہوں۔وہ چلے گئے۔حالانکہ اس وقت میں تمباکو چھپانے کی کوشش کر سکتا تھا۔لیکن اپنی سچائی بیان کرنے یا ظاہر کرنے کے لیے واپس ان کے سپرد کر دیا۔میرا خیال تھا کہ میرا تمباکو واقفیت کی وجہ سے واپس کر دے گا،لیکن وہ کہنے لگا کہ چودھری کو پتہ لگ گیا تو وہ میری رپورٹ کر دیں گے اور میری نوکری جاتی رہے گی۔میں نے کہا ٹھیک ہے۔وہ تمباکو لے گیا اور کچھ تھوڑا واپس کیا لیکن کیس پھر بھی چل گیا۔میں نے تہیہ کیا ہوا تھا کہ میں جہاں بھی عدالت میں جائوں گا سچائی کو نہیں چھوڑوں گا،خواہ مجھے قید ہی بھگتنا پڑے۔اگر عدالت مجھ سے سوال کرتی ہے کہ میں نے ایسا کیوں کیا تھاتو میں یہی کہوںگا کہ غریب لوگ تھے،تمباکو دے کر سودا وغیرہ لے جاتے تھے اس لیے میرے پاس جمع ہو گیا تھا۔گائوں کے نمبر دار جو چودھری کہلاتے تھے ان کو سفارش کا کہا تو انہوں نے جواب دیا کہ جائوجا کر سچ بولتے پھرو۔ میں نے کہا میں تو سچ ہی بولوں گا۔ہر بندہ یہی کہہ رہا تھا کہ یہ بڑا سخت محکمہ ہے،یہ آپ کو نہیں چھوڑیں گے۔ اب تو کیس بھی لاہور چلا گیا ہے اور اس کی سزا بھی تین سال قید ہے۔

میں بڑا پریشان ہو ا۔ بس اللہ تعالیٰ ہی میری اس پریشانی کو جانتا تھا۔انہی دنوں میں ٹائیفائیڈ بخار کی وجہ سے بیمار ہو گیا۔میری عیادت کے لیے ساتھ کے گائوں (چک آرائیاں)سے ایک احمدی دوست مکرم غلام نبی صاحب تشریف لائے اور مجھ سے تمباکو کیس کی بابت پوچھنے لگے۔ میں نے ان کو بتایا کہ لوگ باتیں بتا رہے ہیں،میں بہت فکر مند ہوں۔اللہ تعالیٰ ہی ہے جو مدد فرمائے،دنیاوی سہارا کوئی نہیں۔… اللہ تعالیٰ نے میری سچائی کی لاج رکھتے ہوئے اس کا بول بالا کیا اور دشمن کو منہ کی کھانا پڑی۔خاکسار با عزت بری ہو گیا الحمدللہ جس کا میں جتنا بھی شکر کروں تھوڑا ہے۔یہ بھی معجزہ تھا۔

لوگوں کے بغضوں اور کینوں سے کیا ہوتا ہے

جس کا کوئی بھی نہیں اس کا خدا ہوتا ہے

یہ کوئی فخر کی بات نہیں جو میں نے واقعات لکھے ہیں،میری بھانجی عزیزہ مبشرہ صدیقہ صاحبہ نے تحریک کی تھی کہ اپنے احمدیت قبول کرنے کے چند مختصر حالات لکھوںلہٰذا لکھ دیے ہیں۔‘

والد محترم دسمبر 1997ء کی ایک شام اپنی وصیت کے کاغذات وغیرہ اپنے تکیے کے نیچے رکھ کر سو گئے۔ علی الصبح نماز تہجد اور فجر کی نماز پڑھی اور تلاوت قرآن کریم کر کے لیٹ گئے،اسی دوران اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

آخر پر خاکسار اپنی والدہ محترمہ کی تربیت اولاد اور ماں کی ممتا کے حوالے سے دو واقعات بیان کر کے اس مضمون کا اختتام کرتا ہے۔

ستمبر 1965ء کو پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ شروع ہوئی تو سب کو گھر چھوڑکر بھاگنا پڑا کیونکہ اس بارڈر سے انڈیا نے چھ سو ٹینکوں سے اچانک رات کو حملہ کر دیا تھا اور ہمارے گائوں سے گزر کر انڈین فوج چونڈہ تک پہنچ گئی تھی۔خاکسار کی والدہ محترمہ صغریٰ بیگم صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ خاکسار اس وقت ایک سال کابچہ تھا اور امی جان مجھے اٹھا کر بھاگ رہی تھیں کہ پیچھے سے گولیوں کی بوچھاڑ ہو رہی تھی اور کانوں کے پاس سے گولیاں گزر رہی تھیں۔آخر جب ٹینک قریب پہنچ گیا تو امی جان نے مجھے اٹھائے ہوئے باجرے کی فصل میں چھپ کر،اپنا دوپٹہ نیچے بچھا کر مجھے اس کے اوپر لٹا دیا اور میرے اوپر گھٹنوں اور بازوئوں کے بل اس طرح سایہ فگن ہوئیں کہ اگر کوئی گولی لگے تو انہیں لگے اور بچے کو نہ لگے،مگر اللہ تعالیٰ نے دونوں کو محفوظ رکھا۔(الحمدللہ )

بچوں کو مالی قربانی کی عادت ڈالنے کے لیے ایک دن امی جان نے ایک مرغی کا انڈہ بیچا۔مَیں ا س وقت چھوٹا بچہ تھا،مجھے بلا کر فرمایاکہ یہ چار آنے کا انڈہ بیچا ہے اس میں سے ایک آنہ چندہ دینا ہے۔اس طرح وہ غربت کی حالت میں بھی مالی قربانی کرتی رہیں۔

ہماری والدہ نے عملاً ہمیں یہ سکھایا کہ غربت کی حالت میں مالی قربانی کیسے کی جاتی ہے۔کھانے کے لیے تین وقت آٹا گوندھتیںتو ہر دفعہ ایک مٹھی آٹا ایک الگ برتن میں ڈال دیتیں اور ایک ہفتے بعد وہ برتن بھر جاتا تو ابا جان دکان پر جا کر بیچ کر چندے کی رسید کاٹ دیا کرتے تھے۔

محترم والد صاحب کی تمام زندگی اور ان کی اپنی آئندہ نسلوں کے لیے نیک تمنائوں کا بیان نہایت خوبصورت انداز میں حضرت مصلح موعودؓ کے ان اشعار میں ملتا ہے۔

خدمت دین کو اک فضل الٰہی جانو

اس کے بدلے میں کبھی طالب انعام نہ ہو

ہم تو جس طرح بنے کام کئے جاتے ہیں

آپ کے وقت میں یہ سلسلہ بدنام نہ ہو

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے والدین کی سب قربانیاں قبول فرمائے، ہمیں اورہماری نسلوں کو یہ قربانیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرماتارہے اورانہیں جنت الفردوس میںاعلیٰ مقام عطا فرمائے۔آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button